Prof. Qazi Afzal Husain Interview

Articles

اردو میں تنقید نہیں پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جارہے ہیں

پروفیسر قاضی افضال حسین

انٹرویو

اردو میں تنقید نہیں پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جارہے ہیں

پروفیسر قاضی افضال حسین

اردو میں تنقید نہیں پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جارہے ہیں

قمر صدیقی: ادب و تہذیب پرگلوبلائزیشن کے کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں؟
قاضی افضال حسین: آپ گلوبلائزیشن سے انکار تو نہیںکر سکتے وہ تو ہو رہا ہے اور اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے Mass Media ،اس کے جو ذرائع ہیں صرف ٹی وی نہیں انٹر نیٹ، ای میل جتنے بھی الیکٹرانک ذرائع ہیں انھوں نے واقعی من کلی جسے کہتے ہیں ایک طرح کی گلوبلائزیشن کے علاوہ ایک طرح کی حکمرانی کا گویا تصور پیدا کر دیا ہے ۔ایک خاص تہذیب کا ایک Imperialismہے یہ۔ تو بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور پھیلا۔ یعنی اب ہر وہ چیز اچھی ہے جسے میڈیا منیجر اچھی کہتے ہیں ۔ جس چیز کو وہ اچھی نہیں کہتے وہ اچھی نہیں ہے ۔ جن لوگوں کو ادب میں اس کا ذراسا بھی احساس ہوگیا ہے یہ گلوبلائزیشن اب ایک طرح کیImperialism کی طرف بڑھ رہا ہے انھیں اس کی فکربھی ہوگئی ہے۔ چنانچہ ادب میں، خود آپ کے ادب میں، اردو میں بھی شعریات پر تنقید کے مقابلے میں توجہ بڑھ رہی ہے اور یہ بڑھ اسی لیے رہی ہے کہ شعریات لازماََ ایک زبان کی اپنی ایک لوکل چیز ہوتی ہے۔تنقید آفاقی ہو سکتی ہے شعریات آفاقی نہیں ہو سکتے ۔ آپ کے یہاں شعریات پر یعنی شعر بنانے کے فن پر گفتگو بڑھ رہی ہے اب تو میںبہت دیکھتا ہوں کہ ہر رسالے میں کوئی نہ کوئی ایک مضمون شعریات کے متعلق ہوتا ہے ۔ بغیر یہ سمجھے ہوئے کہ شعریات کیا ہے لیکن بہر حال لوگوں کویہ سمجھ میں آرہا ہے کہ شعر بنانے کے جو اصول ہیں ایک لسانی معاشرہ کے وہ گلوبل نہیں ہےں۔ ہاں ان کی تنقید کا معیار آفاقی یا Globalistہوسکتا ہے تو اب آپ کے یہاں شعریات پر زور دیا جا رہا ہے یا اس کی طرف توجہ ہوئی ہے تو اسے تقریباََایک طرح کا ردعمل کہا جانا چاہئے۔
دیکھیے یہ تو ہوہی نہیں سکتا کہ جس معاشرے میں آپ رہتے ہیںاس معاشرے کی صورت حال کا آپ کی فکر پر اثر ہی نہ پڑے ،یہ نہیں ہوسکتا ہے ۔ اب تک صرف یہ ہوا تھا اور ذرا پہلے سے حالی© کے زمانے سے چل رہا ہے کہ ایسے کہو یا یہ کہو ۔ شاعر کے لیے Dictationکے کوئی معنی نہیں ہیں لیکن ہو اایسا عملی طور پر اور اس کی طویل ترین صورت بعض صورتوں میں ترقی پسند تحریک میں نظر آئی ۔ اس طرح سے انھوں نے ان لوگوں Rejectکرنا شروع کر دیا جنھوں نے ان کی طرح نہیں کہا۔ قرةالعین حیدر، منٹو، میراجی راشد بہت نام ہیں اس میں۔لیکن وہ کیا کر رہے ہیںیہ بحث نہیں ہے بحث یہ ہے کہ آپ اس طرح سوچ ہی نہیں سکتے جو آپ کے معاشرے سے مختلف ہو۔ معاشرے کا اثر آپ پر تو پڑے گا ہی پڑے گا ۔ تو ایک طرح کی الجھن گلوبلائزیشن کی آپ کے Containمیں بھی دکھائی دے رہی ہے۔آپ کے افسانوں میں ، بعض ناولوں میں ،اس طرح کی الجھن نظر آتی ہے ۔تو ہمارے خیال میں Containکی سطح پر بھی اور تصور شعر کی سطح پر بھی اس طرح کی توجہ یہ درشاتی ہے کہ ہمارے لیے گلوبلائزیشن نمبر ۱ : ایک مسئلہ بن گیا ہے ۔ اس کے فوائدہیں لیکن اس سے جو نمو کررہا ہے ایک طرح سے کہنا چاہئے کہImperialism اس نے ہمارے اندر یہ Verityتو پیدا کی ہے کہ ہمیں ادب پر Workکرنا چاہئے یہ تو ہوا ہے اور ہمارے یہاں ہی نہیں ہم سے زیادہ تو دوسری زبانوں میں ہوا ہے ۔ آپ بمبئی میں رہتے ہیں ابھی کاٹجو یہاں آئے تھے انھوں نے تقریر میں کہا کہ Son of this SoilکاConceptہی Antinational ہے۔ابھی دو روز پہلے کی بات ہے مسٹر کاٹجو نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی ایک خطہ عرض پر ایک طرح کے لوگ رہیں گے۔ تو ایک ہی خطہ پر ایک ہی طرح کے لوگ کا افراق بڑھا ہے ،یہ بھی غالباََ گلوبلائزیشن کا ردعمل ہے ۔بہت ساری چیزیںبہت ساری تبدیلیاں ہو رہی ہیں ۔دھیرے دھیرے چاروں طرف ،آج سے نہیں بہت پہلے سے یہ باتیں ، وہاں پورب میں، آسام میںاور اس علاقے میںچل رہی ہیں۔ آسام میں صرف آسامی رہے گا اور ناگا لینڈ میں ناگا لینڈ کا ،یہ سب چیزیں گلوبلائزیشن کے خلاف ہی تو جاتی ہےں۔ایک خطہ عرض پر خاص طرح کے لوگوں کا رہنا اور ان کو رہنے کا حق دینا اور دوسرے لوگوں کو نہ دینا یہ تو آفاقیت کے خلاف ہے نہ بھئی۔عالم کاری کے خلاف تو یہ سب چیزیں سیاست میں بھی ، تہذیب میں بھی اور لٹریچر میں بھی اس کی زبان میں بھی ، تصور شعر میں بھی ، اس کے اثرات دکھائی دے رہے ہیں ۔ویسے بڑی خطرناک چیز ہے یہ آپ کا الیکٹرانک میڈیا ہے ۔ افوّہ!بھیانک
قمر صدیقی: لیکن خطرناک ہونے کے احساس کے باوجود الیکٹرانک میڈیا اتنا ہی اثر انداز بھی ہورہاہے۔
قاضی افضال حسین: بہت زیادہ اور اسی اثر کی وجہ سے خطرناک بھی لگ رہا ہے۔بھئی بھلا جس Product کو ٹی وی اچھا کہہ دے وہ اچھا ہوگا اور جس Productکو ٹی وی اچھا نہ کہے وہ اچھا نہیں ہے۔ جس آدمی کے Conceptکو ٹیوی دکھا رہا ہے وہ ہی اچھے آدمی کا conceptہے ۔جس لباس کو وہ کہہ دے کہ اچھا ہے تو وہ ہی اچھا ہے ۔ آدھی بمبئی تمھاری نیکر پہن کر گھوم رہی ہے تو یہ اسی کی وجہ سے ، اس کے اس گہرے اثر ہی کی وجہ سے۔ اس خطرے کا احساس ہے لوگوں کوکہ یہ جو چاہیں کرلیں۔بلکہ مجھے یاد آتا ہے صاحب علی کبھی تم نے یہ بات کہی تھی کہ میڈیا جو چاہے گا وہ آپ کھائیں گے جو چاہے گا وہی آپ پہنےں گے۔ اب یہ صورت حال ہے ،مگر جو اس کا خطرہ ہے وہ زیادہ سمجھدار لوگوں کی سمجھ میں آبھی رہا ہے ۔ کبھی میں اگر یہ باتیں کرتا ہوں تو مجھے خود بھی ہنسی آتی ہے کہ یار میں کیا کر رہاہوں، ان کا میں کیا بگاڑ لوں گا۔ لیکن کم از کم اپنے طور پہ تو جانتا ہوں کہ غلط ہو رہا ہے۔یہ جو کہنا چاہئے نہ کہ فلاں کا نمک مثلاََ۔اب کشمیر سے لے کر مدراس تک صرف فلاں کا نمک کھایا جاتا ہے۔پہلے فلانے جگہ کے گلاب جامن اچھے ہوتے تھے ، فلانے جگہ کا خورمہ اچھا ہوتا تھا ، فلانے جگہ کی برفی اچھی ہوتی تھی۔اب سب جگہ ایک ہی چیز ملتی ہے۔ کچھ برفی نہیں کچھ خورمہ نہیں ۔
قمر صدیقی: گلوبلائزیشن کی ثقافتی یک رنگی کے برخلاف ادبی متون کی بافت و تفہیم میں ثقافتی رنگارنگی بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
قاضی افضال حسین: یہ تو ہم کہہ ہی رہے ہیں بھئی ثقافتی یکسانیت کا تصور نہ صرف یہ کے فروغ پا رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں جڑ پکڑ چکا ہے لیکن یہ ثقافتی یکسانیت کے معنی یورپ اور سفید آدمی کی ثقافت کے ہیں ،آپ کی ثقافت کے نہیں ہیں اور یہی اس کا خطرہ ہے جو میں آپ سے شروع سے کہہ رہا ہوں کہ یہ ایک طرح کا Imperialism ہے۔ یہ اسی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ یہ ایک خاص ماڈل ہے اور غالباََ وہی ایک عالمی ثقافت کا ماڈل ہوگا۔ساری باتیں جو ہم ابھی آزادی ،تعلیم نسواں کے بارے میں کر رہے ہیں جو لوکل تہذیبوں کے بارے میں کر رہے ہیں وہ سب اسی کی پیداوار ہیں۔
قمر صدیقی: اگر یہی صورتِ حال رہی تو کیا ہم آنے والے دنوں میں ایک Literature Less معاشرے میں رہیں گے؟
قاضی افضال حسین: نہیں ایسا نہیں ہوگا ایک ایسے Literature کے زمانے میںرہیں گے جس کی حیثیت عالمی ہوگی ۔ ہم اس طرح اس میں رہیں گے مطلب دیکھو یہ کہ ظفر اقبال ہمارے بہت سنجیدہ آدمی ہےں۔ ظفر اقبال صاحب فرماتے ہیں کہ غزل کو ایسی زبان میں کہنا چاہئے جس کا ترجمہ ہوسکے، اچھا کیوں ہوسکے بھائی تاکہ انگریز پڑھ سکیں۔یہی نا ۔میرا یہ کہنا ہے کہ غزل وہ صنف سخن ہے جو ہماری شناخت ہے اور وہ ترجمہ نہیں ہوسکتی۔اصل بات ہی یہی ہے کہ ہماری اپنی شناخت ترجمہ نہیں ہوسکتی اور یہ جو عالم کاری ہے اس کی اصل میںجو بھی عزم ہے وہ ہماری شناخت پر ہے ۔ یہ سب کہنے کے بعد بھی کہ ہم اس کو روک نہیںسکتے ۔
قمر صدیقی: گویا جس Forceسے یہ آرہاہے اسے روکنے میںہم آگے کسی نہ کسی سطح پہ جا کے فیل ہو جائیں گے ۔
قاضی افضال حسین: فیل ہو جائیں نہیں فیل ہو چکے ہیں ۔یہ ایسا نہیں کہ ہو جائیں گے، یہ ہوچکا۔اس کی طاقت کا اس طرح اندازہ کیجئے آپ کہ ایک صاحب ہیں جنہوں نے Communication میں بہت کام کیا ہے Jean Baudrillard انھوں نے عراق جنگ کے بارے میں لکھا ہے کہ عراق میں جنگ ہوئی ہی نہیں ۔ وہ تو ٹی وی کے لیے تیار کیے گئے Episodesتھے جو اسٹوڈیو کے بجائے عراق کے میدان میں تیار کئے گئے ہیں ۔اب آپ دیکھیے کہ وہ یہ کہہ رہا ہے کہ عراق میں آپ کو یاد ہوگا جنگ شروع ہوئی تھی پانچ بجے شام کو یہ وہ وقت ہے جب امریکن آفس سے لوٹ کے آجا تا ہے اور اپنی ٹی وی کھولتا ہے تو اس کو ایک Episodeدکھائی دے رہا ہے کہ عراق پہ امریکہ نے حملہ کر دیا ہے اور وہ روزانہ کا ایک Episodeہے جو اسٹوڈیو میں نہیں بنایا گیا ہے عراق کے میدانوں میں بنایا گیا ہے یہاںتک پہنچ گیا ہے ہمارا گلوبلائزیشن ۔
قمر صدیقی : تو گویا یہ کہ عراق جنگ بھی گلوبلائزیشن کے ثقافتی Imperialismکی ایک مثال ہے؟
قاضی افضال حسین: دیکھیے آپ صرف ثقافتی Imperialismکیوں کہہ رہے ہیں یہ Economic Imperialismبھی ہے جو چیزیں بازار میں امریکی ٹھپے سے آئیں گی وہی سب سے اچھی ہوںگی ۔ سو اصل میں ثقافت تو آپ کا مسئلہ ہے ،دنیا کے تاجروں کا مسئلہ ثقافت نہیں ہے ۔ان کا مسئلہ تو دولت ہے۔ کتنے لوگ یہ بات کہتے ہیں اور ہزاروں لوگ جانتے ہیں کہ عراق پہ حملہ پٹرول کے لیے ہوا تھا ۔ بھئی امریکہ نے جو حملہ کیا ان کے Defense Ministerصاحب Petrolکے تاجر ہیں ۔ کمپنیاں ہےں ان کی با قاعدہ۔سو یہ اصل مسئلہ تو Economic Levelپر ہی ہے۔صرف Economic Level پر۔ کیوں کہ دنیا میں سب سے بڑی قوت ہے دولت ۔ دنیا میں سب سے بڑی Political Strain ہے Democracy ، دنیا میں سب سے بڑا کلچر تہذیبی ثقافتی یکسانیت، ارے بھائی کیا مطلب کوئی Variationممکن نہیں ہے۔اب یہ جو آپ کے لیے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں کہ آپ کو اس کے علاوہ کچھ نہیں سوچنا ہے ۔سو عالم کاری نے تو وہ کر دیا ہے کہ آپ پلٹ کے اپنی طرف جا بھی نہیں سکتے جو چھوٹی چھوٹی گلیاں بچی ہیں اسی میںرہیے ۔ نہ تہذیب کی سطح پہ آپ سب سے اول ہیں ۔ تہذیب کی سطح پہ وہ تہذیب اول ہے جو ٹی وی پہ دکھائی جاتی ہے ۔White American یا White European Culture انہی کے تصورات ،انہی کے افکار ،انسان کے متعلق ان کا تصور، مرد عورت کے رشتے کے متعلق ان کا تصور، بس وہی افضل وہی قابل قبول ہے۔ نہیں ہے کیا؟ میں غلط کہہ رہا ہوں ؟ تو اب آپ اس میں You can’t do that آپ یہ کر ہی نہیں سکتے ،ٹی وی بند ہی نہیںکرسکتے آپ۔آپ Computer, Internetنہیں بند کر سکتے ۔Man-Women relationshipکے بارے میں آپ جو کچھ بھی جانتے ہیں وہ سب آپ کے Internetسے آیا ہے ۔ ہم آپ سے کیا کہیں یہ تو اتنا بھیانک معاملہ ہے کہ کیا Politics ، کیا Economy، کیا Culture ، کیا زندگی کا کوئی شعبہ، ان سب کا معاملہ یہی ہے ۔ دیکھیے پارلیمنٹ میں ہماری پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کے جو مثال دی جاتی ہے کسی چیز کے قانون کی کہ یہ امریکہ میں بنا ہوا ہے کیونکہ امریکہ میں بنا ہوا ہے اس لیے غلط نہیں ہو سکتا۔ ہمارے پارلیمنٹ میں Ministersکھڑے ہو کر تقریر یں کر رہے ہیں ۔ تو آپ اس کو روک نہیں سکتے ۔
قمر صدیقی : رو ک نہیں سکتے ہیں تو ہماری جیسی تہذیبیں Surviveکس طرح کریں گی؟
قاضی افضال حسین: یہ آپ کا مسئلہ ہو سکتا ہے یہ تاجروں کا مسئلہ نہیں ہے ۔یہ تو آپ کا مسئلہ ہے نہ اور اس کے لیے آپ کوMediaنہیں ملے گا۔اتنا دنیا بھر کی چیزیں ہوتی رہتی ہیں فلاں کی جاسوسی ہو رہی ہے۔ فلاں پکڑا جا رہا ہے ۔فلاں Ministerپکڑا جا رہا ہے۔کوئی Capitalistہندوستان کا آج تک پکڑا گیا، جیسے وہ Corruptہوتا ہی نہیں۔یہ سب چلے گا نہیں آپ کو ظاہر ہے سب سے آسان طریقہ اپنے تحفظ کا یہ ہے کہ آپ اپنی زبان کا تحفظ کریں اگر آپ اپنی Languageبچانے میں کامیاب ہوگئے تو آپ اپنی فکر بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ اگرچہ وسائل صرف اردو نہیں ہندوستان کی کسی زبان کے پاس نہیں ہیں۔Unlessکہ آپ اس کو ایک Political Platformمیں بدل دیں جیسا کہ مہاراشٹر میں ہو رہا ہے ، جیسا کہ بہت دنوں تک بنگال میں ہوتا رہا تھا اب تو ذرا کم ہوا۔ جیسا کہ آسام اور Northeastمیں ہورہا تھا ۔Unlessیہ آپ کرسکیں جو آپ نہیں کر سکتے ۔
قمر صدیقی: میرے خیال میں اردو کے پاس اس طرح کے پلیٹ فارم کے لیے علاقہ نہیں ہے۔
قاضی افضال حسین:اردو کبھی علاقہ کی زبان تھی ہی نہیں ۔ اردو کی ثقافت میں اس طرح کی تفریق کبھی تھی ہی نہیں۔راجستھانی بھی اردو بول رہا ہے ، بنگالی بھی اردو بول رہا ہے، مراٹھی بھی اردو بول رہا ہے۔ جب اردو تھی تب سب اردو بول رہے تھے ۔مسلمان کیا ، غیر مسلمان کیا ، کسی علاقہ کیا یہ اس کا مسئلہ کبھی تھا ہی نہیں ہم نے اسی کو بڑی چیز سمجھا۔ اب یہ زمانہ ہے جسے ہم علاقائیت کو بڑی چیز سمجھ رہے ہیں ۔ تو اب ظاہر ہے کہ وہ میدان تو آپ کے ہاتھ سے نکل گیا نہ۔ نکل کیا گیا ہم سمجھتے ہیں کہ وہ اچھی چیز تھی ہی نہیں اور جو اب ہو رہا ہے وہ بھی اچھی چیز نہیں ہے علاقائیت وغیرہ ۔ زبان تو ایسے ہی ہونا چاہئے کہ ہند وستا ن میں ہر جگہ ہر قسم کے لوگ بولتے ہوں۔خیر اگر آپ اپنی Language بچا سکے۔دیکھئےLanguage صرف آوازوں کا مجموعہ نہیں ہے نہ اس میں آپ کی فکر ، آپ کی سوچ ، آپ کی ثقافت ، آپ کی تہذیب وہ سب بچ جائے گی۔
قمر صدیقی: خیر تبدیلی کے اس پورے Processمیں ادب کا کیا کردار ہوسکتا ہے؟
قاضی افضال حسین: ایک فطری تبدیلی ہوتی ہے جو ہوتی جاتی ہے ۔ ایک تبدیلی کی جارہی ہے جو ہم زبر دستی کر رہے ہیں ۔ میں اپنے ایک ایسے Journalistدوست کو جانتا ہوں جنھوں نے ۲۰۰۲ءمیں Resign کیا ایک بڑے اخبار سے ۔ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ نےResignکیوں کیاتو ان کا کہنا تھا کہ وہ اخبارزبر دستی ایکسویں صدی میں گھسا جا رہا ہے ہم اتنی تیز نہیں چل سکتے ۔ تو ایک تبدیلی وہ ہوتی ہے جو فطری ہے جو ہوتی رہتی ہے ،وہ آپ میں بھی ہوتی ہے۔ آپ بچے ہوتے ہیں ،مختلف ہوتے ہیں، آپ جوان ہوتے ہیں تو مختلف ہوتے ہیں۔ وہ ایک فطری تبدیلی ہے جو ہوتی رہی ہے۔ایک تبدیلی کی جارہی ہے ان دونوں میں فرق ہے ۔Imperialismکی جانے والی تبدیلی کے بارے میں ہے فطری ہونے والی تبدیلی کے بارے میں نہیں ۔ اس لیے میں آپ سے کہتا ہوں کہ اس میں یہ جو زبردستی ہو رہی ہے اس پہ آپ تھوڑا سا Resistanceدکھائیں۔آپ Resistanceدکھا سکتے ہیں اپنی زبان میں ، اپنے ادب میں ،اپنے تہذیب کے تحفظ کے بارے میں،فکر کر کے تو یہ ممکن ہے کہ آپ پر Mediaتو بہر حال ایسی چیز ہے جو آپ کے قبضے میں نہیں ہے ۔ یعنی آپ کےLanguage میں جو نکلتا ہے وہ بھی آپ کے قبضے میں نہیں ہے ۔
قمر صدیقی: ادب کے قرا¿ت کے جونئے نظریے آرہے ہیں وہ معاصر ادب کے ساتھ ساتھ ہماری کلاسیکی ادبی سرمایے کی تفہیم میں کس قدر معاونت کر سکتے ہیں ؟
قاضی افضال حسین: اصل میں سوچنے کے طریقے پہ انحصار ہے کہ آپ متن کوکیسے پڑھتے ہیں۔ایک سامنے کی مثال لیجیے حالانکہ بہت بوسیدہ مثال ہے کہ ایک ادب کو فحش کہتے ہیں بس فحش سمجھتے ہیں خوش ہوتے ہیں۔ دوسرے آدمی کو وہی ادب فحش نہیں لگتا ۔تو پڑھنے کے طریقے کا تعلق ادب کے تصور سے ہے۔آپ ادب کو کیا سمجھتے ہیں ،اچھا اگر ادب کی کوئی ایک تاریخ آپ کے ذہن میںہے تو اس کا ایک مقصود بھی آپ کے ذہن میں ہوگا ۔تو یہ تاریخ اور مقصود کا جو رشتہ ہے نہ آپ اس کی روشنی میں متن کو پڑھتے ہیں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ادب وہ ہے جو عوام کی ہمدردی کرتا ہے ہو یا فلاں طبقے کے ساتھ رعایت یا اس کے ساتھ ہم آہنگ ہو تو مقصود اصلاح ہوگی تو متن کا تجزیہ اس طرح ہوگا کہ اس میں اصلاح کے عناصر کتنے نکلتے ہیں یا کتنے نہیں نکلتے، اگر آپ ادب کو صرف بصیرت کا ذریعہ سمجھتے ہیں تو پتہ نہیں کس نے یہ بات کہی تھی کہ صاحب ادب میں بلکہ جو سرور صاحب نے کہا تھا کہ مسرت ہوتا ہے پھر بصیرت ہوتی ہے ،اب آپ تجزیہ اس طرح کریں گے کہ اس میں بصیرتیں کیا کیا موجود ہیں ۔ اگر آپ فارملسٹ ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ ادب تو اظہار کے اسلوب کا نام ہے تو آپ کا تجزیہ ظاہر ہے کہ اسی نہج تک ہوگا۔یہ سارے نظریے ایک ساتھ ایک وقت میں چل رہے ہوتے ہیں ۔اس میں کوئی حرج نہیں ہے اس سے اس کا تنوع پیدا ہوتا ہے۔ہم یکسانیت چاہتے ہی نہیں ہےں۔ ہم اس طرح کر رہے ہیںآپ اس طرح کیجیے۔ہم نہیں چاہتے یکسانیت۔ہم اس کا پوسٹ مارڈن مطالعہ کرتے ہیں،آپ اس کا ترقی پسند مطالعہ کرتے ہیں ۔آپ اس کا مطالعہ کیجیے،بشر دوست مطالعہ کیجیے اور ہمارے یہاں یہ بیک وقت ہورہا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں اسے ہوتے ہوئے اور ہم کو اچھا بھی لگ رہا ہے۔ تو ہم اپنے ادب کا ایک تصور رکھتے ہیںاور اس کے مقصود کے بارے میں سوچھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیںکہ اس کے وسائل چونکہ متن میں ہیں تجزیے کے ذریعے دیکھنے کے تو ہم دیکھ رہے ہیں لیکن اگر کوئی ادب کا مختلف تصور رکھتا ہے تو ہمیں اعتراض نہیں ہوتا ۔ متن کو ہم جیسے پڑھ سکتے ہیں پڑھتے ہیں ۔آپ اگر کسی سے مختلف طریقے سے پڑھتے ہیں ۔ اگر آپ متن کی تفہیم اچھی طرح کر سکتے ہیں ہمیں اس پر بھی اعتراض نہیں ہے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
قمر صدیقی:اردو تنقید کی موجودہ صورت حال بظاہر تو اچھی نظر آرہی ہے اور بہت لکھا جا رہا ہے مگر اس میں ٹھوس اور Authenticکام کتنا ہورہا ہے۔
قاضی افضال حسین: دیکھیے پہلی بات تو یہ کہ میں آپ کے سوال سے متفق نہیں ہوں ۔ اردو تنقید کی صورت حال اچھی نہیں ہے۔ نمبر ایک ؛جو لکھا جا رہا ہے وہ Ph.dکے مکالے ہیں اور چھپنے کی آسانی ہوگئی ہے ۔ پیسے ملنے لگے ہیں Pressکو یعنی اردو میں شاید 500سے زیادہ کتابیں روز چھپ رہی ہیں تو اس کے یہ معنی ہوئے کے آپ کو وسائل کی آسانی ہوگئی ہے مگر کوئی متن یا کوئی بحث بہت اچھی ہورہی ہو یا کہیں مسائل کھل رہے ہیں یا سمجھے جارہے ہیں اس میں مجھے بہت شبہ ہے۔ رولاںبارت کا یہ تصور کے ادب میں Subjectخارج ہوگیا ہے اور ہم اس کو صرف اس کی زبان کے حوالے سے سمجھ سکتے ہیں ۔یہ ہے بنیادی ایک بات جس کو مصنف کی موت وغیرہ بیان کیا گیا ہے۔ ہمارے اردو کے دو بڑے بڑے نقادوں نے Subjectکا ترجمہ موضوع کیا ہے Subjectکے لیے سادہ سی بات یہ ہے کہ وہ فاعل کا ذکر کرتا ہے وہ موضوع کا ذکر کر ہی نہیں رہا ہے اور آپ ترجمہ کر رہے ہیں کہ ادب سے موضوع خارج ہوگیا ہے۔ تو کتنا سمجھ رہے ہیں آپ ،اندازہ یہ ہے کہ بیشتر لکھنے والوں نے اگر کچھ پڑھ بھی لیا ہے توانھوں نے اس کو بغیر اپنے ذہن کو Applyکیے ،بغیر اپنی ضرورتوں کو سمجھے ،بغیر اپنی تہذیبی و ذہنی صورت حال سے معاملہ کیے ہوئے دہرا رہے ہیں۔
قمر صدیقی: چونکہ آپ کا تعلق تدریس سے بھی رہا ہے لہٰذا لہٰذا جامعات میں اردو تدریس کی صورتِ حال پر بھی کچھ روشنی ڈالیے؟
قاضی افضال حسین: ایک نفسیاتی و ذہنی Conditionمیں ہم سمجھ رہے ہیں کہ انگریزی تعلیم کا مقصد نوکری ہے اور اب یہ نعرہ لگتا بھی ہے اور ٹھیک لگتا ہے کہ زبان کو بازار کی ضرورت سے جوڑنا چاہئے ۔ایک Confusion یہ ہے کہ ہم ادب کو بازار کی ضرورت سے جوڑنے کا ذکر سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں، زبان کو بازار کی ضرورت سے جوڑنا چاہئے ،مطلب آپ کو انگریزی اچھی آنا چاہئے تو انگریزی آنے کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ آپ کو شیکسپیئر کے ڈرامے یاد رہنے چاہئے۔بس انگریزی اچھی آنا چاہئے۔ اسی طرح اردوبھی ایسی زبان ہونا چاہئے جومارکیٹ کی ضرورتوں کو پورا کرے۔ لیکن اردوکا ادب مارکیٹ کی ضرورتوں کو پورا کرے اس کا کوئی مطلب ہی نہیں اور ہمارے یہاں یہ ایسا Confusionہے کہ اب میں لڑکوں سے کلاس میں کہتا ہوں ہوں جب کبھی سوال اٹھتا ہے کہ M.Aاردو کے بعد کیا Jobہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ M.Aجغرافیہ کے بعدکیاJobہے،M.A Sociologyکے بعدکیاJobہے،Jobکا تعلق زبان سے تو ہے البتہ اس کا تعلق ادب سے ہو یہ ضروری نہیں۔ مراٹھی ادب پڑھنے سے بازار کاکیا تعلق ہے ۔سوتعلیم کے اس بنیادی مقصد نے کہ وہ Market Orientedہو لٹریچر کو نقصان پہنچایا ہے۔ لٹریچر،Orientedہوگا تولٹریچر نہیں ہوگا ۔ سادہ سی بات ہے اب یہ بات بچوں کو اپنی کلاس میں سمجھانا ذرا مشکل ہوتا ہے ۔ اب ہماری جوBasicکوشش ہوتی ہے اچھے لڑکے بھی کم مل رہے ہیں ۔ اچھے لڑکے تو میڈیکل، انجینئرنگ وغیرہ میںجاتے ہیں لیکن جو اس کا بچا ہوا حصہ آتا بھی ہے ہمارے پاس تو کوئی کوئی اس میں سے نکلتا ہے۔ جس میں ہمیں کوئی رمق کوئی روشنی نظر آتی ہے۔ یہ کوشش کرتے ہیں کہ بھیّا ان کو کسی طرح پڑھا لیں ۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم ادب سکھائیں ،ادب سکھانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو ایک بہتر آدمی ہونے میں مدد کریں۔جواپنے طور پر سوچ سکتا ہو ،اپنی ثقافت سے واقف ہو ، دوسرے آدمی کو دوسرے آدمی کی حیثیت سے قبول کرسکتا ہو، جو ہماری طرح نمازی ہیں تو سب نمازی ۔ ارے بھائی جو نمازی نہیں ہیں وہ بھی اللہ میاں کی مخلوق ہیں۔ اس کو اس کی شرطوں پہ قبول کرنے کی صلاحیت ادب سکھاتا ہے ۔ اگر ہم یہ نہیں کرسکتے تو اب ظاہر ہے ہم ادب کی تعلیم نہیں دے رہے ہیں ۔ ہماری کوشش یہی ہے کہ اردو زبان کو مارکیٹ سے ضرور جوڑیں۔ مثلاََ یہ جو ٹی وی کے چینلز ہیں 200چینلز آرہے ہیںلیکن ہندی اور اردومیںبا مشکل اچھی اور صاف ستھری زبان بولنے والے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ہم اس میں اردو کے studentsکو مثلاََProfessional trainingدے کے اتاردیں تب یہ سب ان کو Replaceکر دیںگے ۔ کون ہے جو بازار میں اچھی چیز کی جگہ خراب چیز خریدے گا وہ ایک بالکل دوسرا پہلو ہے ادب کی تعلیم دیں بالکل دوسرا پہلو ہے۔
٭٭٭