Prem Chand: life and critical study

Articles

پریم چند کا افسانہ کفن

پریم چند

پریم چند : ایک نظر میں

قمر صدیقی

پریم چند کا خاندانی نام دھنپت رائے تھا۔۳۱؍ جولائی۱۸۸۰ء کو اترپردیش کے مردم خیز شہر بنارس سے چار پانچ میل دورایک چھوٹے سے گائوں لمہی میں پیدا ہوئے۔ احباب خانہ انھیں پیار سے نواب رائے کے نام سے پکارتے تھے۔ بعد ازاں انھوں نے اسی نام سے کچھ تحریریں بھی قلمبند کیں۔ منشی پریم چند کے والد منشی عجائب لال ڈاکخانے میں ملازم تھے۔ پریم چند کی ابتدائی تعلیم گائوں میں ہوئی ۔ اردو اور فارسی پڑھنے کے بعد انٹرنس کا امتحان پاس کرکے پرائمری اسکول میں ٹیچر ہوگئے۔ چونکہ پریم چند کو تعلیم کا شوق تھا لہٰذا تعلیم کا سلسلہ منقطع نہ ہونے دیا اور ترقی کرتے کرتے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔
پریم چند کو لکھنے پڑھنے کا شوق بچپن ہی سے تھا۔ ۱۹۰۲ء میں ٹریننگ کے لیے الہ آباد کے ایک کالج میں داخل ہوئے تو ان کی طبیعت ناول نگاری کی طرف ملتفت ہوئی۔ یہیں انھوں نے اپنا پہلا ناول ’’اسرارِ معبد‘‘ کے نام سے لکھنا شروع کیا جس کی کچھ قسطیں بنارس کے ایک رسالے میں شائع ہوئیں۔ اسی زمانے میں پریم چند نے رسالہ ’’زمانہ‘‘کانپور کے لیے پابندی سے افسانے اور مضامین بھی لکھنے شروع کیے۔ ۱۹۰۸ء میں ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’سوزِ وطن‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔چونکہ اس مجموعہ میں شامل مشمولات حب وطن اور آزادی کے جذبات سے مملو تھے۔ لہٰذا انگریز حکومت سے اسے ضبط کرکے نذرِ آتش کردیا۔’’سوزِ وطن‘‘ تک کی بیشتر تحریریں پریم چند نے نواب رائے قلمی نام سے تحریر کی تھیں۔ انگریزوں کے معاندانہ رویہ کے پیش نظر منشی دیا نرائن نگم کے مشورے پرانھوں نے پریم چند کے قلمی نام سے لکھنا شروع کیا اور اسی نام سے مقبول ہوئے۔
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اردو افسانے کو ابتدائی دور میں ہی کچھ ایسے افسانہ نگار مل گئے جو ایک دوسرے سے قطعی مختلف مزاج رکھتے تھے۔ پریم چند ایک رجحان کی ترویج کر رہے تھے ، راشد الخیری دوسرے اورسجاد حید ر تیسرے نظریے و رجحان کے علمبردار تھے۔ لیکن پریم چند کی مقصدیت راشد الخیری کی اصلاح پسندی اور یلدرم کی رومانیت پر بازی لے گئی۔مقصدیت اور اصلاح کے پہلو نے پریم چند کے فن کو اتنا غیر معمولی بنادیا کہ وہ اردو افسانے کے سچے بنیاد گزار تسلیم کیے گئے۔ راشد الخیری اور سجاد حیدریلدرم کے رجحانات کی نیاز فتح پوری ، مجنوں گوکھپوری ، مہدی الافادی اور قاضی عبدالغفار کے بعد کوئی خاص تقلید نہ ہوئی۔ جبکہ پریم چند کی مقصدیت کا سدرشن ، علی عباس حسینی ، اعظم کریوی وغیرہ نے تتبع کیا اور ان بعد کے افسانہ نگاروں نے اس روایت کو مزید آگے بڑھانے میں معاونت کی۔اسی لیے سمجھا جانے لگا کہ پریم چند اردو افسانے کے موجد ہیں۔ لیکن یہ خیال درست نہیں ہے۔ مختصر افسانے کی ابتداکا سہرا توراشد الخیری اور سجاد حیدر یلدرم کے سر ہی بندھے گا۔ البتہ فنی اعتبار سے پریم چند راشد الخیری پر سبقت لے گئے ہیں۔
پریم چند کی افسانہ نگاری پر غور کیا جائے تو بتدریج ارتقانظر آتا ہے۔ ان کے پہلے افسانوی مجموعے ’’سوز وطن ‘‘ سے لے کر آخری دور کے مجموعوں ’’واردات ‘‘ اور ’’زادراہ‘‘ کے افسانوں میں واضح فرق ہے۔ لہٰذا ان کی فسانہ نگاری کے مختلف رویوں اور رجحان کے مطالعہ کے لیے اسے تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا دور۱۹۰۹ء سے لے کر۱۹۲۰ء کے عرصہ پر محیط ہے۔ دوسرا دور۱۹۲۰ء سے ۱۹۳۲ء تک اور تیسرا دور جو نسبتاً مختصر دور ہے یعنی۱۹۳۲ء سے۱۹۳۶ء تک ان کی زندگی کے آخری چار سال کا احاطہ کرتا ہے۔
پہلے دور کے ابتدائی برسوں میں داستانوی اور رومانی رنگ غالب ہے۔ جذبہ حب الوطنی سے سرشار پریم چند کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’سوز وطن‘‘ زمانہ پریس کانپور سے شائع ہوا تھا۔ جسے انگریز سرکارکے عتاب کا شکار ہونا پڑا۔اس کے بعد وہ تاریخ نگاری اور اصلاح ِمعاشرہ کی جانب متوجہ ہوئے۔ اس وقت تک پریم چند کے افسانوں میں فنی اور تکنیکی پختگی نہیں آئی تھی اور ان کی تحریروں میںداستانوی اسلوب غالب نظر آتا ہے۔ ۱۹۰۹ء سے۱۹۲۰ ء تک پریم چند ’’مہوبا‘‘ کے مقام پر ڈپٹی انسپکٹر آف اسکولز تھے۔ جہاں کے کھنڈرات نے شایدانہیں ہندوؤں کی عظمت ِ رفتہ کی یاد دلائی۔ غالباً اسی لیے انھوں نے سوچا ہوگا کہ حالیؔ کی طرح انہیں اپنے افسانوں کے ذریعہ ہندوقوم کی ماضی کی شان و شوکت اجاگرکرنا چاہیے۔ چنانچہ ’’رانی سارندھا‘‘۱۹۱۱ء میں اور۱۹۱۲ء میں’’راجہ ہردول‘‘ اور ’’آلھا‘‘ جیسے افسانے اسی جذبے کے تحت لکھے گئے۔
ان تاریخی اور نیم تاریخی افسانوں کے بعد اپنے دوسرے دور میں پریم چند نے قومی اور معاشرتی اصلاح کی طرف توجہ دی۔ انھوں نے ہندو معاشرے کی قبیح رسوم پر قلم اٹھایا اور بیوہ عورت کے مسائل ، بے جوڑ شادی ، جہیز کی لعنت اور چھوت چھات جیسے موضوعات پر افسانے لکھے۔افسانہ نگاری کے دوسرے دور میں پریم چند سیاست سے بھی متاثر نظر آتے ہیں۔ یہ دور برصغیر میں تحریکوں کا دور تھا۔ تحریک ِ خلافت، تحریک عدم تعاون، ستیہ گرہ، سول نافرمانی وغیرہ۔ برصغیر کے تمام باشندے ملک کی آزادی کے لیے پرجوش تھے۔ پریم چند نے سیاسی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے قلم کے ذریعہ اس مہم میں شرکت کا ارادہ کیا اور سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ وہ اگرچہ کوئی سیاسی آدمی نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے باقاعدہ طور پر سیاست میں حصہ لیا۔ لیکن شاید وہ سماجی موضوعات کے ساتھ ساتھ سیاسی موضوعات پر بھی کھل کر اظہارِ خیال کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے سرکاری ملازمت کا جو اگلے سے اتار پھینکا۔ اس دور کے افسانوں میں سیاست کا رنگ قدرے واضح طور پر جھلکتا ہے۔
افسانہ نگاری کے دوسرے دور میں پریم چند نے دیہی زندگی کی طرف بھی توجہ دی اور انھوں نے دیہاتی زندگی کے مسائل کواپنے بیشتر افسانوں کا موضوع بنایا۔ ’’پوس کی رات ‘‘ ،’’سواسیر گہیوں‘‘ اور دیگر افسانے کسانوں کی غربت و افلاس کی عکاسی کرتے ہیں۔پریم چند کے افسانوں کا آخری دور مختصر عرصے پرمحیط ہے لیکن یہی دور ان کے نظریات کی پختگی اور ترویج کا دور بھی ہے۔ اس دور کے افسانوں کے موضوعات بھی سیاسی زندگی سے متعلق ہیں ۔ لیکن فن اور معیار کے اعتبار سے پچھلے دونوں ادوار کے مقابلے میں بہت بلند ہیں۔’’سوز وطن‘‘ کے افسانوں کے بعد پریم چند کے قلم سے حج اکبر ،بوڑھی کاکی، دو بیل ، نئی بیوی اور زادِ راہ جیسے افسانے تخلیق ہوئے اور پھر ان کا فن بتدریج ارتقائی منازل طے کرتا رہا۔ یہاں تک کہ ’’کفن ‘‘جیسا افسانہ لکھ کر انہوں نے دنیائے ادب میں اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا۔
آخری دور کے افسانوں میں پریم چند ایک عظیم افسانہ نگار دکھائی دیتے ہیں۔ اس دور کے افسانے مقامی ہونے کے باوجود آفاقی کہلانے کے مستحق قرار دئیے جا سکتے ہیں ۔کیونکہ اب ان کے افسانوں میں وہ تمام خوبیاں پیدا ہو گئی تھیں جو اچھے اور معیاری افسانوں کا خاصہ سمجھی جاتی ہیں۔

کفن​

 پریم چند

جھونپڑے کے دروازے پر باپ اور بیٹا دونوں ایک بجھے ہوئے الاؤ کے سامنے خاموش بیٹھے ہوئے تھے ۔ اور اندر بیٹے کی نوجوان بیوی بدھیا دردِ زہ سے پچھاڑیں کھا رہی تھی ۔ اور رہ رہ کر اس کے منہ سے ایسی دل خراش صدا نکلتی تھی کہ دونوں کلیجہ تھام لیتے تھے _ جاڑوں کی رات تھی ، فضا سنّاٹے میں غرق۔ سارا گاؤں تاریکی میں جذب ہو گیا تھا ۔
گھیسو نے کہا ، ” معلوم ہوتا ہے بچیگی نہیں ۔ سارا دن تڑپتے ہو گیا ۔ جا ، دیکھ تو آ۔”
مادھو دردناک لہجے میں بولا ، ” مرنا ہی ہے تو جلدی مر کیوں نہیں جاتی ۔ دیکھ کر کیا کروں ”
” تو بڑا بیدرد ہے بے ۔ سال بھر جس کے ساتھ جندگانی کا سکھ بھوگا اسی کے ساتھ اتنی بیوپھائی ۔”
” تو مجھ سے تو اس کا تڑپنا اور ہاتھ پاؤں پٹکنا نہیں دیکھا جاتا ۔”
چماروں کا کنبہ تھا اور سارے گاؤں میں بدنام ۔ گھیسو اک دن کام کرتا تو تین دن آرام ۔ مادھو اتنا کام چور تھا کہ گھنٹہ بھر کام کرتا تو گھنٹے بھر چلم پیتا ۔ اسلئے انہیں کوئی رکھتا ہی نہ تھا ۔ گھر میں مٹّھی بھر اناج بھی موجود ہو تو ان کے لیے کام کرنے کی قسم تھی ۔ جب دو ایک فاقے ہو جاتے تو گھیسو درختوں پر چڑھ کر لکڑیاں توڑ لاتا اور مادھو بازار سے بیچ لاتا ۔ اور جب تک وہ پیسے رہتے دونوں ادھر ادھر مارے مارے پھرتے ۔ جب فاقے کی نوبت آ جاتی تو پھر لکڑیاں توڑتے ، یا کوئی مزدوری تلاش کرتے ۔ گاؤں میں کام کی کمی نہ تھی _ کاشتکاروں کا گاؤں تھا ۔ محنتی آدمی کے لئے پچاس کام تھے _ مگر ان دونوں کو لوگ اسی وقت بلاتے جب دو آدمیوں سے ایک کا کام پا کر بھی قناعت کر لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوتا ۔
کاش دونوں سادھو ہوتے تو انہیں قناعت اور توکّل کے لئے ضبطِ نفس کی مطلق ضرورت نہ ہوتی ۔ یہ ان کی خلقی صفت تھی ۔ عجیب زندگی تھی ان کی ۔ گھر میں مٹّی کے دو چار برتنوں کے سوا کوئی اثاثہ نہیں ۔ پھٹے چیتھڑوں سے اپنی عریانی ڈھانکے ہوئے ، دنیا کی فکروں سے آزاد ۔ قرض سے لدے ہوئے ۔ گالیاں بھی کھاتے ، مار بھی کھاتے ، مگر کوئی غم نہیں ۔ مسکین اتنے کہ وصولی کی مطلق امّید نہ ہونے پر بھی لوگ انہیں کچھ نہ کچھ قرض دے دیتے تھے ۔ مٹر یا آلو کی فصل میں کھیتوں سے مٹر یا آلو اکھاڑ لاتے اور بھون بھون کر کھا لیتے ۔ یا دس پانچ اوکھ توڑ لاتے اور رات کو چوستے ۔ گھیسو نے اسی زاہدانہ انداز سے ساٹھ سال کی عمر کاٹ دی ۔ اور مادھو بھی سعادتمند بیٹے کی طرح باپ کے نقشِ قدم پر چل رہا تھا ۔ بلکہ اس کا نام اور بھی روشن کر رہا تھا۔ اس وقت بھی دونوں الاؤ کے سامنے بیٹھے آلو بھون رہے تھے جو کسی کے کھیت سے کھود لائے تھے ۔ گھیسو کی بیوی کا تو مدّت ہوئی انتقال ہو گیا تھا ۔ مادھو کی شادی پچھلے سال ہوئی تھی ۔ جب سے یہ عورت آئی تھی اس نے اس خاندان میں تمدّن کی بنیاد ڈالی تھی ۔ پسائی کر کے ، گھاس چھیل کر ، وہ سیر بھر آٹے کا انتظام کر لیتی تھی ۔ اور ان دونوں بے غیرتوں کا دوزخ بھرتی رہتی تھی ۔ جب سے وہ آئی یہ دونوں اور بھی آرام طلب اور آلسی ہو گئے تھے۔ بلکہ کچھ اکڑنے بھی لگے تھے ۔ کوئی کام کرنے کو بلاتا تو بے نیازی کی شان سے دوگنی مزدوری مانگتے ۔ وہی عورت آج صبح سے دردِ زہ سے مر رہی تھی ۔ اور یہ دونوں شاید اسی انتظار میں تھے کہ وہ مر جائے تو آرام سے سوئیں ۔
گھیسو نے آلو نکال کر چھیلتے ہوئے کہا ، ” جا کر دیکھ تو کیا حالت ہے اس کی ۔ چڑیل کا پھساد ہوگا اور کیا ۔ یہاں تو اوجھا بھی ایک روپیہ مانگتا ہے ۔کس کے گھر سے آئے ۔”

مادھو کو اندیشہ تھا کہ وہ کوٹھری میں گیا تو گھیسو آلوؤں کا بڑا حصّہ صاف کر دیگا ۔ بولا ، ” مجھے وہاں ڈر لگتا ہے ۔،،

” ڈر کس بات کا ہے ۔ میں تو یہاں ہوں ہی ۔،،

” تو تمہیں جا کر دیکھو نہ ۔”

” میری عورت جب مری تھی تو میں تین دن اس کے پاس سے ہلا بھی نہیں _ اور پھر مجھ سے لجائیگی کہ نہیں ۔ کبھی اس کا منہ نہیں دیکھا ، آج اس کا اگھڑا ہوا بدن دیکھوں ! اسے تن کی سدھ بھی تو نہ ہوگی _ مجھے دیکھ لیگی تو کھل کر ہاتھ پاؤں بھی نہ پٹک سکےگی _”

” میں سوچتا ہوں کوئی بال بچّہ ہو گیا تو کیا ہوگا _ سونٹھ ، گڑ ، تیل ، کچھ بھی تو نہیں ہے گھر میں ۔،،

” سب کچھ آ جائیگا ۔ بھگوان بچّہ دیں تو ۔ جو لوگ ابھی ایک پیسہ نہیں دے رہے ہیں وہی تب بلا کر دینگے ۔ میرے نو لڑکے ہوئے ۔ گھر میں کبھی کچھ نہ تھا۔ مگر اسی طرح ہر بار کام چل گیا۔”
جس سماج میں رات دن محنت کرنے والوں کی حالت ان کی حالت سے کچھ بہت اچّھی نہ تھی ، اور کسانوں کے مقابلے میں وہ لوگ جو کسانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے ، کہیں زیادہ فارغ البال تھے ، وہاں اس قسم کی ذہنیت کا پیدا ہو جانا کوئی تعجّب کی بات نہ تھی _ ہم تو کہینگے گھیسو کسانوں کے مقابلے میں زیادہ باریک بین تھا _ اور کسانوں کی تہی دماغ جمعیت میں شامل ہونے کے بدلے شاطروں کی فتنہ پرداز جماعت میں شامل ہو گیا تھا _ ہاں اس میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ شاطروں کے آئین و آداب کی پابندی بھی کرتا _ اسلئے جہاں اس کی جماعت کے اور لوگ گاؤں کے سرغنہ اور مکھیا بنے ہوئے تھے ، اس پر سارا گاؤں انگشت نمائی کرتا تھا _ پھر بھی اسے یہ تسکین تو تھی ہی کہ اگر وہ خستہ حال ہے تو کم سے کم اسے کسانوں کی سی جگر توڑ محنت تو نہیں کرنی پڑتی _ اور اس کی سادگی اور بے زبانی سے دوسرے بے جا فائدہ تو نہیں اٹھاتے _
دونوں آلو نکال نکال کر جلتے جلتے کھانے لگے ۔ کل سے کچھ نہیں کھایا تھا ۔ اتنا صبر نہ تھا کہ انہیں ٹھنڈا ہو جانے دیں ۔ کئی بار دونوں کی زبانیں جل گئیں ۔ چھل جانے پر آلو کا بیرونی حصّہ تو بہت زیادہ گرم نہ معلوم ہوتا ۔ لیکن دانتوں کے تلے پڑتے ہی اندر کا حصّہ زبان اور حلق اور تالو کو جلا دیتا تھا ۔ اور اس انگارے کو منہ میں رکھنے سے زیادہ خیریت اسی میں تھی کہ وہ اندر پہنچ جائے _ وہاں اسے ٹھنڈا کرنے کے لئے کافی سامان تھے ۔ اسلئے دونوں جلد جلد نگل جاتے ۔ حالانکہ اس کوشش میں ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔
گھیسو کو اس وقت ٹھاکر کی برات یاد آئی جس میں بیس سال پہلے وہ گیا تھا ۔ اس دعوت میں اسے جو سیری نصیب ہوئی تھی وہ اس کی زندگی میں ایک یادگار واقعہ تھی ۔ اور آج بھی اس کی یاد تازہ تھی ۔ بولا ، ” وہ بھوج نہیں بھولتا ۔ تب سے پھر اس طرح کا کھانا اور بھر پیٹ نہیں ملا ۔ لڑکی والوں نے سب کو پوڑیاں کھلائی تھیں سب کو ۔ چھوٹے بڑے ، سب نے پوڑیاں کھائیں ، اور اصلی گھی کی ۔ چٹنی ، رائتہ ، تین طرح کے سوکھے ساگ ۔ ایک رسیدار ترکاری ، دہی ، چٹنی ، مٹھائی ۔ اب کیا بتاؤں کہ اس بھوج میں کتنا سواد ملا ۔ کوئی روک نہیں تھی ۔ جو چیز چاہو مانگو ۔ اور جتنا چاہو کھاؤ ۔ لوگوں نے ایسا کھایا ، ایسا کھایا ، کہ کسی سے پانی نہ پیا گیا ۔ مگر پروسنے ولے ہیں کہ سامنے گرم گرم ، گول گول ، مہکتی ہوئی کچوریاں ڈالے دیتے ہیں ۔ منع کرتے ہیں کہ نہیں چاہئے _ پتّل کو ہاتھ سے روکے ہوئے ہیں ۔ مگر وہ ہیں کہ دئے جاتے ہیں ۔ اور جب سب نے منہ دھو لیا تو ایک ایک بیڑا پان بھی ملا۔ مگر مجھے پان لینے کی کہاں سدھ تھی ۔ کھڑا نہ ہوا جاتا تھا۔ چٹ پٹ جا کر اپنے کمبل پر لیٹ گیا ۔ ایسا دریا دل تھا وہ ٹھاکر ۔”

مادھو نے ان تکلّفات کا مزہ لیتے ہوئے کہا ، “اب ہمیں کوئی ایسا بھوج کھلاتا ۔”
” اب کوئی کیا کھلائیگا ، وہ جمانا دوسرا تھا _ اب تو سب کو کپھایت سوجھتی ہے ۔ سادی میں مت کھرچ کرو _ کریا کرم میں مت کھرچ کرو ۔ پوچھو گریبوں کا مال بٹور بٹور کر کہاں رکھوگے ! بٹورنے میں تو کمی نہیں ہے ۔ ہاں کھرچ میں کپھایت سوجھتی ہے ۔”
” تم نے ایک بیس پوڑیاں کھائی ہونگی ! ”
” بیس سے جیادہ کھائی تھیں ۔،،
” میں پچاس کھا جاتا۔”
” پچاس سے کم میں نے بھی نہ کھائی ہونگی _ اچّا پٹّھا تھا _ تو اس کا آدھا بھی نہیں ہے ۔”
آلو کھا کر دونوں نے پانی پیا اور وہیں الاؤ کے سامنے اپنی دھوتیاں اوڑھ کر ، پاؤں پیٹ میں ڈالے سو رہے ، جیسے دو بڑے بڑے اژدر گینڈلیاں مارے پڑے ہوں ۔
اور بدھیا ابھی تک کراہ رہی تھی
صبح کو مادھو نے کوٹھری میں جا کر دیکھا تو اس کی بیوی ٹھنڈی ہو گئی تھی ۔ اس کے منہ پر مکّھیاں بھنک رہی تھیں ۔ پتھرائی ہوئی آنکھیں اوپر ٹنگی ہوئی تھیں۔ سارا جسم خاک میں لت پت تھا۔ اس کے پیٹ میں بچّہ مر گیا تھا۔
مادھو بھاگا ہوا گھیسو کے پاس آیا _ پھر دونوں زور زور سے ہائے ہائے کرنے اور چھاتی پیٹنے لگے _ پڑوس والوں نے یہ آہ و زاری سنی تو دوڑے ہوئے آئے اور رسمِ قدیم کے مطابق غم زدوں کی تشفّی کرنے لگے ۔
مگر زیادہ رونے دھونے کا موقعہ نہ تھا _ کفن کی اور لکڑی کی فکر کرنی تھی ۔ گھر میں تو پیسہ اسی طرح غائب تھا جیسے چیل کے گھونسلے میں ماس۔
باپ بیٹے روتے ہوئے گاؤں کے زمیندار کے پاس گئے _ وہ ان دونوں کی صورت سے نفرت کرتے تھے ۔ کئی بار انہیں اپنے ہاتھوں پیٹ چکے تھے ، چوری کی علّت میں ، وعدہ پر کام پر نہ آنے کی علّت میں _ پوچھا ، ” کیا ہے بے گھسوا ۔ روتا کیوں ہے ۔ اب تو تیری صورت ہی نہیں نظر آتی۔ اب معلوم ہوتا ہے تم اس گاؤں میں رہنا نہیں چاہتے ۔”
گھسو نے زمین پر سر رکھ کر آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے کہا ، ” سرکار بڑی بپت میں ہوں _ مادھو کی گھر والی رت گجر گئی ۔ دن بھر تڑپتی رہی سرکار ۔ آدھی رات تک ہم دونوں اس کے سرہانے بیٹھے رہے ۔ دوا دارو جو کچھ ہو سکا سب کیا ۔ مگر وہ ہمیں دگا دے گئی ۔ اب کوئی ایک روٹی دینے والا نہیں رہا ۔ مالک ، تباہ ہو گئے ۔ گھر اجڑ گیا۔ آپ کا گلام ہوں ۔ اب آپ کے سوا اس کی مٹّی کون پار لگائیگا۔ ہمارے ہاتھ میں تو جو کچھ تھا وہ سب دوا دارو میں اٹھ گیا ۔ سرکار ہی کی دیا ہوگی تو اس کی مٹّی اٹھیگی۔ آپ کے سوا اور کس کے دوار پر جائیں ۔ ”
زمیندار صاحب رحم دل آدمی تھے ۔ مگر گھیسو پر رحم کرنا کالے کمبل پر رنگ چڑھانا تھا۔ جی میں تو آیا کہہ دیں ، ” چل ، دور ہو یہاں سے۔ لاش گھر میں رکھ کر سڑا۔ یوں تو بلانے سے بھی نہیں آتا ۔ آج جب غرض پڑی تو آ کر خوشامد کر رہا ہے ۔ حرام خور کہیں کا ۔ بدمعاش۔ ” مگر یہ غصّہ یا انتقام کا موقعہ نہ تھا۔ طوعاً و کرہاً دو روپئے نکال کر پھینک دئے ۔ مگر تشفّی کا ایک کلمہ بھی منہ سے نہ نکالا ۔ اس کی طرف تاکا تک نہیں۔ گویا سر کا بوجھ اتارا ہو۔
جب زمیندار صاحب نے دو روپیہ دیے تو گاؤں کے بنئے مہاجنوں کو انکار کی جرائت کیونکر ہوتی۔ گھیسو زمیندار کے نام کا ڈھنڈھورا پیٹنا جانتا تھا۔ کسی نے دو آنے دئے ، کسی نے چار آنے ۔ ایک گھنٹہ میں گھیسو کے پاس پانچ روپئے کی معقول رقم جمع ہو گئی ۔ کسی نے غلّہ دے دیا ، کسی نے لکڑی ۔ اور دوپہر کو گھیسو اور مادھو بازار سے کفن لانے چلے۔ ادھر لوگ بانس وانس کاٹنے لگے ۔
گاؤں کی رقیق القلب عورتیں آ آ کر لاش کو دیکھتی تھیں ، اور اس کی بے بسی پر دو بوند آنسو گرا کر چلی جاتی تھیں۔
بازار میں پہنچ کر گھیسو بولا ، ” لکڑی تو اسے جلانے بھر کو مل گئی ہے ، کیوں مادھو۔ ”
مادھو بولا ، ” ہاں لکڑی تو بہت ہے ۔ اب کپھن چاہئے۔”
” تو کوئی ہلکا سا کپھن لے لیں۔”
” ہاں اور کیا ۔ لاش اٹھتے اٹھتے رات ہو جائیگی ۔ رات کو کپھن کون دیکھتا ہے۔”
” کیسا برا رواج ہے کہ جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کو چیتھڑا بھی نہ ملے اسے مرنے پر نیا کپھن چاہئے۔ ”
” کپھن لاس کے ساتھ جل ہی تو جاتا ہے۔”
” اور کیا رکھا رہتا ہے۔ یہی پانچ روپیہ ملتے تو کچھ دوا دارو کرتے۔”
دونوں ایک دوسرے کے دل کا ماجرا معنوی طور پر سمجھ رہے تھے۔ بازار میں ادھر ادھر گھومتے رہے۔ کبھی اس بجاج کی دوکان پر گئے کبھی اس کی دوکان پر _ طرح طرح کے کپڑے ، ریشمی اور سوتی ، دیکھے ، مگر کچھ جچتا نہیں ۔ یہاں تک کہ شام ہو گئی ۔ دونوں اتّفاق سے یا عمداً ایک شراب خانے کے سامنے آ پہنچے ۔ اور گویا کسی طے شدہ فیصلے کے مطابق اندر گئے ۔ وہاں ذرا دیر تک دونوں تذبذب کی حالت میں کھڑے رہے ۔ پھر گھیسو نے گَدّی کے سامنے جا کر کہا ، ” ساہو جی ایک بوتل ہمیں بھی دینا۔ ” پھر گھیسو نے ایک بوتل شراب لی ، کچھ گزک۔ اس کے بعد کچھ چکھونہ آیا، تلی ہوئی مچھلی آئی۔ اور دونوں برآمدے میں بیٹھ کر شراب پینے لگے ۔
کئی کجّیاں پیہم پینے کے بعد دونوں سرور میں آ گئے ۔
گھیسو بولا ، ” کپھن لگانے سے کیا ملتا۔ آکھر جل ہی تو جاتا۔ کچھ بہو کے ساتھ تو نہ جاتا۔”
مادھو آسمان ک طرف دیکھ کر بولا ، گویا فرشتوں کو اپنی معصومیت کا یقین دلا رہا ہو ، ” دنیا کا دستور ہے ۔ یہی لوگ بامہنوں کو ہجاروں رپئے کیوں دے دیتے ہیں۔ کون دیکھتا ہے پرلوک میں ملتا ہے یا نہیں ۔”
” بڑے آدمیوں کے پاس دھن ہے، پھونکیں۔ ہمارے پاس پھونکنے کو کیا ہے ۔ ”
” لیکن لوگوں کو جواب کیا دوگے ! لوگ پوچھینگے نہیں ، کپھن کہاں ہے ! ”
گھیسو ہنسا ۔ ” کہہ دینگے روپئے کمر سے کھسک گئے ۔ بہت ڈھونڈا ، ملے نہیں ۔ لوگوں کو وشواس نہ آئیگا ، لیکن پھر وہی روپیہ دینگے۔”
مادھو بھی ہنسا ، اس غیر متوقّع خوش نصیبی پر ، قدرت کو اس طرح شکست دینے پر ۔ بولا ، ” بڑی اچّھی تھی ، بچاری ۔ مری بھی تو خوب کھلا پلا کر۔”
آدھی بوتل سے زیادہ ختم ہو گئی _ گھیسو نے دو سیر پوڑیاں منگوائیں ، گوشت اور سالن ۔ اور چٹپٹی کلیجیاں اور تلی ہوئی مچھلیاں ۔ شراب خانے کے سامنے ہی دوکان تھی ۔ مادھو لپک کر دو پتّلوں میں ساری چیزیں لے آیا ۔ پورے ڈیڑھ روپئے خرچ ہو گئے۔ صرف تھوڑے سے پیسے بچ رہے۔
دونوں اس وقت اس شان سے بیٹھے ہوئے پوڑیاں کھا رہے تھے جیسے جنگل میں کوئی شیر اپنا شکار اڑا رہا ہو ۔ نہ جواب دہی کا خوف تھا ، نہ بدنامی کی فکر۔ ضعف کے ان مراحل کو انہوننے بہت پہلے طے کر لیا تھا ۔ گھیسو فلسفیانہ انداز سے بولا ، ” ہماری آتما پرسنّ ہو رہی ہے تو کیا اسے پنّ نہ ہوگا ؟ ”
مادھو نے فرقِ عقیدت جھکا کر تصدیق کی _ ” جرور اسے جرور ہوگا ۔ بھگوان ، تم انترجامی ( علیم ) ہو ۔ اسے بیکنٹھ لے جانا۔ ہم دونوں ہردے سے اسے دعا دے رہے ہیں۔ آج جو بھوجن ملا وہ کبھی عمر بھر نہ ملا تھا۔”
ایک لمحہ کے بعد مادھو کے دل میں ایک تشویش پیدا ہوئی ۔ بولا ، ” کیوں دادا ، ہم لوگ بھی تو وہاں ایک نہ ایک دن جائینگے ہی۔”
گھیسو نے اس طفلانہ سوال کا جواب نہ دیا ۔مادھو کی طرف پر ملامت انداز سے دیکھا۔ وہ پرلوک کی باتیں سوچ کر اس آنند میں بادھا نہ ڈالنا چاہتا تھا۔
” جو وہاں ہم لوگوں سے وہ پوچے کہ تم نے ہمیں کپھن کیوں نہیں دیا تو کیا کہوگے ؟ ”
” کہینگے تمہارا سر۔”
” پوچھیگی تو جرور۔”
” تو کیسے جانتا ہے اسے کپھن نہ ملیگا ؟ تو مجھے ایسا گدھا سمجھتا ہے ! میں ساٹھ سال دنیا میں کیا گھاس کھودتا رہا ہوں ۔ اس کو کپھن ملیگا اور بہت اچّھا ملیگا ۔اس سے بہت اچّھا ملیگا جو ہم دیتے”
مادھو کو یقین نہ آیا ۔ بولا ، ” کون دیگا ؟ روپئے تو تم نے چٹ کر دئے۔”
گھیسو تیز ہو گیا۔ ” میں کہتا ہوں اسے کپھن ملیگا۔ تو مانتا کیوں نہیں ؟”
” کون دیگا ، بتاتے کیوں نہیں ؟ وہ تو مجھ سے پوچھیگی۔ اس کی مانگ میں تو سندور میں نے ڈالا تھا۔”
” وہی لوگ دینگے جنہوں نے اب کی دیا۔ ہاں وہ روپئے ہمارے ہاتھ نہ آئینگے ۔اور اگر کسی طرح آ جائیں تو پھر ہم اسی طرح یہاں بیٹھے پیّنگے ۔ اور کپھن تیسری بار ملیگا ۔ ”
جیوں جیوں اندھیرا بڑھتا تھا اور ستاروں کی چمک تیز ہوتی تھی ، مے خانہ کی رونق بھی بڑھتی جاتی تھی _ کوئی گاتا تھا ، کوئی بہکتا تھا _ کوئی اپنے رفیق کے گلے لپٹا جاتا تھا ، کوئی اپنے دوست کے منہ میں ساغر لگائے دیتا تھا۔ وہاں کی فضا میں سرور تھا۔ ہوا میں نشہ ۔ کتنے تو چلّو میں الّو ہو جاتے ہیں ۔ یہاں آتے تھے صرف خود فراموشی کا مزہ لینے کے لئے ۔ شراب سے زیادہ یہاں کی ہوا سے مسرور ہوتے تھے ۔ زیست کی بلا یہاں کھینچ لاتی تھی ۔ اور کچھ دیر کے لئے وہ بھول جاتے تھے کہ وہ زندہ ہیں ، یا مردہ ہیں ، یا زندہ در گور ہیں۔
اور یہ دونوں باپ بیٹے اب بھی مزے لے لے کر چسکیاں لے رہے تھے ۔ سب کی نگاہیں ان کی طرف جمی ہوئی تھیں۔ کتنے خوش نصیب ہیں دونوں۔ پوری بوتل بیچ میں ہے ۔
کھانے سے فارغ ہو کر مادھو نے بچی ہوئی پوڑیوں کا پتّل اٹھا کر ایک بھکاری کو دے دیا جو کھڑا ان کی طرف گرسنہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اور دینے کے غرور اور مسرّت اور ولولہ کا اپنی زندگی میں پہلی بار احساس کیا۔
گھیسو نے کہا ، ” لے جا ۔ کھوب کھا اور اسیرباد دے ۔ جس کی کمائی ہے وہ تو مر گئی ، مگر تیرا اسیرباد اسے جرور پہنچ جائیگا ۔ روئیں روئیں سے اسیرباد دے ۔ بڑی گاڑھی کمائی کے پیسے ہیں۔”
مادھو نے پھر آسمان کی طرف دیکھ کر کہا ، ” بیکنٹھ میں جائیگی دادا ۔ بیکنٹھ کی رانی بنیگی”
گھیسو کھڑا ہو گیا اور جیسے مسرّت کی لہروں میں تیرتا ہوا بولا ، ” ہاں بیٹا ، بیکنٹھ میں جائیگی ۔ کسی کو ستایا نہیں۔ کسی کو دبایا نہیں۔ مرتے مرتے ہماری جندگی کی سب سے بڑی لالسا پوری کر گئی۔ وہ نہ بیکنٹھ میں جائیگی تو کیا یہ موٹے موٹے لوگ جائینگے جو گریبوں کو دونوں ہاتھ سے لوٹتے ہیں ، اور اپنے پاپ کو دھونے کے لئے گنگا میں نہاتے ہیں اور مندر میں جل چڑھاتے ہیں۔”
یہ خوش اعتقادی کا رنگ بھی بدلا۔ تلوّن نشے کی خاصیت ہے ۔ یاس اور غم کا دورہ ہوا۔
مادھو بولا ، ” مگر دادا بچاری نے جندگی میں بڑا دکھ بھوگا۔ مری بھی کتنا دکھ جھیل کر۔ ” وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر رونے لگا ۔چیخیں مار مار کر۔
گھیسو نے سمجھایا ، ” کیوں روتا ہے بیٹا۔ کھس ہو کہ وہ مایا جال سے مکت ہو گئی۔ جنجال سے چھوٹ گئی ۔ بڑی بھاگوان تھی جو اتنی جلد مایا موہ کے بندھن توڑ دئے ۔”
اور دونوں وہیں کھڑے ہو کر گانے لگی۔
ٹھگنی کیوں نیناں جھمکاوے ۔ ٹھگنی۔
سارا مے خانہ محوِ تماشا تھا اور یہ دونوں مے کش محویت کے عالم میں گائے جاتے تھے ۔ پھر دونوں ناچنے لگے۔ اچھلے بھی ، کودے بھی ، گرے بھی ، مٹکے بھی ۔ بھاؤ بھی بتائے ،ابھینے بھی کئیے ، اور آخر نشے سے بدمست ہو کر وہیں گر پڑے ۔

افسانہ ’’کفن ‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ

آٹھ دہائی قبل لکھی گئی منشی پریم چند کی مشہورکہانی ’’ کفن‘‘ اس دور میں سماج کے دبے کچلے طبقے کی حقیقی عکاسی پیش کرتی ہے۔ اس کہانی میں کل چار کردار ہیں۔ گھیسو ، مادھو اور بُدھیا۔ چوتھا کردار زمیندار کا ہے جو ایک طرح سے اس سماج کا عکاس ہے جو اس دور میں استحصال کرنے والی قوت کے روپ میں موجود تھا ۔ استحصال کرنے والی یہ قوت آج بھی سماج میں اپنا وجود قائم کیے ہوئے ہے صرف پوزیشن تبدیل ہوگئی ہے۔
کہانی ’’کفن‘‘ کی ابتدا بُدھیا کے دردِ زہ میں پچھاڑیں کھانے سے ہوتی ہے۔ اس کے منہ سے ایسی دلخراش چیخیں نکل رہی تھیں کہ گھیسو اور مادھو کلیجہ تھام لیتے ہیں۔ اگر قاری کی قوت سماعت متاثر نہیں ہے تو سمجھ لیجئے کہ بُدھیا کا کرب،درد،چیخیں،کراہیں مسلسل’کفن‘ کی آخری سطر تک کانوں میں گونجتی رہتی ہیں۔قاری اس درد اور کرب کو بخوبی محسوس کرسکتا ہے۔
دردِزہ کے دوران بدھیا کی دل فراش صدا نکلنے پر مادھو اور گھیسو کا کلیجہ تھام لینا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دونوں کا احساس زندہ ہے۔افسانے کا اقتباس کچھ اس طرح ہیـ:
’’گیسو نے کہا ’معلوم ہوتا ہے کہ بچے گا نہیں۔سارا دن تر دیتے گزر گیا۔جا دیکھ تو آ۔۔۔۔۔۔
مادھو چڑھ کر بولا ،مرنا ہے تو جلدی مر کیوں نہیں جاتی ۔دیکھ کر کیا کروں۔
تو بڑا بے درد ہے بے !سال بھر جس کے ساتھ سکھ چین سے رہا اسی کے ساتھ اتنی بے ویاہی۔
’تو مجھ سے تو اس کا تڑپنا اور ہاتھ پاؤں پٹکنا دیکھا نہیں جاتا۔‘‘
(پریم چند کے نمائندہ افسانے۔ از: پروفیسر قمر رئیس۔ ص: ۲۲۵ ۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی)
اس منظر سے ہی احساس اور بے حسی کی کشمکش عیاں ہوتی ہے۔جب سے بدھیا آئی تھی تب سے دوہ ان دونوں بے غیرتوں کے پیٹ کا دوزخ بھرتی رہتی تھی۔آج وہ زندگی اور موت سے نبرد آزما ہے تب بھی دونوں صرف اپنے اپنے دوزخ کو بھرنے کی فکر میں مبتلا ہیں۔دونوں میں سے کسی ایک کو بھی اس بات کی فکر نہیں کہ اس کے لیے کچھ انتظام کریں۔گھیسوآلو چھیلتے ہوئے جب مادھو سے اس کی بیوی کا حال معلوم کرنے کے لیے کہتا ہے تو وہ کوٹھری کے اندر جانے سے یہ کہہ کر انکار کردیتا ہے کہ اسے بدھیا کو اس حالت میں دیکھنے سے ڈر لگتا ہے۔دراصل یہاں مفاد میاں بیوی کے رشتے پر غالب آجاتا ہے۔مادھو اس لیے انکار کردیتا ہے کہ گھیسو آلوؤں کا بڑا حصہ کھا نہ جائے۔یہی وہ مفاد ہے جو کئی اندیشوں کو جنم دیتا ہے۔بدھیا اندر اکیلی تڑپتی رہتی ہے، اس کی خبر گیری کرنے والا کوئی نہیں ہے۔تیمارداری تو بہت دور کی بات رہی۔بدھیا کا حوصلہ بڑھانے والا کوئی نہیں۔حاشیے پر زندگی گزارنے والے انسانوں کے محلے یا گھر ویسے بھی گاؤں سے دور ہی ہوتے تھے یہاں افسانے میں جو فضا قائم کی گئی ہے وہ جاڑوں کی رات ہے، سارا گاؤں سناٹے میں اور تاریکی میں جذب ہوگیا ہے۔ایسی فضا میں بدھیا کے کراہنے کی آواز واقعی دل کو چیر کر رکھ دینے والی ہوگی۔مگر یہاں منشی پریم چند نے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود گھیسو اور مادھو الاؤ کے گرد بیٹھے جلتے ہوئے آلو کھانے میں مگن ہیں۔یعنی دونوں کرداروں کی سوچ اپنی بھوک اور پیاس تک محدود ہوگئی ہے کہ وہ اپنی بھوک کے علاوہ کسی اور بات پر توجہ ہی نہیں دیتے۔انھوں نے گھیسو اور مادھو کی بے حسی ،بے غیرتی اور نکمّے پن کو کہانی میں اس طرح اجاگر کیا گیاہے:
’’چماروں کا کنبہ تھا اور سارے گاؤں میں بدنام ۔گیسو ایک دن کام کرتا تو تین دن آرام ۔ مادھو اتنا کام چور تھا کہ گھنٹہ بھر کام کرتا تو گھنٹہ بھر چلم پیتا۔اس لیے انھیں کہیں مزدوری نہیں ملتی تھی۔گھر میں مٹھی بھر اناج ہوتو ان کے لیے کام کرنے کی قسم تھی ۔جب ایک دودانے ہوجاتے تو گیسو درختوں پر چڑھ کرلکڑیاں توڑ لاتا اور مادھو بازار میں بیچ آتا اور جب تک پیسے رہتے دونوں ادھر اُدھر مارے مارے پھرتے۔‘‘
(پریم چند کے نمائندہ افسانے۔ از: پروفیسر قمر رئیس۔ ص: ۲۲۶ ۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی)
یہاں یہ سوال اٹھا یا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے حٓلات کس نے پیدا کیے؟یکا سو کی گوٹیر نکا کی یاد آجاتی ہے ۔ایک گیٹاپو نے یکا سو سے پوچھا ’’ایسا کس نے کیا؟یکاسو کا مختصر سا جواب تھا‘‘تم نے کیا۔
’کفن‘کو پڑھنے سے قبل اگر قاری’مہاجنی تہذیب‘کو ذہن میں رکھے تو اس کہانی کیکی تفہیم قدرے آسان ہوجاتی ہے۔مہاجنی تہذیب کے اصول و ضوابط میں اس بات کو فوقیت دی جاتی ہے کہ دبے کچلے انسانوں کو مزید دبا کر رکھا جائے۔اگر وہ گردن اٹھانے کی کوشش کریں تو اس پر قرض کا بوجھ بڑھا دیا جائے۔اسی نظریے کا آج کے دور سے موازنہ کیا جائے تو اس کی جھلک یا اس کا نیا روپ گلوبلائزیشن کے صارفیت ازم میں دکھائی دے گا۔
کہانی میں فلیش بیک کی تکنیک کی مدد سے کچھ یادوں کو بھی فوکس کیا گیا ہے مثلاًآلو کھاتے کھاتے گھیسو کو اس وقت ٹھاکر کی بارات کا یاد آنا جس میں وہ بیس سال پہلے گیا تھا۔اس دعوت میں اسے جوکچھ میسرہواتھا،وہ اس کی زندگی میں ایک یادگار واقعہ بن گیااور آج بھی اس کی یاد تازہ تھی۔گیسوبولا:
’’وہ بھوج نہیںبھولتا‘تب سے اس طرح کا کھانا اور بھر پیٹ نہیں ملا۔اصلی گھی کی پوریاں، چٹنی، رائتا،تین طرح کے سوکھے ساگ،ایک رس دار ترکاری،دہی چٹنی مٹھائی۔اب کیا بتاؤں کہ اس بھوج میں کتنا سواد ملا۔لوگوں نے تو ایسا کھایا، ایسا کھایا کہ کسی سے پانی نہ پیا گیا۔مگر پروسنے والے ہیں گرم گرم اور گول گول مہکتی کچوریاں ڈالے دیتے ہیں۔ایسا دریا دل تھا وہ ٹھاکر۔۔۔۔۔۔۔‘‘
(پریم چند کے نمائندہ افسانے۔ از: پروفیسر قمر رئیس۔ ص: ۲۲۹ ۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی)
محولہ بالا پیراگراف میں ٹھاکر کو دریا دل بتایا گیا ہے۔لیکن یہ واقعہ بیس سال قبل کا ہے۔ان بیس برسوں میںدنیا ایسی تبدیل ہوتی ہے کہ اب کوئی ٹھاکر اس طرح بھوج نہیں کھلاتا۔کہانی کا منظر تبدیل ہوتا ہے۔اس منظر میں گھیسو اور مادھو آلو کھاکر پانی پیتے ہیں اور وہیں الاؤ کے سامنے اپنی دھوتیاں اوڑھ کر پیٹ میں پاؤں ڈالے سوجاتے ہیں۔اسی سے میل کھاتا ہوا ایک منظر ہمیں’پوس کی رات‘میں بھی نظر آتا ہے۔ہلکو کھیت چرنے کی پرواہ کے بنا ہی راکھ کے پاس چادر اوڑھ کر سوگیا تھا۔ہلکو کے پاس چادر تھی۔گھیسواورمادھو کے پاس صرف دھوتیاں ہیں۔پاؤں پیٹ میں ڈالے پڑے رہنے کو دوبڑے اجگر کا کنڈلیاں مارے پڑے رہنے سے تشبیہہ دینا مصنف کی فن کاری پر دلالت کرتا ہے
صبح مادھو کوٹھری میں جاکر دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی ٹھنڈی ہوچکی ہے۔اس کے منہ پر مکھیاں بھنک رہی ہیں۔پتھرائی ہوئی آنکھیں اوپر کو تن گئی ہیں۔سارا جسم خاک میں لت پت ہورہا ہے۔اس کے پیٹ میں بچہ مرگیا تھا۔یہاں زبان کی روانی اپنے شباب پر ہے ۔فطری اورغیر فطری یا اذیت ناک موت کی اس سے بہتر تصویر کہیں نہیںہوسکتی۔یہی ہوتا ہے فن کا کمال۔
پھر دونوں زور زور سے ہائے ہائے کرنے اور چھاتی پیٹنے لگے۔یہاںجو الاپ کیا جارہا ہے وہ صرف دکھاوا ہے زور زور سے رونے میں بھی مطلب پوشیدہ ہے ۔چھاتی پیٹنے کا مطلب یہ نہیں کہ واقعی وہ دونوں بدھیا کی موت کا ماتم کررہے ہیں بلکہ یہ بھی سماجی رسم کی ادائیگی ہے۔کیونکہ اب کفن اور لکڑی کی فکر ہورہی تھی۔دونوں روتے روتے زمیندار کے پاس جاتے ہیں ۔گاؤں کے زمیندار ایسے موقعوں پر کام چور رعایا پر احسان کرنے سے نہیں چوکتے تھے۔حالانکہ زمیندار کو ان کی صورت سے نفرت تھی۔حرام خور بدمعاش کہہ کر دوروپے پھینک دیے۔ایسے وقت گاؤں والے بھی مددکرتے تھے۔جیسے تیسے پانچ روپے جمع ہوگئے۔کسی نے اناج دے دیا ،کسی نے لکڑی۔گاؤں میں انسانیت اب بھی باقی ہے۔یہاں بغور مشاہدہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ پریم چند کسانوں کی بدحالی کے ساتھ ان کے اوصاف حمیدہ کو بھی پیش کرتے ہیں۔
گھیسو اور مادھو دونوں کفن خریدنے بازار جاتے ہیں۔گیسو کہتا ہے،کیسا برا رواج ہے کہ جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کو چیتھڑا بھی نہ ملے،اسے مرنے پر نیا کفن چاہیے۔مادھو یہاں خاموش نہیں رہتا وہ بھی کہتا ہے’’کفن لاش کے ساتھ جل ہی تو جاتا ہے۔‘‘یہاں پریم چند صرف اتنا اشارہ کرتے ہیں ۔ ’’دونوں ایک دوسرے کے دل کی بات تاڑ رہے تھے۔‘‘قاری بھی اس بات سے واقف ہوجاتا ہے ۔ دن بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد بھی وہ کفن خرید نہیں پاتے۔دونوں اتفاق سے یا عمداً ایک شراب خانے کے سامنے جاپہنچے۔تھوڑی دیر کے لیے تھوڑا سا تذبذب رہا۔پھر تذ بذب کو جھٹک کرگھیسو شراب فروش کے پاس پہنچ کر کہتا ہے۔’’ساہوجی ایک بوتل ہمیں بھی دینا۔‘‘دونوں برآمدے میں بیٹھے تلی ہوئی مچھلی کا ذائقہ لیتے ہوئے پی رہے تھے۔دو تین پیک کے بعد سرور آگیا۔اس حالت میں چھٹی حس جاگ جاتی ہے۔اب فلسفیانہ باتیں ہونے لگتی ہیں۔’’کفن جل ہی تو جاتا بہو کے ساتھ تو نہ جاتا۔دستور ہے،نہیں تو لوگ بانسوں کو ہماروں روپے کیوں دے دیتے ہیں!کون دیکھتا ہے پرلوک میں ملتا ہے یا نہیں۔
بھر پیٹ کھانے کے بعد مادھو بچی ہوئی پوریوں کا تیل اٹھاکر ایک بھکاری کو دیا۔جوکھڑا ان کی طرف بھوکی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔پینے کا غرور اور دینے کی برتری اور مسرت کا اپنی زندگی میں انہیں پہلی بار احساس ہوا۔گیسو کہہ رہا ہے کہ :
’’ہاں بیٹا،وہ بے کنٹھ میں ضرور جائے گی۔کسی کو ستایا نہیں ،کسی کو دبایا نہیں۔مرتے مرتے ہماری زندگی کی سب سے بڑی لالسا پوری کرگئی۔وہ بے کنٹھ نہ جائے گی تو کیا یہ موٹے موٹے لوگ جائیں گے جو غریبوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور اپنے پاپوں کو دھونے کے لیے گنگا میں نہاتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور مندر میں جل چڑھاتے ہیں۔‘‘
(پریم چند کے نمائندہ افسانے۔ از: پروفیسر قمر رئیس۔ ص: ۲۳۲ ۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی)
دراصل ’کفن‘کا نقطئہ عروج بھی یہی حصہ ہے۔پریم چند ان فرسودہ رسوم اور رواجوں پر کاری ضرب لگانا چاہتے تھے۔زمیندار کا ہمدردی جتانے کے ناطے گھیسو اور مادھو کی مدد کرنااور دوسرے دولت مندوں کا امداد کے لیے ہاتھ بڑھانا ہی بے کنٹھ پانے کی لالسا کے سبب ہے۔جب کہ زمیندار ، سودخور،مہاجن وغیرہ دونوں ہاتھوں سے غریبوں کو لوٹتے کسوٹتے رہنے کے باوجود چند نیکیاں کماکر اور گنگا میں ڈبکی لگاکر جنت کے خواب دیکھتے۔یہاں پریم چند باریک بینی سے مشاہدہ کرکے ہندؤوں کی اندھی شردھا کو قاری کے روبرو پیش کرتے ہیں۔اسی اندھی شردھا کے سبب ہندوستانی تہذیب کا ڈھانچہ چرمراکر رہ گیا ہے۔اسی اندھی شردھا کی مخالفت تہذیب کو سالمیت عطا کرسکتی ہے۔فرسودہ رسم و رواج کے خلاف صوفی سنتوں نے نبردآزما ئی کی ہے۔جب ہم ادب کو تہذیبی نقطئہ نظر سے دیکھنا چاہتے ہیں تو پریم چند کی تہذیبی وراثت کو پرکھنا ضروری ہوجاتاہے۔
پریم چند نے کفن میں اس بات کو بطور خاص اجاگر کیا ہے کہ انسان کی بنیادی ضرورتوں کی اگر تکمیل نہیں ہوتی ہے تو اس میں بے حسی کا عنصر غالب آجاتا ہے۔بے غیرتی بڑھ جاتی ہے۔اندر کا انسان مرنے لگتا ہے۔آہستہ آہستہ وہ انسانی قدروں کے احساس سے بے بہرہ ہوجاتا ہے۔ اسے انسانی رشتوں کا پاس نہیں رہتا۔اسے دم توڑتے ہوئے انسان کو دیکھ کر دکھ اور تکلیف نہیں ہوتی ۔کفن کو بھوک اور ناداری سے زیادہ انسانی سفاکی اورجبلتوں کی غلامی کا افسانہ کہا جاسکتا ہے جو انتہائی مفلسی کی حالت میں پیدا ہوتا ہے۔اس افسانے میں رشتوں کی شکست دریخت کے ساتھ اذیت ناک خود غرضی کو پیش کیا گیا ہے۔
حقیقت نگاری کا یہ اسلوب اردو افسانے میں خاص طور سے ترقی پسند تحریک کے زیر، اثر بہر مقبول ہوا۔ نچلے طبقے کی محرومیوں ، مجبوریوں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سفاکیوں کو آگے چل کر سدرشن ، کرشن چندر اور خواجہ احمد عباس وغیرہ نے اپنے افسانوں میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح پریم چند کا یہ افسانہ رجحان ساز افسانوں کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔

_______________________________