Caged sleep a Short Story by Noorain Ali Haq

Articles

پنجرے میں قید نیند

نورین علی حق

کافی کوششوں کے باوجودمجھے نیند نہیں آئی۔
نصف شب گزرچکی ہے۔ گھر کے تمام افراد اپنے اپنے کمروں میں سو رہے ہیں۔ آبا واجداد کی پیروی میں ہم آج بھی عشاء کے بعد عشائیہ کرتے ہیں اس کے بعد سب اپنے اپنے کمروں کے ہوجاتے ہیں۔
رات کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے،شاید میری نینداس کے اعداد و شمار پر مامور کردی گئی ہے، بستر پرکروٹیں بدل بدل کر تھک چکاہوں، چاہتا ہوں کہ اٹھ کر بجلی جلادوں۔ مگر ایسا کرنا اخلاقی تقاضے کے خلاف ہے۔ میرے بازو میں لیٹی ہوئی یہ عورت،جس کے منہ سے خراٹوں کی نکلتی ہوئی آوازیں، اس وقت مجھ پر خاصی ناگوار گزر رہی ہیں۔ وہ دن دن بھر میرے اور میرے بچوں کے کام کرتے ہوئے تھک جاتی ہے اور بستر پر آکر نڈھال پڑجاتی ہے۔ عرصے تک مجھے اس کی تھکن کا احساس ہی نہیں ہوا۔ بس اس کی ہڈیاں نچوڑنا اور پسلیاں توڑنا ہی میرا محبوب مشغلہ تھا۔ ان دنوں میرے رویوں میں تبدیلی آتی جارہی ہے یاشاید میں اس سے اکتاچکا ہوں یا میری جسمانی و نفسانی خواہشات دم توڑ رہی ہیں۔
اس کے خراٹے مسلسل جاری ہیں۔ وہ نیند کی وادی میں سیر کررہی ہے اور میں گم گشتہئ راہ اونٹ کی طرح سخت ترین اندھیری رات میں صحرا میں بھٹک رہا ہوں۔کالی،سیاہ ترین رات میں عجیب وغریب خوف ناک اور دل کو دہلادینے والی آوازیں میرے کانوں سے ٹکرارہی ہیں۔ میں ان آوازوں سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہوں۔ بھاگنا چاہتا ہوں،دور بہت دور بھاگ جانا چاہتا ہوں۔ میں نے جو آوازیں برسوں کے طویل عرصے میں وقفے وقفے سے سنی ہیں، وہ آپس میں خلط ملط ہورہی ہیں۔ مخلوط آوازیں کسی سیال کی طرح میرے کانوں کے اندر پہنچ کر مجھے ناقابل برداشت حد تک تکلیف پہنچا رہی ہیں۔ میرا جسم پسینے سے شرابور ہورہا ہے، میں نے خوف کے عالم میں اپنی آنکھیں کھول دی ہیں، اندھیرے کمرے میں ہر طرف سیاہ سایے منڈلا رہے ہیں، ناچ رہے ہیں۔ طرح طرح کی ڈراونی آوازیں نکال رہے ہیں۔ میں انہیں تاریکی میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ وہ میری طرف لپک رہے ہیں۔ ان کے بڑھے ہوئے ناخن، منہ سے باہر کو لٹکتی زبانیں،چوکور،سہ کور اور نہ جانے کن کن انداز کے ان کے چہرے، مجھے ڈرا رہے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھیں بھینچ لی ہیں۔ آنکھیں بند کرکے چادر میں منہ چھپالینے کے بعدان کی تعداد میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ ان کی آوازیں زیادہ کرخت، زیادہ دردناک، کچھ زیادہ ہی ڈراؤنی ہوتی جارہی ہیں۔ میں اپنے بستر پر کروٹیں بدل رہا ہوں۔ گویا شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپاکر آفت سے بچناچاہتا ہوں۔ نیند کی دیوی مجھ سے ناراض ہے، میں اس کی منتیں اور سماجتیں کررہا ہوں۔ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اسے پکار رہا ہوں۔ میرے پاس اس کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ وہ غائب ہے یا شاید ان سایوں نے اسے اغوا کرلیا ہے۔
میں ان آوازوں کو سن کر انہیں سمجھنا چاہتا ہوں۔ بند کمرے میں ان کے داخل ہونے کا راستہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں پریشان ہوں۔ آوازیں پوری طرح سمجھ میں نہیں آرہی ہیں۔ بستر کے اندر پڑے پڑے حبس کا احساس ہورہا ہے۔ زبان خشک ہوکر تالو سے چپک گئی ہے۔ میں بولنا چاہتا ہوں، بول نہیں پارہا ہوں۔ میری بیوی سورہی ہے۔ میں اسے جگانا چاہتا ہوں مگر وہ مجھے نظر نہیں آرہی ہے۔ ہر طرف سایے ہی سایے منڈلا رہے ہیں۔ دیواروں پر،روشن دانوں پر، کمرے کی کھڑکیوں پر، چھت کی دیواروں سے بھی چپکے ہوئے ہیں، کبھی ہنس رہے ہیں، کبھی رو رہے ہیں۔ ان کی ہنسی اور رونے کے درمیان میری بیوی کے خراٹے سخت ترین اندھیری رات میں ہونے والی موسلادھار بارش کے درمیان گرجنے والی بجلی کا کام کررہے ہیں۔
میں اپنے دونوں ہاتھوں کو ادھر ادھر مار رہا ہوں۔ دونوں پیروں کو پٹک رہا ہوں۔ کانوں کے پردوں کو پھاڑ دینے کی حد تک آوازیں بلند اور صاف ہوگئی ہیں البتہ ان آوازوں کے جنگل میں چند ہی آوازوں کو میں سمجھ پارہا ہوں۔ انتقام۔ انتقام۔ انتقام۔
ہر طرف سایے ہی سایے ہیں، ہر سایے کو مجھ سے شکایت ہے۔ وہ مجھ سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔ سایے میرے ذریعہ کی گئی ناانصافیوں کو چیخ چیخ کر بیان کررہے ہیں۔ ڈراؤنی آوازوں کے ساتھ میری طرف لپک ر ہے ہیں۔
”کیا ہوا؟“
”ہاتھ، پیر کیوں چلا رہے ہو؟“
میری بیوی جاگ چکی ہے، حیرت زدہ مجھے دیکھ رہی ہے، اٹھ کر بیٹھتے ہی اس نے اپنے ہاتھوں کے کٹورے میں میرے چہرے کو ڈال لیا، کبھی بغور دیکھ رہی ہے۔ کبھی اپنے نرم ملائم ہاتھوں سے میرا پسینہ پوچھ رہی ہے۔ اس کی آنکھوں میں میرے لیے ترحم کا دریا موجزن ہے۔ اس کے آنسو باہر نکلنے سے پہلے ہی میں بول پڑا ہوں۔
”کچھ نہیں ہوا۔“
”کیسے کچھ نہیں ہوا۔خواب دیکھ رہے تھے؟“
”نہیں بابا۔“ کچھ سوچتے ہوئے میں نے جواب۔
”تو پھرنیند میں ڈر گئے؟“
میں خاموش ہوں۔ مجھ میں جواب دینے کی ہمت نہیں ہے۔ لیکن اس کا یہ رویہ مجھے اچھا لگ رہا ہے۔ اس کے جاگنے سے تھوڑی ڈھارس تو بندھی ہے، مگر اس کے پھر سے سوجانے کے بعد کے خطرات میرے ذہن پر منڈلا رہے ہیں، وہ میرے بدبودار پسینے کواپنے نرم و نازک ہاتھوں سے خشک کررہی ہے۔ اضطراری کیفیت میں ہے۔ ہر طرف اپنے ہاتھ پھیرتی جارہی ہے۔ اس کے ہاتھ میں اس کے ڈوپٹے کا پلو ہے، جس سے وہ اپنے سر، بال، کاندھوں اور ہاتھوں کو ڈھک کر اکثر اپنی عبادتوں میں مصروف رہتی ہے۔ اس کا ڈوپٹہ میرے بدبودار پسینے سے اٹ گیا ہے۔ میرے بدبودار جسم کے بدبودار پسینے سے تر اپنے ڈوپٹے کے پلو کو وہ اپنے داہنے ہاتھ میں لیے رونی سی آواز میں کہہ رہی ہے۔
”آخر کیا ہوگیا تمہیں۔ اتنے ڈرے ہوئے کیوں ہو؟“
”نہیں،نہیں۔۔“
میری آوازمجھے بہت دور سے آتی محسوس ہورہی ہے جنگل کے درختوں اور جھاڑیو ں کے درمیان سے یا دور پانی کی لہروں میں ڈوبتی جارہی ہے۔بیوی کے جگنے کے بعد خوف ناک سایے میرے ارد گردخاموش کھڑے ایک دوسرے کو کچھ اشارے کررہے ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں، میری کیفیت دِگرگوں ہے۔ بیوی کی موجودگی کی وجہ سے مجھ میں تھوڑی ہمت تو ہے مگروہ میری آنکھوں سے دور نہیں ہورہے ہیں۔ بیوی بستر سے اٹھ چکی ہے۔ بجلی کے کھٹکوں کے بورڈ کی طرف بڑھ رہی ہے، شاید بجلی جلا کر مجھے دیکھناچاہتی ہے۔میری حالت کا اندازہ لگانا چاہتی ہے۔میں نے اسے کچھ نہیں کہا وہ آگے بڑھ رہی ہے۔میرے اندر ایک بارپھر سراسیمگی پھیلتی جارہی ہے۔ خاموش سایے میرے قریب آتے جارہے ہیں۔ کالے، سخت سیاہ سایے میرے جانے پہچانے چہروں میں تبدیل ہورہے ہیں،ان کے چہروں کے تاثرات بھی بدل رہے ہیں۔ ایک منظر آتا ہے۔ پھر غائب ہوجاتا ہے۔ دوسرا منظر آتا ہے پھر وہ بھی غائب ہوجاتا ہے۔ کبھی انسان کبھی سایہ کبھی چہرہ کبھی سیاہی۔میں سوچ رہا ہوں یہ کون سا منظر ہے، یہ کون سا عالم ہے، ماضی کے دریچے وا ہونا چاہتے ہیں اور میں ماضی کو بالکل نہیں دیکھنا چاہتا۔
بیوی نے زیرو پاورکا بلب آن کردیا ہے۔ بلب کی مدھم روشنی میں مجھے دیکھ رہی ہے اور میں اس کے ساتھ تمام سایوں کو بھی دیکھ رہا ہوں۔ دائیں بائیں، اوپر نیچے۔ آگے، پیچھے، ہر طرف سایے ہیں،وہ بلب آن ہوتے ہی اپنے وجود میں سمٹتے جارہے ہیں، ان کے دیو ہیکل اجسام چھوٹے ہورہے ہیں، چھوٹا ہوتے ہوتے نقطوں اور چھوٹے چھوٹے ذروں میں تبدیل ہوکر خلا میں گھوم رہے ہیں۔ میری بیوی مجھے غور سے دیکھ رہی ہے۔ ایک آندھی چلی ہے۔ گردو غبار سے میرا بستر اور خود میں اٹ گیا ہوں۔ دیو ہیکل اجسام سے چھوٹے چھوٹے ذرات میں تبدیل ہونے والے سایے ناک،کان اور آنکھوں کے ذریعہ میرے پھیپھڑوں اورنہ جانے کہاں کہاں تک پہنچ رہے ہیں۔میں نے اپنے دونوں ہاتھ زور سے اپنے چہرے پر رکھ لیے ہیں۔ ناک، منہ اور کانوں کے سوراخوں کو بند کررہاہوں اور سایے کسی نہ کسی سوراخ سے میرے اندر داخل ہورہے ہیں۔ سایوں کا تانڈو کچھ کم ہوگیا ہے۔ پریشان سی بیوی میرے پاس آکر بیٹھ گئی ہے۔
”تمہارا چہرہ سرخ ہورہا ہے،بہت زیادہ ڈر گئے ہو۔ کیا پتہ خواب میں کیا دیکھا۔ اب بتاؤگے بھی نہیں۔ چلو کوئی نہیں۔“
وہ مسکرانے کی کوشش کررہی ہے، اس کا غم اس کی مسکراہٹ پر غالب ہے۔ میں بھی مسکرانے کی اداکاری کررہا ہوں۔ اس نے میرے سر کو اپنے زانو پر رکھ لیا ہے۔ میرے چہرے پر اپنا دایاں ہاتھ پھیر رہی ہے۔ میں نے کوئی ردعمل نہیں کیا۔ بس خالی خالی نگاہوں سے کبھی اسے اور کبھی چھت کو گھورتا رہا، وہ میری ناک، تھوڑی، ہونٹوں، کانوں کی لوؤں اور میرے رخساروں سے کھیلتی رہی۔ میرے چہرے پر ذرا شادابی لوٹی تو اس نے میرے سر کو دبانا شروع کردیا۔ آہستہ آہستہ میرے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیرنے لگی۔کافی دیر تک میرے سر کو دبانے کے بعد اس نے اپنے ایک پیر کو سیدھا کرلیا۔ پھر تھوڑی دیر تک مجھے دیکھتی رہی۔ شاید میری حالت کا اندازہ لگارہی ہے۔ میرے اندر کی گھٹن اور چہرے سے خوف کے آثار کم ہونے لگے ہیں۔ میرا چہرہ پرسکون نظر آرہا ہے۔ مجھے غنودگی آرہی ہے۔ بہت سنبھل کراس نے میرے سر کو تکئے پر رکھ دیا۔ شاید اسے بھی نیند آرہی ہے۔ اس کے باوجود میری دل بستگی کے لیے یہ سب کچھ کررہی ہے۔ یا یوں کہیے کہ اپنے فرائض ادا کررہی ہے، جس کی تعلیم اسے ماں کی گود سے ملنی شروع ہوگئی تھی۔ تکئے پر سرجاتے ہی میں چونک گیا ہوں۔ اس نے جلدی میں اپنے دونوں پیر سیدھے کیے۔ اس کے پیر میرے پیٹ اور رانوں سے مس کرتے ہوئے نیچے کی طرف بڑھ گئے۔ وہ اپنے پیروں کے ناخنوں سے میرے پیروں کو کھرچ رہی ہے۔ ہم دائیں کروٹ لیٹے ہوئے ہیں۔ درمیان میں فاصلہ نہیں ہے۔ اس کا بایاں ہاتھ میری پشت پر ہے۔ ذرا دیر اس نے اپنے ہاتھ سے میری پیٹھ سہلائی پھر اس کا ہاتھ میرے سر کے پچھلے حصہ سے جالگا اور کہنی میری پیٹھ پر ٹکی رہی۔ میری سانسیں اس کی سانسوں سے ٹکرارہی ہیں۔ اس نے میرے بائیں رخسار پر اپنا داہنا رخسار رکھ کر چادر تان لی۔ ہم دونوں چادر کے اندر ہیں۔
”اب کیسا لگ رہا ہے؟ ٹھیک ہو؟”
”ہوں۔۔۔ٹھیک ہوں۔۔۔“
”پھر آواز اتنی غم زدہ کیوں ہے؟“
اس نے میرے رخسار سے اپنا چہرہ ہٹالیا۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرا رہی ہے۔ اپنی ناک میری ناک سے ٹکرارہی ہے۔
”آج کتنے اچھے لگ رہے ہو، ہمیشہ اسی طرح معصوم اور شریف بن کر رہا کرو۔عرصے بعد رات کو بھی تم انسان ہو۔“
اس کے گرم گرم بوسے،سے میرے دل کی دنیا بدل رہی ہے۔ کوئی اور رات ہوتی تو اس کے اظہار محبت کا جواب اس سے زیادہ ٹوٹ کر میں دیتا۔
”تمہیں یاد ہے نینی تال کی وہ رات، تم نے مجھے کتنا پریشان کیا تھا، ساری رات جگانے کے باوجود صبح ہی صبح اٹھ کر تیار ہوگئے تھے“۔
میں نے اپنی آنکھیں کھول کر اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجالی اور آنکھوں سے اس کے سوال کا جواب دیا۔وہ بھی مسکرارتی رہی،اس نے اپنے رخسار کو ایک بارپھر میرے رخسار پر رکھ دیا اور شرماتی ہوئی نازواداکے ساتھ میرے کان میں کہا”بہت اچھے ہوتم۔“
جوابا مسکراتے ہوئے میں نے اس کے رخسار کا بوسہ لیااور چہرے کو اپنی جگہ لے آیا۔اپنااوراس کا ماضی میری نگاہوں کے سامنے ہے۔اس کے جذبات،محبت،جاں نثاری کی حد تک عشق کا غلبہ،گھریلوذمہ داریوں کی خوش اسلوبی کے ساتھ ادائیگی،میری چھوٹی بڑی خواہشات اورضروریات کا خیال رکھناوہ اب تک اپنے ضروری کاموں سے زیادہ اہم سمجھتی ہے۔
وہ اپنی رومیں بولتی جارہی ہے۔نینی تال کے ہوٹل،ہوٹل کا کھانا،ناشتہ،وہاں کی جھیلیں،کھائیاں،جنگلات سب اس کے ذہن پر نقش ہیں۔
”کتنامزہ آیاتھا۔وہاں بوٹ میں گھومنے میں،دورتک پانی ہی پانی،تاحد نظر پہاڑوں کا سلسلہ،جھیل کے کنارے کنارے اورپہاڑوں پرعجیب وغریب اوردلکش اندازمیں بنے ہوئے گھر۔دیکھنے میں ہی آنکھوں کو کتنا سکون ملتا ہے اوردوسری طرف گھنے جنگل۔ میرے روکنے کے باوجود تم بوٹ کو لوگوں کی نگاہوں سے دور لیے جارہے تھے۔اللہ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ تم…………تم توواقعی شروع کے بے غیرت ہو۔میں نے جب ایسے ویسے کاموں سے روکا تو تم چڑھ گئے۔لیکن برہمی کا اظہار نہیں کیا۔ ہنسنے اور کھیلنے کے انداز میں جھیل کا پانی ہاتھ میں لے کر مجھ پر ڈالتے رہے۔تمہیں شرم بھی نہیں آرہی تھی کہ میں بھیگ رہی ہوں۔“
سفرنامہ سن کرمیں ہاں ہوں کررہاہوں۔غنودگی اس پرحاوی ہوتی جارہی ہے اور وہ سفرنامہ سنائے جارہی ہے۔میری پیٹھ کھل گئی ہے۔اس نے چادر درست کی اور پھر سے ہم دونوں چادرکے اندرہیں۔ ہمارے چہرے کھلے ہوئے ہیں۔زیروپاورکا بلب کمرے میں ہلکی اورملگجی روشنی کا احساس کرارہا ہے۔
میں اس کے اوراپنے ماضی کے سحر سے باہر نہیں نکل سکاہوں۔وہ جب سے مجھے ملی ہے، ایک پجارن کی طرح بے لوث مجھے پوجے جارہی ہے۔اسے مجھ پر ناقابل یقین حد تک یقین ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اب تک وہ میرے ساتھ ہے۔ورنہ میرارویہ اس کے ساتھ ہمیشہ منافقانہ رہا۔ وہ ایک مشرقی عورت ہے۔گھر سے باہر میں کیاکررہاہوں۔اسے کبھی کوئی مطلب نہیں رہا اور میں ہمیشہ لاوارث جانوروں کی طرح کسی بھی کھیت میں منہ مارنے کی کوششیں کرتارہا۔ مجھ سے عمر میں بڑی ہویاچھوٹی،اسٹوڈینٹ ہویاشاپ کیپر،پڑوسی ہویارشتے کی بھابھی یاراہ چلتی ہوئی کوئی ادھیڑ عمرعورت۔کوئی میری آنکھوں سے بچ نہیں سکی۔نظرنہ آنے والاانچ ٹیپ ہمیشہ میری آنکھوں کی پتلیوں میں تیار رہتا ہے اورطرفہ تماشایہ کہ میرے پاس اچھی خاصی داڑھی بھی ہے،سراورداڑھی میں گنے چنے بال ہوں گے،جوکالے رہ گئے ہیں۔میں خود کو مذہب کا ٹھیکیدار بھی بزعم خود مانتاہوں۔اپنے اعمال کو درست ثابت کرنے کے لیے قرآن وحدیث کے نصوص سے دلائل بھی اکٹھا کرلیتاہوں۔ کبھی تعلیم وتعلم کے پیشے سے وابستہ نہیں رہا۔ آباواجداد کی کتابیں اوربیاضیں پڑھ کر ترغیب ملی اورمطالعے کے شوق نے پڑھنے لکھنے کی طرف مائل کردیا۔
وہ نینی تال کی کہانی سناتے سناتے میرے نامکمل اورادھورے جواب سے اکتاکر تھک کر سوچکی ہے۔میں اس کے چہرے کوبغوردیکھ رہاہوں۔اس کی سانسیں ذراتیز تیز چل رہی ہیں،خراٹے کی آواز ابھی نہیں آرہی ہے۔میں پھر سے خوف محسوس کررہاہوں۔دل ہی دل میں دعاکررہاہوں کہ یہ خراٹے نہ بھرے۔میں آنکھوں کی پتلیاں ادھر ادھر گھمارہاہوں۔میرے وجود کے اندر عجیب سی اینٹھن ہورہی ہے۔میرے پیٹ،سینہ اورآنتوں میں کچھ پھنساہواہے،شاید وہ سایے آہستہ آہستہ باہرآرہے ہیں، جوتھوڑی دیر پہلے میرے اندرچلے گئے تھے۔میری بیوی نے کروٹ بدل لی ہے اور بے خبر سورہی ہے۔میں نہیں چاہتاکہ اسے پھر سے جگادوں۔مگرمیری حالت ابترہے۔میں جمائیاں لے رہاہوں،سونا چاہتا ہوں مگرنیند نہیں آرہی ہے۔باربارچھینک رہاہوں۔ میری ناک میں کوئی چیز اٹکی ہوئی ہے۔کانوں میں انگلیاں ڈال رہاہوں،انہیں کھینچ رہاہوں،سرپرہاتھ پھیر رہاہوں۔دل کی گہرائیوں سے نیندکو پکاررہاہوں۔ بستر پرپڑے پڑے اکتاہٹ ہورہی ہے اورسایوں کی تعدادبڑھتی جارہی ہے۔میں چت لیٹ کر چھت کوتاک رہاہوں۔ میرے اوپرسیلنگ فین کے پاس ایک سایہ پنجرے میں میری نیند کو قیدکیے ہوئے ہے۔وہ میرے چہرے کے بالکل اوپر پنجرے کوزورزورسے ہلارہا ہے،میں دیکھ رہاہوں۔میری نیندپنجرے میں قیدہے اورپنجرے کے اندرجھٹکے کھارہی ہے،لہولہان ہورہی ہے۔میں اپنا داہناہاتھ اس کی طرف بارباراٹھارہاہوں،میرے اٹھے ہوئے ہاتھ کودیکھ کر سایہ قہقہ لگا رہاہے۔مجھے چڑا رہا ہے۔ آواز یں بلند کررہا ہے۔لو……لے لواپنی نینداور زورزورسے پنجرے کو جھٹکے دے رہاہے۔اس کے ساتھی بھی تالیاں ماررہے ہیں اورٹھٹھاکررہے ہیں۔رونگٹے کھڑے کردینے والی مکروہ ترین آوازیں نکال رہے ہیں، بارباراپنے چہرو ں کے تاثرات بدل رہے ہیں۔میں ان کی یہ حرکت دیکھ کر غصے سے پاگل ہورہاہوں۔ سایے کوپکڑ کر زبردستی اپنی نیند کو چھین لینا چاہتاہوں۔لیکن میر ے پاس خاموشی اورسراسیمگی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔بیوی کروٹیں بدلتے ہوئے مجھ سے دورہوتی جارہی ہے۔میں پھر سے پسینے پسینے ہوچکاہوں۔آدھے سر میں دردہورہاہے۔باربارجمائی آرہی ہے۔آنکھوں میں چبھن ہورہی ہے۔بستر پرکروٹیں بدل بدل کرعاجز آچکاہوں اورکمرے میں سایوں کاتانڈوبڑھتاجارہا ہے۔میرے بدبودارپسینے سے میرابستربھیگ رہاہے۔میری بدبوخود میرے لیے پریشانی کاسبب بن رہی ہے۔
میں اکتاکراپنے کمرے سے نکل گیاہوں۔صحن کی کھڑکی سے سڑک کودیکھ رہاہوں۔سڑک پرھوکاعالم ہے۔آسمان پر چاند ستارے کہیں نظرنہیں آرہے ہیں۔اسٹریٹ لائٹ جلی ہوئی ہے،جس سے دھندلی اورپیلی روشنی نکل رہی ہے۔فضاخاصی مغموم ہے۔صحن میں بھی رکنے کا دل نہیں چاہ رہا ہے۔ یہاں بھی ہرطرف سایے ہیں۔وہ سایہ اب بھی اپنے ہاتھ میں پنجرہ لیے میرے پیچھے پیچھے چل رہاہے۔میری طرف پنجرے کو بڑھا رہا ہے اورپھر اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ میں پنجرے کی طرف لپک رہاہوں اور سایہ مجھ سے دوربھاگ رہاہے۔میں اس کے پیچھے دوڑرہاہوں۔وہ آگے پیچھے، دائیں بائیں،مجھے گھمائے جارہاہے اورمیں اس کاتعاقب کررہاہوں۔میں الٹے سیدھے جملے ادا کر رہوں،چیخ چیخ کرسایوں کو گالیاں دے رہا ہوں۔ نیندکوحاصل نہ کرپانے کے قلق اورشکست خوردگی کے احساس کے ساتھ میں اس ہال میں آ گیاہوں،جہاں خصوصی تقریبات ہوتی ہیں اورمہمانوں کے لیے بھی وہی مخصوص ہے۔ہال میں ایک روحانی محفل سجی ہوئی ہے۔لوگوں کاازدحام ہے،ہارمونیم اوردَف کی تھاپ کے ساتھ توری صورت کے بلہاری نجام،سب سکھین میں چنر موری میلی،دیکھ ہنسیں نرناری،سب سکھین میں چنر موری میلی،میلی میلی کی آوازمیرے کانوں سے ٹکرارہی ہے۔میں نے ہال کا دروازہ اندر سے بند کر لیا ہے۔غورسے محفل میں شریک لوگوں کو دیکھ رہاہوں۔یہ میرے جانے پہچانے چہرے ہیں۔ان پر وجد وحال طاری ہے۔مسندنشیں کودیکھ رہاہوں۔وہاں کوئی اورنہیں،کلف کیے ہوئے کرتے پاجامے،صدری اورٹوپی میں ملبوس خود میں ہوں۔محفل میں موجود میرے چہرے پرروحانیت ہے۔ہال کے دروازے کے سمت مخالف میں قدآدم شیشہ ہے۔اپنے روحانی چہرے کودیکھنے کے بعد میری نظرشیشے پرچلی گئی ہے۔شیشے میں نظرآنے والامیں،محفل میں موجودمسندنشیں سے بالکل مختلف ہے۔شیشے میں،میں دیکھ رہاہوں، میرے داہنے ہاتھ کی آستین،ہاتھ سے باہر ہے، بائیں ہاتھ کی آستین کہنی تک چڑھی ہوئی ہے۔کرتے کے بٹن کھلے ہوئے ہیں،داڑھی اورسرکے بال ادھرادھربکھرے ہوئے ہیں،ایک پائنچہ میرے پیرسے باہر نکلاہواہے۔دوسراپنڈلی تک چڑھاہواہے۔میری حالت بدترہے۔شیشے میں میراسراپاایک پاگل کی طرح اورگندگی میں اٹاہوانظرآرہاہے۔کسی نے میراایک بازو پکڑ کر اپنی طرف مخاطب کیا ہے۔میں اس کی طرف مڑگیاہوں۔میری نظروں کے سامنے وہ سایہ ہے،جس کے ہاتھ میں پنجرہ ہے،اس میں میری نیند قید ہے۔وہ شیشے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہاہے۔تمہاری کون سے تصویر حقیقی ہے،شیشے والی یامحفل والی۔یک بہ یک میری نگاہیں اپنے قدموں پر ٹک گئی ہیں۔میں اپنے داہنے پیر کے ناخن سے زمین کھرچ رہاہوں اورقدموں کودیکھے جارہوں۔اس نے پھر کہاہے۔ ”خاموش کیوں ہو، بتاؤ اپنی حقیقت۔“ضبط کا باندھ ٹوٹ گیا ہے، زور زور سے بے خودی کے عالم میں چیخ رہاہوں۔میرے منہ سے کانپتی بلکتی ھاھاھاھا،ھوھوھوکی آوازیں نکل رہی ہیں۔چوں یک جرعہ رسید ازوے بہ حافظ۔ہمہ عقل وخرد بیکار دیدم کی آوازفضا کو مرتعش کررہی ہے۔ایک مخصوص دھن میں سب سکھین میں چنر موری میلی،اب کی بہارے چنر موری رنگ دے کی تکرار میرے کانوں سے ٹکرارہی ہے،میں ایک ہاتھ کی پشت کو دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر تیز تیز مار رہاہوں اور بلند ہوتی آوازوں کو دہراتاجارہاہوں۔ کبھی ہاتھوں کو سر سے اوپر اٹھا رہاہوں،کبھی چہرے پر مار رہاہوں اور کبھی ایک کی ہتھیلی پر دوسری کی پشت ماررہاہوں۔میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے بالوں کوزورزورسے کھینچتے ہوئے زمین پر گھٹنے ٹیک دیے ہیں،گریہ وزاری کررہاہوں۔ میرا جسم ہچکولے کھارہا ہے۔سب سکھین میں،سب سکھین میں،سب سکھین میں چنر موری میلی۔
—————-
یہ افسانہ سہ ماہی ادبی مجلہ ’’اردو چینل‘‘ کے شمارہ ۳۸ میں شائع ہوچکا ہے۔