Hayat-e- Qabil Ajmeri by Mushtaq Khanzada

Articles

حیات قابل اجمیری

مشتاق احمد خان زادہ

 

قابل محفل شعر و سخن میں ایک تابندہ ستارہ بن کر اُبھرا مگر جلدہی عدم کی ظلمتوں میں ڈوب گیا۔ اگر چہ ملک کا یہ ممتاز شاعر دنیا کی محفل سے اٹھ گیا مگر اپنی شاعری کے جواہر پارے اور اپنی زندگی کے اُن دکھوں کی یاد ہمارے لئے چھوڑ گیا جنہوں نے عمر طبعی سے بہت پہلے ہمارے متعدد جواں سال شاعروں کی زندگی میں ختم کر دیا اور کرتے رہین گے۔
قابل کی زندگی امنگوں، حوصلوں سے بھرپور شروع ہوئی اور محرومیوں، مایوسیوں میں گھر کر ختم ہوگئی۔ وہ زندگی کو روشن سے روشن تر دیکھنے کی تمنائیں پالتا رہا اور اس کی اپنی زندگی آہستہ آہستہ تاریک سے تاریک تر ہوتی چلی گئی۔ اس نے اردو شاعری کو تخلیقی قوتوں کا قیمتی سرمایہ سونپا، اپنا خون جگر پلایا۔ ایسے نادر خیالات سے نوازے جن میں اکدم روزگار کے باوجود، مستقبل کو سنوارنے کی اُمنگیں ہیں، حسن ہے، نفاست و سادگی ہے مگر زندگی نے اُسے پریشانیاں، پشیمانیاں، الجھنیں اور بے چینیاں دیں۔ وہ زندگی سے محبت مانگتا رہا، مسرت، سکون اور آسودگی چاہتا رہا مگر زندگی اس سے رفتہ رفتہ دور کھنچتی چلی گئی، یہاں تک کہ سبزہ زار زندگی کو اپنے خون جگر سے سینچنے والا یہ شاعرت بے مایہ آخر کشمکش حیات سے تنگ آ کر موت کی آغوش میں جا سویا۔
قابل جن کا اصل نام عبدالرحیم تھا۔ ہندوستان کے ضلع اجمیر کے قصبہ چرّلی میں 27 اگست 1931 کو پیدا ہوئے۔ ابھی موصوف صرف سات سال کے تھے کہ والدین کے سایہ عاطف سے محروم ہوگئے۔ یہ انکی زندگی کا پہلا المناک سانحہ تھا۔ دوسرا سانحہ جس نے انکی زندگی میں زہر گھول دیا دق کا جان لیوا مرض تھا جو انہیں چھٹپن میں والدین کی طرف سے ملا۔ انکے والد عبدالکریم اور انکی والدہ دونوں دق کے مرض میں مبتلا تھے۔
ان کے والد تقسیم ہند سے قبل تعمیرات کی ٹھیکیداری کا کام کرتے تھے۔ موصوف بہت فرض شناس تھے۔ اس لئے خود تیز اور جھلتی ہوئی دھوپ میں گھنٹوں کھڑے رہ کر تعمیری کام کی نگرانی کرتے تھے۔ چنانچہ اس مسلسل اور صبر آزما نگہداشت کی وجہ سے انکے کمزور جسم پر انتہائی مضر اثرات پڑے۔ یہاں تک کے وہ دق کے مرض میں مبتلا ہوگئے۔ اُن پر دق کا پہلا حملہ ۲۳۹۱ئ میں ہوا جب قابل کی عمر صرف ایک سال تھی۔ یہ مرض اس تیزی سے بڑھا کہ ۸۳۹۱ئ میں ان کا اجمیر کے لونگیہ ہسپتال میں انتقال ہوگیا۔ اس صدمہ سے قابل کی والدہ اس قدر نڈھال ہوئیں کہ وہ بھی چند دنوں کے بعد اس دار فانی سے رخصت ہوگئیں ۷۳۹۱ئ میں قابل کے چھوٹے بھائی شریف بھی دق کے مرض میں چل بسے۔ والدین کے انتقال کے بعد انکے دادا امیر بخش صاحب نے پرورش کی۔
قابل اجمیر شریف کے پیزادہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اس خاندان کے افراد پٹھان سلطنت کے دور میں یہاں آباد ہوئے تھے۔ اس زمانے میں اس خاندان کے بیشتر افراد اعلیٰ فوجی عہدوں پر فائز تھے۔ انہیں اعلیٰ خدمات کے صلہ میں حکومت کی طرف سے اجمیر شہر کے قرب و جوار میں بڑی بڑی جاگیریں ملی تھیں مگر امتداد زمانہ اور گردشِ حالات کی وجہ سے یہ جاگریں ختم ہوگئیں اور جب قابل نے جنم لیا تو ان کے والدین کے حصہ میں صرفدو مکانات آئے، ایک پختہ مکان تر پولیا گیٹ کے اندر محلہ اندر کوٹ میں تھا۔ دوسرا اجمیر کے قصبہ چرلی میں واقعہ تھا۔ قسمت کی ستم ظرفی دیکھئے کہ پاکستان میں قابل کو ان میں سے کسی مکان کا معاوضہ نہیں ملا۔
علمی اور رُحانی ماحول
قابل اس لحاظ سے انتہائی خوش قسمت تھے کہ انہیں اپنے محلے کے گردوپیش سازگار تعلیمی ماحول ملا۔ ان کی رہائش گا کے صدر دروازہ کے کچھ فاصلے پر ڈھائی دن کے جھونپڑے کی وہ عظیم الشان مسجد جسے سلطان شہاب الدین غوری نے تعمیر کروائی تھی۔ اس مسجد میں سلطان نے دینی تعلیم کے لئے ایک مثالی اور معیاری درس گاہ کا بھی اہتمام کیا تھا۔ مکان کے عقبی دروازے کے سامنے خواجہ معین الدین چشتیؒ کی وہ عظیم الشان درگاہ تھی۔ جس میں جامعہ شاہجہانی اور مدرسہ نظامیہ جسے بلند پایہ تعلیمی ادارے علم کی روشنی پھیلا رہے تھے۔ مدرسہ نظامیہ کے اساتذہ ایسے بلند پایہ اور جید علماءپر مشتمل تھے جنہیں نظام دکن نے ملک کے طول و عوض سے منتخب کیا تھا´ قابل نے اپنا بچپن اسی درگاہ شریف کے علمی، ادبی اورروحانی ماحول میں گذارا، عرس شریف کے قیام میں عالم اسلام کم و بیش تمام مشاہیر اسلام، علماءاور صوفیائے کرام تشریف لاتے تھے۔ جن کی علمی اور روحانی صحبت سے بے شمار لوگ فیضیات ہوتے تھے، درگاہ کے مناظر انتہائی روح پردر تھے۔ کہیں قرا¿ت کی دل نشیں صدائیں تحلیل ہورہی ہیں، کہیں علمی خطابت کا مظاہرہ ہو رہا ہے تو کہیں محفل سماع کی ترنم ریز نغمگی دلوں کو گرما رہی ہے، قابل کا بچپن اس موحول سے بے حد متاثر ہوا۔
درگاہ معلی کے اسی ماحول میں ان کے کان شہرئہ آفاق قوالوں، نغمہ نوازوں، کی صداو¿ں اور شاعروں کے کلام سے آشنا ہوئے۔ وہ گھر میں بیٹھے بیٹھے داغ کی غزلیں، بے دم کی نعتیں، سعدی حافظ شیرازی اور حضرت غوث اعظم اور حضرت امیر خسرو کا روح پرور صوفیانہ کلام سنتے رہتے تھے، بڑے بڑے شعراءکا کلام ان کے سنتے سنتے حفظ ہوگیا تھا۔ اور وہ متاثر ہو کر قوالی کی لہن میں اکثر اوقات ان اشعار کو دہراتے رہتے تھے۔ اور اپنے دادا ، دادی کو سنایا کرتے تھے۔ یہ وہ ابتدائی اثرات تھے جو آگے چل کر ان کی شاعری کا جزو اعظم بن گئے۔ ان کی شاعری میں جو غنائیت اور ترنم کے خواص بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ ان کی اصل وجہ قوالیاں، نعتیں اور اشعار کی وہ ترنم ریز صدائیں تھیں جو ہمیشہ ان کے کانوں میں گونجتی رہتی تھیں۔
بچپن میں انکی زندگی پر ایک ایسی بلند پایہ شخصیت اثر انداز ہوئی جس کی بدولت انہیں تحصیل علم کا بے پناہ شوق پیدا ہوا۔ یہ شخصیت عبدالرحمن عرب کی تھی جو جامعہ ازہر کے فارغ التحصیل اور عالم و خطیب تھے۔ انکی متعدد تصانیف عالم اسلام کی تمام دینی درسگاہوں میں رائج تھیں جب مدرسہ نظامیہ کی تشکیل علم میں آئی تو نظام دکن نے عبدالرحمن عرب صاحب کو عراق سے بلواکر اس مدرسہ میں بحیثیت مدرس متعین کیا۔ جب ان کا تقرر ہوا تو قابل کے دادا نے اپنے مکان کا بلائی حصہ عرب صاحب کو دیدیا۔ جہاں وہ اب تک مقیم ہیں جب عرب صاحب سوا سلف خریدنے جاتے تو قابل صاحب کو سیر کے لئے لے جاتے۔ قابل اکثر و بیشتر ان کے ساتھ درس گاہ بھی چلے جاتے تھے۔ اس طرح قابل نہ صرفستھرے تعلیمی ماحول سے آشنا ہوئے بلکہ عرب صاحب کی شخصیت سے بے پناہ متاثر ہوئے۔
درگاہ شریف اجمیر کے مدرسہ نظامیہ میں انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۶ سال کی عمر میں انھوں نے بغدادی قاعدہ ختم کر لیا۔ اس درگاہ کے ابتدائی مدارج کے قابل استادوں یعنی مولانا محمد ادریس صاحب اور مولانا محمد یونس صاحب کی تربیت میں قابل نے دس سال کی عمر میں صرفِ دنحو پر عبور حاصل کرنے بعد شیخ سعدی کی گلستان بوستان ختم کر لی۔ ۳۱ سال کی عمر میں وہ مدرسہ نظامیہ کے ثانی درجوں کی تعلیمات مکمل کر چکے تھے۔ اس زمانے میں ایک خاص واقعہ رونما ہوا جس کی بدولت ان کی طبیعت شاعری کی طرف مائل ہوئی۔ یہ ۰۴۹۱ئ کا ذکر ہے کہ ایک بزرگ پر سجادہ نشین صاحب کی سالانہ محفل سماع میں امجذاب کی اس قدر کیفیت طاری ہوئی کہ محفل ختم ہونے کے بوس بھی ان پر دجد قائم رہا۔ جب سب لوگ چلے گئے تو قابل اور انکے دوست معلوم کر کے موصوف کو انکے گھر چھوڑنے چلے گئے۔ وہاں معلوم ہوا کہ یہ بزرگ ارمان اجمیری تھے۔ جب انکو ہوش آیا تو انہوں نے قابل کو سینہ سے لگا لیا۔ ارمان صاحب اس بزرگانہ شفقت اور اس خلوص سے پیش آئے کہ قابل نے مستقلاً ان کے پاس آنا جانا شروع کر دیا۔ ارمان صاحب خود اچھے شاعر تھے۔ چنانچہ ان کی شاعری نے قابل کو اتنا متاثر کیا کہ وہ غزلیں کہنے لگے۔ جب ارمان صاحب کو معلوم ہوا کہ قابل غزلیں کہنے لگا ہے تو وہ کمال توجہ سے ان کی غزلوں کی اصلاح کرنے لگے۔ بزم ارمان کے تحت جو ہفتہ وار اور سالانہ مشاعرے منعقد ہوا کرتے تھے ان کا قابل کی شاعرانہ طبیعت پر خوشگوار اثرپڑا۔ ارمان صاحب سے فیض یاب ہونے کے بعد قابل نے ایک دوسری عظیم شخصیت مولانا عبدالباری معینی صاحب سے رجوع کیا۔ مولانا معینی عربی کے جید عالم اور تفسیر حدیث کے بلند پایہ محقق تھے۔ آپ حیدرآباد دکن میں عربی ادبیات اور تاریخ کے ایک ممتاز پروفیسر تھے۔ جب مولانا اجمیر شریف تشریف لائے تو انجمن ترقی اردو کا دفتر قائم ہوا۔ جس کے آپ صدر بنائے گئے۔ قابل کے ایک دوست جناب پیکر واسطی صاحب کے توسط سے مولانا نے قابل کو اپنے حلقہ تلامذہ میں شامل کر لیا۔ مولانا کے فیض صحبت سے قابل کی شاعری کو حیات نو ملی۔ مولانا باری کی اصلاح کی بدولت قابل کے کلام میں رفتہ رفتہ پختگی آتی گئی۔ مولانا کی معیت میں قابل نے پہلی دفعہ آل انڈیا مشاعرے میں شرکت کی۔ اس مشاعرے میں ہندوستان کے مشہور شعراءموجود تھے۔ جن میں جگر مرادآبادی، ماہر القادری، حفیظ جالندھری، ساعر نظامی، سیماب اکبر آبادی قابلِ ذکر ہیں یہ مشاعرہ معینہ اسلامیہ ہائی اسکول کے احاطہ میں منعقد ہوا۔ اور اس مشاعرے ہی سے قابل کی شخصیت پہلی بار منظر عام پر آئی۔ انکے کلما پر استاد شعراءنے اس قدر داد و تحسین کا فراخ دلی مظاہرہ کیا کہ معین نے قابل کو ایک شاعر کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔

٭٭٭

مشمولہ ’’اردو چینل‘‘ شمارہ ۲۸ ۔اس شمارے کی پی ڈی ایف فائل ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔