Ram Lila Garden a Short Story by Rehan Kausar

Articles

رام لیلا میدان

ریحان کوثر

آج اتوار کا دن تھا لیکن آم گاؤں کا رام لیلا میدان بالکل خالی تھا۔ چاروں طرف سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ گاؤں کے کچھ لوگ گھروں میں اپنی اپنی کاہلی اور سستی کے غلاف میں دبکے بیٹھے تھے۔ کچھ ذمہ داریوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور کچھ لوگ نیند کے قید خانے میں مقید تھے۔
سردی کی خوبصورت صبح اور میدان میں کوئی نہیں ؟ بڑا عجیب معلوم ہو رہا تھا۔نرم و ملائم دھوپ میدان کے چاروں طرف پھیل چکی تھی۔ دوسرے گاؤں سے الگ یہاں کا رام لیلا میدان، نہایت ہی سر سبز و شاداب تھا۔ اس میدان کے درمیان میں زمین کا وہ حصہ بھی تھا جہاں دسہرے کے دن راون کو بانس اور بلیوں کی مدد سے زبردستی کھڑا کیا جاتا تھا۔ اسی بغیر گھانس والے حصے پر عید کے موقع پر پیش امام صاحب بھی نماز کے لیے کھڑے ہوتے کیونکہ زمین کے آ دھے حصے میں عید کی نمازِ ادا کی جاتی اور صفیں میدان کے درمیان سے شروع ہوتیں ۔بقیہ آ دھے حصے میں عید کا میلا لگتا۔
دراصل یہ کھیل کود کا میدان تھا، ایک چھوٹا گارڈن بھی اور ساتھ ہی رام لیلا کا میدان بھی۔ یہیں عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر نمازیں بھی ادا کی جاتی تھیں ،اسی لیے یہ جگہ گاؤں کی مسلم آبادی میں عید گاہ کے طور پر مشہور تھی۔ میدان کے تینوں طرف کی دیواریں بالکل سالم تھیں ،صرف پیچھے کی ایک دیوار تھوڑی سی ٹوٹ گئی تھی جس کی وجہ سے مین گیٹ کے علاوہ ایک اور راستہ وجود میں آچکا تھا۔
عبدل چاچا کے کبوتر خانے کے تقریباً سبھی دروازے کھل چکے تھے۔ میدان میں ایک طرف جہاں جہاں عبدل چاچا نے دانے اور پانی کی کٹوریاں رکھی تھی وہاں گٹرگوں کا کیرتن کرتے ہوئے سبھی کبوتر اپنی اپنی پیٹ پوجا میں مگن تھے۔ برجو کاکا کی مرغیاں بھی میدان میں چہل قدمی کرتے ہوئے گشت کر رہی تھیں ۔کاکا کا مرغاصبح کی اذان کا فریضہ ادا کر کے ٹہل رہا تھا۔ بانو بی کی بکریاں اپنے میمنوں کے ہمراہ میدان کی دوسری جانب اپنی خوراک کی تلاش میں مصروف تھیں ۔
ادھر میدان کے سب سے قریبی مکان کی چھت پر شویتا ابھی ابھی چارپائی پر چادر بچھا کر چاول اور مونگ دال کے پاپڑ ڈال کر صبح کا ناشتہ بنانے اندر جا چکی تھیں ۔ اسی طرف رام پرساد اپنی چھت پر لگے ڈش ٹی وی کے تاروں کو جوڑنے کی تگ و دو میں صبح سے پریشان تھے۔ یہاں سے دیکھنے پر ہر چھت پر ڈش ہی ڈش اور باقی جگہوں پر الیکٹرک اور کیبل کے تاروں کا جال بچھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بڑے بڑے بینر ہورڈنگ اور موبائل ٹاورز بھی چاروں طرف نظر آتے ہیں ۔
گاؤں تو بس نام ہی کا تھا ۔ شکل و صورت سے کسی مصروف شہر سے کم نہ تھا۔ آس پاس رام پرساد کا وہ واحد مکان تھا جہاں سے سارا میدان دکھائی دیتا ہے۔ پڑوس کی سلمیٰ ابھی ابھی اپنی چھت پر لگی رسیوں پر گیلے کپڑے ڈال کر نیچے اتری تھی۔ ایک تو دن چھوٹا اس پر صرف تین سے چار گھنٹے ہی دھوپ سلمیٰ کی چھت کو میسر تھی۔ باقی دھوپ سورج کے زاویے بدلتے ہی سامنے والے رام پرساد کی دو منزلہ عمارت کھا جایا کرتی تھی۔ یہ تمام مکان میدان کے ایک طرف تھے اور میدان کے باقی تینوں جانب سڑکیں تھیں جہاں مسلسل کار، موٹر سائیکل اور اسکوٹی پر لوگ آتے جاتے نظر آرہے تھے۔
صبح کے تقریباً نو بج چکے تھے۔ سڑکوں پر گاڑیوں اور آنے جانے والوں کی تعداد مسلسل بڑھنے لگی تھی۔ میدان کے سامنے کی رِنگ روڈ پر اب بڑے بڑے ٹرک اور بسیں تیزی سے دھول اڑاتی ہوئی دوڑ رہی تھیں ۔ لیکن اب تک میدان بالکل خالی تھا۔ دور دور تک مرغیوں ، کبوتروں اور بکریوں کے سوا کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔ نہ آدم نہ آدم زاد۔۔۔!
تبھی گیٹ پر رام کھڑا کچھ سوچ رہا تھا۔ ایک ہاتھ سے مسلسل گیٹ کے ایک حصے کو آگے پیچھے کر رہا تھا۔۔۔ دروازے سے نکلنے والی چوں چوں کی آوازیں شاید اس کے کانوں کے پردے تک تو پہنچ رہیں تھیں لیکن اس کی سوچ و فکر میں کوئی خلل واقع نہ ہوا۔ اس نے دور تک پھیلے ہوئے میدان پر ایک نظر ڈالی اور دھیرے دھیرے آ گے بڑھنے لگا۔
رام کے ہاتھ میں کرکٹ کے بلے جیسا کچھ نظر آ رہا تھا مگر اس کی لمبائی کرکٹ کے بلے سے کچھ کم تھی۔ وہ بلا نہیں تھا،وہ تو کپڑوں کی دھلائی میں استعمال ہونے والی پیٹنی تھی۔
لیکن اس پیٹنی کا میدان میں کیا کام؟ آخر رام اس پیٹنی کے ساتھ یہاں اس میدان میں کیا کر رہا تھا؟ مالی اعتبار سے رام کا تعلق اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے سے ہے اور وہ ایک عمدہ قسم کا بلا تو خرید ہی سکتا تھا۔اگر خرید بھی لیتا تو کرکٹ آ خر کس کے ساتھ کھیلتا؟ اس کے علاوہ میدان میں تو کوئی اور تھا ہی نہیں ۔ رام اب بالکل وہاں کھڑا تھا جہاں دسہرے کے دن راون کو کھڑا کیا جاتا ہے۔ رام چاروں طرف دیکھنے لگا کہ کوئی آئے تو کرکٹ کا کھیل شروع کیا جائے۔ یہ تو اس کھیل کی ریت ہے کہ بلے بازی کرنے کے لیے گیند باز کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ وہ بے چین نظروں سے ادھر ادھر دیکھتا رہا اور یہ بھی سوچتا رہا کہ آخر دنیا میں وہ کون کون سے کھیل ہیں جو بغیر مخالفین کے کھیلے جاتے ہیں ۔
’’کاش کوئی آئے۔۔۔ اور وہ گیند بازی کے لیے بھی تیار ہو جائے۔۔۔ تو بڑا مزا آئے۔۔۔‘‘
رام بڑبڑاتا ہوا دوبارہ چاروں طرف دیکھنے لگا، لیکن اب تک وہ میدان میں تنہا ہی کھڑا تھا۔
تبھی پیچھے ٹوٹی دیوار والے راستے سے رحیم بھی میدان میں داخل ہوا۔ رام نے جیسے ہی رحیم کو دیکھا، مسکرا اٹھا۔۔۔
’’ارے واہ یہ رحیم تو بڑے وقت پر آیا ہے۔ آج پھر سے اسے ہی راضی کرتا ہوں گیند بازی کے لیے۔۔۔‘‘
وہ رحیم کو پیٹنی دکھاتے ہوئے زور سے چلایا، ’’اوے رحیم چل آجا کرکٹ کھیلتے ہیں ۔۔۔‘‘
رحیم زور سے چلایا، ’’ارے واہ ‘‘ اور دوڑتے ہوئے رام کے قریب میدان کے درمیان پہنچ گیا۔ رام بلائے اور رحیم نہ آئے ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔۔!! آخر دونوں کی دوستی کے قصے سارے گاؤں میں یوں ہی مشہور نہ تھے۔
’’چل لا بیٹ دے رام‘‘ رحیم نے ہانپتے ہوئے کہا۔
’’نا منا نا۔۔۔ آج تو ہم بلے بازی کریں گے اور تم گیند بازی کرنا۔‘‘
’’لیکن گیند ہے کہاں ؟‘‘ رحیم نے حیرت سے پوچھا۔
’’ارے ہاں گیند تو ہے ہی نہیں ، رکو میں ابھی لاتا ہوں ۔۔۔‘‘ رام نے بیٹ بغل میں دباتے ہوئے کہا۔
’’ارے بیوقوف اب گیند لانے اپنے گھر جاؤ گے؟ ایک کام کرتے ہیں وہ دیکھو جھاڑ پر پتنگ اور مانجھا نظر آ رہا ہے۔‘‘
اتنا کہہ کر رحیم نے کچھ دیر کی مشقت کے بعدمانجھا حاصل کر لیا۔ تب رام نے آس پاس سے بہت سارے کاغذ اور کپڑوں کے ٹکڑے ڈھونڈھ کر جمع کر لیے۔ میدان کی ٹوٹی ہوئی دیوار سے رحیم نے ایک اینٹ نکال کر اسے زور سے زمین پر پٹکا۔ اس کے ردعمل سے حاصل شدہ اینٹ کے چند ٹکڑوں کو کاغذ اور کپڑے میں لپیٹ کر دونوں پتنگ کے مانجھے اس پر لپٹنے لگے۔ سارا مانجھا ختم ہونے پر اب رحیم کے ہاتھوں میں ایک اچھی خاصی گیند موجود تھی۔
میدان کے درمیان جہاں گھانس نہیں تھی وہاں لکڑی کی مدد سے پچ کا نقشہ کریدنے لگے تھوڑی ہی دیر میں میدان کے درمیان ایک پچ موجود تھی۔ اب اسٹمپ کی ضرورت تھی۔ اسٹمپ کا انتظام کچھ دشوار نہ تھا میدان کے دو طرف جھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھیں ۔ دونوں نے بڑی پھرتی سے بالکل سیدھی سیدھی چھ لکڑیاں توڑ کر جمع کر لیں اور خوشی خوشی دونوں تین تین لکڑیاں پچ کے دونوں طرف گاڑنے لگے۔
اب دونوں بالکل تیار تھے۔ مقابلہ شروع ہونے والا تھا۔ رام نے بیٹ اور رحیم نے گیند سنبھال لی۔ رام اب کریز پر بیٹ لیے ڈٹ گیا۔ ادھر رحیم نے گیند پھینکنے کے لیے جیسے ہی دوڑ شروع کی رام نے چیخ کر کہا،’’ارے یار! فیلڈر تو ایک بھی نہیں ؟ میں گیند ادھر اْدھر جہاں کہیں بھی ماروں تو اسے لائے گا کون؟‘‘
’’ہاں یار بات تو بالکل ٹھیک کہی تم نے اور ہمیں ایک وکٹ کیپر بھی درکار ہے۔۔۔‘‘ رحیم نے کہا۔
اب دونوں پچ کے درمیان سر کھجاتے ہوئے کھڑے ہو گئے۔ دونوں نے ایک ساتھ میدان کے چاروں طرف نظریں گھمائیں کہ ان دونوں کے علاوہ اور کوئی نظر آئے تو اس سے منت سماجت کرکے اسے فیلڈنگ کے لیے آمادہ کیا جائے۔ کافی دیر یوں ہی کھڑے رہنے کے بعد رام نے زور دار طریقے سے قہقہے لگاتے ہوئے بانو بی کی بکروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،
’’وہ رہے ہمارے فیلڈر!‘‘
رحیم نے کبوتر اور مرغیوں کی سمت دوڑتے ہوئے کہا، ’’انھیں میں پکڑتا ہوں یہ بھی آج فیلڈنگ کریں گے۔۔۔‘‘
اور دونوں ہی ان بے زبان جانوروں کو پکڑنے لگے۔۔۔
ان دونوں کے قہقہوں اور بکریوں ، مرغیوں اور کبوتروں کے شور سے سارا میدان گونج اٹھا۔۔۔ ایسا شور برپا ہوا کہ چھت پر ڈش کی تار جوڑنے میں مصروف رام پرساد دوڑتا ہوا چھت کی منڈیر پر آ پہنچا۔۔۔ اور زور زور سے چلانے لگا۔’’ پکڑو پکڑو۔۔۔ دیکھو رام اور رحیم کو پھر سے دورے شروع ہوگئے۔۔ پکڑو۔۔ روکو!‘‘
رام پرساد کی آوازیں سن کر سلمیٰ اور شویتا دونوں ہی اپنی اپنی چھتوں پر آ گئیں اور وہ دونوں بھی زور زور سے چلانے لگیں ۔۔۔!بیچ بیچ میں دونوں اپنے اپنے شوہروں کو یعنی سلمیٰ آصف کو اور شویتا روہت کو پکارنے لگیں ۔
تھوڑی ہی دیر میں سارا محلہ میدان میں اکھٹا ہو گیا۔ رام کو روہت نے اور رحیم کو آصف نے دبوچ لیا۔
روہت رام کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر چلایا،
’’پاپا یہ کیا بچپنا ہے؟‘‘
رام بالکل سہم گیا۔ رام اپنے بیٹے روہت کی آنکھوں میں غصہ اور میدان میں موجود تماشائیوں کے چہرے پر ہنسی دیکھ کر سہم گیا اور بولا،’’ بیٹا ہم لوگ ان کو بھی اپنے ساتھ کھلا رہے ہیں ۔ یہ ہمارے لیے فیلڈنگ کریں گے۔‘‘
تبھی مجمع میں سے کسی نے کہا، ’’ اور امپائرنگ کرنے کے لیے جنگل سے شیر کو بلوا لیں کیا چاچا؟‘‘سارے لوگ بے تحاشہ ہنسنے لگے۔۔۔
’’ آپ سمجھتے کیوں نہیں ؟ کیا چاہتے ہیں آپ؟ آپ یہ بھی نہیں سوچتے کہ آپ کے پوتے پوتیوں پر کیا اثرات ہوں گے ان حرکتوں کے۔۔۔؟ روہت نے شرمندگی سے کہا۔
ادھر آصف نے رحیم کے ہاتھوں سے کبوتروں کو آزاد کیا اور بولا، ’’ابو بس کرو۔۔۔ بند کرو یہ پاگل پن آپ کو آپ کے پوتے پوتیوں کی قسم۔۔۔ آپ کو اپنی عمر کا اب بالکل لحاظ نہیں ؟‘‘
رام پرساد نے دونوں کو سمجھاتے ہوئے کہا، ’’سنو روہت اور آصف اب وقت آ گیا ہے کہ ان دونوں کو پاگل خانے بھیج دیا جائے۔۔۔ ورنہ ایسے تو یہ پتہ نہیں ، کل کو اور کون سا کارنامہ انجام دے دیں ؟‘‘
بانو بی نے اپنی ساڑھی کا پلو کمر میں کھونستے ہوئے کہا، ’’وہی تو میں بھی کہہ رہی ہوں ۔۔۔ آج ان بے زبان جانوروں کو پکڑ رہے ہیں کل کو اگر ہمارے بچوں کو پکڑ کر کچھ الٹا سیدھا کر دیا تو پھر کیا کروگے۔۔۔؟‘‘
تبھی رام چیخ کر بول اٹھا، ’’نہیں بہن بچے تو ہماری جان ہے۔۔۔ یہ بچے تو ہماری آنکھوں کا نور ہے۔۔۔ ہم ایسا کچھ نہیں کریں گے۔۔۔‘‘
’’بیٹا آصف اب اس میدان میں کوئی نہیں کھیلتا؟ ہم کس کو پکڑیں گے۔۔ کوئی بچہ نہیں آتا۔۔۔ ہم کیوں پکڑیں گے۔۔۔ صبح سے شام ہو جاتی ہے سارے بچے موبائل، کمپیوٹر اور ٹی وی میں ہی لگے رہتے ہیں ۔۔۔ اب کوئی نہیں آتا۔۔۔ اب کوئی نہیں آتا۔۔۔ سب مصروف ہیں ۔۔۔ سب مصروف ہیں !‘‘ یہ سب کہتے ہوئے رحیم کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں تھیں ۔
سلمیٰ نے کہا، ’’ اب یہ دونوں برداشت کے باہر ہو چکے ہیں ۔۔۔ آپ لوگ ابھی کے ابھی فون لگاؤ اور پاگل خانے کی گاڑی بلاؤ۔۔۔ ورنہ میں تو چلی مائیکے۔۔۔‘‘
’’میں بھی ایک سیکنڈ اب یہاں نہیں رک سکتی ۔۔۔ میں بھی چلی مائکے۔۔۔‘‘ شویتا نے سلمیٰ کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
فون کرتے ہی تھوڑی دیر میں پاگل خانے کی گاڑی رام لیلا میدان کے بالکل درمیان میں کھڑی تھی۔ رام اور رحیم کو کسی طرح رسیوں سے باندھ کر رکھا گیا تھا۔ گاڑی آتے ہی انھیں گاڑی میں زبردستی بٹھایا گیا۔ اب گاڑی کی جالیوں سے چار پتھرائی ہوئی آنکھیں باہر جھانک رہی تھی۔
گاؤں کے تمام ہی بچے اور نوجوان لڑکے لڑکیاں اس منظر کو اپنے اپنے موبائل میں قید کرتے رہے جب تک کہ پاگل خانے کی یہ گاڑی رام لیلا میدان کے گیٹ کو پار نہ کر گئی۔۔۔!!
٭٭٭
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔