Shab Aawez Aur Qamar Siddiqui

Articles

ڈاکٹر قمر صدیقی اور شب آویز

ڈاکٹر قمر صدیقی اور شب آویز

عنوان کی وضاحت کا طریقہ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ بس یوں سمجھ لیں کہ شب آویز ڈاکٹر قمر صدیقی کا تعارف ہے اور ڈاکٹر قمر صدیقی شب آویز کا۔ ایک دل آویز شخصیت جب شاعر بھی ہو تو شب آویز جیسے مجموعے وجود میں آتے ہیں۔ شب کہ استعارہ ہے تاریکیوں کا ، حالات کی نا ہمواری کا ، محبوبہ کی زلفوں کا، جہل کی دنیا کا، مفاد کی چادر اوڑھے اس سماج کا ، سیاہ کاروں کے دلوں کا، سکوت اور سکون کا، دیکھنے کے بجائے سوچنے کا اور سوچتے رہنے کا، کسی رخسار کے تل کا، کعبے کے تقدس کا، گھٹاؤں کا، سورہ واللیل کا۔ شب کہ نام ہے ستاروں کے طلوع کا، چاند کی نقرئی کرنوں کا ، سربام چمکتے ہوئے رخ کا، فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے فقیر کا، سحری کے لیے بانگ لگا رہے مؤذن کا۔ وہ شب جو اپنی آغوش میں عشق و محبت کی داستان، وصل کے ارمان اور ہجر کی زندان لیے ہوئے ہے۔ شب کہ جہان معانی اور دنیائے مبانی کو سمیٹے ہوئے ایک دنیا کا آسمان ہے۔ الغرض شب کے اندھیرے میں جتنے بھی رنگا رنگ مضامین شامل ہیں آپ کو ڈاکٹر قمر صدیقی کے مجموعے میں نظر آئیں گے۔ کہ قمر صدیقی اسی شب کے قمر ہیں یعنی اسی رات کے چاند۔ 

قمر صدیقی صاحب سے یوں تو سالوں پرانا تعارف ہے مگر ان کی شب آویز سے تعارف جلد ہی ہوا، البتہ اس شب کے کئی لمحے مختلف حوالوں سے سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتے تھے، کہیں غزل کی صورت میں کہیں نظم کی۔ پروفیسر ڈاکٹر قمر صدیقی صاحب بانی اردو چینل کا اسم گرامی ہندوستان بطور خاص ممبئی کے علمی و ادبی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں ہے۔ سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ اردو کے پروفیسر ہو کر بھی آپ اتنے اچھے شاعر ہیں جب کہ اردو پروفیسروں کا حال الا ما شاء اللہ ناگفتہ بہ ہے۔

“شب آویز” آپ کے 71 کلام پر مشتمل ہے۔ حمد و نعت اور نظموں کے علاوہ 55 غزلیں ہیں ۔ یہ کتاب بقول آپ کے “پچیس برسوں کے شعری سفر کا ایک سخت انتخاب ہے۔ آپ کا کلام لہجے کی سادگی کے ساتھ قوت فکر کا حامل ہے۔ اسلوب کی دلکشی اور مضامین کا تنوع قاری کو اسیر کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس مجموعے میں جہاں شیریں کی شیرینی ہے وہیں قیس کی قساوت بھی، جہاں مجنوں کا جنون ہے وہیں لیلی کا لاابالی پن ہے۔ لیکن غم عاشقی نے کہیں بھی غم روزگار کے موضوع فراموش نہیں ہونے دیا۔ آپ کی شاعری میں زندگی جہاں معشوق کی جبین پر بوسہ دیتے ہوئے نظر آتی ہے وہیں گرد و پیش کے گرداب میں الجھی بھی نظر آتی ہے۔  

اب اسی کتاب سے کچھ اشعار آپ کی خدمت میں منتخب کر کے پیش کرتا ہوں:

بہت ہی بخت والی چشم ہیں سارے صحابہ کی

کہ جن کا دید منظر ہے رسول پاک کا چہرہ

____________________

حادثے جیسے ہیں سب دیکھے ہوئے سوچے ہوئے

کوئی حیرانی نہیں اب آنکھ اور منظر کے بیچ

____________________

آوازیں خاموش پڑی ہیں

اور سناٹا بول رہا ہے

____________________

ہار اور جیت تو ایک اضافی قصہ ہے

پہلے جنگ میں نیزوں پر سر آتے ہیں

____________________

سورج کے گرد دھرتی، دھرتی کے گرد چندا

اور ان کے گرد کوئی دیوانہ رقص میں ہے

____________________

ہم اگر سوئی ہوئی یادیں جگانے لگ جائیں

نیند کو آنکھ تک آنے میں زمانے لگ جائیں

____________________

کبھی ہے گل کبھی شمشیر سا ہے

وہ گویا وادی کشمیر سا ہے

____________________

ہم اپنے جسم سے باہر نکل بھی آتے اگر

بہت خراب تھا موسم ادھر کہاں جاتے

____________________

اس بار حرم چھوڑ کے پچھتانا پڑے گا

اس‌ بار گرانی میں بہت کوئے بتاں ہیں

____________________

میں ناپ آتا تری ذات کے سمندر کو

قدم قدم پہ مگر ڈوبنے کا خطرہ تھا

____________________

اپنی آنکھیں گروی رکھ کر

ہم نے خریدے ٹی وی چینل

____________________

کیا ضروری ہے مار ڈالیں اسے

آستین ہے تو کیوں نہ پالیں اسے

____________________

برا سا خواب دیکھا تھا جو شب میں

یہ دن اس خواب کی تعبیر سا ہے

____________________

مچل رہی تھی مری روح تجھ سے ملنے کو

طلب شدید تھی لیکن بدن کا پہرا تھا

____________________

یہ صبح وشام کا چکر یہ گردش دوراں

  ہمارے ساتھ مسائل بھی بے شمار چلے

____________________

روابط کی بنا اس نے بانداز ستم رکھی

تعلق دیرپا رکھا محبت کم سے کم رکھی

____________________

آخر میں یہ شعر

ازل سے مجھ میں بسا ہے قمر مرا شاعر

کہ شعر کہتا تھا میں شاعری سے پہلے بھی

کاشف شکیل