Interview with Shamsur Rahman Farooqi

Articles

شمس الرحمن فاروقی سے ایک گفتگو

شمس الرحمن فاروقی

شمس الرحمن فاروقی سے ایک گفتگو

قاسم ندیم : فاروقی صاحب ‘ کیا کسی فن پارے کے عرفان کے لیے اس کے تخلیق کار کی شخصیت سے آگہی ضروری ہے؟
شمس الرحمٰن فاروقی :دنیا کے اکثر بڑے فن کار وں کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں، یا کچھ نہیں جانتے ۔ شخصیت تو دور کی چیز ہے، ان کے زمانے کا بھی تعین ٹھیک سے نہیں ہوسکتا۔ بلکہ بعض کے بارے میں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کا وجود تھا کہ نہیں۔ مثال کے طور پر سورداس اور ہومر دونوں کے بارے میں شک ہے کہ یہ ایک ہی شخص تھے یا کئی لوگ یکے بعد دیگرے اس روایت میں شامل ہوتے گئے جسے ہم سورداس کی روایت یا ہومر کی روایت کہتے ہیں۔ عرب کے بعض جاہلی شعراءکے بارے میں بھی کہاجاتا ہے کہ اصلاً ان کا وجود نہ تھا۔ بہر حال اتنا تو ظاہر ہے کہ دنیا کے اکثر فن کاروں کی شخصیت کے بارے میں ہمیں کچھ بھی نہیں معلوم ۔ ایسی صورت میں کیوںکر کہا جاسکتا ہے کہ کسی فن پارے کے عرفان کے لیے اس کے بنانے والے کی شخصیت سے آگہی ضروری ہے؟
قاسم ندیم : جوں جوں مرزا غالب کی شخصیت کے پہلو اجاگر ہوتے گئے اسی تیز روی کے ساتھ ان کے کلام کو پرکھنے میں ، سمجھنے میں آسانیاں ہوتی گئیں۔ کیا اس نکتے میںغالب کی شخصیت سے آگہی کا پہلو مضمر ہے؟
شمس الرحمٰن فاروقی : میں نہیں سمجھتا کہ غالب کی شخصیت کے بارے میں ہمیں جو معلومات ”یادگارِ غالب“ ، ”اردوے معلیٰ“ اور ”عود ہندی“ سے حاصل ہوئی ہیں ان پر کوئی قابلِ ذکر اضافہ ان کتابوں کی اشاعت کے بعد ہوا ہے۔ ویسے یہ خیال ہی بالکل مہمل ہے کہ ہمیں غالب کی شخصیت کے بارے میں جتنا معلوم ہے مولانا حالی کو اس سے کم معلوم تھا۔ لہٰذا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ گذشتہ سو سوا سو برس میں غالب کی شخصیت کے پہلو آہستہ آہستہ ہم پر روشن ہوتے گئے ہیں۔
قاسم ندیم : آپ نے ”تفہیم غالب“ لکھی ۔ اسے قلم بند کرنے میں آپ کو کیا دشواریاں پیش آئیں؟
شمس الرحمٰن فاروقی : پہلی دشواری تو یہ تھی کہ غالب کے کلام کو ان کے عہد اور ان کے پیش روﺅں کے حوالے سے سمجھا جائے ۔یعنی یہ دیکھا جائے کہ غالب جس شعری روایت کے پروردہ اور نمائندہ تھے اس میں شاعری کی کیا تعریف تھی اور غالب کے زمانے کا ادبی معاشرہ شاعر سے کیا توقع رکھتا تھا؟ ان باتوں کو معلوم کرنا اور سمجھنا مجھے بہت مشکل معلوم ہوا۔ دوسری مشکل یہ تھی کہ غالب نے دو طرح کے الفاظ استعمال کےے ہےں۔اےک تو وہ جو عام لوگوں کے لےے نامانوس ہےں،اور اےک وہ جو بظاہر مانوس اورسادہ ہےں لےکن ان مےں بعض اےسے معنی بھی ہےں جن کی خبر عام لوگوں کو نہےں،لےکن وہ معنی غالب کے شعر کے لےے کار آمد ہےں۔پہلی طرح کے الفاظ کو تو پہچاننا کچھ مشکل نہےں لےکن دوسری طرح کے لفاظ کو پہچاننے کے لےے زبان اور شعر دونوں کا زندہ اور سچا ذوق ہونا چاہےے۔بڑی شاعری کے ہر شارح کی طرح ۔مجھے بھی قدم قدم پر چوکس رہنا پڑتا تھا کہ کس لفظ کا کوئی کار آمد پہلو مجھ سے چھوٹ نہ جائے ۔تےسری مشکل ےہ تھی کہ غالب نے کچھ اےسے الفاظ بھی استعمال کئے ہےں۔جو عام طور پر لغات مےں نہےں ملتے ۔لہٰذ غالب کے شارح کی حےثےت سے مجھے ضروری تھا کہ فارسی کے بڑے لغات کو زےر مطالعہ رکھوں اور ےہ بڑے لغات عام طور پر دستےاب نہےں ۔واضح رہے کہ بڑے لغت سے مےری مراد صرف حجم نہےں بلکہ لغت کا مستند ہونا بھی ہے۔مثال کے طور پر کسی صاحب نے علامہ کالی داس گپتا رضا کے حوالے سے لکھا ہے کہ ”جگر تشنہ“کا فقرہ کسی فارسی لغت مےں نہےں ملتا اور غالب نے جو مصرع ”دل جگر تشنہ¿ فرےاد آےا“ لکھا ہے وہ بےدل کی نقل مےں لکھا ہے ‘ورنہ فارسی لغات مےں ےہ ترکےب نہےں ملتی۔علامہ کالی داس گپتا رضا با علم آدمی تھے۔لےکن اگر انھوں نے اےسا لکھا ہے(جس مےں مجھے شک ہے)تو انھوں نے غلطی کی ہے ۔جہانگےر کے عہد مےں اےک بہت عمدہ لغت مولوی محمدلاد نے ”موےد الفضلا“نام کا مرتب کےا تھا۔اس مےں”جگر تشنہ¿“کا اندراج موجود ہے اور معنی وہی ہےں جو عام طور پر بےان کےے گئے ہےں ےعنی ”مشتاق“۔اس طرح طبا طبائی نے لکھا ہے کہ شعر
چھوڑانہ مجھ مےں ضعف نے رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بار نقش محبت ہی کےوں نہ ہو
مےں لفظ ”رنگ“فقط لفظ ”نقش“کی مناسبت سے استعمال کےا گےا ہے ورنہ ےہاں رنگ کا معنوی اعتبار سے کوئی خاص کام نہےں۔لےکن ”برہان قاطع“مےں لفظ ”رنگ“کے اےک دو نہےں تےنتےس(۳۳)معنی درج ہےں۔ان مےں کئی معنی اےسے ہےں جو غالب کے شعر کے لےے کار آمد ہےں۔مثلاً طاقت،خون،زور اور قوت اور توانائی ‘طرز ورزش ۔اگر طبا طبائی نے لغت ملاخطہ فرماےا ہوتا تو وہ ےہ گمان نہ کرتے کی غالب نے محض لفظی مناسبت کو ملحوظ رکھا ہے۔
قاسم ندیم : کےا آپ کی نگاہ مےں ےہ تکمےلےت کی سطح کا کام ہے؟
شمس الرحمٰن فاروقی :اپنی حد تک تو وہ کام مکمل ہے۔لےکن ظاہر ہے کہ ابھی غالب کے بہت سے اشعار تلاش کےے جاسکتے ہےں جن مےں معنی کے اےسے پہلو ہےں جو گذشتہ شارحےن کی نظر سے پوشےدہ رہے ہےں۔مےں اس کتاب کا دوسرا اےڈےشن تےار کر رہا ہوں ۔اس مےں چار پانچ اشعار کی تفہےم کا اضافہ کروں گا۔
قاسم ندیم : آپ نے اس کام کو صرف سو اشعار تک ہی محدود رکھا ؟اگر آپ چاہتے تو شعر شعور انگےز کی طرح” دےوانِ غالب “کا احاطہ کرسکتے تھے۔اےسا کےوں ممکن نہ ہوسکا؟
شمس الرحمٰن فاروقی :دونوں کتابوں کی نوعےت الگ الگ ہے۔”تفہےم غالب“کا مقصد ےہ تھا کہ غالب کے ان اشعار پر اظہارِ خےال کےا جائے جن مےں کوئی اےسا پہلو ہو جو دوسرے شارحےن کی نظر سے اوجھل رہ گےا ہو”شعر شعور انگےز“مےں نے دراصل پہلے محض مےر کے انتخاب کے طور پر شروع کی تھی ۔پھر ےہ خےال آےا کہ مےر کے ےہاں اےسے اشعار کی کمی نہےں جن مےں معنی کی کئی تہےں پوشےدہ ہےں اور وہ اتنے سادہ نہےں ہےں جتنے کہ وہ بظاہر نظر آتے ہےں ۔لہٰذا اےسے اشعار پر کچھ نہ کچھ لکھنا کار آمد ہوگا۔لےکن جب مےں نے اس نےت سے اشعار کو دےکھنا شروع کےا تو محسوس ہوا کہ ہر شعر مےں کوئی نا کوئی بات ہے جس کی طرف اگر نشاندہی نہ کی جائے تو ممکن ہے کہ عام پڑھنے والے کی نظر اس بات تک نہ پہنچے۔لہٰذا مےںنے فےصلہ کےا کہ ہر شعر پر اطہارِ خےال کروں گا ۔اس طرح مےر کے انتخاب کی جگہ مےرا کام مےر کے منتخب کلام کے تجزےاتی اور تقابلی مطالعے کی شکل اختےار کر گےا ۔جب کئی سو صفحے لکھ لےے تو مجھے خےال آےا کہ مےر کے کلام کا مطالعہ اور تجزےہ مےں جس انداز سے اور جن اصول نقد کی روشنی مےں قلمبند کر رہا ہوں ان کی وضاحت اور مےر کے بارے مےں مےرے تنقےدی موقف کا بےان بھی ضروری ہے ۔لہٰذا مےں نے اےک دےباچہ لکھا جو بذاتِ خود مستقل کتاب بن گےا۔کام مزےد آگے بڑھا تو شعر کی تعبےر اور تفہےم پر کچھ نظرےاتی بحث بھی لکھنا ضروری معلوم ہوا۔ےہ مضمون بھی اےک چھوٹی سی کتاب کے برابر ہوگےا اور اسے مےں نے جلد دوم کے دےباچے کے طور پر کتاب مےں شامل کر لےا۔جب کام تقرےباً مکمل ہوگےا تو مےں نے محسوس کےا کہ کلاسےکی اردو غزل کی شعرےات جس کی بنا پر اور جس کی روشنی مےں مےں نے مےر اور دوسرے کلاسےکی شعرا کو سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔اس پر کوئی نظری بحث اردو مےں نہےں ملتی اور اگر اےسی کچھ تحرےر کتاب مےں شامل کر لی جائے تو اس کی افادےت مےں اضافہ ہوسکتا ہے ۔اس طرح اےک اور کتاب وجود مےں آگئی جسے مےں نے دو حصوں مےں تقسےم کرکے جلد سوم اور چہارم کے دےباچے کی شکل دے دی ۔اب آپ دےکھ ہی سکتے ہےں کہ اس کام کا نقشہ ”تفہےم غالب“سے بالکل مختلف ہے۔
قاسم ندیم : فی لحال آپ اقبال پر بھی کام کر رہے ہےں۔اقبال پر اتنا کام ہو چکا ہے کہ شمار کرنا دشوار ہے ۔پھر کےا سبب ہے کہ آپ اس موضوع پر مزےد لکھنا چاہتے ہےں؟
شمس الرحمٰن فاروقی :مےرا خےال ہے کہ بڑی شاعری کی تنقےد اور تعبےر کے امکانات کبھی ختم نہےں ہوتے ۔اور جہاں تک اقبال کا معاملہ ہے ‘مےں سمجھتا ہوں کہ ابھی اقبال کے بہت سے پہلواےسے ہےں جن پر بہت کم لکھا گےا ہے ہمارا زیادہ زور اقبال کو فلسفی اور اسلامی مفکر ثابت کرنے میں صرف ہواہے۔اقبال بڑے شاعر ہیں یہ سب کو معلوم ہے۔لیکن وہ بڑے شاعر کیوں ہیں یہ شاید کم لوگوں کو معلوم ہے۔
قاسم ندیم : اقبال کی ذہنی اور تہذیبی رو کا مشاہدہ کریں تو لگتا ہے کہ اقبال نے اپنے فلسفیانہ ذہن سے سائنس اور مذہب کے درمیان ایک نیا توازن ڈھونڈنکالنے کی کوشش کی ہے۔کیا آپ کے خیال میں اقبال اس عمل میں کامیاب ہیں؟
شمس الرحمٰن فاروقی :ذہنی اور تہذیبی رو سے آپ کی کیا مراد ہے،میں سمجھ نہیں سکا۔اور اگر ایسی کوئی چیز ہے بھی تومجھے نہیں معلوم کہ اس کا مشاہدہ کیوںکر ممکن ہے؟ویسے میرا خیال ہے کہ اقبال نے سائنس اور مذہب کے درمیان کوئی توازن وغیرہ قائم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔جہاں تک میں سمجھا ہوں اقبال کی نظر میں سائنس ایک نسبتاً غیر اہم شئے تھی۔یعنی سائنس محض ٹکنالوجی کے طور پر انسان کے کام آسکتی تھی۔رہا سوال ان چیزوں کا جنھیں سائنسی افکار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ،تو میرے خیال میں اقبال اس نظریے کے حامل تھے کہ مابعد الطبیعیانی اور مذہبی فکر کی مدد سے سائنسی افکار بھی سمجھے جاسکتے ہیں۔
قاسم ندیم : اقبال ضابطہ اور عمل کو تصور اور سپردگی پر فوقیت دیتے ہیں۔لیکن وہ تصور پر ست اور عینیت پسند بھی رہے ہیں۔انھوں نے لینن کو خدا کے حضور میں کھڑا کردیا ۔اس کا سبب کیا ہوسکتا ہے؟
شمس الرحمٰن فاروقی :اقبال یقیناًضابطہ اور عمل کے آدمی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عشق کی سپردگی کے قائل نہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ اقبال کا عشق دراصل رسول ہے۔اور رسول کے سامنے وہ اپنے پوری طرح بے دست و پا کردیتے ہیں۔یہ ان کی بڑائی کا ایک پہلو ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عینیت پرست ہیں۔اگر عینیت سے آپ کی مراد افلاطونی عینیت ہے یا وہ نو افلاطون عینیت ہے جس کا آغاز فلاطینوس سے ہوتا ہے اور جس نے مسلمان صوفیا کو متاثر کیا تو اقبال کے یہاں افلاطونی عینیت یا نو افلاطونی عینیت جیسی کوئی چیز نہیں۔ان کے کچھ آدرش ضرور ہیں لیکن آدرش ہمیشہ عمل کی تلقین دیتے ہیں۔آدرش پرستی کا مطلب تصویر پرستی ہر گز نہیں۔رہا سوال نظم”لینن خدا کے حضور میں“کا تو اس کا تعلق نہ آدرش سے ہے اور نہ عمل سے۔یہ ایک دلچسپ مگر پیچیدہ نظم ہے۔کائنات کا سارا نظام اللہ کے ہاتھ میںہے۔اور اللہ رحیم و کریم ہے۔اس کے باوجود دنیا میں دکھ،درد،غم ،ظلم اور بے انصافی بھی ہے۔تو پھر نظام کائنات کی بنا انصاف پر کیوںکر قرار دی جائے؟یہ اور اس طرح کے بہت سے سوال ہیں جنھیں سلجھانے کی کوشش میں انسانی عقل ہزاروں برس سے گرفتار ہے۔اقبال نے اس نظم میں اپنے شکوک اور شبہات کولینن کے زبان سے پیش کیا ہے۔اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ ثابت بھی کردیا ہے کہ خدا موجود ہے ورنہ لینن کا اس کے حضور میں ہونا کیا معنی رکھتا ہے؟
قاسم ندیم : کیا آپ بھی سلیم احمد کی طرح اقبال کو ”حکیم الامت“کے بجائے مرد یا آدمی کے زمرے میں رکھنا پسند کریں گے؟
شمس الرحمٰن فاروقی :میں اقبال کو صرف شاعر سمجھنا بہتر سمجھتا ہوں ۔ان کا حکیم الامت ہونایا مرد یا آدمی ہونا ان کی شاعری کا ایک پہلو ہوسکتا ہے نہ کہ اس کے بر عکس ان کی شاعری کا ان کے حکیم الامت ہونے یا مرد یا آدمی ہونے کا ایک پہلو قرار دیا جائے۔
قاسم ندیم : فرقہ پرست حضرات اقبال کو پاکستان کا نظریہ پیش کرنے والا سمجھتے ہیں ،یعنی تقسیم ملک کا ذمہ دار حق بات تو یہ ہے کہ ان کے کام میں قومی یک جہتی کے تصور کی جتنی مثالیں موجود ہیں شاید ہی کسی اور شاعر کے یہاں ہوں۔اس سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
شمس الرحمٰن فاروقی :اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ کے اس جلسے میں جو ۰۳۹۱ میں الہ آباد میں منعقد ہوا تھا،اقبال نے جو صدارتی خطبہ دیا تھا اس میں یہ تجویز ملتی ہے کہ غیر منقسم ہندوستان کو آزاد اور فیڈریشن کی طرح قائم کرنا چاہئے ۔اس فیڈریشن میں مسلمان اکثریت کے جو صوبے ہوں گے انھیں بعض مرکزی معاملات کو چھوڑ کر باقی سب انتظامی امور میں خودمختار ی حاصل ہوگی۔لیکن اسے باقاعدہ تجویز نہیں کہا جاسکتا ۔اور بہر حال کسی تجویز کا پیش کرنا اور ملک کی تقسیم کا ذمہ دار ٹھہرانا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔تقسیم کی ذمہ داری مہاتما گاندھی،جواہر لال نہرو دوسرے اکابرین کانگریس اورمحمد علی جناح پر ہے۔اور ان سب سے زیادہ بڑے مجرم اس معاملے میں انگریزہیں۔رہا سوال اقبال کے کلام میں قومی یک جہتی کے تصور کا اظہار ہے کہ نہیں ،تو یقیناًہے اور ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ اظہار اور احساس اقبال کے یہاں دوسری زبانوں میں ان کے معاصر بہت سے بڑے ادیبوں سے زیادہ ہے۔
قاسم ندیم : فیض کو آپ نے اپنے پسندیدہ پانچ جدید شعراءمیں رکھا ہے۔کس بنا پر آپ نے انھیں جدید شاعر مانا ہے؟کیا اس لیے کہ ترقی پسندوں نے انھیں کنارے لگا دیا تھا؟
شمس الرحمٰن فاروقی :سب ترقی پسندوں نے نہیں،صرف کچھ نے،اور ہمیشہ کے لیے نہیں صرف کچھ مدت کے لیے فیض صاحب کے خلاف منفی خیالات کا اظہار ضرور کیا تھا۔لیکن ترقی پسندحلقوں میں کسی کا ردو قبول میرے لئے کوئی معیار نہیں۔ترقی پسند حضرات کسی کو بڑا شاعر مانیں یا نہ مانیں یہ ان کا اپنا معاملہ ہے۔یہ قطعی ناممکن ہے کہ میں کسی شاعر کو برا شاعر صرف اس لیے مانوں کہ ترقی پسند حضرات اس کے قائل نہیں ہیں۔اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ میں کسی کو بڑا شاعر صرف اس لیے مانوں کہ ترقی پسند حضرات اسے بڑا شاعر مانتے ہیں۔
جہاں تک سوال میرے پانچ پسندیدہ جدید شعرا کا ہے تو میں نے یہ نہیں کہا کہ فیض میرے پانچ پسندیدہ جدید شعرا میں ہیں۔میں نے یہ کہا ہے کہ اقبال کے بعد پانچ بڑے شعرا کی فہرست جو میرے حساب سے بنتی ہے وہ حسب ذیل ہے :میراجی،راشد،اخترالایمان ،مجید امجد اور فیض۔
قاسم ندیم : کیا آپ فیض پر بھی کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
شمس الرحمٰن فاروقی :جی نہیں ایک وقت میں مجھے امید تھی کہ میں ترقی پسند ادب پر ایک مفصل کتاب لکھوں گا لیکن افسوس کہ اب یہ ممکن نہ ہوگا ،کیوں کہ میں نے کچھ اور کام کئی سال ہوئے شروع کیے تھے وہ ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں اور اب میری عمر ختم ہونے کو آرہی ہے۔
قاسم ندیم : کیا اس قول میں صداقت ہے کہ ادب کے لیے تنقید سانس کی طرح ناگزیر ہے؟
شمس الرحمٰن فاروقی :کچھ اس طرح کی بات ٹی ایس الیٹ (T. S. Eliot) نے کبھی کہی تھی۔ لیکن اس سے اس کی مراد لازمی طور پر وہ تنقید نہیں تھی جو ہم آپ لکھتے یا پڑھتے ہیں۔ اس کی مراد یہ تھی کہ تنقیدی شعور کے بغیر تخلیقی کاروائی ممکن نہیں۔
قاسم ندیم : یہ بتائے کہ کیا کسی تخلیق کار کی عصری آگہی اس کی فکری اور جذباتی وحدت کا روپ اختیار کر سکتی ہے؟
شمس الرحمٰن فاروقی :”عصری آگہی “ کی اصطلاح سے تو میں واقف ہوں لیکن ” فکری اور جذباتی وحدت کا روپ اختیار کرنے“ سے کیا مطلب ہے ، میں نہیں سمجھا۔ اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ کیا فن کار کی عصری آگہی اس کے جذبات اور افکار پر اثر انداز ہوتی ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یقیناً اثرانداز ہوتی ہے، لیکن یہ اثراندازی ہر فن کار بلکہ ہر فن پارے میں مختلف کیفیت رکھتی ہے۔
قاسم ندیم : جس وقت آپ کی تخلیقات پر تنقید کی جاتی ہے اس وقت آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟
شمس الرحمٰن فاروقی : ذاکر صاحب کہتے تھے کہ اپنی تعریف سن کر خوش ہونا تو فطری بات ہے لیکن اس پر یقین کرلینا احمقوں کا شیوہ ہے۔ اسی کو پلٹ کر میں یوں کہتا ہوں کہ اپنی برائی پڑھ یا سن کر ناخوش ہونا تو بجا ہے لیکن اس پر یقین کرلینا بے وقوفی ہے۔ میں اپنے بارے میں بے تکلف یہ کہہ سکتا ہوں کہ چالیس برس سے زیادہ مدت کی تصنیفی اور تخلیقی زندگی میں مجھے دوہی چار تحریریں ایسی ملیں جن میں مجھ پر مدلل یا عالمانہ اعتراضات کیے گئے ہوں۔
قاسم ندیم : ادبی حلقوں میں دبے دبے انداز میں یہ بحث ہوتی رہی ہے کہ آپ کی نثر آپ کی شاعری پر حاوی ہوگئی ہے ۔ کیا آپ بھی یہی محسوس کرتے ہیں؟
شمس الرحمٰن فاروقی : اگر حاوی ہوجانے کے معنی یہ ہیں کہ میں نے نثر زیادہ لکھی ہے اور شعر کم ، تو یہ بات بالکل صحیح ہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ اگر تنقید لکھنے کے لیے مجھ پر اتنا دباﺅ نہ ہوتا تو میں نے اپنی شاعری پر زیادہ توجہ صرف کی ہوتی ۔ تنقید لکھنے کے لیے دباﺅ میرے اوپر شروع سے رہا ہے، اور کچھ میں نے بھی تنقید پر زیادہ توجہ صرف کی۔ شاید اس لیے کہ مجھے یہ خیال تھا کہ تنقید کے میدان میں جو باتیں میں کہنا چاہتا ہوں وہ کوئی اور نہیں کہہ رہا ہے، اور شاعری کا معاملہ یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی اللہ کا بندہ میری طرح کا شعر کہہ ہی دے گا۔ لیکن سچ پوچھیے تو ادھر دس پندرہ سال میں میرا یہ احساس شدید ہوگیا ہے کہ میری شاعری کچھ اس طرح کی ہے کہ اس جیسی شاعری کوئی اور نہیں لکھ رہا ہے۔
قاسم ندیم : آپ نے ”سبز اندر سبز“ میں بچوں کے لیے بھی کچھ نظمیں شامل کی ہیں۔ کیا آپ نے بچوں کے لیے اور بھی کچھ لکھا ہے؟
شمس الرحمٰن فاروقی : ”چار سمت کا دریا“ جو صرف رباعیوں کا مجموعہ ہے ، اس کو چھوڑ کر میرے دو مجموعوں میں بچوں کے لیے نظمیں شامل ہیں۔ میں نے بچوں کے لیے کچھ رباعیاں بھی کہی ہیں۔ لیکن وہ ”چار سمت کا دریا“ کے بہت بعد کی ہیں ‘ بلکہ ”آسماں محراب “ کے بھی بعد کی ہیں۔
قاسم ندیم : اردو رسم الخط کو دیوناگری میں تبدیل کرنے کے سلسلے میں اکثر کہا گیا ہے کہ اردو کا رسم الخط بدل کر ناگری کردیاجائے ۔ یہاں تک کہ احتشام صاحب نے بھی کچھ ایسی رائے ظاہر کی تھی۔ آخر پروفیسر احتشام حسین جیسے معزز اور معتبر بزرگ کے اردو رسم الخط کو دیوناگری میں بدلنے کی رائے دینے کے پسِ پشت کیا وجوہات رہی ہوں گی؟
شمس الرحمٰن فاروقی : اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی آزادی کے بعد اردو پر جو کڑا وقت پڑا اس سے گھبرا کر بعض ترقی پسند بزرگوں نے رائے ظاہر کی کہ اردو کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ اس کا رسم الخط دیوناگری کردیا جائے ۔ ان بزرگوں میں احتشام صاحب مرحوم بھی شامل تھے۔ لیکن جلد ہی انھوں نے اپنی رائے بدل لی تھی۔ چنانچہ ایک بار جب بعض ترقی پسند ادیبوں مثالاً عصمت چغتائی مرحومہ وغیرہ نے پھر یہ تجویز رکھی تو میری درخواست پر احتشام صاحب نے ایک مضمون لکھا جسے میں نے ”شب خون“ میں شائع کیا تھا۔ اس مضمون میں احتشام صاحب نے بہت زور دے کر رسم الخط کی تبدیلی کی مخالفت کی ، اور یہاں تک کہا کہ جو لوگ اردو رسم الخط بدل کر دیوناگری کرنا چاہتے ہیں وہ فاشی ہیں۔
قاسم ندیم : آپ کو سرسوتی سمّان سے نوازا گیا اور اردو کے تمام حلقوں کی طرف سے اس کا پرتپاک خیر مقدم کیا گیا۔ بے شک صرف اور صرف آپ اس اعزاز کے حق دار تھے ۔ کیا اردو کے خدمت گاروں میں کچھ ایسی ہستیاں اور بھی ہیں جنھیں اس طرح کے اعزاز سے نوازا جانا چاہیے؟
شمس الرحمٰن فاروقی : یقینا ہیں ۔ اور مجھے پوری امید ہے کہ یہ ایوارڈ ابھی اردو کے کئی ادیبوں کو ملے گا۔
قاسم ندیم : اگر نیّر مسعود صاحب کو ساہتیہ اکیڈمی انعام نہ دیا جاتا تو آپ کے تاثرات کیاہوتے؟
شمس الرحمٰن فاروقی : مجھے یقیناً افسوس ہوتا۔
قاسم ندیم :انعامات اور اعزازات کی بات چل رہی ہے تو ےہ بتائےے کہ (Booker)انعام اور نوبل انعام اردو کے نصےب مےں ہےں کہ نہےں؟اور ان اعزازات کے حق دار کون ہوسکتے ہےں؟
شمس الرحمٰن فاروقی :Bookerانعام تو انگرےزی کی کتابوں پر ملتا ہے ،لہٰذا اس کا کوئی امکان نہےں ۔نوبل انعام کا معاملہ ےہ ہے کہ ابھی کسی اردو ادےب کے حق مےں مغربی ممالک مےں عام تذکرہ اور چرچا نہےں ہوا ہے،اور ےہ بہت ضروری ہے۔
قاسم ندیم : گلوبلائزیشن کے اس دور میں مختلف تہذیبوں کا ٹکراﺅ جاری ہے۔ ایسے وقت میں شعرا اپنا کردار کس طرح ادا کر سکتے ہیں؟
شمس الرحمٰن فاروقی : تہذیبوں کے ٹکراﺅ کا تصور امریکی سامراج کا ایجاد کیا ہوا ہے۔ میں اس کو قبول نہیں کرتا ۔ دوسری بات یہ کہ تہذیبوں کا ٹکراﺅ ہو یا گلوبلائزیشن یا اور کوئی صورت حال ، شاعر (اور اس اصطلاح میں تمام تخلیقی فن کار شامل ہیں) کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز پر کان دھرتے ہوئے اچھے سے اچھا لکھے۔
قاسم ندیم : آپ نے ۶۶۹۱ءمیں ”شب خون“ جاری کیا ،ا س کے اسباب کیاتھے؟
شمس الرحمٰن فاروقی : اس کا پہلا سبب تو یہ تھا کہ نئے لکھنے والوں اور نئے سوچنے والوں (جن میں میں خود کو بھی شامل کرتا تھا) ‘ ان کے لیے لکھنے اور تبادلہ¿ خیال کا معتبر اور مستقل میدان مہیا کیا جائے۔دوسری بات یہ کہ ترقی پسند ادب اس وقت تک بڑی حد تک بے جان ہوچکا تھا اور ضرورت تھی کہ اس کی جگہ لینے کے لیے ایسا ادب سامنے لایا جائے جو نئے حالات کی نمائندگی کرتا ہو اور جو ترقی پسند ادب کی طرح نظریے کی انتہا پسندی کا شکار نہ ہو۔ تیسری بات یہ کہ اس زمانے میں الہٰ آباد میں کئی نئے لکھنے والے موجود تھے جنھیں قومی سطح پر متعارف ہونا چاہیے تھا۔ لیکن کوئی اچھا رسالہ ان کی دسترس میں نہ تھا۔ ایسے لکھنے والوں کے لیے بھی ایک جگہ درکا رتھی جسے میں نے ”شب خون“ کے ذریعے مہیا کرنے کی کوشش کی ۔ چوتھی بات یہ کہ اس وقت ہندوستان کے اکثر اچھے لکھنے والے پاکستانی پرچوں میں چھپنا پسند کرتے تھے کیونکہ وہ پاکستانی پرچوں کو دلکش اور معیاری سمجھتے تھے۔ اس کے برخلاف ، اس زمانے میں شاید ہی کوئی قابلِ ذکر پاکستانی ادیب رہا ہو جو ہندوستان میں چھپتا ہو۔ لہٰذا میں نے سوچا کہ ایک ایسا پرچہ نکالا جائے جس میں ہندوستان کے اچھے ادیبوں کو چھپنے کی خواہش ہو۔ اور اس طرح پاکستان کا رعب لوگوں کے دل سے زائل ہو۔ اسی فیصلے کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ میں نے شروع کے دوسال میں کسی پاکستانی ادیب کو ”شب خون“ میں شائع نہیں کیا۔ اور جب تیسرے برس سے انھیں شائع کرنا شروع کیا تو متعدد سربر آوردہ پاکستانی ادیب ہندوستان میں پہلی بار شائع ہوئے ۔ مثلاً انتظار حسین ، انور سجاد ، ظفر اقبال ‘وغیرہ۔
قاسم ندیم : صرف بتیس(۲۳) سال کی عمر میں آپ نے محسوس کرلیا تھا کہ آپ جدیدیت کی علم برداری کرسکتے ہیں؟
شمس الرحمٰن فاروقی : جدیدیت کی علم برداری وغیرہ کا کوئی تصور میرے ذہن میں نہ تھا۔ ممکن ہے ”جدیدیت“ کا لفظ بطور اصطلاح سب سے پہلے میں نے استعمال کیا ہو، میں اس بات میں یقین سے نہیں کہہ سکتا ۔ عسکری صاحب نے ”جدیدیت“ کا لفظ یورپی افکار کے حوالے سے ضرور استعمال کیا ہے ، لیکن اس سے ان کی مراد یورپی روشن فکری تھی نہ کہ وہ ادبی رجحان جسے ہم آپ جدیدیت کا نام دیتے ہیں۔ مغربی ادب میں بھی Modernismکی اصطلاح تقریباً انھیں معنی میں رائج ہے جن معنی میں ہمارے یہاں ”جدیدیت“ کی اصطلاح رائج ہے۔
قاسم ندیم : کیا اس زمانے میں جدیدیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہوئی تھی؟اردو میں جو مختلف تحریکیں وجود میں آئیں ان سے زبان و ادب کو نقصان ہوا یا فائدہ؟
شمس الرحمٰن فاروقی : دوسرے سوال کا جواب پہلے عرض کرتا ہوں۔ میرا جواب یہ ہے کہ کوئی بھی ادبی تحریک سرا سر نقصان دہ نہیں ہوتی۔ دیکھنے کی بات صرف یہ ہے کہ کسی تحریک کے اثرات کس حدتک منفی تھے اور کس حد تک مثبت۔ پہلے سوال کے جواب میں یہ عرض کروں گا کہ جدیدیت سے اختلاف بہت کیا گیا ۔ لیکن اس میں کم سے کم تین طرح کے اختلاف کی نشاندہی ہوسکتی ہے ۔(۱) پرانے وقتوں کے زیادہ تر سیدھے سادے لوگ جن کااختلاف ادبی بنیادوں پر تھا لیکن ادبی نظریات پر ان کی گرفت کچھ مضبوط نہ تھی ،اس لیے ان کا اختلاف زیادہ تر واویلا کی شکل میں ظاہر ہو۔ (۲) ترقی پسند ادیب ، جنھیں اپنی کرسی خطرے میں نظر آرہی تھی۔ (۳) عام طور پر بزرگ ادیب جو ہر طرح کی تبدیلی کے خلاف تھے۔
قاسم ندیم : جدیدیت کے متعلق ہمیشہ یہ بات کہی گئی ہے کہ اس میں جو تجربے ہوئے ہیں وہ ہماری زندگی سے مطابقت نہیں رکھتے۔ آپ سے بھی کئی لوگوں نے اس قسم کے سوالات کیے ہوں گے ۔ آپ نے انھیں کس طرح مطمئن کیا؟
شمس الرحمٰن فاروقی : مجھ سے اس معاملہ پر باقاعدہ سوال و جواب تو شاید کبھی نہیں ہوا ، اوراگر ہوا بھی ہوتا تو میں یہ دعویٰ نہ کرسکتا کہ میں نے سب کو مطمئن کردیا۔ یہ بات ضرور ہے کہ جدیدیت پر مختلف مضامین میں یہ اعتراض ضرور کیا گیا کہ جدیدیت سماجی شعور کی قائل نہیں اور نہ ادب میں سماجی معنویت دیکھنا چاہتی ہے۔ اسی طرح کے اعتراض کے ضمن میں یہ بھی کہا گیا کہ جدیدیت زندگی سے منقطع ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں غلط تھیں۔ کم سے کم میں نے تو ہمیشہ کہا کہ ادیب اپنے معاشرے کا اثر قبول کرتا ہے اور معاشرے میں رہ کر ہی ادب تخلیق کرتا ہے۔ ہاں میں نے اس بات سے انکار کیا اور اب بھی انکار کرتا ہوں کہ ادیب کا سماجی شعور یا سماجی زندگی کا ادب میں اظہار کسی خارجی دباﺅ کا پابند ہوتا ہے یا ہونا چاہیے۔ غور کیجئے تو ادیب کی آزادی اظہار پر اصرار کرنے کے معنی ہی یہی ہیں کہ ادیب کا سماجی شعور اور زندگی کے بارے میں اس کا ادراک کسی خارجی دباﺅ کا پابند نہ قرار دیا جائے۔
قاسم ندیم : کیا آپ مانتے ہیں کہ واقعی اس دور میں قاری ناپید ہوگیا تھا؟
شمس الرحمٰن فاروقی : یہ عجیب بات آپ نے کہی ۔ قاری کوئی پھول یا پھل تو ہے نہیں کہ کسی موسم میں نظر آئے اور کسی موسم میں ناپید ہوجائے ۔ ہمارا کہنا صرف یہ تھا کہ قاری کا احترام فرض ہے ، لیکن ادیب کا احترام بھی ہمارا فرض ہے اور یہی ہمارا پہلا فرض ہے۔ ادیب کو قاری کا محکوم نہ قرار دینا چاہیے۔ اگر ہم ادیب سے توقع کرتے ہیں کہ تخلیق کے کام میں وہ کوئی کوتاہی نہ کرے گا اور اپنی حیثیت اور استعداد کے مطابق بہترین ادب لکھے گا ، تو ہم قاری سے بھی توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنے اندر تخلیق کی فہم پیدا کرے اور اپنی ذہنی تربیت اس طرح کرے کہ وہ مختلف رنگوں کی تخلیقات کو سمجھنے کی اہلیت حاصل کرلے۔
قاسم ندیم : اگر مابعد جدیدیت کو ایک تحریک مان لیا جائے تو کیا یہ تمیز کرنا ممکن ہے کہ فلاں تخلیق جدیدیت یا ترقی پسند تصورات سے مبراہے ؟
شمس الرحمٰن فاروقی : مابعد جدیدیت کو آپ تحریک مانیں یا نہ مانیں اس کا اس مسئلے سے کوئی تعلق نہیں۔ جب مابعد جدیدیت کا نام بھی نہ تھا ، تب بھی یہ پہچاننا کچھ مشکل نہ تھا کہ کوئی فن پارہ ترقی پسند تصورات سے عاری ہے یا نہیں۔ مثلاً میراجی کی تمام شاعری ایسی ہے کہ اسے ترقی پسند نہیں کہا جاسکتا۔ یہی حال راشد اور اخترالایمان کی شاعری اور بیدی اور منٹو کے بیشتر فکشن کا ہے۔ اسی طرح جدید دور میں بھی ایسے بہت سے فن کار تھے جنھیں جدید نہیں کہا جاسکتا۔ یہ کہنا صحیح نہیں کہ اگر کوئی فن پارہ ترقی پسندی یا جدیدیت سے خالی ہے تو وہ مابعد جدید ہی ہوگا۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ میں آج تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ کون سے عناصر ہیں جن کی موجودگی کسی تخلیق کو مابعد جدید بنادیتی ہے۔ ہمارے دوست پروفیسر گو پی چند نارنگ نے آج تک کوئی ایسی فہرست نہیں مہیا کی ۔ اور ہمارے دوسرے دوست پروفیسر وہاب اشرفی نے جو کتاب اس موضوع پر لکھی ہے اس میں انھوں نے جس قسم کے فن پاروں کو مابعد جدید کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے ان میں تو مجھے جدیدیت بھی ٹھیک سے نظر نہیں آئی۔ مابعد جدیدیت کا کیا پوچھنا ہے۔ بلکہ وہاب صاحب نے اور خود نارنگ صاحب نے مابعد جدید ادیبوں کے طور پر جن لوگوں کے نام گنائے ہیں ان میں سے اکثر کوتو درجہ سوم کا بھی شاعر یا افسانہ نگار یا نقاد تسلیم کرنا مشکل ہے۔
قاسم ندیم : جب گوپی چند نارنگ صاحب ساہتیہ اکیڈمی کے صدر منتخب ہوئے تو آپ نے انھیں مبارکباد دی ۔ کیا نارنگ صاحب نے بھی آپ کا شکریہ ادا کیا؟
شمس الرحمٰن فاروقی : لوگ معلوم نہیں کیوں سمجھتے ہیں کہ گوپی چند نارنگ سے میری بات چیت نہیں ہے یا میرا ان سے کوئی جھگڑا ہے۔ادبی معاملات میں اختلاف رائے نہ کوئی نئی بات ہے نہ میری بات۔ بلکہ یہ رسم تو جدیدیت ہی کی قائم کردہ ہے کہ ہر شخص کواپنی رائے رکھنے کا حق ہے۔
قاسم ندیم : آپ کا وارث علوی سے بھی چھیڑ چلی جائے ہے والا معاملہ بھی رہا؟
شمس الرحمٰن فاروقی : وارث علوی سے کوئی ایسا معاملہ میرا کبھی نہیں رہا۔ہاں وارث علوی کبھی کبھی مجھے برا بھلا کہنے اور کبھی کبھی مجھے گوپی چند نارنگ کے مقابل کھڑا کرنے میں لطف لیتے رہے ہیں۔ لیکن یہ ان کا اپنا معاملہ ہے ، اور ممکن ہے کہ اس میں ان کے احساس غیر محفوظیت کو بھی کچھ دخل ہو۔ وارث علوی نے جب ترقی پسندی ترک کی اور جدیدیت اختیار کی تو اس وقت وہ ترقی پسندوں سے اس قدر خائف تھے کہ انھوں نے اپنے اولین مضامین ”ابن حسین“ کے نام سے لکھے۔ یہ سب مضامین ”شب خون“ میں چھپے۔ جب ان مضامین کا شہرہ ہوا اور انھیں مقبولیت ملی تو وارث علوی کو اپنا نام ظاہر کرنے کی ہمت ہوئی ۔ انھوں نے قبول کیا کہ وہ مضامین انھیں کے ہیں اور پھر آئندہ مضامین انھوں نے اپنے اصل نام یعنی وارث علوی کے نام سے لکھے۔ اور اب ظاہر ہے کہ وہ جدید ادب کی ایک بہت نمایاں ہستی ہیں تو شاید انھیں کبھی کبھی اپنے پرانے دن یاد آجاتے ہوں تو مجھ سے کچھ چھیڑ چھاڑ کرلیتے ہوں۔
قاسم ندیم :آپ اردو کے نقادوں میں سب سے زیادہ کسے پسند کرتے ہیں؟
شمس الرحمٰن فاروقی : محمد حسن عسکری پھر آل احمد سرور
قاسم ندیم : بیسویں میں اردو کے پانچ بڑے ناول نگاروں ، افسانہ نگاروں ، شاعروں اور ناقدوں اور محققین کی فہرست آپ بنادیں تو آنے والی نسلوں کے لیے سند بن جائے۔
شمس الرحمٰن فاروقی : مجھے فہرست بنانے میں لطف نہیں آتا۔ کچھ عرصہ ہوا زبیر رضوی کے رسالے ”ذہن جدید“ میں ناول نگاروں ، افسانہ نگاروں اور فکشن کے نقادوں کی فہرست بنانے کی فرمائش آئی تھی ۔ میں نے زبیر صاحب کا دل رکھنے کے لیے ایک فہرست بنادی تھی ، وہ آپ دیکھ لیں ۔مزید زحمت سے مجھے معاف رکھیں۔
قاسم ندیم : برصغیر کے اردو رسائل میں سے آپ کن کو پڑھنا پسند کرتے ہیں؟
شمس الرحمٰن فاروقی : میرے پاس جو رسالے آتے ہیں ان سب کو ایک نظر دیکھ لیتا ہوں ۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جنھیں فہرست کی حد تک دیکھتا ہوں۔
قاسم ندیم : نئی نسل کے لیے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
شمس الرحمٰن فاروقی : میں اپنے کو کسی خاص علم یا صلاحیت کا حامل نہیں سمجھتا اور اس لیے خود کو اس بات کا حق داربھی نہیں سمجھتا کہ نئی نسل کوکوئی پیغام دوں۔ لیکن اردو زبان اور ادب سے محبت کرنے والے ایک عام شخص کی حیثیت سے میں سب سے پہلی بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نوجوان نسل اردو زبان ، اس کے رسم الخط ،اور اس کے املا کے بارے میں کسی قسم کا مدافعانہ یا شرمندگی کا رویہ نہ رکھے بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر کہے کہ ہمیں اس زبان پر فخر ہے اور اس سے محبت ہے۔ ہمیں اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی اور اگر کوئی برائی ہو بھی تو ہم اسے اچھائی ہی سمجھتے ہیں کیونکہ محبت کرنے والے کو محبوب میں اچھائیاں ہی نظر آتی ہیں۔ نئے لوگ اردو زبان کے بارے میں یہ نہ گمان کریں کہ یہ لشکری زبان ہے یا مسلمانوں کی زبان ہے ، بلکہ یہ جانیں کہ اردو برصغیر میں پیدا ہوئی اور برصغیر کے تمام باسیوں کا اس پر حق ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ اپنی زبان کو سادہ ،شستہ ،بامحاورہ بنائیں۔ غیر زبانوں کے الفاظ سے گریز کریں خاص کر جب اردو زبان میں ان کے متبادل الفاظ موجود ہیں ۔ تیسری بات یہ کہ ادب سے محبت اور ادب کا مطالعہ کسی فائدے یا منفعت کی غرض سے نہ کریں بلکہ اردو زبان اور ادب سے بے غرض اور بے لوث محبت کو اپنی رگ رگ میں پیوست کرلیں۔ والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ
٭٭٭
مشمومہ ، سہ ماہی ”اردو چینل“ (شمس الرحمن فاروقی نمبر) جلد ۵ ، شمارہ ۴ (ستمبر 2003تا دسمبر 2004) صفحہ نمبر 94تا 102)