Articles

سنتھالی زبان کا لسانی و تہذیبی جائزہ

ڈاکٹر قمر صدیقی

سنتھالی زبان کا لسانی و تہذیبی جائزہ

ڈاکٹر قمر صدیقی

سنتھالی زبان کا تعلق Austro Asiaticلسانی خانوادے کی شاخ Mundaکی ذیلی شاخ Hoاور Mundariسے ہے۔ یہ ہندوستان کے علاوہ بنگلہ دیش، بھوٹان اور نیپال کے کچھ علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ ہندوستان میں یہ جھارکھنڈ، آسام، بہار، اڑیسہ ، تری پورہ، میزورم اور مغربی بنگال کے مخصوص علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ہندوستان میں اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد 2011کی مردم شماری کے مطابق 63لاکھ ہے۔ اس کا رسم الخط Ol Chikiکہلاتا ہے اور اس کی ایک ذیلی اسلوب یا بولی Mahaliبھی ہے جو خاصی تعداد میں بولی اورسمجھی جاتی ہے۔ انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا میںGregory David Shelton Andersonاس بابت تحریر کرتے ہیں کہ:
”سنتھالی زبان کا تعلق لسانی خانوادے Mundaسے ہے۔ یہ زبان ہندوستان کے وسط مشرق اور شمال مشرق کے جھارکھنڈ، آسام، بہار ، اڑیسہ اور تریپورہ وغیرہ میں بولی جاتی ہے۔ اکیسویں صدی میں اس کی آبادی ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں پچاس لاکھ، بنگلہ دیش میں دس لاکھ اور نیپال میں تقریباً پچاس ہزار تھی۔“(1)
انیسویں صدی تک سنتھالی زبان صرف ایک بولی کی حیثیت رکھتی تھی۔ تاریخ، کہانیاں، گیت وغیرہ سینہ بہ سینہ ایک نسل سے دوسری تک منتقل ہوتے رہے۔ یورپی نو آبادیات کاروں نے اپنی انتظامی ضرورتوں کے تحت جب ہندوستانی زبانوں میں دلچسپی لینی شروع کی تو اسی دلچسپی کے نتیجے میں سنتھالی زبان کو تحریر کرنے کے لیے دیوناگری اور رومن رسم الخط کا استعمال کیا جانے لگا۔1860کے بعد یورپی بیورکریٹس اورمشنری نے سنتھالی زبان کی ڈکشنری ، تراجم ، لوک کہانیاں ، صرف و نحواور سنتھالی حروف تہجی پر خاصا کام کیا۔ 1970میں پنڈت رگھوناتھ مورمونے سنتھالی زبان کو Ol Chikiرسم الخط میں لکھنے کاآغاز کیا۔ یہ رسم الخط سنتھالی بولنے والے اڑیہ اورسنگھ بھوم علاقے میں پہلے سے رائج تھا۔ البتہ مذکورہ رسم الخط کو تمام سنتھالی بولنے والی آبادی نے قبول نہیں کیا ۔ مثال کے طور پر جھارکھنڈ میں درس و تدریس کے لیے دیوناگری رسم الخط اور بنگال میں بنگالی رسم الخط مستعمل ہے۔ علاوہ ازیں اس زبان کے بیشتر مخطوطات رومن رسم الخط میں ہیں لہٰذا تحقیق کے شعبے میں رومن رسم الخط کی اہمیت آج مسلم ہے۔
ہندوستان میں آنے والے آسٹری قبائل اپنے آغاز سے باہم اتحاد و اختلاط کی مثالیں پیش کرتے رہے ہیں۔ اس ضمن میں سُونتی کمار چٹرجی تحریر کرتے ہیں کہ :
”ہندوستان آنے والے اور اپنی زبان کو محفوظ رکھنے والے آسٹری قبائل —-بے شک وہ دوسری نسلوں ، منگولوں، دراوڑین اور شاید حبشیوں کے ساتھ مخلوط ہوگئے تھے—– کول (یا منڈا) اقوام میں (جیسے سنتھال، منڈا، ہوا(hos) ، کوروا، بھومجی(Bhumijee) کرکو (Karku) سورا (soras)یا سوا را (Savaras)، گدابا(Gudabas) وغیرہ۔“(2)
ہندوستان میں آسٹرو ایشائی زبانوں کی قدامت اور پھیلاﺅ سے متعلق کے۔اے نیل کنٹھ شاستری نے تحریر کیا ہے کہ:
”آسٹرو ایشائی زبانوں میں منڈا زبانیں ہیں جن میں دکن کے شمالی مشرقی علاقوں میں کھریا، جوانگ، سُوار اور گُڈا نیز مدھیہ پردیش کے شمالی مغربی اضلاع کی کرُو کی زبانیں شامل ہیں۔ اگرچہ ہندآریائی خزانہ¿ الفاظ پر مُنڈا زبان کا اثر نمایاں ہے لیکن دراوڑ زبان سے جو الفاظ لیے گئے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہ نتیجہ اخذ کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے کہ دراوڑ گروپ کی زبانوں کی ابتدا آسٹرو ایشائی زبانوں سے نسبتاً زیادہ جدید ہے۔ چنانچہ آسٹرو ایشائی زبانوں کے لیے عام طور سے یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ یہ دراوڑ زبان سے پہلے کی زبانیں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی زمانے میں مُنڈا زبانیں پورے شمال ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہوں گی۔ کیونکہ ہمالیہ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک یعنی پنجاب سے بنگال تک کے علاقے میں جو متعدد مخلوط زبانیں بولی جاتی ہیں ان سب کی بنیاد یہی زبانیں ہیں۔“ (3)
ہندوستان میں سنتھالی بولنے والوں کی آمد سے متعلق مختلف نظریات پیش کیے جاتے ہیں۔ البتہ زمانہ¿ قدیم سے ہندوستان میں ان کی موجودگی ثابت ہے۔ اس تعلق ممتاز مورخ رومیلا تھاپر نے تحریر کیا ہے کہ :
”ہڑپااورموہن جوداڑو ، وادیِ سندھ کی باقیات کا ایسا ثبوت ہے جس کے ذریعے ہندوستان میں آریوں کی آمد اور ان کی تہذیب کے پھیلاﺅ سے پہلے کی زندگی کو سمجھا جاسکتا ہے۔ آریوں سے قبل ہندوستانی تہذیب میں اپنی موجودگی درج کرانے والے مختلف نسلی گروہوں کی شناخت مشکل ہے تاہم ماہرین ایسے چھ گروہوں کی نشاندہی کرتے ہیں جن کے اثرات محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
۱۔ Negritos
۲۔ Proto – Australoids
۳۔ Mongoloid
۴۔ دراوڑی (جس نے بعد میں آرین تہذیب سے مطابقت پیدا کی)
۵۔Western Brachy Cephals
۶۔Nordics
کھدائی میں ملی انسانی ہڈیوں کی تحقیق سے یہاں Proto Australoids، دراوڑی،Alpineاور Mongoloidتہذیبوں کے آثار ثابت ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ تسلیم کیا جاتا ہے مذکورہ بالا انسانی نسلیں ہندوستان میں پوری طرح آباد تھیں اور Proto-Australoid گروہ ہندوستان کی آبادی کی بنیاد میں شامل تھا۔ ان کی زبان Austric linguisticخواندے سے تعلق رکھتی تھی جس کی ایک شاخ Mundaہے جس سے مختلف قبائلی زبانیں نکلی ہیں۔“(4)
اسی طرح L.O. Skrefsudکے مطابق سنتھالی ایران، منگولیا، افغانستان فتح کرتے ہوئے ہندوستان کے شمال مغربی علاقے میں داخل ہوئے اور پنجاب کو اپنا مسکن بنایا۔آریوں کی آمد کے بعد وہ مسلسل پیچھے ہٹتے گئے حتیٰ کہ چھوٹا ناگپور کی سطح مرتفع میں آباد ہوگئے۔ اس کے برعکس Colonel Daltonکے مطابق سنتھالی شمال مشرق سے ہندوستان میں داخل ہوئے اور چھوٹا ناگپور کی سطح مرتفع سے ہوتے ہوئے دریائے دامودر کے کنارے پھیل گئے۔Colonel Daltonنے اپنے اس نظریے کی تائید میں سنتھالی زبان، رسم و رواج اور تہذیب اور شمال مشرق کے دیگر قدیم قبائل کی رسم و رواج اور تہذیب میں پائی جانے والی مطابقت کو پیش کیا ہے۔
یہ امر دلچسپ ہے کہ برصغیرہند و پاک کے دیگر قبائل کے علی الرغم سنتھالیوں نے اپنی تہذیبی شناخت کو حتیٰ المقدور برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ متعدد مرتبہ ہجرت ، مغلوں اور یورپی اقوام کے حملوں کے باوصف سنتھالیوں کی سماجی زندگی مقامی زبان و تہذیب کے تحفظ سے عبارت ہے۔ اُن کی تہذیب کی عکاسی گھروں کی دیواروں پر مزین مصوری کے نمونوں اور لوک کہانیوں میں اپنے آبا و اجداد کو دیو مالائی شخصیت کے طور پر پیش کرنے سے ظاہر ہوتی ہے۔ ان قصوں کے دو دیومالائی کردار ’پلچو ہرم‘ اور پلچو بھودی‘ معروف ہیں۔ سنتھالی موسیقی اور رقص کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ ہندوستان کی دیگر تہذیبوں کی طرح سنتھالی تہذیب مقامی اور مغربی تہذیب سے بہت زیادہ تو متاثر نہیں ہوئی لیکن یہاں عیسائی میشنری کی وجہ سے تعلیم عام ہوئی لہٰذا عیسائیت کے اثرات مرتب ہونے لازمی تھے۔ البتہ ان کے روایتی موسیقی اور رقص میں ابھی تک پرانی خو بو باقی ہے۔ یہ موسیقی ہندوستان کی کلاسیکی موسیقی سے کئی سطحوں پر مختلف ہے۔ اپنا رقص پیش کرنے کے لیے عموماًسنتھالی دو طرح کی ڈھول استعمال کرتے ہیں۔جنھیں مقامی زبان میں Tamakاور Tumdahکہا جاتا ہے۔ بانسری سنتھالیوں کا پسندیدہ ساز ہے۔ یہ سب سے ا ہم روایتی ساز تسلیم کیا جاتا ہے جو سنتھالیوں کے نوسٹلجیائی جذبات بر انگخیت کرنے کا کام کرتا ہے۔ یہاں کی موسیقی اور رقص کا گہرا تعلق مذہبی رسومیات سے ہے۔ خاطر نشان رہے کہ سنتھالیوں کے مذہبی عقائد پر ہندو مت اور عیسائی مشنریوں کے اثرات واضح ہیں۔بہرکیف سنتھالی موسیقی اور رقص ہر دو کا مذہبی عقائد، رسوم اور تہواروں سے گہرا تعلق ہے۔حتیٰ کہ گیت اور موسیقی کے سُر ، تال کے نام بھی مذہبی تہواروں سے ماخوذ ہیں۔ مثال کے طور پر Sohariکا گیت ہے جسے Sohariتہوار کے موقع پر گایا جاتا ہے۔
سنتھالی سماج ذات پات کے نظام سے مبرّا ہے اور یہاں پیدائش کے اعتبار سے کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا ۔ یہ لوگ عموماً مافوق الفطرت عناصر اور اجداد کی روحوں پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ اپنی دعاﺅں اور قربانیوں میں اپنے اجدادکی روحوں کو بطور خاص یاد کرتے ہیں۔ سنتھالی اسے Bongaکہہ کر پکارتے ہیں۔ اس تعلق سے کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ لفظ Bongaدراصل Bhagaیا Bhagvanسے مشتق ہے۔ سنتھالیوں میں سماجی نظم و ضبط اور پنچایتی طریقہ Manjhi-Paragana کہلاتا ہے ۔ یہ مقامی لوگوں کے ذریعہ چلایا جاتا ہے اور اس کا مقصد علاقے کی سماجی اور معاشی اصلاح کے لیے فیصلے کرنا ہوتا ہے۔
ہندوستان کے لسانی منظر نامے میں اردو زبان کی حیثیت کلید بردار کی ہے۔ گجرات سے میزروم اور کنیا کماری سے کشمیر تک اردو زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ لگ بھگ سبھی ہندوستانی زبانیں کسی نہ کسی طور اردو سے متاثر رہی ہیں۔ حتیٰ کہ بعض ایسی زبانوں میں بھی اردو کے الفاظ نظر آجاتے ہیں جس کا اردو سے دور دور تک کوئی لسانی یا تہذیبی ربط نہیں ملتا ہے۔ سنتھالی بھی ایسی ہی زبان ہے اور اس کے لغت پر سرسری نگاہ ڈالنے پر ہی ایسے متعدد الفاظ مل جاتے ہیں جو خالص اردو کے ہیں۔ مثال کے طور پر لگ بھگ تمام پھلوں کے نام یہاں وہی مروج ہیں جو اردو میں۔ امرود، انار، اخروٹ، انجیر وغیرہ ۔علاوہ ازیں بچہ اور بابا(بمعنی والد) بھی یہاں رائج ہے۔ مذکروہ الفاظ کے علاوہ سنتھالی لغت کے صرف حصہ¿ ’الف‘ کے سرسری مطالعے سے  مندرجہ ذیل الفاظ پیش کیے گئے ہیں۔
سنتھالی                /                      اردو
اَجار                         آزار (بمعنی تکلیف)
اَرسی                                             آرسی
اَخر                                                    اَخر
الم گلم                                             الم غلم
اَکل                                                      عقل
اَرج                                                 عرض
اَملہ                                                    عملہ
اندھا                                                   اندھا
اول                                                       اوّل
بچھرا                                                 بچھڑا
اَواج                                                      آواز
بابر                                    بابر(بمعنی رسّی)

ایسا نہیں ہے سنتھالی زبان پرصرف اردو ، ہندی یا دیگر ہندوستانی زبانوں نے اپنے اثرات مرتسم کیے ہیں۔ سنتھالی کے الفاظ بھی بشمول اردو ہندوستان کی دیگر زبانوں میں داخل ہوئے ہیں۔ صرف ایک مثال لفظ ”ٹھاکر“ کی پیش کی جاتی ہے۔ یہ لفظ سنتھالی زبان سے ہندوستان کی دیگر زبانوں میں آیا اور مستعمل ہوگیا ۔ اس تعلق سے احمد جاوید کی تحریر ملاحظہ ہو:
”عموماً اردو لغات میں ’ٹھاکر‘ کو ہندی کا لفظ قرار دیا گیا ہے لیکن یہ درست نہیں، بنیادی طور پر ’ٹھاکر‘ اسٹرک(کول) خاندان کا لفظ ہے۔ یہ غیر آریائی لفظ سنتالی یا سنتھالی زبان سے دیگر ہندوستانی زبانوں میں آیا ہے۔ “
ہندوستان کی لسانی تکثیریت میں Austro Asiaticخاندان سے متعلق دوسری کئی زبانیں اپنی بقا کی جد وجہد میں مصروف ہیں لیکن سنتھالی زبان اپنی داخلی قوت اور اپنے بولنے والوں بے پناہ محبت کے سہارے آج بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ۔ اس تعلق سے قیصر شمیم نے تحریر کیا ہے کہ:
” اسٹرو ایشیاٹک خاندان ، جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا کا قدیم ترین لسانی خاندان ہے ۔اس خاندان کی چار زبانوں یعنی Khemr، ویت نامی، کھاسی اور سنتھالی کو چھوڑ کر بقیہ دو سو سے زائد زبانیں خاتمہ کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ حتیٰ کہ مون( Mon)زبان جس میں تحریر کی روایت ساتویں صدی میں موجود تھی اس خطرہ کا شکار ہے۔ نکوبار جزائر میں اسی خاندان کی زبانیں پو، (Pu،Powahat،Taihlong ،Tatet،Ong، Lo’ong، Tehnu، Laful،Nancowry) وغیرہ کے بولنے والوں کی مجموعی تعداد بیس ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ ان کے علاوہ وہاں ایک انوکھی زبان Shompen بھی ہے جس کے بولنے والے 1981 میں 223افراد تھے۔
اس لسانی گروہ کی تقریباً18زبانیں جن کے بولنے والے کئی لاکھ افراد جھارکھنڈ، مدھیہ پردیس، اڑیسہ، بہار، آسام اور مغربی بنگال میں پائے جاتے ہیں جو ہر طرف سے ہند آریائی زبانوں کا دباﺅ جھیل رہے ہیں۔ ان میں سنتھالی کوچھوڑ کر سب زوال پذیر ہیں۔ نہ صرف یہ کہ سنتھالی میں مزاحمت کی بڑی صلاحیت ہے بلکہ اسے سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہوگئی ہے۔ مگر بقیہ منڈا زبانوں کا کیا حشر ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔“
سنتھالی ادب ، خاص طور سے شاعری میں رقص کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ سنتھالی رقص کے حوالے سے اردو میں منیب الرحمن کی نظم ”سنتھالی ناچ“ ایک زمانے میں کافی مشہور ہوئی تھی۔ بہرکیف سنتھالی زبان میں ادب اور شاعری کی روایت کافی پختہ ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ بیشتر ادبی تخلیقات رسم الخط نہ ہونے کی وجہ سے ترجمہ نہ ہوسکیں اور باہر کی دنیا سنتھالی کی تخلیقی جودت سے نہ آشنا رہی۔ 1970کے بعد جب سنتھالی کو Ol Chikiرسم الخط میں لکھا جانے لگا تو اس زبان کا ادب بھی شائع ہونے لگا۔ سنتھالی کے ممتاز لکھنے والوں میں Majhi Ramdas Tudu Rouska کا شمار ہوتا ہے۔ انھوں نے لکھنے کا آغاز بیسیوں صدی کے بالکل ابدائی برسوں سے کیا تھا۔ کلکتہ یونیورسٹی نے 1951 میں سنتھالی زبان و تہذیب کے لیے ان کی خدمات کے مد نظر ڈی لٹ کی ڈگری تفویض کی۔ سنتھالی زبان و تہذیب سے متعلق ان کی کتاب کو اپنے تعارف و تبصرے کے ساتھ معروف ماہر لسانیات سُونیتی کمار چٹرجی نے شائع کیا تھا۔
سنتھالی زبان میں Sadhu Ram Chand Murmu کو مہاکوی یا ملک الشعرا کا درجہ حاصل ہے۔انکی شاعری سنتھالی بولنے والے تمام علاقے میں یکساں طور سے مقبول ہے۔ جبکہ سادھو رام کا آبائی تعلق ضلع مدنا پور، مغربی بنگال سے ہے۔ ان کا شاعری بنیادی طور پر اصلاحی اور باغیانہ شاعری ہے ۔شاعری کے علاوہ انھوں نے ڈرامے اور مضامین بھی لکھے ہیں۔ ان کی شعری اور نثری تخلیقات انتقال کے بعد شائع ہوئیں۔
سنتھالی زبان کے ایک اور مشہور شاعر Sarada Prasad Kisku ہیں ۔پیشے کے اعتبار سے اسکول ٹیچر ساردا پرساد کا تعلق بھی مغربی بنگال سے ہے ۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی سنتھالی زبان کی ترویج و اشاعت میں لگا دی۔ ان کے علاوہ جو شعرا ادبا سنتھالی زبان و ادب میں اہم مقام کے حامل ہیں ان میں شیام سندر ہمبھروم، ٹھاکر پرساد مُرمو، گماستا پرساد سورین، ربی لال ماجھی، بابو لال مُرمی آدی باسی اور بھگوان مُرمو وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔ سنتھالی زبان صحافت کے میدان میں بھی اپنی شناخت درج کرا رہی ہے۔ تین ماہنامے ، دو ماہی اور ایک پندرہ روزہ رسائل کے علاوہ تقریباً آدھا درجن رونامے بھی اس زبان میں شائع ہورہے ہیں۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ سنتھالی ایک ترقی پذیر زبان ہے اوراس کے بولنے والے اس کی ترویج و اشاعت میں اسی طرح تعاون کرتے رہے تو یہ زبان ہندوستان کی لسانی تکثیریت کو مزید منور و مجلا کرے گی۔
حواشی
۱۔https://www.britannica.com/topic/Santali-language
۲۔ ہند آرائی اور ہندی۔ مصنف، سُنیتی کمار چٹرجی۔ صفحہ نمبر 38
۳۔جنوبی ہند کی تاریخ ۔ مصنف کے ۔ اے۔ نیل کنٹھ شاستری ۔ صفحہ نمبر۔ 77,78
۴۔History of India Vol.1, Page.26, Rumila Thapar