MALKA -E-HUSN (KAI CHAAND THEY SAREY AASMAN)

Articles

ملکہ حسن کئی چاند تھے سرِ آسماں

محمد اسد الدین

محمد اسد الدین
انگریزی سے ترجمہ: شمس الرب

ملکہ حسن

شمس الرحمن فاروقی نے The Mirror of Beautyکا آغاز دو انوکھے کرداروں سے کیا ہے۔ ایک ماہرانساب ہے جبکہ دوسرا پرانی کتابوں اور مخطوطات کا دیوانہ، یہی وہ کردار ہے جو ہمیں ناول کی جادوئی دنیا کی سیر کراتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ ایک ایسی ناول ہے جو صرف تعلیم یافتہ اور باعلم لوگوں کے لیے ہے۔
The Mirror of Beautyکے ساتھ میرا ذاتی تجربہ بھی ہے۔ حسنِ اتفاق سے جولائی کے مہینے میں مجھے اسی جگہ ٹھہرنے کا موقع ملا جہاں ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی اور وسیم جعفر ٹھہرے ہوئے تھے۔ میری مراد برٹش لائبریری (خاص طور سے تیسرا منزلہ جہاں انڈیا آفس لائبریری واقع ہے، جسے جنوبی ایشیا پر تحقیق کرنے والوں کا مکّہ کہا جاتا ہے۔) ویکٹوریہ والبرٹ میوزیم ، اسکول برائے مشرقی و افریقی زبان و ادب، برٹش میوزیم ، ورجینا وولف کی بلومز بے ری وغیرہ سے ہے۔
فاروقی قصے کا آغاز رک کر کرتے ہیں۔ پہلے دونوں کرداروں کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ” اس میں ایک کردار ماہر انساب شخص کا ہے جبکہ دوسرا کردار پرانی کتابوں اور مخطوطات کا دیوانہ ہے۔ یہی و ہ کردار ہے جو آپ کو اس ناول کی حسین دنیا کی سیر کرائے گا۔“اس کے بعد فاروقی واضح کرتے ہیں کہ انھوں نے یہ ناول اہلِ علم کے لیے لکھی ہے۔ مزید وضاحت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے یہ ناول اپنے لیے لکھی ہے اور” سات دہائیوںمیں مجھے جو خست و خاک مجھے ملے تھے ، اس کا نچوڑ اس ناول میں مَیں نے پیش کیا ہے۔ آپ ا س ناول سے کتنا استفادہ کرتے ہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کے پاس کتنا علم ہے۔“
’کئی چاند تھے سر آسماں‘ کی جب 2006میں اشاعت ہوئی تو اردو اور ہندی حلقوں میں اس کی بہت پذیرائی ہوئی ، نیز عالمی سطح پر ایک ادبی شاہکار کی حیثیت سے اس کا استقبال کیا گیا۔ فاروقی صاحب نے ادب کے کئی میدان میں قدم رکھا اور ہر میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔چاہے وہ تنقید کا میدان ہو یا تحقیق کا، صحافت کا میدان ہو یا ترجمہ نگاری کا۔یہی وجہ ہے کہ علمی حلقہ یہ پیشن گوئی کررہا تھا کہ اس میدان میں بھی فاروقی صاحب کچھ نئی اور اہم چیز پیش کریں گے۔جو حضرات اردو اور ہندی میں اس کا مطالعہ کرنے سے قاصر تھے وہ بڑی بے صبری سے انگریزی ورژن کے منتظر تھے۔ انگریزی ورژن آجانے کے بعد مجھے قوی امید ہے کہ انگریزی داں طبقہ اس سے لطف انگیز ہوگا۔ پینگوئین کی فیڈ بیک سے پتہ چلتا ہے کہ انگریزی ورژن کی فروخت نہ صرف اطمینان بخش ہے بلکہ ہندی اور اردو کی مشترکہ فروخت سے بھی زیادہ ہے۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ دنیا کے عظیم معاصر فکشن نگار جیسے کہ میلان کندیرا، گبرائیل گارسیامارکیز، اورحان پاموک کی مترجم کتابوں کی فروخت اصل سے کہیں زیادہ ہیں۔
(ناول میں) راوی سیدھے مرکزی خیال کے قلب میں پہنچ کر کہتا ہے کہ وسیم جعفر اسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں ، لیکن وسیم اس خیال کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”ماضی کے لوگ بیرونی ممالک سے تعلق رکھتے تھے ۔ بیرونی ممالک کے یہ باشندے یہاں کی زبان نی ٹھیک سے سمجھ سکتے تھے اور نہ ہی بول سکتے تھے۔“ (ص: 19)فاروقی صاحب اس خیال کی تردید کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی کی ادبی تہذیب ہی یہی تھی۔ یہی وہ تہذیب ہے جوہندوستانی مسلمانوں کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ اسی دور میں فارسی اور اردوشعرا کی کہکشاں آسمان ادب پر نمودار ہوئی ، ایک سے بڑھ کر ایک۔ ان میں کچھ کا تعلق شاہی خاندان سے جبکہ کچھ کا تعلق طبقہ¿ اشرافیہ سے تھا۔ اپنی ناول میں فاروقی اس عہد کی تہذیبی و معاشرتی زندگی کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں ۔نیز اس بات کی کوشش بھی ہے کہ اس عہد کی بالکل ویسی ہی عکاسی ہو جیسا کہ اس دور کی شاعری، موسیقی اور مصوری کے ذریعے کی گئی ہے۔ اسی لیے فاروقی صاحب نے وزیر خانم کے حوالے سے اکثر جگہوں پر بڑی باریک بینی سے ایسی چیزوں کوتفصیل سے بیان کیا ہے۔ (وزیر خانم یعنی )ایک ایسی عورت جو نہایت حسین تھی اور جس میں شمع محفل بننے کی ساری خوبیاں بدرجہ¿ اتم موجود تھیں۔ یہ ناول جو تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے اور سات ابواب اور اڑسٹھ فصول میں منقسم ہے، جووزیر خانم کے ارد گرد گھومتی ہے اوراس کی زندگی کے نشیب و فراز کی عکاسی کرتی ہے نیز اس میں مغلیہ سلطنت کے ایام زوال، ممکنہ حکمرانوں اور موجودہ حکمرانوں کے تعلقات، کمپنی بہادر کے رنگین افسروں اور اس عہد کی بیشتر تاریخی شخصیات کو بخوبی پیش کیا گیا ہے۔
ناول ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ کے بعد فاروقی صاحب اردو زبان کے دو عظیم ناول نگاروں قرة العین حیدر اور عبد اللہ حسین کی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں۔ فکشن نگاری کی ساخت اور فنکاری کی کچھ جہات میں گرچہ فاروقی مذکورہ دونوں عظیم ناول نگاروں کی طرح باکمال ثابت نہیں ہوتے پھر بھی یہ ناول اردو کے عظیم نالوں کے زمرے میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ فاروقی صاحب مذکورہ دونوں عظیم ناول نگاروں کے مداح بھی ہیں ۔ اپنی ناول کے ابتدائی صفحات میں ’کارِ جہاں دراز ہے‘ کی طرف انھوں نے اشارہ کیا ہے اور اس کا واضح عکس اس ناول پر نظر بھی آتا ہے۔
فاروقی نے عورت کی خوبصورتی اور اس کے جنسی رجحانات و میلانات کی جس خود اعتمادی سے عکاسی کی ہے ، وہ لائق ستائش ہے۔ خاص طور سے وزیر خانم اور نواب شمس الدین کی ہم بستری کی عکاسی و تصویر کشی۔ جدید اردو ادب میں مجھے اب تک کوئی ایسی ناول نہیں ملی ہے جس میں مرد و زن کے جنسی تعلقات اس گہرائی اور تفصیل سے بیان کی گئی ہو۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ فاروقی صاحب نے مرد و زن کے جنسی تعلقات کی تصویر کشی کرکے اردو ناول نگاری میں نہ صرف ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے بلکہ نئے ناول نگاروں کو ایک نئی جہت سے آشنا بھی کیا ہے۔ ناول میں موجود شاعری کی کثرت ممکن ہے کہ انگریزی قاری کو اچھی نہ لگے لیکن فاروقی کیا کرتے ؟ وہ جس زمانے کی تصویر کشی کررہے ہیں ، شاعری تو اس زمانے کے تہذیبی و عناصر میں شامل تھی بلکہ یہ تہذیب و ثقافت کا پیمانہ بھی تھی۔ درحقیقت اردو شاعری میں ایسی کشش ہے کہ یہ نہ صرف اردو فکشن نگاروں بلکہ دوسری زبانوں کے فکشن نگاروں کو بھی اپنا گرویدہ بنالیتی ہے۔ فاروقی صاحب کی یہ ناول اکرم سیٹھ کی A Suitable Boy کی یاد تازہ کردیتی ہے۔ جس میں وکرم سیٹھ نے اردو شاعری بخوبی استفادہ کیا ہے۔ اس حوالے سے دونوں ناولوں میں کافی مماثلت ہے۔ اسی طرح کی اور بہت ساری ناولیں انگریزی و دوسری زبانوں میں موجود ہیںمثلاً ربی شنکر بال کا حالیہ بنگالی ناول ”دوزخ نامہ‘ ‘۔
فاروقی صاحب کو قرة العین حیدر اور عبد اللہ حسین کی طرح اپنے شاہکار کا خود مترجم ہونے کا شرف حاصل ہے۔ قرة العین حیدر اور عبد اللہ حسین نے ’آگ کا دریا‘ (River of Fire) اور ’اداس نسلیں‘ (Weary Generations) کا مرکزی خیال عہد حاضر سے اخذ کیا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کا بیانیہ چست و درست ہے اور مغربی فکشن نگاری کے حساب سے پلاٹ کا تانہ بانہ بھی متاثر کن ہے۔ جبکہ فاروقی کو قاری کو سمجھانے کے لیے جگہ جگہ وضاحتی نوٹ بھی لکھنے پڑے ہیں۔ اس وجہ سے قاری کی توجہ متن سے تھوڑی دیر کے لیے ہٹ جاتی ہے۔ (یہ اٹھارہویں صدی میں لکھے گئے یورپی ناولوں کی یاد دلاتے ہیں) اردو ورژن کی طرح فاروقی نے انگریزی ورژن کو بھی ابواب اور فصول میں تقسیم کیا ہے۔ اردو میں ایک دو کلمات پر مشتمل ٹائٹل کو انگریزی میں لمبے وضاحتی ٹائٹل میں تبدیل کیا ہے۔ ترجمہ میں بہرحال پوری سلاست و روانی ہے نیز انگریزی زبان کے اسلوب بیان کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ انگریزی محاروں کے استعمال میںفاروقی صاحب نے اس بات کا بھی خیال رکھا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیب کی عکاسی میں کہیں بال نہ پڑے اور اصل زبان میں جو شیرینی و حلاوت ہے وہ انگریزی میں کمزور نہ پڑنے پائے۔ تشبیہات و استعارات کو بڑی ذہانت سے قدیم انگریزی اسلوب میں ڈھالا گیا ہے تاکہ یہ گڈ مڈ نہ ہوں۔ اس طرزِ تحریر پر بس سبحان اللہ کہنے کو جی چاہتا ہے۔
بہر کیف اس نال میں ایک دو جگہ غلطیاں بھی نظر آجاتی ہیں۔ لیکن اس سے اس شاہکار کی عظمت متاثر نہیں ہوتی۔ مثلاً صفحہ نمبر938پر راوی کہتا ہے کہ فتح الملک ، وزیر خانم کے آخری شوہر کو 10 جولائی2012(1856کی جگہ) کے دن دفن کیا گیا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ یہ مصنف کی غلطی نہیں ہوسکتی ، یہ ضرور کتابت یا کمپیوٹر ٹائپنگ کی غلطی ہے۔
————————————————–

مشمولہ سہ ماہی ”اردو چینل“ جلد :18۔شمارہ :1(جنوری تا مارچ2016)مدیر: ڈاکٹر قمر صدیقی