سیماب اکبرآبادی کی علمی اور ادبی خدمات کا مختصر تحقیقی و تنقیدی جائزہ

Articles

سیماب اکبرآبادی کی علمی اور ادبی خدمات کا مختصر تحقیقی و تنقیدی جائزہ

ہندوستان میں مسلم سلاطین کے دورِ زرّین میں دلّی کے بعد سب سے زیادہ اہمیت جس شہر کو حاصل ہوئی تھی وہ اکبرآباد یا آگرہ تھا جسے سکندر لودی نے از سرِ نو آباد کیا تھا۔شہنشاہ بابر نے ہندوستان کو فتح کرکے شہر آگرہ ہی کو اپنا دارالحکومت بنایا تھا۔اکبر، جہانگیر اور شاہجہاں کے عہد میں اکبر آباد کی شان و شوکت اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ سکندر لودی کے عہدِ اقتدار ہی میں یہ شہر علم و فضل کا مرکز اور اہلِ کمال کا مخزن ہوگیا تھا۔ بادشاہ کی قدردانی کی وجہ سے اہلِ علم اور اہلِ کمال دور دور سے آکر آگرہ میں جمع ہوگئے تھے جس کی وجہ سے آگرہ علم و فضل کے لحاظ سے بغداد و شیراز کا ہم پلّہ ہوگیا تھا۔ شاہجہاں نے آگرہ کا نام بدل کر اکبرآباد رکھ دیا تھا۔ اسی اکبرآباد سے اردو کے عبوری دور میں کئی اہم شعرا ابھرے جن میں سراج الدین علی خان آرزو کا نام سب سے پہلے لیا جانا چاہیے کہ انھوں نے فارسی کی بجائے اردو ریختہ گو شعرا کی ایک صف کھڑی کردی۔ ان کے شاگردوں میں میرتقی میر ایک ایسا نام ہے جس سے اعتبارِ فن قائم ہوا، اسی اکبر آباد کی مٹی سے میر کے علاوہ مرزا مظہر جانِ جاناں، مرزا غالب، نظیر اکبرآبادی، شرف الدین مضمون جیسے اہم شعرا پیدا ہوئے۔ ماہنامہ کندن کراچی کے فروری ۱۹۹۳ کے شمارے میں ڈاکٹر جمیل جالبی کا مقالہ شائع ہوا تھا، وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔۔ سترہویں اٹھارہویں صدی میں جو بڑا شاعر گزرا اس کا تعلق عام طور پر اکبرآباد سے ضرور نکلا‘‘
وہ مزید لکھتے ہیں:
’’ سیماب اکبرآبادی مغلوں کے اس عظیم تہذیبی شہر کے باسی اور بیسویں صدی میں اس عظیم روایتِ شاعری کے وارث تھے‘‘
اکبر آباد کی ادبی تاریخ قدرے تفصیل کی متقاضی ہے لیکن طوالت کو ملحوظ رکھتے ہوئے چند اہم نکات پیش کرنا ضروری سمجھتی ہوں، اکبرآبادی شعرائے اردو کے ساتھ اگر فارسی زبان میں لکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کی فہرست بھی ملا دی جائے تو پھر آگرہ کی عظمت کا اندازہ مشکل ہے۔ فیضی، ابوالفضل اور برہمن کے نام سے کون واقف نہیں، یہ سب آگرہ ہی میں پیدا ہوئے یعنی دہلی اور لکھنؤ سے پہلے ادبی فضیلت کا گہوارہ آگرہ ہی تھا۔
آبروؔ، مضمونؔ، آرزوؔ اور مظہرؔ جب آگرہ سے دہلی ہجرت کرگئے تو خاکِ آگرہ سے پھر میرؔ، نظیرؔ اور غالبؔ جیسے عظیم شعرا پیدا ہوئے، ان کے بعد مرزا مہرؔ، مرزا ماہؔ، فصیحؔ وغیرہ شعرا آگرہ میں پیدا ہوئے۔ جب یہ تین دور گزر چکے تو مرزا خادم حسین رئیسؔ، مرزا عاشق حسین بزمؔ ماسٹر تصوف حسین واصفؔ، مولانا نثار علی نثارؔ، شیخ بزرگ علی عالیؔ اور مرزا بزمؔ اکبرآبادی آگرہ کے ادبی افق پر روشن ہوئے۔ اردو کے ابتدائی دور میں کئی ادیب بھی اسی سرزمین سے ابھرے جن میں سب سے پہلا نام مولوی عبدالرّب اکبرآبادی کا ہے، ان کے بعد حکیم غلام امام، منشی اعظم علی اعظم کی نثرتابیں دستیاب ہیں۔ ابتدائی دور کے نثر نگاروں میں اکبرآباد سے جس نام کو سب سے زیادہ شہرت ملی وہ ’فسانۂ عجائب‘ کے خالق مرزا رجب علی بیگ سرور اکبرآبادی ہیں جو ہجرت کرکے لکھنؤ ، کانپور اور پھر بنارس چلے گئے۔ سرور کے علاوہ مولوی قمر الدین خاں، حکیم غلام قطب الدین خاں وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
عہدِ سیمابؔ کے چند ادبا اور شعرا میں منشی لطیف الدین احمد (ل احمد اکبرآبادی)، میکش اکبرآبادی، منشی سیّد مخمور اکبرآبادی، مرزا نجم آفندی، سید حسن عابد جعفری، اثر اکبرآبادی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ اردو کے ابتدائی دور کے اہم افسانہ نگاروں میں شمار کیے جانے والے مرزا عظیم بیگ چغتائی بھی اکبرآباد ہی میں پیدا ہوئے
بیسویں صدی کے اوائل میں کائناتِ اردو ادب میں ایسے کئی روشن ستارے نمودار ہوئے جو اپنی وسعتوں میں ایک پوری کہکشاں سمیٹے ہوئے تھے ان میں اقبال کے ساتھ ساتھ فانی بدایونی، جلال لکھنوی، ریاض خیر آبادی، مضطر خیرآبادی، عزیز لکھنوی، اکبرالہ آبادی، برج نرائن چکبست، حسرت موہانی، آغا شاعر قزلباش، بے خود دہلوی، صفی لکھنوی، جلیل مانکپوری، نوح ناروی، احسن مارہروی، وحشت کلکتوی، شاد عظیم آبادی، ظفر علی خان، تاجور نجیب آبادی، آرزو لکھنوی، جوش ملیح آبادی، حفیظ جالندھری، جگر مرادآبادی، برجموہن دتاتریہ کیفی، نیاز فتح پوری، یاس یگانہ چنگیزی، ماہرالقادری اور ایسے ہی کئی لافانی نام کہ جنھوں نے اس پورے عہد کو اردو ادب کا عہدِ زریں بنادیا، لیکن یہ فہرست سیماب اکبرآبادی کے نام کے بغیر ہرگز مکمل نہیں ہوسکتی۔
علاّمہ سیماب اکبرآبادیؒ کا اصل نام شیخ عاشق حسین صدیقی تھا، وہ 5 جون 1882 ء کو اکبر آباد (آگرہ) میں علمی ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولانا شیخ محمد حسین صدیقی عالمِ دین اور واعظ و نعت خواں تھے، شاعر بھی تھے مگر عام طرزِ شاعری سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں تھی، کئی کتابوں کے مصنف تھے گلدستۂ عطّار،مجموعۂ شہادت اور کراماتِ غوثیہ ان کی مقبول تصانیف ہیں۔ سیماب کی ابتدائی تعلیم مروّجہ دستور کے مطابق عربی فارسی اور اردو سے شروع ہوئی، قرآن و حدیث کا درس اپنے والد سے لیا۔ مولانا محمد حسین اجمیر میں ٹائمز آف انڈیا پریس کی شاخ کے مینیجر تھے، اجمیر ہی میں گورنمینٹ کالج کے برانچ انگلش اسکول میں سیماب کو شریک کروادیا لیکن بچپن ہی سے فطری موذونیت اور شعری میلان کے سبب انھیں زمانۂ طالبِ علمی ہی میں زبان و بیان اور عروض پر خاصہ عبور حاصل ہوگیا تھا اور وہ امتحانات میں پوچھے گئے سوالات کے جواب بھی منظوم لکھتے تھے۔ اپنے والد سے چھُپ چھُپا کر مشاعروں میں شرکت کرنے لگے تھے والد کو جب پتہ چلا تو انھوں نے کئی احکامات اور پابندیوں کے ساتھ مشاعروں کی اجازت دے دی۔ اس دوران انھوں نے سنسکرت اور ہندی زبانیں بھی سیکھ لیں۔ زمانۂ طالبِ علمی ہی میں سیماب تخلص اختیار کر لیا تھا۔
ابھی سیماب ایف اے کے آخری سال ہی میں تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا اور گھریلو اخراجات کی پوری ذمے داری ان کے کاندھوں پر آپڑی لہٰذا تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی اور مختلف ملازمتیں اختیار کیں جن میں ریلوے کی ملازمت بھی شامل ہے
علامہ سیماب اکبرآبادی نے اپنی زندگی کے ابتدائی حالات کا ذکر مختصر خود نوِشت ’’شعر الحیات‘‘ میں کیا ہے۔ شعر الحیات سیماب کے اوّلین مجموعۂ غزلیات ’’کلیمِ عجم‘‘ کی طبع اوّل میں شامل ہے جو سیماب ہی کے قائم کردہ ’’مکتبہ قصرالادب آگرہ‘‘ سے 1936 میں شائع ہوا تھا۔
1898 ء میں سیماب اکبرآبادی فصیح الملک مرزا داغ دہلوی کے شاگرد ہو گئے۔ داغ کے دو ہزار سے زائد شاگردوں میں علاّمہ اقبال اور ان کے بعد علاّمہ سیماب کو جو شہرتیں ملیں کسی اور کو میسّر نہ ہوئیں۔1899 ء میں حضرت حاجی وارث علی شاہؒ (دیوہ شریف) کے ہاتھوں پر بیعت کا شرف حاصل ہوا اور اسی نسبت سے کبھی کبھی وارثی تخلص بھی استعمال کرتے تھے۔
1923 ء میں انھوں نے آگرہ میں ایک علمی ادبی اور اشاعتی ادارے قصرالادب کی کی بنیاد ڈالی جس کے تحت کتابوں کی اشاعت کے علاوہ کئی اخبارات و رسائل بھی جاری کیے جن میں ماہنامہ پیمانہ، پندرہ روزہ ثریّا، ہفت روزہ پرچم ہفت روزہ تاج اور ماہنامہ شاعر قابلِ ذکر ہیں۔ماہنامہ شاعر 1930 ء میں جاری ہوا، جلد ہی اس کی ادارت سیماب نے اپنے فرزند اور جانشین اعجاز صدیقی کے سپرد کردی، شاعر تا حال ممبئی سے جاری ہے اور اپنی اشاعت کے 90 برس مکمل کر چکا ہے، اعجاز صدیقی کے فرزندان افتخار امام صدیقی، ناظر نعمان صدیقی اور حامد اقبال صدیقی اس ادبی روایت کو سنبھالے ہوئے ہیں۔
علاّمہ سیماب اکبر آبادی نے تقریباً سبھی مروّجہ اصنافِ ادب میں طبع آزمائی کی اور 300 سے زائد کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔ وہ نظم کو غزل پر فوقیت دیتے تھے اور نظم میں ہیئت کے کئی تجربے بھی کیےوہ بلا شبہ جدید اردو نظم کے بنیاد گزاروں میں تھے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ان کی نظموں کے مقابلے غزلوں کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ ان کے کئی شعر ضرب المثل ہوگئے، چند شعر ملاحظہ فرمائیں:
دل کی بساط کیا تھی نگاہِ جمال میں
اِک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں
یہ کس نے شاخِ گل لاکر قریبِ آشیاں رکھ دی
کہ میں نے شوقِ گل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی
دل ہے چراغ خانۂ مفلس نہ توڑ اسے
پھر غم کی رات آئی تو ہم کیا جلائیں گے
بظاہر ہیں یہی اسباب دنیا سے نہ ملنے کے
کسی سے ہم نہیں ملتے کسی سے دل نہیں ملتا
کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
محبت میں اِک ایسا وقت بھی آتا ہے انساں پر
ستاروں کی چمک سے چوٹ لگتی ہے رگِ جاں پر
ایسے لاتعداد مشہور اشعار کے خالق علامہ سیماب اکبرآبادی کی تصانیف میں وحیِ منظوم، الہامِ منظوم، کلیمِ عجم، سدرۃ المنتہی، لوحِ محفوظ، نیستاں، کارِ امروز، سازو آہنگ، شعرِ انقلاب، عالم آشوب، نفیرِ غم، سرودِ غم ،رازِ عروض اور دستور الاصلاح شامل ہیں۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن مجید کا مکمل منظوم ترجمہ وحیِ منظوم ہے، یہ اردو میں کلامِ پاک کا پہلا مکمل منظوم ترجمہ ہے جو ایک ہی بحر میں ہے، اس کے علاہ مولانا رومی کی مشہور مثنوی کا مکمل منظوم ترجمہ الہامِ منظوم بھی ان کا ایک نہایت اہم کارنامہ ہے۔ انھوں نے جن دیگر اصنافِ ادب میں طبع آزمائی کی اور جن متنوّع مضوعات پر کتابیں لکھیں ان میں رباعیات، قطعات، تنقید و تحقیق، افسانہ ، ڈراما، ناول، سیرت و سوانح ، خواتین اور بچوں کے لیے تعلیم اور تربیت، لغت اور انسائکلوپیڈیا وغیرہ شامل ہیں، ان کتابوں کی ایک فہرست حامد اقبال صدیقی کے تحریر کردہ مونوگراف ’’سیماب اکبرآبادی‘‘ طابع و ناشر ساہتیہ اکادمی دہلی، مطبوعہ 2009 ء میں شامل ہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے سیماب کی ان ہی خصوصیات کا ذکر ایک مکتوب میں کیا ہے جو رسالہ پرچم کراچی کے تعزیت نمبر میں شامل ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’وہ خود اپنی ذات سے ایک ادارہ تھے، وہ بہت پُر گو اور پُر مغز شاعر تھے، انھوں نے ہر صنفِ کلام میں طبع آزمائی کی اور جو کچھ لکھا خوب لکھا۔ ایسے قادرالکلام اور جدّت طراز ہر زبان میں بہت کم ہوتے ہیں‘‘
سیماب کی بیشتر تصانیف ان کی زندگی ہی میں شائع ہوچکی تھیں لیکن ان کی تحریر کردہ کتابوں میں نصف سے زیادہ کتابیں شائع ہی نہیں ہوسکیں، ان میں سے بیشتر کے مسودے انقلاباتِ زمانہ کی نذر ہوگئے البتہ بہت سا غیر مرتب شدہ مواد مختلف رسائل کے اوراق میں موجود ہے جسے مرتب کرکے شائع کیا جانا چاہیے۔ یہ المیہ ہے کہ ان کی شائع شدہ کتابوں میں سے بھی کوئی کتاب بازار میں دستیاب نہیں اسی لیے ان پر کام کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ غزل گو شعرا کی صفِ اوّل میں سیماب کا شمار ہوتا ہے مگر ان کی نظم گوئی کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی اپنی کتاب ’’تعارفِ تاریخِ اردو‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’شاعری کا ملکہ خداداد تھا، 1898 میں داغ کے شاگرد ہوئے لیکن جنگِ بلقان اور جنگِ طرابلس کے زمانے میں حالی، شبلی اور اقبال کے رنگ میں قومی نظمیں لکھنے لگے، شاعری میں بلند خیالات، اعلیٰ انسانی جذبات، فلسفیانہ حقائق اور معارف کے نکات بیان کیے ہیں، کلام میں پختگی، روانی، اصلیت، جوش اور رمز ہے۔ زبان کی صحت، صفائی اور روز مرّہ اور محاورے کی چاشنی ہے۔ یوں تو جملہ اصنافِ سخن پر قدرتِ کاملہ رکھتے تھے لیکن نظمِ جدید کی طرف خاص توجہ دی۔
داغ دہلوی کے شاگردوں کی تعداد دو ہزار کے لگ بھگ تھی اور شاید ان سے قبل اردو شاعری کی تاریخ میں اتنے شاگرد کسی استاد کے نہیں ہوئے لیکن یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ اس معاملے میں سیماب اپنے استاد سے بھی کہیں آگے نکل گئے، ان کے تین ہزار سے زیادہ شاگر دہوئے، چند مشہور نام یہ ہیں: اعجاز صدیقی، ساغر نظامی، راز چاند پوری، بسمل سعیدی، شفا گوالیاری، قمر نعمانی، مختار صدیقی، مخمور جالندھری، سراج الدین ظفر، الطاف مشہدی، صبا متھراوی، خموش سرحدی، شہ زور کاشمیری، ضیا فتح آبادی، طُرفہ قریشی، آغاز برہانپوری، منظر صدیقی، جالب مظاہری، مبشر علی صدیقی، حبیب اشعر، مفتوں کوٹوی، علیم اختر مظفر نگری، رونق دکنی، مفتوں کوٹوی وغیرہ۔ سیماب کے کئی تلامذہ کے بہت سے شاگرد آج نامورانِ ادب میں شمار کیے جاتے ہیں مثلاً انور شعور، مخمور سعیدی، افتخار امام صدیقی، یعقوب راہی، عبدالاحد ساز وغیرہ، یہ فہرست بہت طویل ہو سکتی ہے اگر اس پر باقاعدہ تحقیقی کام کیا جائے۔
علاّمہ سیماب نے مشاعروں کو وقتی تفریح بنانے کی شدید مخالفت کی اور مشاعروں میں علمی ادبی موضوعات پر مشتمل صدارتی خطبوں کو رواج دیا، ان متعدد خطبوں میں سے صرف چودہ خطبے ’’کلیمِ عجم‘‘ کی اشاعتِ اوّل میں شائع ہوسکے تھے۔یہ خطبے بظاہر مولانا حالی کے مقدمۂ شعر و شاعری کی توسیع محسوس ہوتے ہیں لیکن در حقیقت مختلف موقعوں پر اور برسوں پر محیط ان خطبوں کا مزاج اور مواد مقدمۂ شعر و شاعری سے بہت الگ اور بہت ہی مختلف موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ ان خطبات کے موضوعات میں فنِ شاعری، اصنافِ ادب، شعر و ادب کی اہمیت، تاریخِ اردو ادب، سیاسی اور سماجی حالاتِ حاضرہ کے ادب پر اثرات اور ایسے ہی لاتعداد عنوانات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ عام طور پر ان خطبوں میں معاصر شعرا اور مبتدی شعرا کو مخاطب کیا گیا ہے اور ان کی اصلاح اور ذہن سازی کو مقصد بنایا گیا ہے۔ یہاں میں صرف ان کے ایک خطبے سے ایک اقتباس پیش کرتی ہوں:
’’ تاثیر صرف اسی شعر میں پیدا ہوسکتی ہے جو شاعر کے دلی جذبات کا آئینہ اور اس کی کیفیاتِ حقیقی کا ترجمان ہو۔ جب تک کہنے والا اپنے کلام کا اثر خود اپنے دل اور دماغ پر محسوس نہ کرے اس وقت تک وہ دوسروں کی سماعت کو متاثر نہیں کرسکتا۔ ہمیں محسوس شاعری کی ضرورت ہے۔ مٖفروضہ خیالات کے اظہار کی ضرورت نہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ طرز پُر اثر، پیرایہ متین، اسلوب نیا، طریقہ اچھوتا، زبان نہ مُلّایانہ، نہ بازاری، روز مرّہ درست، محاورات بر محل، ترکیب چست، الفاظ بے ساختہ اور جملے شستہ ہوں کہ نہ حرف دبے، نہ زبان الجھے، نیز تقلیدی مضامین اور عام موضوعات سے احتراز ہونا چاہیے۔‘‘
شاعری میں فحش موضوعات، شراب اور اس کے متعلقات اور تعیّش پرستی کی بھی مخالفت کی نیز شعرِ مہذّب کو رواج دیا۔ انھوں نے ادبی نظریات اور زبان کے برتاؤ کی بنیاد پر آگرہ اسکول کا تصوّر دیا، شعرِ مہذّب کو رواج دیا غزل میں فحش نگاری اور اخلاق سوز موضوعات کی مخالفت کرتے ہوئے فکر، فلسفہ، نفسیات اور احوالِ واقعی کو جگہ دی، عربی اور فارسی کی بوجھل تراکیب اور فرسودہ استعاروں سے اجتناب کیا، انھیں جدید غزل کے ابتدائی نقوش کہا جاسکتا ہے۔ پروفیسر کلیم الدین احمد نے ان محسن کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’سیماب اکبرآبادی کی اہمیت تاریخی ہے، سیماب ان شاعروں میں ہیں جو صرف غزلیں نہیں کہتے بلکہ اپنے فن اور اس کے مختلف پہلوؤں پر غور و فکر بھی کرتے ہیں، انھوں نے محسوس کیا کہ موجودہ زمانے میں غزل گوئی پستی کے غار میں گر گئی ہے، پرانے خیالات کی بے لطف تکرار شاعری سمجھی جانے لگی ہے، اس لیے انھوں نے غزل میں انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کی، مضامین کی دنیا محدود تھی، اسے وسیع کیا، طرزِ ادا میں بھی ابتذال اور فرسودگی سے بچ کر متانت، سنجیدگی، شوکت اور ادبی شان پیدا کی اس لیے موجودہ تغزل کا مورِخ جدید رنگِ تغزل کی داغ بیل ڈالنے والوں میں انھیں شمار کرے گا۔‘‘
1948 ء میں وہ اپنی کتابوں کی اشاعت کے سلسلے میں لاہور تشریف لے گئے، قصد تھا کہ کام مکمل ہوتے ہی لوٹ آئیں گے، وہاں سے شدیدعلالت کے سبب کراچی منتقل ہوئے ، اس دوران بھی ان کی ادبی خدمات کا سلسلہ جاری رہا اور تاج کمپنی کی فرمائش پر سیرت النبویﷺ تحریر کی اس کے علاوہ کئی احادیث کے منظوم ترجمے بھی کیے۔ انھوں نے کراچی میں اپنی نوعیت کا اوّلین انسٹی ٹیوٹ جامعہ ادبیہ قائم کیا جس کے نصاب میں اردو صرف و نحو، فنِ شاعری، نثر نگاری اور صحافت کی تربیت شامل تھی، یہ جامعہ زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکا اور مروّجہ اکیڈمک اسکول ہوگیا مگر اردو شاعری اور اردو صحافت کی تدریس کا اسےسب سے پہلا ادارہ کہا جاسکتا ہے۔کراچی میں ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک ان پر فالج کا شدید حملہ ہوا اور 31 جنوری 1951 ء کواردو ادب کا یہ عظیم مجدّد اپنے مالکِ حقیقی سے جاملا۔کراچی کے قائد آباد علاقے میں تدفین ہوئی۔
کہانی ہے تو اتنی ہے فریبِ خوابِ ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہوجائے
یہ علامہ سیماب کی حیات اور خدمات کا ایک مختصر سا جائزہ ہے، ان پر کافی کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جارہا ہے، لیکن اب بھی ان کی شخصیت اور کاموں کے بہت سے ایسے پہلو ہیں جن پر کام کیا جانا چاہیے، خود ان ہی کے بقول
بھرے گی ان کو میرے بعد لاکھوں رنگ سے دنیا
خلائیں چھوڑ دی ہیں میں نے کچھ اپنے فسانے میں

مضمون نگار زاہدہ حامد اقبال صدیقی