KAI CHAAD THEY SAREY AASMAN

Articles

انیسویںصدی کی ایک بے باک خاتون کی کہانی

کاویری بام زئی

کاویری بام زئی
انگریزی سے ترجمہ: شمس الرب

انیسویںصدی کی ایک بے باک خاتون کی کہانی

یہ عظیم شاہکار ناول معلومات و تفریح کا ایک حسین و کامل امتزاج ہے۔ یہ کہانی ہے وزیر خانم نامی اس بے باک خاتون کی جو انیسویں صدی کے ہندوستان میں نوابوں اور صاحبوں کی ہم نشیں و ہم راز رہی۔ وزیر خانم ان نڈر خواتین کی نمائندہ ہےں جو ہر ملک و تہذیب میں مردوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑی رہتی ہیں۔
وزیر خانم ایک تاریخی کردار ہے۔ یہ ایک ایسی عورت کا نام ہے جو تنگ دستی میں پرورش کے باوجود آزادانہ خیالات اور اپنے وقت سے آگے کی سوچ رکھتی تھی۔ اس میں جرا¿ت و بے باکی کے جذبات کمسنی سے ہی جاگزیں تھے۔ ناول میں ایک جگہ وہ کہتی ہے کہ ”وہی تعلقات سب سے اچھے ہوتے ہیں جنھیں توڑا جاسکے۔“وہ ایسا صرف کہتی ہی نہیں بلکہ بے دھڑک کرتی بھی ہے۔ عمر کی سولہویں بہار دیکھنے سے پہلے ہی کمپنی بہادر کے ایک ملازم مارسٹن بلیک کے ساتھ جے پور بھاگ جاتی ہے۔ اس سے اس کے دو بچے بھی ہوتے ہیں۔پھر فیروز پور جھرکا اور لوہارو کے حاکم نواب شمس الدین احمد خان اس کے عشق میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ دلّی کا انگریز ریزیڈنٹ ولیم فریزر حسد کی آگ میں جلنے لگتا ہے اور حوادث کا ایسا جال بُنتا ہے جو نواب شمس الدین کی سر عام پھانسی پر منتج ہوتا ہے۔ پھر وہ رام کے آغا مرزا تراب علی کی داشتہ (٭)بن جاتی ہے اور آخر کار شوکت محل کے نام سے مغل شہزادہ اور وارث تخت و تاج مرزا فتح الملک بہادر کی بیوی بن جاتی ہے۔
شاعر غالب ، نڈر انگریز سیاح عورت فینی پارکس، اینگلو انڈین جیمس اسکنراور طاقتور زینت محل جیسے تاریخی کردار ناول میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ وزیر خانم انتہائی غربت اور گم نامی کے دنوں میں بھی ہمت نہیں ہارتی ۔ وہ اپنا ہنر یا جسم روٹی کے کچھ ٹکڑوں کے عوض بیچنے سے انکار کردیتی ہے۔ فاروقی اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”وہ مردوں کا سامنا کرنے کو تیار تھی لیکن اپنی شرائط پر۔“
78سالہ اردو اسکالر شمس الرحمن فاروقی نے اپنی اردو ناول کو خود ہی انگریزی کا جامہ پہنایا ہے۔ وہ وزیر خانم کی زندگی بیان کرتے کرتے اکثر و بیشتر دور نکل جاتے ہیں، لیکن ان کا یہ عمل (قاری کے لیے) باعثِ مسرت ہوتا ہے۔ ناول میں اس دور کا ہندوستان پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ مختلف تہذیبوں کے تصادم کو خاص طور سے بیان کیا گیا ہے۔” انگریز ہر چار پانچ ہفتے میں صرف ایک بار ہی نہا کر خوش رہتے تھے اور سخت بدبو کے باوجود اپنے سونے کے کمرے ہی میں پیشاب کا برتن رکھ لیا کرتے تھے۔“ اردو میں محبت کے لیے مستعمل مختلف الفاظ کی تشریح بھی کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر جب تندیِ شہوت ماند پڑجائے اور دماغ سکون و آرام کی آماجگاہ بن جائے تو اس کیفیت کو ’اُنس‘ کہتے ہیں۔گورے صاحب کچھ خاص شوق بھی رکھتے تھے جیسے امرد پرستی اور شراب کے جام کو ہوا کے ہم آغوش کرنا۔ ان سب سے بڑھ کر عشق و معاشقہ کی باتیں ہیں۔ وزیر خانم اپنے ایک عاشق کو خط کے ساتھ لیچی کا شہد بھیجتی ہے۔جواب میں عاشق سنگتری رنگ کے پیلے کاغذ پرکالے رنگ کی روشنائی سے ایک غزل لکھ کر بھیجتا ہے۔ اور فیشن کا تو پوچھنا ہی کیا ! وزیر خانم کے شیرازی جوتے ، ڈھاکہ کے ململ سے تیار کردہ اس کے شلوار اور نیلے رنگ کے مخمل سے بنایا گیا اس کا تنگ واسکٹ! پڑھنے والا خود کو کاموکتا کے سمندر میں ڈوبتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ فاروقی کی غیر معمولی نثر اس کے ہر احساس کو جھنجھوڑتی ہے۔
ناول حقیقت اور تصور کے درمیان مسلسل آگے بڑھتی رہتی ہے۔ فریزر مارا جاتا ہے ، شمس الدین تختہ¿ دار پر چڑھا دیا جاتا ہے۔معاشرہ وزیر خانم کو ایک سزا یافتہ مجرم کی داشتہ کے طور پر دیکھتا ہے۔ بلیک سے مولود بچوں کو اس سے چھین لیا جاتا ہے۔
فاروقی کا لطیف پیرایہ¿ بیان وزیر خانم کے شہوانی تجربات کو شہوت انگیز نہیں رہنے دیتا۔ جب مرزا فتح الملک بہادر اس کے سیاہ ارغوانی زلفوں کو کھولتا ہے ، فاروقی ہمیں وزیر خانم کے شاندار جسم کی سیر پر لے کر نکل پڑتے ہیں: ”رانیں ایسی جیسے کسی ماہر کمہار نے سانچے میں ڈھال دیا ہو، کمر چیتے کے کمر جیسی پتلی اور پیٹ اتنا ہموارا ور چکنا جیسے کہ انتہائی مہارت کے ساتھ بنایا گیا لکڑی کا تختہ۔“
ناول میں خوف و دہشت سے مملو مناظر بھی موجود ہیں۔ کچھ لوگوں کی ایک جماعت ٹھگوں کا شکار ہوجاتی ہے۔ ان کی حالت یوں بیان کی گئی ہے: ”ان کی خشک زبانیں باہر کو نکلی ہوئی ہیں، ناک سے خون کے دھارے پھوٹ رہے ہیں،جس سے ان کے جسم خون سے لت پت ہیں۔“ فاروقی ہر چیز کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں لیکن اس سے بوجھل پن کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کا بیانیہ اپنے اندر اُس دور کا گہرا علم سموئے ہوئے ہے اور ان کے ہر لفظ سے اس گہرے علم کو ساجھا کرنے کی خوشی ٹپکتی ہے۔
اس ناول میں وزیر خانم اُس بہادر عورت کے مصداق ہے جس پر یہ فارسی کہاوت صادق آتی ہے کہ ” اب چاہے جو بھی ہو میں نے اپنی کشتی پانی میں ڈال دی ہے۔“وزیر خانم کے کئی مردوں سے تعلق تھے۔ لیکن شاید اس کا سب سے جذباتی اور پائیدار تعلق اپنے بیٹے سے تھا۔ یہ بیٹا شاعر نواب مرزا داغ تھا۔ داغ اپنی ماں کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” ان کی ماں اُن عورتوں میں سے تھی جن کی اپنی تاریخ اور اپنا ماضی تھا اور یہ کہ دنیا کے بازار میں مذاکرات کی اُن کی اپنی شرائط تھیں۔“
اپنے اس شاہکار ناول میں فاروقی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ” ماضی ایک اجنبی ملک ہے۔ اس اجنبی ملک کا سفر کرنے والے اس کی زبان نہیں سمجھ سکتے۔ “ ممکن ہے اس ناول کے لکھے جانے سے پہلے یہ درست رہا ہو ، لیکن اس عظیم شاہکار کے منظر عام پر آجانے کے بعد اب یہ درست نہیں رہا۔ اس ناول کو پڑھنے کے بعد ماضی اجنبی نہیں بلکہ ہمدم و ہم راز لگنے لگتا ہے۔ اس ناول کے مطالعے بعد ایک سوال شدت سے ابھر کر سامنے آتا ہے کہ کیا سماجی روایات سے ہٹ کر زندگی بسر کرنے والی عورتیں خدا اور دنیا دونوں کی خواہش مند ہوتی ہیں؟ کسی شاعر کے الفاظ میں ”کیا یہ خام خیالی ہونے کے باعث ناممکن ہے؟“ وزیر خانم کی زندگی ہمیں یہ درشاتی ہے کہ آزادی کی قیمت بہت اونچی ہے ، لیکن یہ قیمت ایسی ہے جسے ہمیشہ سے عورتیں چکاتی آرہی ہیں۔
nvn
٭ یہاں مبصر (کاویری بام زئی) سے تسامح ہوا ہے۔ وزیر خانم مرزا تراب علی کی داشتہ نہیں منکوحہ تھیں۔ ناول کی سطریں ملاحظہ ہوں:
” اگلے چاند کی پہلی جمعرات (۴ شعبان المعظم ۸۵۲۱ مطابق ۱۱اگست ۲۴۸۱ ) کو وزیر خانم اور آغا مرزا تراب علی کا نکاح بطریق اہل سنت اور پھر بطریق مذہب اثنا عشریہ باندھا گیا۔“ (ص: ۴۸۵) ۔ (ڈاکٹر قمر صدیقی)


مشمولہ سہ ماہی ”اردو چینل“ جلد :18۔شمارہ :1(جنوری تا مارچ2016)مدیر: ڈاکٹر قمر صدیقی