KAI CHAAND THEY SAREY AASMAN : AIK MUTALEA

Articles

”کئی چاند تھے سرِ آسماں“ ایک مطالعہ

پروفیسرصغیر افراہیم

پروفیسرصغیر افراہیم

”کئی چاند تھے سرِ آسماں“ ایک مطالعہ

ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے کہ ایک محقق اور بلند پایہ ناقد ناول لکھے اور واقعہ نگاری پر اپنی غیر معمولی قدرت، تخیل کی پرواز اور دلفریب اسلوب سے ناول کے قاری کو حیرت میں ڈال دے۔ شمس الرحمن فاروقی، اس وقت اردو کے بے مثال نقاد ہیں جن کے تنقیدی مضامین نے ادب کی سمت و رفتار پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، لیکن جب ان کا ناول ” کئی چاند تھے سرِ آسماں“ شائع ہوا تو ناول نگاری کے فنّی ضابطوں کے ساتھ اتنا ضخیم ناول لکھنے کی ان کی صلاحیت پر سب کو حیرت ہوئی۔
شمس الرحمن فاروقی نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانوں سے کیا۔ انھوں نے نئے طرز کی غزلیں کہیں اور نظمیں بھی لکھیں لیکن ان کے تنقیدی مضامین نے معاصر ادبی منظر نامے کو اس قدر متاثر کیا کہ ان کے تخلیقی کارناموں کی طرف وہ توجہ نہیں دی گئی جس کے وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی کو زبان و بیان پر پوری قدرت حاصل ہے۔ وہ اپنی بات کو بہتر سے بہتر انداز میں پیش کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اُن کے افسانوی مجموعہ ”سوار“ نے اردو دنیا کو چونکا دیا۔”سوار“ کے افسانے اردو افسانے کی ایک بالکل نئی جہت کا پتہ دیتے ہیں۔اس میں ہماری ادبی زندگی کے بعض گراں قدر زمانوں کی تخلیقی بازیافت کی گئی تھی۔اسی طرح فاروقی کا ضخیم ناول”کئی چاند تھے سرِ آسماں“ اردو ناولوں کی کہکشاں میں ایک چاند کی طرح وارد ہوا اورفکشن کی دنیا اُس کی چاندنی میں نہا گئی ہے۔ ہم اس ناول کو کسی بھی مخصوص رجحان یا تحریک سے نہیں منسوب کر سکتے کیونکہ اس میں تاریخی شعور کے علاوہ ادبی پس منظر، روایت سے جڑے رہنے پر اصرار، سوانحی گوشے کے علاوہ ایک طویل زمانے کی تہذیبی فضا کی بازیافت کی گئی ہے۔ اِس ناول میں تاریخ کا گہرا شعور اور ہمارے تہذیبی ارتقا کے ایک خاص دور کو بڑی فنکاری سے روشن کیا گیا ہے۔ پلاٹ منظم ہے کہ ایک باب کا اختتام دوسرے باب کا پس منظر بنتا ہے اور قصہ اِس طرح آگے بڑھتا ہے کہ حیرت و استعجاب کا ماحول بر قرار رہتا ہے۔ شعور کی رو اور اندرونی خود کلامی کے ساتھ کہیں کہیں جنس کی نزاکتوں اور لطافتوں کا بھی اظہار ملتا ہے۔
ناول کا فن وضاحت کا فن ہے۔ اس کا کینوس زندگی کی طرح بسیط ہوتا ہے جس طرح سے زندگی کی کہانی ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے اُسی طرح ناول کا فن بھی صراحت اور وسعت کا تقاضہ کرتا ہے۔ ناول میں ادیب اپنا مخصوص نقطہ¿ نظر پیش کرتے ہوئے زندگی کی تصویر کشی کرتا ہے۔ حقیقت کو تخلیقی عمل میںیوں پیش کیاجاتا ہے کہ قصہ کی حیثیت سے اُس کے تمام عناصر میں تال میل، ہم آہنگی اور ربط قائم ہو جائے۔
ناول نگار کو سادہ حقیقت نگار ہی نہیں، زندگی کی پیچیدہ حقیقتوں کا بھی ترجمان ہونا چاہیے۔اِس کا فن اخلاقیاتی شعور کا بھی مطالبہ کرتا ہے اورفنّی حکمت عملی کا بھی ۔ عام طور پر یہ مشہور ہے کہ ناول نثر میں ایک طربیہ کہانی ہوتی ہے لیکن اِس خیال سے اختلاف کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب ناول زندگی کی حقیقتوں کو پیش کرنے کا فن ہے تو اس میں طربیہ کے ساتھ ساتھ المیہ عناصر کو پیش کرنے کی گنجائش بھی ہے۔ ناول جو اپنے طور پر ایک وسیع کینوس کی حامل صنف ہے تو ہم اس کو طربیہ میں سمیٹ کر محدود کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
ایک بنیادی بات یہ بھی عرض کرنی ہے کہ جو ناول نگار اخلاقی و اصلاحی مقاصد کو پیش کرنے کے لیے اِس صنف کو اختیار کر تے ہیں تو ناول تہہ دارنہ ہوکربیشتر ایک سطحی قصہ بن کر رہ جاتے ہیں چونکہ زندگی صرف معروضی سچائی کا نام نہیں اسی لیے اعلیٰ اخلاقی یا صرف اصلاحی قدروں کو پیش کرنے کا نام ناول نگاری نہیں ہو سکتا۔ ناول زندگی کی پیچیدہ تر صداقتوں کا ترجمان ہوتا ہے اس لیے اس میں خیر کے ساتھ شر، حق کے ساتھ باطل ایمان کے ساتھ بے ایمانی، سچ کے ساتھ جھوٹ کے رشتے کی دریافت اس کا فن بن جاتا ہے۔ کہانی کا مقصود صرف نیکی اور اخلاقیات کا درس دینا ہی نہیں ہے بلکہ سماج میں رہنے والے کرداروں کے منفی اخلاق، غیر انسانی افعال کے محرکات کی جتھ اور فسق و فجور میں ڈوبے ہوئے انسانوں کی گہری انسان دوستی کی آرزو کے بیان کرنے کا عمل بھی ہے۔
چونکہ ناول ایک پھیلی ہوئی بڑی تصویر ہے جس میں ایک مقررہ پلاٹ کو واضح کرنے کے لیے کائنات کے متنوع کرداروں جو مختلف جماعتوں اور قبیلوں کے ساتھ رہتے ہیں ، کی زندگی کے مختلف پہلوو¿ں کی مصوری ہے۔ اس طرح سے شمس الرحمن فاروقی کا ناول ”کئی چاند تھے سرِ آسماں“ صرف حقیقت نگاری کا نمونہ ہی نہیں ہے بلکہ اس میں بھرپور زندگی متحرک نظر آتی ہے جس میں ہنداسلامی تہذیب اور ثقافت کے موضوع پر مشتمل روداد کو بیان کیا گیا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی ہندوستان میں فارسی تہذیب کی ترقی و ترویج اور اردو کی کلاسیکی روایت سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ زبان کے بننے اور سنورنے کے عمل سے بھی آگاہ ہیں۔ تہذیبوں کے میل ملاپ پر بھی اُن کی گہری نظر ہے لہٰذاانھوں نے اِس پورے تدریجی عمل کے نشیب و فراز کو اپنے بیانیے کا جُز بنایا ہے۔اسی لیے ناول میں قدیم و متروک الفاظ کے ساتھ مشکل الفاظ و محاورات اور ضرب الامثال کو بھی فضا بندی کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ ماضی کی بازیافت کے متعین مقصد نے فاروقی کے اسلوب کو بے حد مشکل بنا دیا ہے لیکن فضا، ماحول اوربرتاو¿ کے اعتبار سے دیکھیں تو سب کچھ موقع و محل سے گہری مناسبت رکھتاہے جس کا اعتراف ہندو پاک کے کئی بڑے فکشن نگاروں نے کیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ فاروقی کے پیشِ نظر اردو کے بھی کئی ناول تھے جن سے انھیں خام مواد ملا ہے۔ مثلاً”امراو¿ جان ادا“ میں لکھنو¿ کے قرب و جوار کی مٹتی ہوئی تہذیب کی منظر کشی سے وہ متاثر ہوئے ہیں۔ انحطاط پذیر حیدر آباد ی تہذیب ، حویلیوں کی ٹوٹتی ہوئی دیواروں کا المیہ اورمعاشرے کی اُلٹتی ہوئی بساط کا حال انھوں نے عزیز احمد کے ناول ”ایسی بلندی ایسی پستی“ میں محسوس کیا ۔ ”آگ کا دریا“ جس کا وسیع کینوس ڈھائی ہزار سال کی تاریخ کے پسِ منظرکو سمیٹے ہوئے ہے اُس سے بھی فاروقی نے تاریخی بصیرت کے ساتھ تکنیک اور فن کی جدّت و نُدرت کے تاثر کو قبول کیا ہے۔ اردو کا ایک بڑا ناول ”اداس نسلیں“ بھی اُن کے پیشِ نظر رہا ہوگا جس میں انسانی رشتوں کی پیچیدگیاں، ذہنی کشمکش کے ساتھ بدلتے ہوئے تاریخ کے منظر نامہ اور تہذیبی تصادم ، ہندو پاک کے گوناگوں پیچیدہ مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس طرح کے اور بھی کئی اہم ناول ”کئی چاند تھے سرِ آسماں“کے محرک معلوم ہوتے ہیں۔
مذکورہ ناول ۶۰۰۲ءمیں پاکستان کے مشہور اشاعتی ادارے شہرزاد اور ہندوستان میں پینگوئن و یاترا بُکس سے شائع ہوکر اردو کے اہم ناولوں کی فہرست میں شامل ہوا۔ تکنیکی اعتبار سے اِس ناول کو کسی ایک زمرے میں شامل کرنا دشوار ہے کہ اس میںفکر و فن کے مختلف رجحانات کے عکس کسی نہ کسی صورت میں نظر آتے ہےں۔تاہم تکنیکی سطح پر یہ ایک نیا تجربہ ضرور قرار دیا جائے گا۔ مصنف نے اس ناول کے حوالے سے اعتراف کیا ہے:
”یہ بات واضح کردوں کہ اگر چہ میں نے اس کتاب میں مندرج تمام تاریخی واقعات کی صحت کا حتی الامکان اہتمام کیا ہے لیکن یہ تاریخی ناول نہیں ہے۔ اسے اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی ہند اسلامی تہذیب اور انسانی تہذیبی و ادبی سروکاروں کا مرقع سمجھ کر پڑھا جائے تو بہتر ہوگا۔“
ماضی کے دریچوں سے جھانکنے کی کوشش کریں تو اورنگ زیب کے انتقال (۳ مارچ ۷۰۷۱ئ) کے بعد عظیم الشان مغل حکومت کے زوال کے اسباب میں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ محض بارہ سال میں سات بادشاہ تخت نشین ہوئے۔ تخت سے دار تک پہنچنے کا سلسلہ شروع ہوا تو ریاستیں خود مختار ہونے لگیں۔ نادر شاہی حملے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی حکمرانی کے خواب دیکھنے شروع کر دیے۔ شمس الرحمن فاروقی نے اِسی دور کی تہذیب و ثقافت کے عروج و زوال کو مرکز و محور بنایا ۔ اس ناول کے منظر نامے پر کئی دائرے اُبھرتے ہیں جن میں کشمیر، راجپوتانہ اور پنجاب کے بعد دہلی کا گہرا رنگ حاوی ہو جاتا ہے۔یہ دائروی رنگ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی تک پھیلا ہوا ہے۔ سلیم جعفر ہوں یا وسیم جعفر، خانم کی زندگی کی چھان بین اور اُس کے عہد کے تہذیب و تمدن کی تلاش میں فکر مند نظر آتے ہیں۔ فاروقی اس جتھ میں ان کے معاون ہوتے ہیں۔
۱۱۸۱ءمیں وزیر خانم پیدا ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے من موہنی نے نیا روپ اختیار کر لیا۔ خانم کے بُزرگ مصوّر تھے ، انھوں نے ایک ایسی تصوراتی تصویر بنائی تھی جو اتفاقاً مہاراول کی چھوٹی بیٹی من موہنی سے مشابہ تھی۔وقت کی طنابیں کھنچتی ہیں اور قاری محسوس کرتا ہے کہ تقدیر بھی دونوں کی ایک جیسی، المیاتی کرب کا شکار رہی۔محمد یوسف سادہ کار کی تیسری اور سب سے چھوٹی بیٹی وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم اپنی بہنوں میں سب سے زیادہ با صلاحیت اور آزاد طبیعت کی مالک تھی۔
تاریخی اعتبار سے یہ ناول انیسویں صدی سے بہت پہلے شروع ہوکر سال ۶۵۸۱ءمیں ختم ہوتا ہے۔ اس پورے عرصے کا بیان ہمیں ایسی دنیا کی سیر کراتا ہے جو معاشرتی اور تہذیبی لحاظ سے بے حد معمور ہے۔ ناول کا مرکزی کردار وزیر خانم ایک تاریخی کردار ہے جو فعال ، پُر رعب، مقناطیسی کشش رکھنے والی شخصیت ہے۔ اُسی کے ارد گرد کہانی کا تانا بانا بُنا گیا ہے اس کے ذریعہ نہ صرف شجرہ¿ خاندان آگے تک چلتا ہے بلکہ کہانی بھی ارتقا پذیر ہوتی ہے۔ اگر یوں کہیں کہ ناول ایک ہی خاندان کی کہانی کا پس منظر رکھتا ہے لیکن اس کے مختلف کردار کے رابطوں سے جو وسعت اس میں پیدا ہوئی ہے وہ مغلیہ دور کے آخری وقتوں کے تاریخی اور معاشرتی صورتِ حال کا احاطہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اِس میں قلعہ کی نامور ہستیاں اپنے افعال و اعمال کے ساتھ موجود ہیں۔ ناول میں مرکزی کرداروں کے ساتھ جب تک دوسرے کرداروں کا رابطہ پیش نہیں کیا جاتا ہے اور ان کا تذکرہ شامل نہیں ہوتا ہے۔ تب تک نہ تو پلاٹ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی وہ ناول کی صورت اختیار کر تے ہیں۔ مذکورہ ناول میں مغلیہ دور کے زوال کی داستان کے ساتھ تاریخی اور تہذیبی پس منظر میں قلعہ سے متعلق شخصیتوں کے رہن سہن، بود و باش اور غور و فکر کو ان کے مکالموں کے ذریعہ فعال اور متحرک کرنے کی کامیاب سعی ملتی ہے۔
”کئی چاند تھے سرِ آسماں“ کا ایک ادبی پس منظر بھی ہے۔ مغلیہ دور میں فنونِ لطیفہ خصوصی طور سے شعر و سخن کے تعلق سے ادبی محفلیں، مناظرے، مشاعروں کی تہذیب کا جو بیان ملتا ہے وہ بیانیہ تخلیقی اور اسلوبی نقطہ¿ نظر سے اہمیت کا حامل ہے اور ہمارے سامنے شعر و سخن کا عام مذاق و معیار اور ادب کی تاریخ میں اس کی قدر و قیمت کا تعین ناول کے فنی اور پلاٹ کے منطقی ربط میں اس طرح پیوست ہے کہ قصے کی ساخت پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ مثلاً غالب کے معاصرین کا ذکر کرتے ہوئے کرداروں کے درمیان ایک ربط اور تعلق قائم رہتا ہے۔داغدہلوی کے عصر کی ادبی چشمکیں، مشاعروں کی تہذیب، ان کے ہم عصروں کی فنی خوبیوں کے علاوہ اُن کی شخصیت کی تہہ داریاں اور نفسیاتی الجھنوں کا بیان بھی اس ناول کی ایک اہم خوبی ہے۔ یوں کہانی کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے کہ کہیں دلچسپی اورتجسّس ٹوٹتاہوا دکھائی نہیں دیتا۔
چونکہ ناول اٹھارہویں صدی سے انیسویں صدی ۶۵۸۱ءکے طویل عرصہ پر پھیلا ہوا ہے اس لیے انگریزی دور حکومت اور اُن کی کامیاب حکمتِ عملی کا ذکر آنا یقینی ہے۔ یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا کوئی ضخیم ناول محض برہنہ حقائق کے سہارے لکھا جا سکتا ہے؟ کیا ناول اور تاریخ میں کوئی فرق نہیں ہوتا؟ ظاہر ہے تخلیقی عمل کے لیے حقائق تحریک پیدا کرتے ہیں اگر ان حقائق کے ساتھ تخلیق کار کی ذہنی پرواز شامل نہیں ہوگی اُس وقت تک کوئی بھی تخلیق وجود میں نہیں آتی مزید یہ کہ قاری کی دلچسپی قائم رکھنے کے لیے حقائق اورتخیل کے درمیان باہم رشتہ بنائے ہوئے قصہ کا منطقی ربط بر قرار رکھنا بھی ضروری ہے تب ہی قصہ ناول کی فارم میں آتا ہے۔ چونکہ ناول کا کینوس وسیع ہوتا ہے اور اس میں گوناگوں رنگوں کو شامل کیا جاتا ہے۔مزید برآں ناول صرف ذاتی تسکین کا ذریعہ نہیں اس کا رشتہ قاری سے بھی ہوتا ہے اس لیے مکالمے کا سہارا لینا بھی ضروری ہوتا ہے جو حقائق اور تخیل کی آمیزش سے ایک عمدہ فن پارے کا روپ اختیار کرتا ہے۔ ”کئی چاند تھے سرِ آسماں“ اس کی واضح مثال ہے۔
ادبی تاریخ میں ذکر ہے کہ وزیر خانم، مرزا داغ دہلوی کی والدہ ہیں جو حسین و جمیل ہونے کے ساتھ شوخ طبیعت، خوش اخلاق، خوش گفتار خاتون تھیں مصنف نے ان کی فطری خوبیوں کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک خیالی کردار تشکیل دیا، جن سے کردار جُڑتے گئے، واقعات کا سلسلہ آگے بڑھتا رہا۔ پسِ منظر میں تاریخ، ادب اور معاشرہ کی تفصیل ایک بہترین تخلیق کا ضامن ہوتی۔ واقعات کے انسلاک اور ارتباط سے یہ تاریخی کردار، بڑی حد تک افسانوی بن گیا اور افسانوی فن کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ کوئی بھی بڑی تخلیق بننے کے لیے حقیقت کے ساتھ تخیل کی آمیزش ضروری ہے۔ اس طرح مذکورہ ناول میں تاریخی حقائق کے ساتھ تخیل بھی تخلیقی عمل میں شامل رہتا ہے یوں ناول ایک اعلیٰ فن پارہ بن گیا۔
جس طرح ناول کا مرکزی کردار وزیر خانم، مغلیہ سلطنت کے بتدریج ختم ہوتے ہوئے اقتدار کی علامت بن گیا ہے اسی طرح کہانی بتدریج ارتقا پذیر ہوتی ہے۔ناول کا وہ حصہ بے حد اہم ہے جس میں ولیم فریزر پر انگریزی حکومت کے جبر،ہٹ دھرمی اورزبردستی کا نقشہ علامت کے طور پر ہمارے سامنے آتا ہے۔ناول کو اس نقطہ¿ نظر سے پڑھیے تووزیر خانم کی اپنی زندگی میں پے در پے شکست،ایک عہد کے زوال کی داستان بن جاتی ہے۔
انگریز افسر کیپٹن مارسٹن بلیک کے رشتے سے خانم کے ہاں ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوتی ہے ۔ پھر نواب شمس الدین خاں والیِ لوہارو و جھرکہ خانم کی زندگی میں داخل ہوتے ہیں اور نواب مرزا (داغ دہلوی) کی پیدائش ہوتی ہے۔ شمس الدین کوسازشوں کا شکار بناتے ہوئے پھانسی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ تین بچوں کی ماں، خانم، آغا مرزا تراب علی سے نکاح کر لیتی ہیں۔ اُس وقت داغ گیارہ برس کے تھے۔ رام پور میں بھی قسمت بہت دیر تک ساتھ نہیں دیتی ہے اور وہ دہلی کے لال قلعہ میں مرزا فخرو بہادر کی زوجیت میں داخل ہوکر شوکت محل کہلاتی ہیں۔ ایک بیٹا خورشید عالم پیدا ہوتا ہے۔ ولی عہد ابھی چلنے کے قابل بھی نہیں ہوئے تھے کہ مرزا فخرو سخت بیمار پڑکر اِس جہانِ فانی سے رخصت ہوجاتے ہیں۔اُن کے انتقال کے بعد ۶۵۸۱ءمیں خانم کو اُن کے بچوں کے ساتھ قلعہ¿ معلّٰی سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔عمر کے اس پڑاو¿ میں وہ قدرِ مطمئن تھیں کہ بقیہ زندگی بےوگی میں گذار کر بچوں کی شاہانہ انداز میں پرورش کریں گی مگر ’کوچ‘ کے حکم نے سکون بھری زندگی کے خواب کو چکنا چور کر دیا۔اِس ذلّت و رسوائی سے وہ بے حد رنجیدہ تھیں مگرقدرت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں، انھیں پتہ نہیں تھا کہ قدرت اُنھیں بچا رہی ہے۔ اگلے سال برپا ہونے والے خونی کھیل سے محفوظ ہو گئیں جس میں شہزادوں کے سر قلم ہوتے ہیں اور شاہ کو رنگون میں سسکتے ہوئے دم توڑنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔
مصنف نے اِس فن پارے کے تاریخی ناول ہونے سے انکار کیا ہے جبکہ اس کے سارے کردار تاریخی ہیں جو اپنی شناخت اورمقامی حیثیت رکھتے ہیں۔ناول میں اُس وقت رائج مخصوص زبان ، اپنے منصب، اپنے تہذیبی حوالوں، جس میںکرداروں کا اندازِ گفتگو، لب و لہجہ شامل ہیں،کے ذریعہ اپنا تعارف کراتے ہیں۔ اس فن پارے کی اہم خوبی یہ بھی ہے کہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے زمانے میں زبان کے بتدریج ارتقا میں لفظ و آہنگ کی بنیاد پر صورتیں بدلتی ہیں ناول کی زبان میں بھی تبدیلیاں نظر آتی ہیں جو فاروقی کی تحقیقی، تنقیدی اور لسانی صلاحیت کی غماز ہےں۔ ”کئی چاند تھے سرِ آسماں“ کے کردار اس زمانے کی زبان، علم و ہنر، منصب اور لیاقت کے ذریعہ اپنی نفسیات اور فطرت کا اظہارکرتے ہیں۔
مذکورہ ناول میں رومان بھی ہے، اسلامی تہذیب کی جھلک بھی ہے، زندگی کے تضادات، خیر و شر کے معرکے، حق و باطل کی جنگ، انسانی نفسیات کی پیچیدگیاں بھی ہیں۔حقیقی اور تاریخی واقعہ کے ساتھ ضمنی واقعات سے ربط بناتے ہوئے ڈرامائی انداز میں چُست اور برجستہ مکالموں کے ذریعہ کرداروں کو فعال اور جاندار بنانے کی سعی اور کہانی کو مضبوط اور مربوط کرنے کی کاوش بھی ملتی ہے، مجموعی طور پر کہانی کی رفتار میں کہیں بھی جھول نہیں پیدا ہوتا ہے بلکہ وہ اپنی فطری روانی سے چلتی رہتی ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ فن کار اپنی تخلیقات سے اپنے وجود کو یکسر الگ بھی نہیں رکھ سکتا۔ وہ اپنے کرداروں کے ہر عمل میں کہیں چھپا بیٹھا رہتا ہے۔ کبھی وہ اپنے کرداروں کے عمل اور ردّ عمل میں بولتا ہے تو کبھی اپنے افکار کو کرداروں کے حوالے سے پیش کرتا ہے۔ وہ سارے عمل میں بحیثیت انسان کبھی بھی لا تعلق نہیں رہ سکتا۔”کئی چاند تھے سرِ آسماں“میں فاروقی کا عمق اور اُن کے کثیر المطالعہ ہونے کا احساس ہر جگہ ہوتا ہے۔ ناول میں انسانی کردار، جذبات اور عمل کا اظہار کچھ ایسے تسلسل اور اعتماد کے ساتھ ملتا ہے کہ باوجود ان زمانی و مکانی حدود کے جن کی پابندی ناول کے ماحول ، پلاٹ اور منفرد اشخاص کو کرنی پڑتی ہے ۔ ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے ان زمانی حدود سے ماوریٰ ناول میں ایک وسیع انسانیت اور جذبات کی ایک نئی بصیرت بھی روشن ہے، جو اس ناول کا خاص امتیازہے۔
مذکورہ ناول میں کہیں کہیں داستانی رنگ بھی نمایاں ہے۔ تخیل کی جدّت، علم و آگہی جب تخیل کی نادرہ کاری سے ہم آہنگ ہوتی ہے توایسا عمدہ تخلیقی ناول وجود میں آتا ہے۔ ادبی و تاریخی تحریکات کے شعور کے ساتھ، واقعات سے زیادہ اُن کے اثرات کا جائزہ داخلی زاویہ¿ نگاہ سے تجربات کی روشنی میں لیا گیاہے۔ اسی لیے مذکورہ ناول کو تخلیقی سطح پر ادب کا بہترین کارنامہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
”کئی چاند تھے سرِ آسماں“ میں دو سو سال پہلے کی دلّی کی گلیاں، کوچے، محلے، حویلیاں ، اُس زمانے کے لوگوں کی بود و باش، طرز معاشرت، وضع قطع،رہن سہن، زبان، طرزِ کلام، سفر و حضر، ان کی سواریاں، د شواریاں،زندگی کی دقتیں، الجھنیں بڑی تفصیل اور اہتمام سے اس ناول میں نظر آتی ہیں۔ایسا بیانیہ ہے کہ جسے ناول میں سبھی خصوصیات جذب کردی گئی ہوں اُسے کسی ایک قسم کا ناول کہنا مناسب نہیں ہے بلکہ اس کے لیے کوئی نیا نام و عنوان تلاش کرنا ہوگا۔
پلاٹ و اسلوب بیان کے اعتبار سے یہ ناول موثر ہے۔ اتنے وسیع کینوس پرجہاں کرداروں کا شمار مشکل ہوتا ایک ڈیڑھ صدی سے زیادہ مدّت پر محیط داستان کی تصویر کشی اور منظر نگاری مہارت کے ساتھ اس طرح کی گئی ہے کہ پورے ناول میں کہیں بھی نہ تو روانی متاثر ہوئی، نہ زبان لڑکھڑائی ہے۔ ایک محقق اور ناقد تخلیقی کائنات میں اس شان سے جلوہ گر ہے تو حیرت ہوتی ہے۔ بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے آغاز میں ہمیں ایک ایسے ہی بڑے ناول کا انتظار تھا جس میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے معاشرتی کوائف کی تصویر کشی ہو۔ ”کئی چاند تھے سرِ آسماں“ہماری اس توقع پر پورا اُترتا ہے۔
————————————————

مشمولہ سہ ماہی ”اردو چینل“ جلد :18۔شمارہ :1(جنوری تا مارچ2016)مدیر: ڈاکٹر قمر صدیقی