Cultural activities of Educational Institutes

Articles

تعلیمی اداروں میں تہذیبی وثقافتی سرگرمیاں

ڈاکٹر ذاکر خان

قسط اول
انسانی زندگی اور اس کی تمام تر تہذیبی و ثقافتی قدریں دن بدن تبدیلی اور تغیر کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ اس تبدیلی اور تغیر کے اثرات سماج و معاشرے پر بھی نمایاں نظر آنے لگے ہیں۔ ایسے ماحول میں ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان دوستی ، اخوت اور بھائی چارے کی فضا کو سازگار کیا جائے اس تعلق سے تعلیمی اداروں میں وقتاً فوقتاً منعقد کی جانے والی تہذیبی و ثقافتی سرگرمیاں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔
تہذیب و ثقافت انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ اقوام کی عادت و اطوار، ان کا طرزِ فکر، ان کا دینی و دنیوی نظریہ، ان کے اہداف و مقاصد کسی بھی ملکی تہذیب کی اساس ہوتے ہیں۔اسی سے قوموں کی شناخت ہوتی ہے۔ قوم کی ثقافت اسے ترقی یافتہ، با وقار، قوی و توانا، عالم و دانشور، فنکار و ہنرمند اور عالمی سطح پر محترم و با شرف بنا دیتی ہے۔ اگر کسی ملک کی ثقافت زوال و انحطاط کا شکار ہو جائے یا کوئی ملک اپنا ثقافتی تشخص گنوا بیٹھے تو باہر سے ملنے والی ترقیاں نہ ہی اسے اس کا حقیقی مقام نہیں دلا سکتی ہیں اور نہ ہی وہ قوم اپنے قومی مفادات کی حفاظت کر سکتی ہے۔ دنیا کی تمام بیدار قومیں اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی قوم نے اپنی ثقافت کو بیگانہ ثقافتوں کی یلغار کا نشانہ بننے اور تباہ و برباد ہونے دیا تو نابودی اس قوم کا مقدر بن جائے گی۔ ہمیشہ غلبہ اسی قوم کو حاصل ہوا ہے جس کی ثقافت غالب رہی ہے ۔ اگرکسی قوم کو اس کی تاریخ، اس کے ماضی، اس کی تہذیب و ثقافت، اس کے تشخص، اس کے علمی، مذہبی، قومی، سیاسی اور ثقافتی افتخارات سے جدا کر دیا جائے، ان افتخارات کو ذہنوں سے محو کر دیا جائے، اس کی زبان کو زوال کی جانب ڈھکیل دیا جائے، اس کا رسم الخط ختم کر دیا جائے تب وہ قوم زندگی سے محروم ہوکر اغیار کی مرضی کے مطابق ڈھل جانے کے لئے تیار ہو جاتی ہے اوراس کی نجات کے تمام راستے مسدود ہو جاتے ہیں
تہذیب اور ثقافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے البتہ تہذیب ثقافت سے جنم نہیں لیتی بلکہ تہذیب ثقافت پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کی راہ متعین کرتی ہے۔ تہذیب کسی گروہ کے عقائد کے تابع ہوتی ہے۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ افراد کو گروہ میں قائم رکھنے کیلئے کچھ مشترک باہمی عوامل لازم ہیں اور یہ عوامل ہی دراصل عقائد کا روپ دھارتے ہیں۔ فطری طور پر یہ عوامل ان کے مذہبی اصول ہی ہوتے ہیں۔ تہذیب کو مورخین نے مذہب کے زیرِ اثر ہی گرداناہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عیسائی اور یہودی بہترین اوصاف کا منبع زبور ،تورات اور انجیل کو قرار دیتے تھے اور یہ استدلال درست بھی تھا گو متذکرہ کتب نے تحریفات کے سبب الہامی حیثیت کھو دی ہیں۔ پھر جب غیرمسلم دنیا اپنے عقائد سے بالکل اچاٹ ہو گئی تو انہوں نے تہذیب کی تعریف سے لفظ مذہب کو حذف کر دیا۔ اس کے باوجود اب بھی کچھ ڈکشنریاں ایسی ہیں جن میں تہذیب کا تعلق مذہب سے بتایا گیا ہے یا مذہب کا نام لئے بغیر اس طرف اشارہ کیا ہے
تعلیمی ادارے تہذیبی و ثقافتی قدروں کو برقرار رکھنے اور ان کی خاطر خواہ نشو نماکرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ ان اداروں کا یہ بھی اوّلین فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی قدروں کی آبیاری کرتے رہیں۔ تعلیم کی ترسیل کے علاوہ یہ ادارے socialization and the transmission of cultural norms and values. جیسے اہم فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔ socialization اس عمل کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے ایک طالبِ علم اپنی ذاتی شناخت بناتے ہوئے معلومات، زبان اور ایسی سماجی صلاحتیں سیکھتا ہے جو اسے دوسروں سے ہم آہنگ کرتی ہیں۔socialization کے بعد تعلیمی اداروں کی سب بڑی ذمّہ داری transmission of cultural norms and values to new generationsہے۔یعنی نسل نو میں تہذیبی اصولوں اور قدروں کو منتقل کرنا۔ تعلیمی ادارے مختلف طبقات میں بٹی ہوئی آبادی کو ایک سماج کی حیثیت عطا کرتے ہیں اور انہیں قومی شناخت سے نوازتے ہوئے ملک کا مستقبل تیار کرتے ہیں۔یہاں منعقد کی جانے والی تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں سے ہمیں بطور خاص تین قسم کے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
(۱)سماجی فوائد: عام طور پر اس قسم کی سرگرمیاں طلبا وطالبات کا ایک بڑا گروہ انجام دیتا ہے جس میں مختلف سماج و معاشرے سے آئے ہوئے طلبا وطالبات بھی شامل ہوتے ہیں اس طرح سے یہ سرگرمیاں طلباکوسماج و معاشرے سے ہم آہنگ بھی کرتی ہے اور دیگر قوموں اور سماجوں سے تعلقات استوار اور رشتے مضبوط کرواتی ہیں ۔ ان ہی سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ میں interpersonal skills پروان چڑھتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کے جذبات، ایک دوسرے کے سماجی رسم و رواج اور مذہبی عقائد سے بھی واقف ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی سرگرمیوں کے ذریعے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے انہیں کی طرح سماج و معاشرے میں اور کتنے گروہ کہاں کہاں پر سرگرمِ عمل ہیں۔
(۲)عملی فوائد: اس طرح کی سرگرمیاں طلبہ کو ایک مقصد(common goal) کے لیے کام کرنے پر تیار کرتی ہیں۔ ان میں احساسِ ذمّہ داری(sense of responsibility)پیدا کرتی ہیں۔ یہ سرگرمیاں طلبہ میں اعتماد بھر دیتی ہیں اور انہیں مشکل حالات کا سامنا کرنا سکھاتی ہیں۔ عملی فوائد میں ہم مختلف قسم کے کھیل کود کے مقابلوں کی مثالیں پیش کرسکتے ہیں جس کے ذریعے طلبہ خود اپنی صحت کی دیکھ بھال کرنا، ذہنی و جسمانی طور پر چاک و چوبند اور صحت مند رہنا سیکھ جاتے ہیں۔انہیں اپنے صحت مند جسم سے محبت ہونے لگتی ہے ۔ یہی خوشحال زندگی کااوّلین اصول ہے۔
(۳)تعلیمی فوائد: عام طور پر ہرفن مولا کہلانے والے لوگ نہ صرف جلد نوکری یا روزگار حاصل کرلیتے ہیں بلکہ ماضی میں انجام دی گئی اِن سرگرمیوں کی بنا ءپر انہیں اعلیٰ تعلیم کے بہترین مواقع دوسروں کی بہ نسبت جلد حاصل ہوجاتے ہیں۔اس طرح سے ان کے ذریعے انجام دی گئی سرگرمیاں ان کے بہتر مستقبل کی ضامن بھی بن جاتی ہیں۔
تعلیمی اداروں کی مختلف سرگرمیاں
تہذیب و ثقافت کو زندہ اور پائندہ رکھنے کے لیے تعلیمی ادارے مختلف قسم کی سرگرمیوں کو انجام دیتے ہیں ان سرگرمیوں کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ابتدائی ،ثانوی اور ثلاثی سرگرمیاں کہہ سکتے ہیں۔
Recitation, Simple Story Telling, Dancing, Drawing, Painting, Fancy Dress, Folk Dance, Assembly, Reading جیسی سرگرمیوں کو ابتدائی سرگرمیوں میں شمار کیا جاسکتا ہے اور ان کا اطلاق پرائمری اسکولوں پر کیا جاسکتا ہے۔
Debate and discussion,School magazine, Dramatics, Study circle, Societies, Art groups, Seminar, Poetic Gathering, Scouting, Sculpture, Exhibition, Folk Songs, Students’ Council, Celebration of Religious National and Social Festivals, Organization of School Panchayat Mock Parliament, Social Study Circle, Fair, First Aid, Red Cross, Social Survey, وغیرہ کو ثانوی سرگرمیوں میں شمار کیا جاسکتا ہے اور ان کا اطلاق سیکنڈری اسکولوں پر کیا جاسکتا ہے۔
National Cadet Corps (NCC), National Sports Organisation (NSO), National Service Scheme (NSS), Debate and discussion, Seminar, Conference, Social Survey وغیرہ کو ثلاثی سرگرمیاں کہہ سکتے ہیں اور ان کا اطلاق کالجوں پر کیا جاسکتا ہے۔
ان تمام سرگرمیوں کے علاوہ بھی تعلیمی اداروں میں کچھ مخصوص قسم کی سرگرمیاں بطور خاص انجام دی جاتی ہیں مثلاً
Children’s Day, Woman’s Day, Various Religious Festivals, New year, Republic Day, Independence Day, Teachers Day, Arts and Crafts Exhibition, Inter-School Science Fest وغیرہ۔
پورے ملک کے تعلیمی اداروں میں مختلف قسم کی تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں اور ان سرگرمیوں کے اختتام پر ایک مخصوص قسم کے جشن کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس مختصرسے مضمون میں پورے ملک کا حوالہ دینا تقریباً ناممکن ہے لیکن عروس البلاد ممبئی اور اس کے اطراف میں واقع تعلیمی اداروں میں منائے جانے والے مخصوص دنوں یا جشن کے نام یہاں پیش کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً
Don Bosco Institute of Technology. میں منایا جانے والا جشن Crextal
Narsee Monjee College of Commerce & Economics میں منایا جانے والا جشن ، امنگ
K. J. Somaiya College of Engineering میں منایا جانے والا جشن Symphony
Mithibai College میں منایا جانے والا جشن Kshitij
Xavier Institute of Engineering میں منایا جانے والا جشن Spandan
Veermata Jijabai Technological Instituteمیں منایا جانے والا جشن Pratibim
Anjuman i Islam میں منایا جانے والا جشنJushn e Anjuman کہلاتا ہے
جہاں تک اردو تعلیمی اداروں کا تعلق ہے ممبئی اور اس کے اطراف و اکناف میں واقع یہ ادارے تہذیب و ثقافت کی بقا کے لیے ہمیں اپنی بساط سے بڑھ کر کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان اداروں میں سب سے نمایاں نام ڈپارٹمنٹ آف اردو یونیورسٹی آف ممبئی کاہے۔یہاں ڈپارٹمنٹ کے صدر پروفیسر صاحب علی صاحب کی خصوصی دلچسپی اور رہنمائی کے سبب تہذیبی و ثقافتی پروگرام تواتر کے ساتھ منعقد ہوتے رہتے ہیں۔
چوں کے ممبئی میں انجمن اسلام اور انجمن خیرالاسلام کے تعلیمی اداروں کا جال بچھا ہوا ہے اس لیے ہمیں زیادہ تر سرگرمیاں ان ہی کے یہاں نظر آتی ہیں۔ اس معاملے میں انجمن اسلام باندرہ میں منعقد ہونے والا فی البدیہہ تقریری مقابلہ، سیف طیب جی میں منعقد کیے جانے والے ثقافتی مقابلے، انجمن اسلام سی ایس ٹی پر منعقد ہونے والے مقابلے قابلِ ذکر ہیں۔
اکبر پیربھائی کالج میں گزشتہ دودہائیوں سے جاری بیت بازی کے مقابلے نے تہذیب و ثقافت کے تنِ مردہ میں روح پھونکی ہے۔ اسی طرح کموجعفر اور برہانی کالج میں منعقد کیے جانے والے مقابلوں سے انکار ممکن نہیں۔
ممبئی کے مضافات گوونڈی شیواجی نگر میں واقع نورالاسلام اردو ہائی اینڈ جونئیر کالج تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں کے معاملے میں دیگر بڑے بڑے تعلیمی اداروں سے کسی بھی طرح پیچھے نہیں ہے۔ اس ادارے نے پرنسپل فضل الرّحمٰن خان کی رہنمائی میں کامیابی و کامرانی کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اکثر و بیشتر یہاں شعری نششتیں، ادبی محفلیں اور دیگر ثقافتی مقابلے منعقد کیے جاتے رہتے ہیں۔
گزشتہ دو دہائیوں سے ممبئی کے اطراف میں واقع بھیونڈی تہذیبی اور ثقافتی مقابلوں میں اردو کے تمام بڑے مراکز سے آگے نکلتا ہوا نظر آرہا ہے اور اس کا مکمل سہرا کوکن مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کے سرہے۔ جتنے مقابلے یہاں منعقد کیے جاتے ہیں شاید ہی کہیں اور منعقد کیے جاتے ہونگے۔
کوکن مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کی معرفت چلنے والے رئیس ہائی اینڈ جونئیر کالج کے پرنسپل ضیا الرّحمٰن انصاری نے ہمیں بتایا کہ ان کے یہاں باقائدگی سے حمد ، نظم، اردو ، انگریزی اور مراٹھی زبانوں میں خوش خطی اور ڈرائنگ کے مقابلے انٹر اسکول لیول پر منعقد کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح تقریر، قرات، جنرل نالج کوئیز، سوشل کوئیش، وغیرہ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔رئیس ہائی اسکول میں منعقد ہونے والا آل مہاراشٹر تقریری مقابلہ تقریباً 80 سالوں سے جاری ہے، دلیپ کمار، قادر خان اور نوتن جیسے فلمی ستارے رئیس ہائی اسکول کے مقابلوں میں بطور مہمان شامل ہوچکے ہیں۔گزشتہ چھ برسوں سے یہاں منعقد ہونے والے تقریری مقابلے میں انتظامیہ اور پرنسپل مسلم IASآفیسر کو بطور مہمان مدعو کر رہے ہیں تاکہ طلبہ و طالبات ان سے ترغیب حاصل کرسکیں۔اسی سوسائٹی کے ذریعے وڈلی میں سیرت النّبی تقریری مقابلہ، مومن گرلس میں غزل سرائی، رفیع الدین فقیہ ہائی اسکول میں پرنسپل شبیر فاروقی کی رہمنائی میں تمثیلی مشاعرہ وغیرہ باقائدگی سے مننعقد کیے جا رہے ہیں۔
بھیونڈی کے دیگر ادارے بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں، صافیہ گرلس قرآن کوئیز کے لیے، نیو نیشنل ، الحمداور صلاح الدین ایوبی ہائی اسکول ادبی نششتوں کے لیے مشہور ہیں۔
سالہا سال سے ممبئی اور اطراف و اکناف ہی نہیں پورے مہاراشٹر میں منعقد ہونے والے مقابلوں میں شمیم طارق صاحب کی سرپرستی میں منعقد کیا جانے والا مقابلہ¿ دینیات اور حامد اقبال صدیقی صاحب کے کوئیز ٹائمز کے ذریعے منعقد کیا جانے والا جنرل نالج کوئیز کمپیٹیشن تمام مقابلوں میں سرِ فہرست ہے۔ حامد اقبال صدیقی صاحب کے مقابلے کو اردو میڈیم کا سب سے بڑا ریئلٹی شو اور طلبا و طالبات کی سب سے بڑی تفریح قرار دیا جاسکتا ہے۔ان ہی مقابلوں نے ہماری زبان، ہماری تہذیب و ثقافت اور خود ہمیں زندہ رکھا ہے۔
(ان شا اللہ آئندہ قسط میں مہاراشٹر کے دیگر اردو تعلیمی اداروں میں منعقد کی جانے والی سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جائے گا)

مضمون نگار سے مندرجہ ذیل ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

[email protected]