Intekhab e Kalam Waheed Akhtar

Articles

وحید اختر


وحید اختر کا منتخب کلام

 

 

تم گئے ساتھ اجالوں کا بھی جھوٹا ٹھہرا

روز و شب اپنا مقدر ہی اندھیرا ٹھہرا

 

یاد کرتے نہیں اتنا تو دلِ خانہ خراب

بھولا بھٹکا کوئی دو روز اگر آ ٹھہرا

 

کوئی الزام نسیمِ سحری پر نہ گیا

 پھول ہنسنے پر سزاوار اکیلا ٹھہرا

 

پتیاں رہ گئیں ‘ بُو لے اُڑی آوارہ صبا

قافلہ موجِ صبا کا بس اتنا ٹھہرا

 

روز نظروں سے گذرتے ہیں ہزاروں چہرے

سامنے دل کے مگر ایک ہی چہرہ ٹھہرا

 

وقت بھی سعیِ مداوائے الم کر نہ سکا

جب سے تم بچھڑے ہو خود وقت ہے ٹھہرا ٹھہرا

 

دل ہے وہ موم ‘ ملا ہے جسے شمعوں کا گذار

اب کوئی دیکھے نہ دیکھے یونہی جلنا ٹھہرا

 

تم نے جو شمع جلائی تھی نہ بجھنے پائے

اب تو لے دے کے یہی کام ہمارا ٹھہرا

 

گنگنا لیں گے غزل آج وحید اختر کی

نام لینا ہی جو درپردہ تمہارا ٹھہرا

٭

 

برسی نہیں نغموں کی گھٹائیں کئی دن سے

 سنکی نہیں مدماتی ھوائیں کئی دن سے

 

 لب بستہ ہیں جینے کی دعائیں کئی دن سے

 ناکردہ ہیں معصوم خطائیں کئی دن سے

 

وہ حبس ہے آواز کا دم ٹوٹ رھا ھے

ھر گیت کا ھر ساز کا دم ٹوٹ رھا ھے

٭

 

 

 

نغمہ زنجیر

 

قیدخانے کی دیواریں اونچی تھیں

 در اور دریچے نہ تھے

 روزنوں سے ہوا ‘ روشنی ‘ دھوپ آتی تھی ہزاروں جتن سے

بیڑیاں پیر میں تھیں

 گلے میں تھا طوق گراں

ہاتھ تھے رسیوں سے بندھے

 جسم جکڑا ہوا آہنی زنجیر سے

ہم نے اک عمر اسیری زندان و زنجیر میں کاٹ دی

 

سالہا سال تک

 دھوپ اور روشنی اور ہوا کی اک اک بوند ہم نے سمیٹی

اور اس دولتِ بے بہا سے

 اک مدھم سا شعلہ بنایا

 اسے برسوں اپنے لہو میں تپایا ‘ جلایا

 اسی اک بوند بھر روشنی ہی سے خورشید ڈھالا

اسی اک بوند بھر دھوپ کو شعلگی دی

 اسی اک قطرہ  ہوا کو

 خود اپنے ہی انفاس کی گرمی و تندی و تیزگامی عطا کی

قید خانے میں اتنے ہی ھتھیار آئے میسر ہمیں

 

اور اک روز دیکھا

 شب و روز کی قطرہ قطرہ ٹپکتی ہوئی کاوشِ مستقل نے

 وہ طوق و رسن اور زنجیریں سب کاٹ دیں

 جسم سے خون کا طوفان اٹھا اور دیواریں زندان کی ڈھے گئیں

 سالہا سال زندان میں رھنے کے بعد تیز دھوپ اور تازہ ہوا

 اور اک بے کرن روشنی میں ہم آزاد تھے

 

ہم نے اپنی تئیں اک نئے ہی  سفر کا کیا عزم

 اور ہم جس جگہ بھی گئے

 ایک بے قید و زنجیر دنیا بسائی وہاں

 سالہا سال تک ہم نے تازہ جہانوں کی ڈالی بنا

ہاتھ دیواریں ڈھاتے رہیں

 شعلہ پائے رفتار سے زنجیریں کٹتی ‘ بکھرتی رہیں

 

اور اب تھک کے بیٹھے ہیں جو چند پل کیلئے

دیکھتے ہیں ہمارے ہی اطراف دیواریں پھر سے کھڑی ہو گئیں

جسم پھر سے گرفتارِ زنجیر ہے

 اور پھر دھوپ اور روشنی اور ہوا کی بس ایک بوند اپنے مقدر میں ہے

جسم میں خون کا طوفان سمٹا ھوا

 اور زندان کی خاموشی میں بس اک نوحہ شورِ زنجیر ھے

 

اور اس نغمہ شورِ زنجیر میں ایک آواز کہتی ہے یہ

قید خانے کی دیوار ہے خود تمہارا وجود

یہ گراں بار زنجیر و طوق و رسن ہیں تمہارے ہی انفاس کے سلسلے

 

توڑ دو ساری دیواریں زنجیریں اطراف کی

 اور اپنی تئیں یہ سمجھ لو کہ آزاد ہو پھر بھی آزاد ہو کر جہاں جاؤ گے

 اپنی دیواریں زنجیریں تم ساتھ لے جاؤ گے

تم خود اپنے صیاد بھی ‘ صید بھی

 تم خود ھی اپنی زنجیر بھی اور دیوار بھی

—————