Critical Analysis of Makhdoom

Articles

مخدوم محی الدین کے مجموعہ کلام ”گل تر“ پر تنقید و تبصرہ

ڈاکٹر نوشاد احمدسنجری

مخدوم محی الدین کا دوسرا مجموعہئ کلام”گل تر“ ۱۶۹۱ء میں شائع ہوا۔اس مجموعے کے عنوان گل تر سے ظاہر ہے کہ یہ سرخ سویرا سے مختلف ہے اور اس میں انقلابی شاعری کے بعد رومانی کیفیات کا اظہار بھی ملتا ہے۔ جیسا کہ اس دور کے دوسرے شعراء کے یہاں انقلاب اوررومان کا امتزاج نظر آتا ہے۔اس مجموعے کے تعلق سے خود مخدوم نے لکھا ہے کہ ان کے دیرینہ قارئین جب گل تر پڑھیں گے تو غالباً انہیں فوراً اس کی مختلف نوعیت کا احساس ہوگاور ان کا ذہن نئے کلام کا سرخ سویراکے جانے بوجھے اشعار سے موازنہ بھی کرنے لگے گا۔ نئے مجموعے کا کلام اپنی سج دھج اورنفس مضمون کے اعتبار سے سرخ سویرا کی نظموں سے مختلف ہے۔ان میں جن حقائق کی تصویرکشی کی گئی ہے وہ بالکل دوسرے ہیں۔ شاعر اپنی شاعرانہ عمر میں گویا کئی عمریں گزارتا ہے۔ جب اس کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے تو شعور میں پختگی آتی ہے،احساسات اور جذبات بدلتے ہیں۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے مخدوم کے احساسات بدلے۔
مخدوم صاحب لکھتے ہیں کہ گل تر کے مطالعہ کے بعدبعض ناپختہ ذہن اس وقت بھی سوچتے تھے اور آج بھی یہ خیال کریں گے کہ مخدوم اپنے آپ سے برگشتہ یا اپنے نظریات سے منحرف ہوگئے ہیں۔جب کہ ایسا نہیں ہے۔کیوں کہ مخدوم نے خود کہا ہے کہ شاعر اپنی عمرمیں کئی عمریں گزارتا ہے۔مخدوم نے گل تر کی نظمیں اور غزلیں انتہائی مصروفیتوں میں لکھیں۔ کہتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں لکھنے پرمجبورکیاجارہا ہوں۔سماجی تقاضے پراسرار طریقے پر شعر لکھواتے رہے ہیں۔زندگی ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی ہے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں نے کچھ لکھا ہی نہیں۔سرخ سویراکے بعدمخدوم کے یہاں طویل خاموشی پائی جاتی ہے۔ امیرعارفی نے ایک انٹرویو میں مخدوم سے جاننے کی کوشش کی کہ سرخ سویرا کے بعد قید،چارہ گر،چاندتاروں کا بن جیسی خوبصورت نظموں کے ذریعہ آپ کی خاموشی ٹوٹی پھر آپ آج کل غزلیں کیوں کہہ رہے ہیں۔
بقول مخدوم غزلیں کہنے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔داخلی محرکات جمع ہوتے ہوتے ایک دن غزل کی صورت میں بہہ نکلے۔ایک شعر دیکھیے:
کھٹ کھٹا جاتا ہے زنجیر درمیخانہ
کوئی دیوانہ کوئی آبلہ پا آخرشب
اس غزل کی تمام علامتیں سیاسی ہیں۔مخدوم کی انقلابی شاعری میں بھی جمالیاتی عنصر زیادہ ہیں۔گل تر کی نظموں چارہ گر، رقص وغیرہ کو دیکھئے کہاں سے شروع ہوتی ہیں کہاں سے ختم۔ آج عشق اورانقلاب ایک دوسرے میں سموئے ہوئے ہیں۔
مخدوم کا پہلا مجموعہ سرخ سویرا ۴۴۹۱ء پھر بساط رقص ۶۶۹۱ء تک ان کے کلام میں بتدریج رومانیت کم ہورہی ہے اور انقلاب یا حالات سے بغاوت کا جذبہ زیادہ کارفرما ہے۔سرخ سویرا اور بساط رقص کے درمیان گل تر ہی ایسامجموعہ ہے جس میں نظموں کے مقابلہ میں غزلیں زیادہ ہیں۔ ان میں بھی تلخیئ ایام زیادہ ہے۔
الٰہی یہ بساط رقص اور بھی بسیط ہو
صدائے تیشاکامراں ہو کوہکن کی جیت ہو
یہاں کوہکن مزدورکی علامت ہے اورصدائے تیشہ مزدور کی محنت۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مزدور کو اس کی محنت کا صلہ ملے اورمزدور ایک کامیاب زندگی گزارے۔
مجموعہ کلام گل تر کی اشاعت اگست ۱۶۹۱ء میں ہوئی۔ گل تر اپنی کیفیت اور اسلوب دونوں کے اعتبار سے سرخ سویرا سے مختلف ہے۔گل تر سے پہلے مخدوم محی الدین نے ایک بھی غزل نہیں لکھی تھی۔ گل تر میں آہنگ شعر کی ایسی مثال ملتی ہے جو شاید فیض اور جوش کے علاوہ کہیں اورنہ ملے جس طرح فیض نے نقش فریادی کے بعد طویل خاموشی اختیار کی اور پھر دست صبا کا تحفہ پیش کیا ٹھیک ویسے ہی ۷۱سال کی مسلسل خاموشی کے بعد مخدوم نے گل تر کا تحفہ پیش کیا۔ سرخ سویرا اور گل تر کے اسلوب میں کچھ زیادہ ہی فرق معلوم پڑتا ہے۔
گل تر کی نمائندہ رومانی نظموں میں چارہ گر،آج کی رات نہ جا، جان غزل کے علاوہ دو انگریزی نظموں کے تراجم فاصلے اور ہم دونوں قابل ذکر ہیں۔ حیدرآباد کی ممتاز انگریزی شاعر راجکماری اندرادھن راجگیر کی دونظمیں Both of us yearning کے آزاد ترجمے مخدوم نے کیے۔گل تر سے متعلق خود مخدوم کا خیال ہے کہ گل تر کی شاعری سرخ سویرا سے مختلف ہے۔دیکھئے:
”یہ فرق میری نظر میں ایک نیاپن ہے۔جو عمر تجربہ خودعہد حاضر کی نوعیت کیاپنے ماسبق ہونے کانتیجہ ہے جو سماجی اور شعوری ارتقا کی نشان دہی کرتا ہے۔پھربھی انسان دوستی اور سمٹا ہوا جمالیاتی اثر قدرمشترک ہیں۔“
گل تر کی نظم فاصلے ایک آئیڈیل کی تلاش ہے۔شاعر اس آئیڈیل کی آواز دل کی گہرائیوں میں پاتا ہے۔وہ اس کوکوئی نام نہیں دے پاتا۔شاعرکے اندر کا جذباتی پن اس کو بدستور روشنی دے رہا ہے لیکن زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔نظم کے چندبند دیکھیے:
زندگی نوک سناں
زندگی مثل سناں،جسم میں جاں میں اترجاتی ہے
پیار کٹ جاتے ہیں کٹ جاتی ہے جان
حسن کی جوئے خنک عشق کے شعلوں کی لپک
بغض و نفریں و ملامت کے سب ہی کوہ گراں
بال کی طرح سے کٹ جاتے ہیں
زندگی نوک سناں

“Sword it strikes to kill all those it loves and all those it hates like the facess of eve it changes and varies.Like a split personality it lives a double life.”
Indra Dhan Rajgir
“Yearnings and other poems”
Hyderabad, 1963.
نظم ”ہم دونوں“ محبت کا ایک ابدی نغمہ ہے۔محبت جسم و لمس سے ماورا بھی ہوسکتی ہے۔ ایک نگاہ کرم تازیست مسرتوں کا سرچشمہ ہوسکتی ہے۔نظم چارہ گر، گل تر کی سب سے مقبول نظموں میں سے ایک ہے۔چارہ گر کے دوبدن انگنت بدن ہیں جو پیار کی آگ میں جل چکے اورجلتے رہیں گے۔نظم آج کی رات نہ جا لمحہئ غنیمت کوجکڑلینے کی شاعرانہ تفسیر ہے۔دیکھیے:
زندگی لطف بھی ہے زندگی آزار بھی ہے
ساز و آہنگ بھی زنجیر ی جھنکاربھی ہیزندگی دید بھی ہے حسرت دیداربھی ہے
زہر بھی آب حیات لب رخساربھی ہے
نظم کانشاطیہ لب ولہجہ مخدوم کے انداز فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔نظم جان غزل محبت کی پراعتماد تصویر ہے۔چند بند یکھیے:
اے دل نارسا آج اتنا مچل
مست آنکھوں کی جھیلوں میں کھلنے لگیں آنسوؤں کے کنول
مل گیا راہ میں اجنبی موڑ پرکوئی جان غزل
دل کی سنسان گلیوں میں کچھ دیر کچھ دور تک
آج تو ساتھ چل
٭
سرخ سویرا جیسے عاشق اورمحبوب گل تر اوربساط رقص کی رومانی نظموں میں نظر نہیں آتے۔ مشاہدہ اورتجربہ شاعر کو وسعت نظر بخشتا ہے۔ یہی وسعت نظر ”گل تر“ اور”بساط رقص“ میں نظر آتی ہے۔جان غزل کا یہ مصرعہ دیکھیے:
آج تویادآئیں نہ دنیا کے غم
آج دل کھول کر مسکرا چشم نم
کتنا بھاری تھا یہ زندگی کا سفر
یہ انداز اس جان غزل کی دین ہے جو اجنبی موڑپر مل گیا ہے زندگی کے بھاری ہونے کا احساس اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ شاعر کن راستوں سے ہوکر یہاں تک آیا ہے۔نظم پیارکی چاندنی کو ہم رومانی نظم نہیں کہہ سکتے کیوں کہ اسکاڈکشن سیاسی اندازلیے ہوئے ہے۔جرم، چشم، اہل ہوس، ابن آدم، سردار وغیرہ لیکن آخری شعرکا لہجہ رومانی معلوم ہوتاہے:
دل بڑھاتی رہیں ہاتھ کی نرمیاں
پیارکی چاندنی جگمگاتی رہی
یہ بند عالمی اخوت اوریک جہتی کی یاد دلاتا ہے۔احساس کی رات بھی اسی قبیل کی ایک خوبصورت نظم ہے۔دیکھیے:
مجھے ڈر ہے کہ کہیں سرد نہ ہوجائے یہ احساس کی رات
نرغے طوفان حوادث کے ہوس کی یلغار
جسم کا جان کا پیمان وفا کیا ہوگا!
تیرا کیا ہوگا اے مضراب جنوں
یہ دہکتے ہوئے رخسار
یہ مہکتے ہوئے لب
یہ دھڑکتا ہوا دل
شفق زیست کی پیشانی کا رنگیں قشقہ
کیا ہوگا
مرے دل اور دھڑک، شاخ گل
اورمہک اورمہک اورمہک
احسا س کی رات رومان اور حقیقت کا ملاجلا تاثر پیش کرتی ہے۔اس نظم کا محرک کہیں ایٹم کی تباہ کن طاقت تو نہیں تیسری جنگ عظیم کا خوف تو نہیں، نظم سب کا خواب خواب کے ریزہ ریزہ ہوجانے کی کرب ناک حقیقت ہے۔عالمی اشتراکی تنظیم و تحریک کے زیروبم کو غم جاناں کے استعاروں میں پیش کیا گیاہے۔دیکھیے ایک بند:
آپ میں اک گرمیئ احساس ہوتی تھی
نہیں معلوم وہ کیا ہوگئی
یہاں آپ خود شاعر ہے۔یہاں نظم کا تھم تھم کر بڑھنا، رکنا مصرعوں کے ارکان کا ڈرامائی انداز سے کم اور زیادہ ہونا ایک خاص قسم کی زیرلب خودکلامی اور سوچ کی فضا پیداکرتا ہے۔
گل تر کے بعدمخدوم محی الدین کی کلیات بساط رقص ۶۶۹۱ء میں منظرعام پر آئی۔ اس میں شاعر کی ذہنی روش گل تر جیسی ہی ہے۔آخر کی نظموں میں بھی تازگی، اظہار و اسلوب رنگ وآہنگ، پیکر تراشی، تازگی وغیرہ نمایاں خصوصیات ہیں۔ نظم خواہش اسی نوع کی ایک مثال ہے۔

اسی سلسلے کی ایک نظم وصال ہے جس پراکتوبر ۳۶۹۱ء درج ہے:
چمک دمک جھنکار امر ہے
یار امر ہے
پیار امر ہے
اس میں اچانک دوکرخت مصرعے آجاتے ہیں
دولت خاں کی دیوڑھی کے کھنڈروں میں
بڈھاناگ کھڑا روتا ہے
اس کی کیا ضرورت آن پڑی بقول مخدوم:
”ان دومصرعوں کے بغیر بھی میری نظم مکمل ہوجاتی۔لیکن ذرا سوچیے ان دومصرعوں سے بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔ایک مرد اورعورت کے وصال میں آج بھی سماجی رکاوٹیں ہیں۔ دولت خاں کی ڈیوڑھی وہ مردہ روایتیں ہیں جو ان روحوں کے ملنے پر آج خوش نہیں ہو سکتیں بلکہ آنسو بہاسکتی ہیں کیوں کہ زمانے نے ان کی قوت جبر کو روند ا ہے۔“
”وقت بے درد مسیحا“ ایک خوبصورت رومانی نظم ہے، جو ۵۶۹۱ء میں لکھی گئی۔ اس نظم میں محبت کا دکھ ایک طلسم کی طرح پھیلتا چلاجاتا ہے۔اس نظم میں ایک کسک ملتی ہے جودوسری نظموں میں نہیں ہے:
قبر سے اٹھ کے نکل آئی ملاقات کی شام
ہلکا ہلکا سا وہ اڑتا ہوا گالوں کا گلال
بھینی بھینی سی وہ خوشبو کسی پیراہن کی
٭
آخرمیں مخدوم کی واسوخت یکم مئی ۹۶۹۱ء کولکھی گئی یعنی ان کی وفات سے چندماہ پہلے۔ اس میں مخدوم کے داخلی جذبات و تجربات ابھرکر آئے ہیں۔
تیری دیوار کے سایوں نے نہیں پہچانا
ایک ایسا بھی زمانہ ہے کہ اب آنے لگا
خوشنما یادوں کے ڈھانچوں سے ملاقات ہوئی
چہرہ ٹوٹا ہوا آئینہ نظر آنے لگا

تیری باتیں تھیں کہ پھولوں کی مہکتی چمکار
جی تیری باتوں سے کیا بات ہے گھبرانے لگا
گیان سے دھیان سے پوجا تھا کسی صورت کو
آنکھ کھولی تو کوئی اور نظر آنے لگا
دل کے تہہ خانوں میں بارود بچھی ہو جیسے
ایک اک سانس پہ دل ہے کہ سلگ جانے لگا
دشت کے پھولوں نے جب پاس بٹھایا ہم کو
عرش ٹوٹا ہوا تارہ سانظر آنے لگا
اس جنونی کو ذرا دھوپ سے روکو مخدوم
چھوڑ کر چھاؤں ’گل تر‘ کی کہاں جانے لگا
یہ انداز مخدوم کا نہیں تھا۔دل کے تہہ خانوں میں بارود کا بچھنا شاعر کی دل شکستگی کی کھلی تفسیر ہے۔شاعر اب گل تر کی چھاؤں کو چھوڑکر جانا چاہتا ہے۔یہ وہی گل تر ہے جو شاعر کواعتماد وفا اور اعتبار محبت کا درس دیتا ہے۔
بساط رقص کی آخری رومانی نظم ’رُت‘ مخدوم کے ہارجانے کی مثال ہے۔یہ نظم ۹۶۹۱ء میں واسوخت کے بعد ہبلی میں کہی گئی۔ اس نظم میں شاعر اپنی طبیعت کے خلاف مایوس ہے اورشہر وفا سے ہجرت چاہتا ہے۔لیکن گل تر میں مخدوم نے کل ۱۲ غزلیں کہیں ان غزلوں میں غزل کے سارے بنیادی عنصرپائے جاتے ہیں،دیکھیے:
پھر چھڑی رات بات پھولوں کی
رات ہے یا برات پھولوں کی
یہ مہکتی ہوئی غزل مخدوم
جیسے صحرا میں رات پھولوں کی
٭
مخدوم نے ایک طویل عمر انقلابی جدوجہد میں گزاری تھی۔ اسی لیے ترقی پسند شاعری میں آرہے بدلاؤ کو بڑی شدت سے محسوس کیا اور اپنے محسوسات کو اسی شدت کے ساتھ اپنی آخری غزل میں پیش کیا۔
یہ خواب ہے کہ حقیقت نظارہ ہے کہ فریب
یقیں بھی ٹوٹا ہے طرزگماں بھی ٹوٹی ہے

سیاست دل آئینہ چور تو تھی
سیاست دل آہنگراں بھی ٹوٹی ہے
شکست و ریخت زمانے کی خوب ہے مخدوم
خودی تو ٹوٹی تھی خوئے بتاں بھی ٹوٹی ہے
مخدوم کی غزلیں ترقی پسند غزل کی بہترین ترجمانی کرتی ہیں۔ مخدوم محی الدین کے مجموعہ کلام سرخ سویرا اور گل تر کا اگر تجزیاتی مطالعہ کیاجائے تو دونوں میں واضح فرق معلوم پڑتا ہے۔ مجموعہ کلام سرخ سویرا ابتدائی جوش کا نتیجہ اورگل تر تپ کر کندن بن جانے کا ثمرہ ہے۔ گل تر میں جو فکری عنصر ہے سرخ سویرا کی اکثرنظموں میں ناپید دکھائی دیتا ہے۔مخدوم نے خود اس بات کا اعتراف کیا اورانھوں نے کہا تھاکہ قاری سرخ سویرا اور گل ترمیں جو فرق محسوس کریں وہ بالکل درست ہے۔گل تر پڑھنے کے بعد ذہن سرخ سویرا سے موازنہ کرے گا اور گل تر میری ذہنی پختگی کا ثبوت فراہم کرے گا۔ لیکن سرخ سویرا کی اہمیت بھی کم نہیں ہے۔ آج بھی سرخ سویرا نوجوان شاعروں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

ISSN No. 2320-639X (Urdu Channel is a ugc approved research journal)