Freedom Fighter Maulana Habibur Rahman Ludhianvi

Articles

عظیم مجاہد آزادی رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی

ڈاکٹر  احمد علی جوہر 

رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی جنگ آزادی کے ایک عظیم مجاہد تھے۔ وہ غیر منقسم ہندوستان کے ان سیاسی رہنماؤں میں سے ایک تھے جن کے نام انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ ان کا شمار مولانا ابوالکلام آزاد, شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی, مفتی اعظم حضرت علامہ کفایت اللہ, حکیم اجمل خاں, ڈاکٹر انصاری, نقیب انقلاب سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی وغیرہ کے ممتاز رفیقوں میں ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت جدوجہد آزادی کی نمایاں ترین شخصیت تھی جن سے جدوجہد آزادی کی نمایاں اور شان دار روایات وابستہ ہیں۔ ملک میں جب سیاسی بیداری کی روشنی پھیلی, مختلف فرقوں و جماعتوں نے برطانوی سامراج کے خلاف اعلیٰ پیمانے پر منصوبے بنائے اور منظم طریقے سے تحریکیں چلائیں, اس وقت مجاہدین آزادی کی قیادت جن بہادر اور جری رہنماؤں نے کی ان میں رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی کا نام سرفہرست ہے۔ ان کے ذکر کے بغیر تحریک آزادی کی کوئی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔
رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی نے لدھیانہ کے مشہور علماء و مجاہدین کے گھرانے میں آنکھیں کھولیں۔ وہ بروز اتوار 11/صفر 1310ھجری مطابق 3/ جولائی 1892ء کو مفتی اعظم پنجاب حضرت مولانا محمد ذکریا صاحب کے گھر پیدا ہوئے جو اپنے وقت کے صاحب نسبت بزرگ اور بڑے پایہ کے عالمِ دین تھے۔ مولانا حبیب الرحمٰن کے گھر کا ماحول علمی, مذہبی, اخلاقی اور انقلابی تھا۔ ان کی علمی اور اخلاقی تربیت بہت اعلیٰ پیمانے پر ہوئی تھی جس کے نتیجہ میں بہت جلد ان کی شخصیت اعلیٰ کردار کی حامل ہوگئی۔ وہ بلا کے ذہین تھے۔ بچپن ہی میں انھیں دینی و عصری علوم پر دسترس حاصل ہوگیا۔ وہ صاف دماغ اور روشن فکر کے مالک تھے اور بااصول اور وضع دار شخصیت رکھتے تھے۔ ان کی ذہانت و ذکاوت اور قوت فیصلہ کی پختگی ضرب المثل تھی۔ الجھے ہوئے مسائل و معاملات کو سلجھانے میں انھیں کمال حاصل تھا۔ نازک اور مشکل وقت میں ان کی دیدہ وری کی عجیب شان ہوتی تھی۔ فکری رہنمائی میں ان کا جواب نہیں تھا۔ وہ اس دور میں غزالی کا دماغ اور ابن خلدون کی زبان لےکر پیدا ہوئے تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنے ایک خط میں اس بات کا اقرار کیا کہ
مولانا حبیب الرحمن اپنے افکار میں ایک منفرد حیثیت کے مالک تھے۔ وہ بہت ہی سوچ سمجھ کر کسی بات کا فیصلہ کرتے تھے۔ لیکن جب فیصلہ کرلیتے تو دنیا کی کوئی طاقت نہ تھی جو ان کے فیصلہ کو بدل دیتی”
مولانا حبیب الرحمن کے سیاسی افکار کی خوبی یہ تھی کہ اس میں تعصب اور تشدد کو کہیں دخل نہ تھا۔ ان کی فکر مستقبل کی نشان دہی کرتی تھی۔ وہ عزم صمیم کے پہاڑ,  اور حق و صداقت کے علم بردار تھے۔ ذہانت و فراست, سیاسی بصیرت, جرات و دلیری اور بہادری ان کی شخصیت کی ممتاز خصوصیات تھیں۔ وہ ایک نرالی شان اور آن بان کے لیڈر, رہنما اور قوم کے قائد تھے۔ وہ اپنی پرتاثیر تقریروں کی بنا پر سارے غیرمنقسم ہندوستان میں مشہور ہوگئے تھے۔ وہ اعلیٰ انسانی اوصاف کے حامل اور مجسمہ اخلاق تھے۔ جو بھی ان کے پاس آتا, ان کا ہوکر رہ جاتا۔ ان کی شخصیت ایک ایسے مکتب خیال کی حیثیت رکھتی تھی جہاں ہندو, مسلمان, سکھ شرنارتھی, کمیونسٹ, سوشلسٹ, کانگریسی, ملحد و مومن سبھی آتے اور ان کے منجھے دھلے افکار سے استفادہ کرتے تھے۔ ان کے ماننے والے کمیونسٹوں میں بھی تھے اور جن سنگھ اور ہندو مہاسبھا میں بھی۔ وہ الجمعیة, نئی دنیا, پرتاپ اور ملاپ کے دفتروں میں ایک انجمن کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ ملک کے مسلمہ لیڈر تھے۔ علماء, قومی رہنماؤں, وزیروں اور سیاست دانوں غرض ہر طبقے میں انھیں عزت و عظمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا اور ان کی رائے کو بڑی وقعت دی جاتی تھی۔ مہاتما گاندھی, مولانا آزاد, پنڈت نہرو, ڈاکٹر راجندر پرشاد, ڈاکٹر ذاکر حسین اور اس وقت کے دیگر تمام سیاستداں دل سے ان کی قدر کرتے تھے اور ان کے مشوروں کو گوش و ہوش سے سنتے تھے۔ ان کی سیاسی بصیرت, فہم و فراست اور دوربینی کے سب لوگ قائل تھے۔ دراصل مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی سیاست میں گہرے رسوخ کے حامل تھے۔ وہ عمومی سیاسیات اور بین الاقوامی معاملات دونوں میں ذی اثر تھے اور ہر بنیادی مسئلہ میں ان کی ایک نکھری ہوئی رائے ہوتی تھی۔ ان کی شخصیت کا انتہائی تابناک پہلو یہ تھا کہ وہ ہندو, مسلمان اور سکھ غرض تمام طبقوں میں یکساں مقبول تھے اور ان کے دلوں میں محبوب و ہردلعزیز شخصیت کی حیثیت رکھتے تھے۔ دراصل مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی بڑے پایہ کے سیاستداں ہوتے ہوئے بھی زبردست انسان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو مسلم اور دیگر مذاہب کے لوگ ان کی سیاسی اور مذہبی شخصیت سے بےحد متاثر ہوئے۔ ان کی باتیں مسلم اور غیرمسلم دونوں کے جذبات کو اپیل کرتی تھیں۔ ہمارے ملک میں اس پایہ کے سیاستداں کم پیدا ہوئے ہیں۔
رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی برسوں مجلسِ احرار ہند کے صدر رہے جو ملک کی مقبول ترین جماعت تھی۔ اس جماعت میں ہر مکتب خیال کے رہنماؤں کا اجتماع, دین و سیاست کا امتزاج, عوام سے تعلق, احرار کے رہنماؤں کا جذبہ حریت و جہاد اور انگریز دشمنی, احرار کارکنوں اور رہنماؤں کی جرات و ہمت ان ہی کی قیادت و رہنمائی اور کاوشوں کا نتیجہ تھی۔ اس جماعت کے ذریعے رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی نے ملک کے بگڑے ہوئے حالات میں ہندوستان کی جو خدمات کیں وہ کسی سے مخفی نہیں۔ مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی اس وقت جنگ آزادی کے میدان میں کود پڑے جب ملک پر پوری طرح انگریزوں کا تسلط قائم ہوچکا تھا۔ ایسے وقت میں انہوں نے شہر کے ایک بڑے جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے برطانوی حکومت کے خلاف ایسی مدلل اور جذبات انگیز تقریر فرمائی کہ ان کی تقریر سے انگریز سامراج کے خلاف عوام کے جذبات بھڑک گئے اور پورے شہر میں ہیجان پیدا ہوگیا ۔ 1921ء سے 1947ء تک انگریزی سامراج نے انہیں کئی بار گرفتار کیا۔ انہوں نے تیرہ سال چھ ماہ کی عمر جیلوں میں گزاری۔ جیلوں کی زندگی بھی انہوں نے عجیب نرالی شان سے بسر کی بقول جگر :
یوں بسر کی زندگی ہم نے اسیری میں جگر
ہر طریقہ داخلِ آدابِ زنداں ہوگیا
تحریک آزادی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تحریک آزادی کے مصائب اور مشکلات کو دیکھ کر بڑے بڑے اولوالعزم اور اصحابِ بصیرت لیڈروں کے قدم ڈگمگا گئے, اس وقت مرد مجاہد مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ڈٹے رہے اور ان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ ان کی قیادت و رہنمائی میں مجلسِ احرار کے کارکن جرات اور بہادری کے ساتھ انگریزوں کے مقابلے میں سینہ سپر اور سربکف ہوکر آزادی کے راستے پر گامزن ہوئے۔ ملک کی آزادی کے لئے تحریک احرار نے مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کی قیادت میں جس قدر قربانیاں دیں, تاریخ کے اوراق ان سے روشن ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ انگریز تحریک احرار کے خوف سے ملک چھوڑ گیا تو شاید غلط نہ ہوگا۔
رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ایک سچے محب وطن, عظیم انقلابی قائد, وطن پرور اور ملک کے بہی خواہ تھے۔ ملک کی آزادی میں ان کا زبردست حصہ تھا۔ انہوں نے ہمیشہ جمہوری قدروں پر زور دیا۔ انہوں نے تمام ہندوستانیوں کو ہمیشہ اس کی تلقین کی کہ وہ فرقہ پرستی کو ترک کریں اور اپنے مذہب کی صحیح تعلیمات پر گامزن ہوں اور سچے ہندو, مسلمان اور سکھ کی طرح سچے ہندوستانی بنیں۔ یہی صحیح جمہوریت ہے اور صحیح عافیت کا راستہ ہے۔ ان کی بڑی خواہش تھی کہ ملک میں اقوام آپس میں لڑنے جھگڑنے کی بجائے آزادی کی نعمت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے متفق اور متحد ہوجائیں۔ ملک میں سرمایہ دارانہ نظام کی بجائے لوک راج قائم ہو اور اس ملک کی باگ ڈور غریب اور دیانت دار عوام کے ہاتھ میں ہو تاکہ لوگوں کو عدل و انصاف اور سکھ چین مل سکے۔ مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی دوسرے مجاہدین آزادی سے منفرد و ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ وہ قوت عمل کے قائل تھے۔ ان کے ہاں منصوبے اور پلانوں کی حیثیت دوسرے درجہ کی تھی۔ انہوں نے صرف گفتار ہی سے کام نہیں لیا بلکہ اپنے کردار اور قربانیوں سے پوری ہندوستانی قوم کو عملی زندگی کا راستہ دکھایا۔ انہوں نے ہر لمحہ ملک و قوم کی خدمات میں صرف کیا۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہاں
رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کی زندگی قربانیوں اور جاں کاہیوں کا مرقع تھی۔ انہوں نے وطن اور اس کے عوام کی خدمت کو سب سے بڑی عبادت سمجھا۔ ان کی زندگی ہندوستان کے سیاسی مفکرین کو ایک نئے اور غیرجانبدارانہ غور سے فکر کی دعوت دیتی ہے۔ وہ چالیس سال تک بھرپور سیاسی بصیرت اور عظیم منفرد شعور کے ساتھ وطنِ عزیز کی جدوجہد آزادی اور اس کے عروج و ترقی کی تحریک میں جانباز سرفروش اور بے غرض حوصلہ مند کی حیثیت سے ممتاز قومی رہنماؤں کی صف میں شریک رہے۔ رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کی شخصیت تحریک آزادی کی جلیل القدر شخصیت تھی جسے ہمارے عظیم سیاستدانوں, صحافیوں اور علماء و ادباء نے اس طرح یاد کیا ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو رقم طراز ہیں:
“مولانا حبیب الرحمن کی وفات سے ملک ہی کا نقصان نہیں ہوا, بلکہ میرا ذاتی نقصان بھی ہوا ہے۔ وہ ہندو, مسلمان, سکھ سب ہی کے محترم رہے۔ وہ ایک جواں مرد کی حیثیت سے ہماری آزادی کی تحریک میں یاد کئے جاتے رہیں گے”
راجندر پرشاد لکھتے ہیں:
“مولانا حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی کا شمار ہمارے نامی سماجی اور سیاسی کارکنوں میں ہوتا ہے”
ملک کے مشہور اخبار نویس شری رنبیر نے مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کی شخصیت کے تعلق سے اپنے تاثرات کا اظہار اس طرح کیا ہے۔
“جہان فانی سے جانا سب کو ہے, لیکن جب ملک کا خدمت گار جاتا ہے تو لاکھوں آنکھیں پرنم ہوجاتی ہیں۔ ہزاروں دل چلا اٹھتے ہیں۔ مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ایسے ہی سجن تھے۔ انھوں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے وقت اپنے سامنے رکھا تھا وطن آزاد ہونا چاہئے, ہندوستانیوں کو ایک متحد قوم بن کر آگے بڑھنا چاہئے۔ اس کے لئے وہ جیون بھر لڑتے رہے, جدوجہد کرتے رہے۔”
مہاشہ کرشن (ایڈیٹر روزنامہ پرتاپ )لکھتے ہیں :
“وہ جتنے راسخ الاعتقاد مسلمان تھے اتنے ہی سچے نیشنلسٹ, ان کی قوم پرستی حقیقی تھی نمائشی نہیں۔ ہرسوال کو وہ قوم پرستی کے زاویہ سے دیکھتے تھے اور ان مسائل سے جو بظاہر فرقہ وارانہ نظر آتے تھے, ایسا خوبصورت قوم پرورانہ پہلو نکالتے تھے کہ سننے والے عش عش کر اٹھتے تھے۔ آزمائش کے کئی مواقع آئے لیکن ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی”
عتیق الرحمن عثمانی رقم طراز ہیں :
“ملک کو آزاد کرانے کی سعی و جدوجہد میں جن ہستیوں نے جان کی بازی لگائی تھی ان میں رئیس الاحرار ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ وطن کے اس جاں باز سپاہی کی جوانی کا بہترین حصہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے میں گزرا۔ جنگ آزادی کا کوئی قابل ذکر محاذ ایسا نہ تھا جس میں مولانا مرحوم اپنے حصے کی ہنگامہ خیزیوں اور فکرانگیزیوں کے ساتھ پیش پیش نہ رہے ہوں”
مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب نے ان کی شخصیت کا ذکر اس طرح کیا ہے:
“رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن صاحب اپنے سیاسی شعور, جوشِ عمل, اولوالعزمی اور جدوجہد کے امتیاز سے ہمیشہ نمایاں رہے۔ تحریک آزادی میں سرگرم حصہ لیا اور اس راہ میں بارہا قیدوبند کی شدید صعوبتیں برداشت کیں”
مولانا عبدالرزاق صاحب ملیح آبادی لکھتے ہیں :
“مجاہد جلیل رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی جہاد آزادی کے جلیل القدر سپاہ سالار تھے۔ مرحوم جوان تھے کہ جنگ آزادی کا بگل بجا اور وہ مردانہ وار میدانِ کارزار میں کود پڑے, انتہائی مصائب, ناقابلِ بیان کڑیاں جھیلیں لیکن چتون کبھی میلی نہ ہونے پائی, راہِ حق میں بڑی بڑی منزلیں طے ہوگئیں”
رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کی شخصیت جدوجہد آزادی کی عظیم ترین شخصیت تھی جس کی نئے ہندوستان کو بہت ضرورت تھی۔ ایسی ہی عظیم شخصیتوں کے متعلق شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی 2/ستمبر 1956ء کو اگرچہ چل بسے مگر وہ اپنے عظیم کارناموں کی بدولت آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کی شخصیت  ہماری تحریک آزادی کی تاریخ کا وہ روشن باب ہے جس پر ہمارے ملک و قوم کو بجاطور پر ناز  ہے
Maulana Abulkalam Azad, Maulana Syed Husain Ahmad Madni, Maulana Kefaitullah, Maulana Mohammad Ali Johar, Syed Ataullah Shah Bukhari, Maulana Hifzurrahman Seharvi