Drama, Mukhtasar Afsana aur Makhdoom

Articles

ڈرامہ، مختصر افسانہ اور مخدوم

ڈاکٹر نوشاد احمد سنجری

مخدوم نے تین ڈرامے لکھے تھے ”ہوش کے ناخن، مرشد اورپھول بن، ہوش کے ناخن“ جارج برنارڈشا کے ڈرامے وڈورس ہاؤزز سے ماخوذ ہے۔ان کا دوسرا ڈرامہ مرشد ان کا طبع زاد ڈرامہ ہے۔داؤد اشرف نے لکھا ہے:
”یہ مخدوم کا لکھا ہوا ایک طبع زاد ایک ایکٹ کا ڈرامہ ہے جو مرشد ساگر ٹاکیج کے اسٹیج پر پیش کیا گیا جس میں مرشد کا رول مخدوم نے ادا کیا تھا۔ حضورنظم، ریزیڈنٹ مہاراجہ کشن پرساد اور شاہی خاندان کے چند افراد خلاف پروگرام اچانک عین وقت پر تھیٹر پہنچ گئے۔“۲؎
یہ مخدوم کا آخری ڈرامہ تھا، پھول بن چیخوف کے ڈرامہ ”چیری آرچرڈ“کا اردو روپ تھا۔یہ تین ایکٹ پر مشتمل تھا۔ یہ زمردمحل کے اسٹیج پر پیش کیا گیا تھا۔بقول مرزا ظفرالحسن کے:
”اس کے بعد دکن کی تمثیلی سرگرمیاں بالکل ختم ہوگئیں، نہ کسی نے کوئی نئی شمع روشن کی اورنہ ہمارے جلائے ہوئے چراغوں میں کوئی روشنی رہی۔“
یہ ڈرامہ نایاب ہے کس طرح تلف ہوا یہ مخدوم کے قریبی دوست بھی نہیں جانتے ایک اندازے کے مطابق مصنف نے اس لیے ضائع کردیا ہو کہ یہ اسٹیج پربری طرح ناکام رہا تھا۔
مخدوم جن شخصیتوں سے متاثر تھے ان میں ٹیگورکا نام سب سے اہم ہے۔ڈرامہ ہوش کے ناخن کے ناظرین میں گرودیو بھی تھے۔مخدوم کی اداکاری سے متاثر ہوکر انھیں شانتی نکیتن آنے کی دعوت دی۔سروجنی نائیڈو جو مخدوم کو اپنا بیٹا کہتی تھیں نے مخدوم کو ٹیگور سے ملوایا۔۳؎
اس کتاب کو مخدوم نے بیالیس عنوانات میں تقسیم کیاہے۔چنداہم عنوانات دیکھے۔بنگال کا نشاۃ ثانیہ،خاندان، تعلیم،شاعری کی ابتدائی،ادبی زندگی کاآغاز، لندن کا سفر، ڈرامے مذہبی شاعری، ناول نویسی، تقسیم بنگال، عالمگیرشہرت کاراز،نوبل انعام، گاندھی اور ٹیگور وغیرہ وغیرہ،مخدوم کی یہ تصنیف تجزیاتی نہیں تعارفی ہے۔ تنقیدی نہیں معلوماتی ہے۔
ٹیگور کے اندر دو شخصیتیں چھپی ہوئی تھیں ایک وہ ٹیگور جسے دنیا کا ہر عیش حاصل تھا،جس کی پرورش اس طرح ہوئی جیسے کوئی آسمانی مقدس مخلوق ہو۔جس کی طبیعت اس قدر شرمیلی ہو کہ ہم جماعت سے بات کرتے ہوئے بھی بیربہوٹی بن جائے، جس کے خدوخال اس قدر شفاف جیسے باریک قلم کی تحریر ہو چنانچہ اسکول میں دوسرے لڑکوں نے بہت دنوں تک پہنچانا ہی نہیں کہ ٹیگور لڑکا ہے یا لڑکی۔ ٹیگور کی دوسری شخصیت ایک انقلابی کی تھی،ایسا انقلابی جو صوفی بھی تھا مگر یزدان کے فلسفے کی نفی کرتا تھا۔وہ گاندھی جی کے چرخے کو ترقی کا معکوس سمجھتا تھا۔ وہ جلیاں والا باغ میں ہندوستانیوں پر جو مظالم ٹوٹے، ان ظالموں کا بھی سیاست دان تھا جنھوں نے ظلم کی انتہا کردی۔ وہ شانتی اوراہنسا کا پجاری تھا، ہر دل عزیز پجاری۔
”پھول اورپتھر“ یہ افسانہ ۰۳۹۱ء میں لکھا گیا، لیکن اشاعت ۸۳۹۱ء میں ہوپائی ۴؎ یہ پتھر اور کلیوں کے درمیان ایک مکالمہ ہے۔اس میں کلیاں پتھر کے بے مصرف ہونے کا مذاق اڑاتی ہیں۔ پتھر غم کی حالت میں سیاہ پڑجاتا ہے۔ایک پاگل نے یہ سیاہ پتھر اٹھالیا اور اسے ایک مورت بنائی۔زمین نے اس مورت کو آسمانی دیوی قراردیا۔ پاگل نے خوشی سے سرشار ہوکر کلیوں کو اس مورت کے چرنوں میں ڈال دیا،کلیوں کی آنکھیں کھل گئیں اورکلیاں مسکرانے لگیں۔
”کھوئے ہوئے تارے“ یہ افسانہ دو فرشتوں ہیلائل اورجفائل اورایک شاعر اور اس کی محبوبہ کے اطراف گھومتا ہے۔ یہ فرشتے آسمان پر کھیل رہے تھے اتفاق سے دوتارے زمین پر گرپڑتے ہیں۔ آسماں کے حکمران نے اطلاع پاتے ہی غضب ناک ہوکر فرمایا کہ جب تک وہ تارے آسمان پر نہ پہنچ جائیں فرشتے معتوب رہیں گے۔ فرشتے زمین پر آکر شاعر سے اجازت لے کر اس کی محبوبہ کی آنکھوں میں جھانکتے ہیں۔ ان تاروں کی چمک نہ پاکر واپس لوٹ جاتے ہیں۔ حالانکہ محبوبہ کی آنکھوں میں وہی دوتارے تھے جس پر شاعرنے تعجب کیا بھلا کس طرح فرشتوں نے نہیں پہچانا؟محبوبہ نے کہا کہ جب فرشتے میری آنکھوں میں جھانک رہے تھے تو میں نے تمہارے بوسہ اولین کا تصور کیا۔اس طرح میری آنکھوں کی چمک اور بڑھ گئی جو آسمانی گم شدہ تاروں میں نہ تھی۔
”آدم کی اولاد“۵؎: مختصرخاکہ ایک دن حوا کوایک فرشتے نے یہ خبر دی کہ خدائے کائنات زمین پر اترنے والا ہے۔خدانے نہایت رحیم اندازمیں آدم کا حال پوچھا۔ خدا نے بچوں کو طلب کیا،حوا نے تین بچوں کو پیش کیا باقی کوجانوروں کے حجرے میں چھپادیا۔خدا نے کہا ایک قاضی ہوگا دوسراسپہ سالار تیسرا مہاجن۔ حوا نے باقی بچوں کو پیش کیا خدا نے کہا پہلے کے تینوں نے سب لے لیا۔آئندہ ہم اپنی آمد پر بتائیں گے۔
”پاپن“: خد اکے حضور کہتی ہے میں نے پیٹ کے لیے جسم کا بیاپار کیابوڑھی ہوگئی تو قانون نے آگھیرا۔ اگر میں نہ ہوتی تودنیا کی بہو بیٹیوں کی عصمت کا ضامن کون ہوتا۔ پاپن کے ہونٹ کانپ رہے تھے اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ خدا کی عدالت میں سناٹا طاری تھا۔
”سویت یونین کی بالشویک پارٹی“: یہ کتاب انگریزی ایڈیشن کا ترجمہ ہے۔ مترجمین کے نام ہیں:نورالحسن، عبدالحلیم،مخدوم محی الدین،احتشام حسین۔
”گوئٹے کے مکتوبات“ ۶؎ اٹھارہویں صدی کا جرمن شاعر گوئٹے نہایت حسن پرست اور عشقباز تھا۔شادی بیاہ کی رسمی،سماجی اورقانونی پابندیاں اس کے لیے مضحکہ خیز تھیں۔ وہ اپنے ان خیالات کو نوجوانوں میں پھیلا کر داد کا متمنی رہتا تھا۔۶۶۷۱ء میں جب وہ سترہ برس کا تھا تو ”کیشین سیان“ نامی لڑکی اس کی نگاہ انتخاب کا ہدف بنی اور اس نے نومبر ۸۶۷۱ء میں پہلا محبت نامہ بھیجا پھر اس طرح کے محبت نامے اس نے کئی لڑکیوں کو بھیجے۔ ۲۹۷۱ء میں گوئٹے کی زندگی میں کوسٹانی واپس آئی جس سے گوئٹے کی کئی اولادیں ہوئیں۔بعد کو زمانے کے سخت رویے سے تنگ آکر ۶۰۸۱ء میں ’وپس‘سے شادی کرلی۔اس شادی کے بعد اس کا شعلہ ہوس مدھم نہیں ہوا، میناہرزاٹ پھر گوئٹے کے لیے لذت جسم و جان بن گئی۔ جس کا ’کرسٹانی وپس‘ کو بے حد صدمہ ہوا ۶۰۸۱ء میں گوئٹے نے فاؤسٹ کی تکمیل کی جو آج بھی شہرہ آفاق ہے۔مخدوم نے ان خطوط کا ترجمہ بہ سلسلہ ملازمت کیا تھا اوریقینا نواب صاحب کی اینگلو انڈین محبوبہ مغرور مسرور ہوئی ہوگی۔ ظاہر ہے گوئٹے کے ماحول و آب و ہوا اور فضا کو مخدوم نے ہندوستانی رنگ دیا ہوگا۔
”بگھی کے پیچھے چھوکرا”: بگھی کے پیچھے چھوکرا مخدوم کے دس ہلکے پھلکے مضامین کا مجموعہ ہے۔ابتدائی تین مضامین اپنے ملک کی تہذیب کے آئینہ دار ہیں۔ پہلا مضمون نظام شاہی حیدرآباد کی تہذیب کا نمونہ ہے۔ مخدوم اپنے بچپن کویاد کرتے ہیں۔جہاں امراا و ررؤسا کے بچے بگھی میں اسکول آیا کرتے تھے۔ یہاں بگھیاں ایک یا دو گھوڑوں کی ہوا کرتی تھیں۔کوچوان کے ساتھ ایک نوکر آگے بیٹھا ہوا اورپیچھے دوجوان باضابطہ وردی میں کھڑے ہوئے ہٹوبچو کی آواز لگاتے ہوئے امیربچوں کی حفاظت کرتے تھے۔پیدل بچے ایسی بگھیوں کی کھوج میں رہتے تھے،جس کے پیچھے جوان کھڑے نہ ہوں۔لپک کر پیچھے کے تختے پرلٹک جاتے تھے۔راستے میں چل رہے بچے اپنا یہ فرض سمجھتے کہ کوچوان کو آگاہ کریں کہ ”بگھی کے پیچھے چھوکرا“ کوچوان سامنے سے بیٹھے بیٹھے اپنی لمبی چابک زور سے چلاتا لٹکتے ہوئے بچے کبھی مار سے بچ جاتے کبھی زد میں آکر اتر کر بھا گ جاتے۔مخدوم کہتے ہیں میرے لیے بھی ایسی سواری عام تھی۔
مخدوم کا بچپن اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ شروع سے ہی ان کا انگریز حکومت اور نظام شاہی سے نفرت تھی۔ پہلی جنگ عظیم میں انگریزوں کی فتح پر اسکول میں ننھے ننھے فلیگ بچوں کی قمیصوں پر لگائے گئے۔مخدوم نے اپنے جھنڈے کونیچے گرادیا اور مٹھائی کھانے میں مشغول ہوگئے۔
دوسرامضمون مشاعرے ہے۔اس میں مشاعرے کے فوائد کے ساتھ ساتھ ان کے نقائص پربھی توجہ دلائی گئی ہے۔تحفے(قلم) رنگاچاری آرٹسٹ کی یاد سے شروع ہوتا ہے۔جو تلنگانہ جدوجہد میں گرفتار بھی ہوا او رمارابھی گیا۔روپوشی کے دنوں میں رنگاچاری نے مخدوم کو اپنا ’قلم پار کر‘ تحفہ میں دیاان دنوں مخدوم کے پاس قلم نہ تھا۔ مخدوم نے اس قلم کو بڑے جتن سے رکھا۔روپوشی کے دنوں میں ہی وہ قلم غائب ہوگیا، پھر قلم مل جاتا ہے خیرمضمون کافی لمبا ہے اوربھی کئی مضمون ہیں مخدوم کے جس میں انھوں نے اپنے بیرونی ملکوں کے سفر کے دوران کے مشاہدے بیان کیے ہیں۔
مخدوم کے نقدونظر: مخدوم باقاعدہ کوئی نقادنہیں تھے لیکن تخلیق کارضرور تھے اوریہی وجہ ہے کہ ادب اور شعر کے متعلق بڑی نپی تلی رائے رکھتے تھے۔آج سے تقریباً ۵۶ سال پہلے کا یہ خط مخدوم ۷؎ کے نقطہئ نقد و نظر کی وضاحت کرتا ہے کہ وہ ادب اور آرٹ کو پروپیگنڈہ سمجھتے ہیں تو کیوں۔ پروپیگنڈہ کا لفظ غلط فہمی پید اکرتاہے۔لیکن مخدوم کی یہ عبارت کئی گتھیوں کو سلجھانے میں مدد دیتی ہے۔
”کون سا آرٹ پروپیگنڈہ نہیں رہا کیا تم یورپ کے کلیساؤں کو محبت سے یونان کی آزادی کی فطرت پرستی سے،ایلورااور اجنتا کی برہنیت، جنسیات اور گوتمیت کے معاشرتی فلسفے سے علیحدہ کرسکتے ہو۔ یورپ کے رقص خانوں اورتھیٹروں میں اور خود تمہارے تغزلی ادب میں جنسی معمولات کی ہنگامہ خیز تبلیغ اور تشہیر کے سوا کیا ہے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ طرز بیان میں فرسودگی بڑھاپا محسوس ہو۔یہ سمجھو کہ آرٹسٹ کی بقا کی صلاحیت سلب ہوچکی ہے وہ مررہا ہے یہ سچ ہے کہ کوئی بالجبر آرٹ پیدانہیں کرسکتا۔فرد تو فرد مملکت بھی مجبور ہے یہ سمجھنا کہ آرٹ پروپیگنڈہ سے ماورا وقائم بالذات وجود ہے میں تو نہیں مانوں گا۔“
خورشید احمد جامی کے مجموعہ کلام رخسار سحر پر مخدوم کا پیش لفظ ان کے نقد و نظرکو سمجھنے میں مدددیتا ہے مخدوم نے اپنے مقدمے میں ان کی ذہنی ارتقاء کا جائزہ لیا ہے اوراس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ جامی کی غزل میں نہ وہ منہ در منہ باتیں ہیں جس کے نماندے فراق اکیلے ہیں ۸؎ اورنہ وہ سپاٹ پن جو کئی مشہور شاعروں کا طرہ امتیاز ہے۔جامی خلوت پسند شاعر تھے اوران کا الگ حلقہئ احباب تھا۔ وہ زمانے کی کشاکش حیات سے آنکھ ملانے کاجگر رکھتے تھے۔مخدوم نے لکھا ہے کہ جامی ان شاعروں میں معلوم ہوتا ہے جو اپنی صبح انقلاب سے ہمکنار ہوکر بھی اس سے دورہی رہے گا اس کا قصور ان پیغمبروں کا سا نظر آتا ہے جو اپنی امت کی افتادہ حالی کا حل نہ پاکر خدا سے لڑ بیٹھے تھے۔

اقبال متین کے پہلے افسانوی مجموعے اجلی پرچھائیاں پرمخدوم نے اپنی رائے دی ہے۔ دیکھیے ”اقبال متین اپنے گردوپیش کی زندگی سے واقعات اور کردار چنتا ہے۔ ندرت بیان اور تیز قوت مشاہدہ کی مدد سے ان میں ایسا رنگ بھرتا ہے کہ معمولی واقعات و کردار غیرمعمولی و دلکش بن جاتے ہیں۔ ”اجنبی بیمار“ اور ”دام ہر موج“ اس کی مشہور ومعروف کہانیوں میں چندکہانیاں ہیں۔ جس میں زندگی کے حسن اور اس کی ڈھکی چھپی قباحتوں اور فرد اور سماج کی کشمکش کی نقاشی اور پردہ کشائی بڑی چابکدستی سے کی گئی ہے۔“

ISSN No. 2320-639X (Urdu Channel is a ugc approved research journal)