Anis Javed ki Drama Nigari

Articles

انیس جاوید کی ڈراما نگاری

ڈاکٹر ذاکر خان

 

اردو ڈراموں کا سفر بر سہا برس پر محیط ہے۔سنتے ہیں کہ ڈرامے پرانے زمانے میں سنسکرت اور یونانی روایتوں کے امین و علمبردار ہوا کرتے تھے ۔ڈراموں کا دائرہ مذہب اورسماجی رسم ورواج کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھا۔مگر دھیرے دھیرے لوگوں کے شوق بدلتے گئے،مذہب کی گرفت ڈھیلی پڑتی گئی اور سماجی رسم و رواج پر گرد جمنے لگی ، نتیجہ یہ ہوا کہ ڈرامے بامِ عروج پر پہنچنے سے پہلے ہی رو بہ زوال ہوتے چلے گئے۔سماجی سطح پر بدلتا ہوا شوق مکمل طور پر شاعری کے سحر سے باہر نہ آ پایا اور شاعری عوامی تفریحِ طبع کا واحد ذریعہ ٹھری۔پھر کسے فرصت تھی کہ ڈراموں کی سنگلاخ وادیوں کا سفر کرے اور دشوار گذار گھاٹیوں کی گہرائی ناپے۔ڈرامے قارئین اور ناظرین کی تفریح کا سامان تو تھے ہی لیکن انھیں تخلیق کرنا اور اسٹیج پر کھیلنا کافی مشکل تھا۔ یہی سبب تھا کہ اِس جانب کم ہی توجہ دی گئی۔لیکن دھیرے دھیرے مایوسی کے بادل جھٹنے لگے اور ایک دور وہ بھی آیا جب ڈراموں کونواب واجد علی شاہ کے ذریعے شاہی سرپرستی حاصل ہوئی اور یہیں سے ڈراموں کی تاریخ کا سنہری دور شروع ہوا۔اور مختلف ادوار میں مختلف نامور ہستیاں ڈراموں کی بقا کے لیے کوششیں کرتی چلی گئیں۔ آغا حشر کاشمیری سے لیکر منٹو تک اور منٹو سے لیکر حبیب تنویر تک اور پھر حبیب تنویر سے انیس جاوید تک بیشمار ڈرامہ نگار تھیٹر کے منظر نامے پر ظاہر ہوئے لیکن اُن میں کم ہی ایسے ہونگے جنھوں نے خود اپنے تخلیق کردہ ڈراموں میں ایکٹر اور ڈائرکٹر کے فرائض انجام دیے ہوں۔ انیس جاوید کا شمار انھیں صفِ اوّل کے ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے جو اپنوں ڈراموں کے نہ صرف رائٹر ہیں بلکہ انھیں ایکٹر اور ڈائرکٹر ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔ انیس کے معاصرین خود آپ کی عظمتوں کو سلام کرتے ہوئے نظر آتے ہیںاور صدق دل سے اِس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انیس نے اپنے فن کو وہ جلا بخشی کہ ہم بھی نمبر ایک پر آنے کے تمنائی ہوگئے۔” ابھی تو رات ہے “پر تبصرہ کرتے ہوئے اقبال نیازی یوں کہتے ہیں کہ
“۱۹۷۸؁ سے ۱۹۸۲؁ کے دوران انیس جاوید ہر سال اپنا ڈرامہ مقابلے میں لاتے اور اوّل انعام لے جاتے اور ہم دوست احباب دوّم انعام حاصل کر کے سر جوڑ کر بیٹھ جاتے کہ ہم سیکنڈ کیوں ہو رہے ہیں ”
انیس جاوید سے میرے مراسم دیرینہ نہ سہی مگر کم بھی نہیں ۔ میں انھیں پچھلے دس سالوں سے جانتا ہوں ۔ آپ کی شخصیت خلوص، ایثار ، ہمدردی اور انسان دوستی سے عبارت ہے ۔عصرِ حاضر میں انیس جاوید ڈراموں کی دنیا کا ایک بڑا نام ہے۔ لیکن آپ کی دنیا صرف ڈراموں تک ہی محدود نہیں ۔آپ نے اپنے فن اور صلاحیتوں کا بخوبی استعمال فلموں اور ٹی وی سیریئلس میں بحسن خوبی کیا ہے۔ایک طرف آپ نے فلموں میں رائٹر ڈائرکٹڑ کے فرائض انجام دیے تو دوسری طرف سرئیلس میں مکالمہ نگاری اور گیت کے ذریعے اپنے فن کو کمالِ عروج تک پہنچا دیا۔مگر ڈرامہ ہمہ وقت انیس جاوید کا شوق ہی نہیں جنون بھی رہاہے جو اب بھی رواں دواں ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ دنیا بھر میں ادب جنونی لوگوں کی بدولت ہی زندہ رہتا ہے جو مال و منال کی پرواہ کئے بغیر منزلِ لا مکاں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیںاس لحاظ سے انیس جاوید بھی کم جنونی نہیں ۔ ڈراموں کے اسٹیج پر آپ کے قدم تقریباًچالیس برسوں سے کسی ستون کی مانند ایستادہ ہیں ۔عمارتیں پرانی ہوگئیں ، اسٹیج رو بہ زوال ہیں ، ناظرین بوڑھے ہوگئے ہیں لیکن انیس جاوید کا جذبہ آج بھی جوان ہے۔
انیس جاوید سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب انیس جاوید Etvاردو کے لیے بیت بازی کا مقابلہ شوٹ کروارہے تھے اور ہم بھی شاملِ مقابلہ تھے۔اس ملاقات پر یقین نہیں آیا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے بے شمار ڈرامے تخلیق کیے، سیرئیلس کی اسکرپٹ میں چار چاند لگائے،فلموں کے لیے اسٹوری لکھی مکالمے تحریر کیے، ہدایت کاری کے فرائض انجام دیے اور بذاتِ خود اپنے ڈراموں میں مرکزی کردار بھی ادا کیا۔ میرے ذہن نے کچھ اس طرح اُن کا خاکہ بنانا شروع کیا کہ ایک عام سا نظر آنے والاشخص، ہونٹوں پر مخلص مسکراہٹ، دل میں ٹھاٹھیں مارتی ہوئی مشفق محبت ، چہرے پر متانت و سنجیدگی، گفتار میں شائستگی، کردار میں پختگی،کام میں سلیقہ مندی، سوچ کے آئینہ دار جذبات،انگلیوں سے چپکی ہوئی ایک مہین سی امپورٹیڈ سگریٹ جو کبھی انگلیوں کی پکڑ میں جل جاتی اور کبھی محبوبہ بن کر لبوں کو چوم لیتی ۔ محبوبہ بھی ایسی جو چوبیس گھنٹے اُن کا ساتھ نہ چھوڑے۔مَیں نے خود سے سوال کیا، کیا اتنا سنجیدہ نظر آنے والا شخص اپنے ڈراموں سے سماج کے سلگتے ہوئے مسائل پر چوٹ کر سکتا ہے؟ کیا یہ وہی شخص ہے جس نے نچوم کے افسانوی کردار کو حقیقت کا روپ دیدیا؟میری الجھن اُن سے چھپی نہ رہ سکی فوراً مجھ سے سوال کیا ،سر کیا سوچ رہے ہو؟مَیں اچانک تخیّلات کی ماورائی دنیا سے باہر آگیااور مجھ پر یہ راز بھی منکشف ہو گیا کہ انیس صرف فنکار ہی نہیں چہرہ شناس بھی ہے جو چہرے کے نقوش سے شخصیت کے پیچ و خم پڑھنے کا ہنر بھی جانتا ہے۔لبوں کی تھرتھراہٹ سے مدّعی کا مدّعا جان لینا اُن ہی کا وصف ہو سکتا ہے۔پھر انیس مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہا ، سر آپ شاعری کا تو اچھا ذوق و شوق رکھتے ہو کبھی ہمارے ساتھ ڈرامہ بھی کرلوویسے بھی زندگی ایک ڈرامہ ہی ہے اور ہم سب سانسوں کی ڈور پر چلنے والی کٹھ پتلیاں۔مَیں نے ہچکچاتے ہوئے ڈرامے کے لیے ہاں کردی۔اِس طرح سے انیس جاوید کی رہنمائی ایک ٹیچر کو ایکٹنگ کی طرف مائل کرنے لگی بعد میں پتہ چلا کہ انیس جاوید کی پوری ٹیم ہی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔اِن میں منصف قریشی بھی ہیں اور محمّد رفیق شیخ بھی،مشتاق زبیر بھی ہیں اور رمضان امین بھی۔ خاکسار کو سب سے پہلے “دو گز زمین” میں کام کرنے کا موقع ملااور پھر مواقع بڑھتے گئے۔ڈراموں سے ہٹ کر ہم نے ڈی ڈی اردو اور Etvاردو کے لیے بھی اُن کے ساتھ کام کیا۔ انیس جاوید کا ایک خاص وصف یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہر ایکٹر کو مرکزی کردار کا اہل بنا دیتے ہیں ۔ اُن کی ٹیم میں شامل ہر ایکٹر نے مختلف ڈراموں میں مرکزی کردار نبھائے ہیں۔مَیں نے اوپر ہی بیان کردیا کہ انیس جاوید چہرہ اور شخصیت پڑھنے میں مہارت رکھتے ہیں۔دو ڈراموں کے بعد ہی مجھے “سمندر خاموش ہے”میں “دیش”کا مرکزی کردار مل گیا۔شروعات میں کچھ ڈر بھی لگا مگر دھیرے دھیرے ڈر کافور ہوتا گیا۔ریہرسل پر اُن کا رویہ انتہائی دوستانہ ہوتا مگر مسلسل غلطیوں پر رشتے ناطے ، دوستی و دلبری کی روایات طاق پر رکھ دی جاتی اور اُن کے منہ سے لکلتا “pack up”چند لمحوں تک اپنی ٹیم کی طرف دیکھتے ، سگریٹ غالبؔ کی کافر مئے کی طرح لبوں سے چپک جاتی دھواں فضائوں میں مرغولے بنانے لگتا اور وہ دھویں کو کچھ اِس طرح دیکھتے جیسے اسکرین پر پورا ڈرامہ نظر آ رہا ہو۔پھر مسکراتے ہوئے اپنی ٹیم سے کہتے ، چلو بھائی ایک کوشش اور کرلی جائے اور وہ کوشش ہماری آخری کوشش ہوتی اور ڈرامہ فائنل ہوجاتا۔شاید ہی کوئی ڈرامہ ایسا ہو جس میں آپ کو pack up نہ کہنا پڑا ہو۔
آپ نے اپنے ڈراموں کے ذریعے ایک مصلح کا کردار ادا کیا ،جو سماج کی ہر برائی پر چوٹ کرتا ہے سماج کی ہر غلطی پر اصلاح کرتا۔ سرمایہ دارانہ نظام سے نفرت اور مساوات پر یقین آپ کی عمر کے ہر اُس فنکار کا خاصّہ ہے جس نے غربت اور غرباء کو قریب سے دیکھاہو،اُن کے مسائل جانے ہو، سسکتی ہوئی آہیں سنی ہو ، بلبلاتے ہوئے بچے دیکھے ہوں، سیکولرزم کی دہائی دیتی ہوئی جمہوریت کو پرکھا ہو، دھوپ سے کھیتوں میں جلتے ہوئے جواں جسم اور بڑھاپے میں سردیوں سے ٹھٹرتی ہوئی ادھ مری لاشیں دیکھی ہوں،جمہوریت کا گلا ریت کر دیش کو کھوکھلا کرنے والے نیتائوں سے روبرو ہوا ہو، کچھ حد تک یہ بات انیس جاوید کے فن میں بھی پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہیکہ جب شوکت کیفی کی موجودگی میں انھیں اپنے ڈرامے “ابھی تو رات ہے”پر اوّل انعام سے سرفراز کیا گیا تب بے ساختہ آپ کی زبان سے نکلا اردو اکادیمی کو لال سلام ،شوکت کیفی کو لال سلام۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک زمانہ جو اُن کا معترف تھا منحرف ہوگیا، صلاحیتیں عیب نظر آنے لگیں اور انیس کے تار سرخ پرچم سے منسوب کردیے گئے۔ طوفان اٹھے ،بلائیں لادی گئیں مگر عشقِ صادق نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ انیس اپنی عمر کی سیڑھیاں چڑھتے رہے مگر جذبہ روز افزوں جواں ہوتا رہا۔ ساٹھ بہاریں دیکھنے کے بعد بھی وہ اُسی طرح چاک و چوبند جیسے وہ تیس برس قبل تھے۔
انیس جاوید کے ڈراموں کا ایک خاص وصف جو اوروں سے انھیں منفرد کرتا ہے وہ قبولیتِ عام ہے۔عوام و خواص ، امیر و غریب ، اور ہر عمر کے افراد اُن کے ناظرین ہی نہیں شیدائی بھی ہیں۔آپ کے ڈراموں کے مجموعے” ابھی تو رات ہے “اور”معمار جہاں تو ہے ” منظرِ عام پر آ کر قارئین سے دادو تحسین حاصل کرچکے ہیں لیکن یہ اُن کی معراج نہیں ،انہیں تو ابھی اوجِ ثرّیا تک سفر کرنا ہے۔وہ اپنے ڈراموں کے ذریعے سماج کو ایک نیا پیغام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔شاید ہی ان کا کوئی ڈرامہ ایسا ہو جس میں انہوں نے ناظرین کا دل جیت کر انھیں سوچنے پر مجبو ر نہ کیا ہو۔ ڈراموں کے کردار مکالمے اور پلاٹ میں غضب کا تال میل پایا جاتا ہے۔بھرتی کے کرداروں اور بے جا مکالموں سے انہوں نے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے ڈراموں میں کردار وںکی بہتات نہیں ،وہ کم کرداروں کے ساتھ بھی کامیاب ہیں۔ آپ ہر سین کے تانے بانے انتہائی کمالِ خوبصورتی سے بنتے ہیں ۔ابتدائی مراحل میں یوں نظر آتا ہے جیسے کینوس پر کسی مصّور نے آڑھی تیڑھی لکیریں کھینچ دی ہوں لیکن جیسے جیسے ڈرامہ آگے بڑھتا ہے یہ آڑھی ٹیڑھی لکیریں خوبصورت پیکر میں ڈھلنے لگتی ہیں مگر مصّور کو اطمینان نہیں وہ اسٹیج پر پہنچنے تک اُسے finishing touch دیتا رہتا ہے۔ انیس بھی انہیں عظیم مصّوروں اور فنکاروں میں شامل ہیں جنھیںاپنے فن کی خوبصورتی دیکھ کر محض خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہنا گوارہ نہیں۔وہ ہمہ وقت اُسے اور زیادہ نکھارنا اور سنوارنا چاہتے ہیں ۔ہم سے بہتر انہیں کون جان سکتا ہے جنھوں نے اُن کے ساتھ کام کیا ہے۔ کسی ڈرامے کے پانچ پانچ شو ہوجانے کے بعد بھی اُن کی اصلاح بدستور جاری رہتی ہے۔اور وہ خوب سے خوب تر کے سفر کی طرف رواں دواں نظر آتے ہیں۔
“ابھی تو رات ہے “کا بھیکو ہو یا “دو گز زمین “کا نچوم، “سمندر خاموش ہے “کا دیش ہو یا “معمارِ جہاں تو ہے “کا معلّم انیس جاوید نے ہر جگہ اپنے کرداروں کو بلندی عطا کی ہے۔حالات کا مارا بھیکو جاگیردارنہ نظام کے خلاف در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے ، انصاف کے لیے ہر اُس دروازے پر دستک دیتا ہے جہاں سے اُسے معمولی سی بھی امید ہو مگر اُس بے چارے کو کیا پتہ کہ انصاف تو امیروں کی لونڈی اور جاگیرداروں کی رکھیل بن چکا ہے۔ اپنا سب کچھ لُٹ جانے کے بعد وہ حواس باختہ ہوجاتا تب اُسے کہیں سے پتہ چلتا ہے کہ ایک جگہ ایسی بھی جہاں گھنٹہ بجائو اور انصاف پائو،بے چارہ ہانپتے کانپتے وہاں پہنچ تو جاتا ہے مگر دروازے پر لگا ہوا بڑا سا تالا اُسے مبہوت کردیتا ہے اور پھر واچ مین کی کرخت آواز آتی ہے کہ کہ ابھی انصاف کہاں ابھی تو رات ہے۔انیس جاوید نے اپنے اِس ڈرامے کے ذریعے سماج کے سلگتے ہوئے مسائل کے ساتھ ساتھ چترورنیہ پرمپرائوں پر زبردست تنقید کی ہے۔جہاں نچلی ذات مسلسل استحصال کا شکار ہے۔کوئی پرسانِ حال نہیں گویا یوں لگتا ہے کہ دبتے رہنا اور کچلا جانا ہی اُن کا مقدرہو۔آخر یہ سماجی نابرابری کب ختم ہوگی؟ بھیکو کو انصاف کب ملے گا؟ کب سماج ظالم و جابر جاگیرداروں اور سود خور مہاجنوں کی گرفت سے آزاد ہوگا؟اسی طرح ” سمندر خاموش ہے”میں انیس جاوید کے ظالم و جابر کردار کرپٹ نیتائوں کے روپ میں نظر آتے ہیں جو دیش کی ایک ایک چیز نیلام کرکے اُسے بیرونی قرضوں کا تاج پہنا دیتے ہیں۔اور دیش کی حالت برٹش دورسے زیادہ خراب ہو جاتی ہے۔ یوں لگتاہے انیس جاوید سماج و معاشرے کو بہت قریب سے دیکھتے ہیں اُس کے ہر دکھ پر چینخ پڑتے ہیں ہر قرب پر بلک اُٹھتے ہیں۔اور تن من دھن کے ساتھ سماج میں خوشحالی کے متمنّی ہیں۔
انیس جاوید خود بھی درس و تدریس سے وابستہ تھے پھر آپ طلبا کے مسائل سے کیسے چشم پوشی کرتے۔فی زمانہ طلبا کے لیے صحیح کرئیر کا انتخاب انتہائی اہم مسئلہ ہے ۔ آپ نے اپنی فنکارانہ مہارت سے طلبا اور سرپرستوں کے لئے “آو کہ چھولیں خوابوں کو”تحریر کیا اور اسٹیج کی زینت بناتے ہوئے والدین کو تلقین کی کہ وہ اپنی سرپرستانہ رائے بچوں کے ذہنوں پر مسلّط نہ کریں انہیں خود اپنے کرئیر کا انتخاب کرنے کے لیے آزاد رکھیں۔ اسی طرح آل مہاراشٹر آئیڈیل ٹیچر کانفرنس میں الفلاح ہائی اسکول ملاڈ کے پرنسپل کی فرمائش پر “معمارِ جہاں تو ہے”نامی ڈرامہ پیش کیا اور بے پناہ شہرت و مقبولیت حاصل کی۔ڈرامہ کے فوراًبعد مولانا آزاد ٹیچر ٹرینگ کالج دربھنگہ کے پروفیسر ڈاکٹر صدّیقی محمد محمود صاحب کو سامعین سے مخاطب ہونا تھا ۔مگر لوگ ڈرامے کے سحر سے باہر نہ آسکے محمود صاحب اورنگ آباد میں میرے بھی استاد رہے ہیں۔ پروگرام ختم ہونے کے بعد آپ نے مجھ سے ملاقات کی اور کہا کہ
“ذاکر میں نہیں سمجھتا کہ اورنگ آباد میں مَیں نے آپ کے ساتھ کوئی ظلم کیا تھا جو آپ لوگوں نے مجھ سے اُس کا بدلہ لے لیا۔لوگ ڈرامے کے سحر ہی سے باہر نہ آسکے پھر وہ مجھے کیسے سنتے”
میں نہیں سمجھتا کہ اُس روز انیس جاوید کے لیے اِس سے بڑا complementکچھ اور ہو سکتا تھا۔معمارِ جہاں تو ہے میں انیس جاوید ٹیچر پر ہونے والے مظالم مختلف غیر ضروری ذمّہ داریوں کا بوجھ منیجمنٹ کا دبائو اور حکومتی پریشر کو اپنا موضوع بنایا۔جب اِس ڈرامے کی کاسٹنگ کی جارہی تھی تب میں نے انیس جاوید سے دریافت کیا ، سرآپ ٹیچر کا رول کسے دینے والے ہیں ۔ اُن رگِ ظرافت پھڑکی اور گویا ہوئے ذاکر ہمیں ایک بھولا بھالا ٹیچر چاہیے جو ظلم ستم کا شکار ہو، چہرے پر متانت ہو سنجیدگی ہو۔ اور شاید اِس رول کے لئے رمضان امین سے بہتر کوئی نہیں۔اِس طرح سے اِس مرتبہ مرکزی رول کے لیے قرعہ فال رمضان امین کے نام نکلا۔
انیس جاوید کبھی بھی اپنی قوم کی حالتِ زار سے غافل نہیں رہے۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج پورے ملک میں مسلمانوں کو جھوٹے مقدّمات کا سامنا ہے۔ناکردہ گناہوں کی سزائیں دی جارہی ہیں ۔ بم دھماکوں کے بے بنیاد الزامات لگا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیلا جا رہا ہے۔آپ سے یہ حالات دیکھے نہ گئے اور “مَیں آتنک وادی ہوں” نامی ڈرامہ تخلیق کردیا ۔ جہاں بابو چیخنے ہوئے اپنی بے گناہی ثابت کرنا چاہتا ہے مگر اُس پر ظلم وستم کی انتہا کردی جاتی آخر میں وہ تنگ آکر چیخنے لگتا ہے کہ ہاں ہاں میں ہی آتنک وادی ہوں۔
انیس جاوید نے اب تک جتنے بھی ڈرامے پیش کیے ،شہرت و مقبولیت نے اُن قدم چومے ہیں۔انیس نہ صرف ممبئی بلکہ مہاراشٹر اور ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں بھی ڈراموں کی دنیا کا ایک اہم نام ہے۔میوزک اُن کے ڈراموں میں روح کی حثیت رکھتی ہے ، وہ ہمیشہ اپنے ڈراموں کے لیے پروفیشنل موسیقار کا انتخاب کرتے ہیں اسی طرح سے منفرد لب و لہجے میں لمبی سانسوں کے ساتھ کیا جانے والا اُن کا انائونسمنٹ اور قتیل شفائی کا شعر انیس جاوید کی شناخت بن چکا ہے۔
جو ہم نہ ہوں تو زمانے کی سانس رک جائے
قتیلؔوقت کے سینے میں ہم دھڑکتے ہیں

———————-