Firaq ki Infradiat by Abdulbari Qasmi

Articles

فراق کی انفرادیت

عبد الباری قاسمی

بیسویں صدی کو ادب داں طبقہ تحریکات و رحجانات کی صدی سے تعبیر کرتا اور جانتاہے انیسویں صدی میں ادب کی فضا بالکل مختلف تھی ، مگر جوں ہی اس کا اختتام ہواا ور عقلیت پسندی کارحجان بڑھنے لگا خود بخود نئی نئی تحریکیں معرض وجود میں آنے لگیں، ان تحریکات کا اثرادب کے تمام ہی اصناف پر ہوا خواہ شاعری ہو یا نثر، اسی دور میں غزل کی کوکھ سے جدید غزل کی پیدائش ہوئی اور اہل علم کے طبقہ نے ہر چیز میں جدت و ندرت تلاش کرنے میں مصروف رکھنے کو ہی قابلیت اور مہارت کا معراج سمجھنا شروع کیا ، اسی انیسویں صدی کے اختتام سے چند سالوں قبل گھورکھ پرساد عبرت کے لکشمی منزل میں رگھوپتی سہائے فراق نے آنکھیں کھولیں ، فراق کی زندگی گلہائے رنگارنگ سے مزین رہی ہے، اگر ہم فراق کا جائزہ لیں تو ان کی زندگی ہر سطح اور ہر باب میں منفرد دکھائی دیتی ہے خواہ ان کی شاعری کا مطالعہ کریں یا ان کی نثر کاجا ئزہ لیں ، ان کی داخلی زندگی کو دیکھیں یا ان کے خارجی معاملات کو ان کی انفرادیت ہر جگہ مسلم نظر آتی ہے، فراق کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کی شاعری میں کئی زبانوں ، کئی تہذیبوں اور کئی تحریکات کا اثر صاف دکھائی دیتا ہے اور ان سب کے حسین امتزاج سے ان کی شاعری کی جودنیا آباد ہوتی ہے وہ انہیں بالکل مختلف اور منفرد مقام پر کھڑا کر دیتی ہے ، فراق کی شاعری کا بنیادی رنگ اور موضوع حسن و عشق ہے مگر جہا ں ان کی شاعری میں خاص طور پر غزل گوئی میں حسن پرستی اور انسان دوستی کے اعلیٰ نمونے اور قدریں ملتی ہیں تو وہیں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی پر چھائیں بھی باہیں دراز کیے ہوئے استقبال کرتی نظر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ جدید غزل گو شعرا میں فراق کا نام کافی اہمیت سے لیا جاتا ہے ویسے تو فراق غزلوں میں روایت کی پاسداری اور انحراف دونوںکا عکس دکھائی دیتا ہے انہوں نے اپنی شاعری میں عشق ، معاملات عشق، جسم و جنس کا تصور، اشتراکی رنگ، خوبصورت ہندوستانی دیومالائی عناصر سے مزین تشبیہات وا ستعارات ، ڈرامائیت، تجسیم کاری، معنیٰ آفرینی، رعایت لفظی اور کائنات کے حسین مناظر ان تمام چیزوں کو اس خوبصورتی سے غزل کا حصہ بنایا ہے کہ خود بخود ان کی شاعری ایک نئی جہت سے آشنا ہوگئی ہے ، فراق کے فکروفن دونوں اعتبار سے انفرادیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کی شخصیت اور فن کی تشکیل میں مشرق کی نرمی اور روحانیت اور مغرب کی جدت و آفاقیت دونوں ساتھ رہی ہیں اور انہیں دونوں کے امتزاج سے ان کی شاعری ایک نئی لے اور لہجہ سے آشنا ہوتی ہے فراق فارسی اردو ، انگلش اور ہندی جاننے کے ساتھ ساتھ سنسکرت پر بھی اچھی گرفت رکھتے تھے ، اس لیے ان کی شاعری میں ان تمام ہی زبانوں کے اثرات دکھائی دیتے ہیںا ور ان کی انفرادیت صرف غزل گوئی ہی میں نہیں بلکہ نظم نگاری ، رباعی نگاری، خطوط نگاری، تنقید نگاری، دوہے اور چھند وغیرہ میں بھی دکھائی دیتی ہے۔
فراق کی شاعری©: فراق گورکھپوری کو تو شاعری ورثہ ہی میں ملا تھا ؛اس لیے کہ ان کے والد گورکھ پرساد عبرت بھی شاعر تھے ۔”حسنِ فطرت“ نام سے ان کی مثنوی مشہور ہے۔ اس لیے بچپن سے ہی شاعری کا مزاج تھا ، مگر فراق نے باضابطہ شاعری 1918ءاور 1919ءکے درمیان شروع کی۔ اس وقت داغ اور امیر مینائی کا ہر طرف شہرہ تھا، اس لیے فراق نے بھی امیر مینائی کے شاگردوسیم خیر آبادی کو غزلیں دکھا نا شروع کیا ، اس کے بعد ریاض خیر آبادی اور پروفیسر مہدی حسن ناصری سے بھی اصلاحیں لیں، اصل ان کی شاعری میں انقلاب 1920ءمیں آیا جب پنڈت نہرو کے ساتھ گرفتار کر کے انہیں آگرہ جیل بھیج دیا گیا تھا چوں کہ جیل جانے والے لوگوں میں بڑے بڑے ادیب ، شعرا اور دانشور حضرات تھے ، اس لیے موقع پاکر جیل میں ہی مشاعرے ہونے لگے اورفراق کی شاعری ایک نئے انداز اور نئے لہجے سے متصف ہونے لگی ، اس سے ان کی شاعری اور نکھرتی ہی چلی گئی اور انہوں نے شاعری کو روایت سے لے کر انحراف تک کا سفر کر ایا یہی وجہ ہے فراق کی شاعری میں میر، حسرت اور دیگر شعراکا بھی رنگ نظر آتا ہے اوران کا رنگ ناصر کاظمی اور خلیل الرحمن اعظمی جیسے جدیدیت کے شعراپر بھی دیکھنے کو ملتا ہے، فراق نے غزل گوئی کے علاوہ نظم نگاری، رباعی نگاری، دوہے اور چھند بھی کہے ہیں اور شاعری کی ہر صنف میں ان کی آواز کو پہچانا جا سکتا ہے۔
فراق کی غزل گوئی: فراق گورکھپوری نے ویسے تو شاعری کے مختلف اصناف کو برتا اور اِس میں طبع آزمائی کی ہے، مگر وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اور غزل گو شعرا میں بھی ان کا شمار ان شعرامیں ہوتا ہے جہنوں نے اپنی خلاقانہ ذہنیت ،بے انتہا علوم اور حساس مزاجوں کو استعمال کر کے غزل میں نئے نئے گوشوں کا اضافہ کیا، ان کی غزلوں میں مشرقی لے بھی نظر آتی ہے اور مغربی بھی، انہوں نے اپنی غزلیہ شاعری میں آزادی کے بعد کے ہندوستانی فضا کی عکاسی جس خوبصورتی سے کی ہے، اس کی نظیر نہیں ملتی، یہی وجہ ہے کہ اسلوب احمد انصاری جیسے ناقد نے انہیںہندوستان کی نشا¿ة ثانیہ کا ایک ممتاز نمائندہ قرار دیا ، سید محمد عقیل رضوی نے عہد آفریں ، مظہر امام نے کلاسیکی غزل کا آخری بڑا شاعر، رشید احمد صدیقی نے اردو غزل کا رمز آشنا، فتح محمد ملک نے جنوبی ایشیا کی تہذیبی دنیا میں معقولیت کی سب سے توانا آواز اور حسن عسکری نے نئی آواز سے تعبیر کیا، اس کے علاوہ بھی کچھ حضرات نے ا مام المتغزلیں اور خاتم المتغزلیں کے بھی خطاب سے فراق کو سر فراز کیا۔ پروفیسر شمیم حنفی صاحب نے فراق کے غزل کی تعداداور مقام پر اس انداز سے تبصرہ کیا ہے کہ
”1965 میں فراق صاحب نے اپنی غزلوں کا ایک اشاریہ بنوایا تھا ، اس اشاریہ کے مطابق 1965ءتک فراق صاحب نے کل چھ سو چوبیس غزلیں کہیں تھیں، 1965ءکے بعد سے 1982ءیعنی فراق صاحب کے سال وفات تک اس تعداد میں کم سے کم سو غزلوں کا اور اضافہ کر لیجیے یعنی کہ تقریباََ سو ا سات سو غزلیں ان میں زیادہ سے زیادہ چالیس پچاس غزلیں ایسی ہوں گی جنہیں فراق صاحب کے واسطے سے نئی حسیت کا ترجمان قرار دیا جا سکے“(۱)
فراق کی غزلوں میں میر کا رنگ بھی دکھائی دیتا ہے اور ان کے معاصرین شعرامیں حسرت، اصغر، جگر ، فانی اور یگانہ کا بھی، فراق کی نرمی، حلاوت، احساس کی گرمی اور جذبات کی آہستگی انہیں میر سے قریب کر دیتی ہے
بات بھی پوچھی نہ جائے گی جہاں جائیں گے ہم
تیری محفل سے اگر اُٹھے کہاں جائیں گے ہم
اس کے علاوہ ان کی غزلوں کی دوسری سب سے اہم خصوصیات ہیں کہ ان کی غزلوں میں مشرقی اور مغربی دونوں مزاجوں کا زبردست امتزاج ملتا ہے، اس لیے کہ جہاں وہ انگریزی شعرا شیلی، ورڈس ورتھ، اور کیٹس وغیرہ سے متاثر ہیں وہیں سنسکرت شاعری، سنسکرت تہذیب ، کلاسیکی اور جمالیاتی روایت پر بھی گہری نگاہ ہے، بلکہ فراق کی لفظیات ، استعارات، تشبیہات و کنایات کو سمجھنے کے لیے فارسی، اردو ، ہندی ، سنسکرت، انگریزی اور بھوجپوری کو بھی اچھی طرح جاننا ضروری ہے۔جذبات کی عکاسی کس خوبصورتی سے اس شعر میں کیا ہے
کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں
عشق تو فیق ہے گناہ نہیں
فراق کی غزلوں کا رنگ ہی منفرد ہے، ان کا محبوب جہاں گوشت پوست والا انسان ہے، وہیں ان کی غزلوں میں تشبیہات وکنایات اور استعارات بھی روایتی اور تہذیبی ہیں، غرض انہوں نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا اسے غزلوں میں ڈھال دیا ہے، ان کے یہاں سادگی بھی ہے اور روایت سے خوبصورتی سے انحراف، تحریکات کے اثرات بھی ہیں اور محبوب سے جدائی کے جذبات بھی۔
فراق کی غزلوں میں کلاسیکی رنگ: ویسے تو اگر ہم فراق کی غزلوں کو بغور پڑھیں تو احساس ہوتا ہے کہ ابتداہی سے وہ روایت سے انحراف کی کو شش کر رہے ہیں، مگر ان کی شاعری میں کلاسیکی رنگ دیکھنے کو خوب ملتا ہے، پروفیسر عتیق اللہ صاحب نے اس سلسلہ میں لکھا ہے کہ
”فراق کلاسیکی اردو شاعری کا گہراثر رکھتے تھے ان کی ذہنی اور فنی تربیت میں کلاسیکیت کا بہت بڑا ہاتھ تھا “(۲)
وحید اختر نے اس تعلق سے لکھا ہے کہ
”فراق کی غزل کلاسیکی روایت کاعطر مجموعہ ہے،ان کی شمع سخن میں تمام اساتذہ کی آوازیں روشن ہیں “ (۳)
ابولکلا م قاسمی صاحب نے ہلکی سی الگ رائے قائم کی ہے۔
”فراق کے شعر میں بلا شبہ میر کے شعر کی بازگشت بھی موجود ہے مگر میر کے شعر میں محبوب کو ساری خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کرنے پر اصرار ہے جبکہ فراق محبوب کے منفرد اور آزاد و جود کی اہمیت کو واضح کر نا چاہتے ہیں۔“ (۴)
دیکھ پھر حسن کے محاسن کو
حسن کی پہلے ہر برائی دیکھ
اس شعر میں میر کو محسوس کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ شمس الرحمن فاروقی نے سودا کے نزدیک قرار دیا تو کچھ لوگوں نے مومن کے اسکول کانمائندہ قرار دیا،مگر یہ حقیقت ہے کہ فراق کی غزلوں میں کلاسیکی رنگ نمایاں ہیں اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ فراقنے احساسات ، تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر ایک الگ راہ نکالی۔
تشبیہات واستعارات: فراق کی غزلوں میں تشبیہات و استعارات بھی دکھائی دیتے ہیں اور کمال ہے کہ فراق کے تشبیہات و استعارات اور تلمیحات میں بھی ہندوستانی رنگ دیکھنے کو ملتا ہے جیسے۔
دلوں میں تیرے تبسم کی یاد یوں آئی
کہ جگمگا اُٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ
فراق عام طور پر رات، شب ، سناٹا، روشن وغیرہ الفاظ کو بطور تشبیہ خوب لاتے ہیں بلکہ رات“ کا تصور رتو اس قدر تنو ع سے ان کی شاعری میں ہے جس سے انداز ہوتا ہے کہ رات میں کبھی انہیں نیند ہی نہ آتی ہو
غزل کے ساز اُٹھاو¿ بڑی اداس ہے رات
نوائے میر سناو¿ بڑی اداس ہے رات
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تیری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
اسلوب احمد انصاری نے اس تعلق سے لکھا ہے کہ
” فراق کی تشبیہیں روایت سے کم اور ذاتی مشاہدہ سے زیادہ قریب ہیں “
ان اقتباسات سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ فراق کس طرح کے تشبیہات و استعارات کا انتخاب کرتے ہیں۔
پیکر تراشی: لفظوںکی مدد سے شاعری میں تصویر سازی کے ہنر کوپیکر تراشی سے تعبیر کیا ہے ، اس باب میں بھی فراقنے خوبصورت نمونے پیش کیے ہیں
سفید پھول زمیں پر برس پڑیں جیسے
فضا میں کیف سحر ہے جدھر کو دیکھتے ہیں
آگئی باد بہاری کی لچک رفتار میں
موج دریا کا تبسم بس گیا رخسار میں
رومانیت: فراق انگریزی شعرا شیلی ، ورڈس ورتھ، کیٹس اور ٹینس وغیرہ کو خوب پڑھتے تھے، اس لیے انگریزی شاعری والی رومانیت فراق کی غزلوں میں دیکھنے کو ملتی ہے، مگر اس باب میں بھی فراق کی ایک انفرادیت ہے کہ وہ انگریزی شاعری کے مناظر فطرت اور رومانیت کو ہندوستانی تہذیب میں ڈھال کر بڑی خوبصورتی سے پیش کر تے ہیں
زندگی کیا ہے اس کو آج اے دوسست
سوچ لیں اور اداس ہوجائیں
مہر بانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست
آہ اب مجھ سے تری رنجش بے جابھی نہیں
موضوعات: فراق کی غزلوں کے بنیادی موضوعات حسن و عشق،انسانی جذبات و کیفیات اور جسم و جمال کی لطافتیں ہیں وہ اپنے عمدہ اور لطیف تخیل کے ذریعہ غزلوں میں ایسا رنگ بھر دیتے ہیں کہ قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا
ذرا وصال کے بعد آ ئینہ تو دیکھ اے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی
عشق: عشق اور معاملات عشق کا تعلق شروع سے ہی شاعری سے رہا ہے، مگر فراق کا عشق وہ ہے جو ذاتی حادثات و تجربات کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اور جلد ہی انسانیت کے عشق میں ڈھل جاتا ہے، پروفیسر ممتاز حسین نے لکھا ہے کہ
” وہ (فراق) بیسویں صدی کے اردو ادب کی تاریخ میں ان چند گنے چنے شعرامیں تھے جنہوں نے اردو شاعری کے رخ کو اس کے پیش پافتادہ وہ عشقیہ شاعری سے ایک نئی شاعری کی طرف موڑ دیا جو حیات آفریں کو منقلب کرنے والی ہے۔“(۶)
ہزار بار زمانہ ادھر سے گذرا ہے
نئی نئی سی ہے کچھ تری رہ گزر پھر بھی

عشق کی آگ ہے وہ آتش خود سوز فراق
کہ جلا بھی نہ سکوں اور بجھا بھی نہ سکو ں
محبوب: دیگر کلاسیکی شعراکی طرح فراق کے محبوب میں حقیقی و مجازی کا کوئی اختلاف نہیںہے، بلکہ ان کا محبوب خالص مجازی اسی دنیا میں رہنے ولا گوشت پوشت کا انسان ہے، فراق کو ہر وقت وصل کا غم دامن گیر رہتا ہے اور اسی وجہ سے ایسی کیفیت پیدا ہوگئی ہے کہ وصل میں بھی انہیں محرومی کا احساس ہوتا رہتا ہے۔
رات آدھی سے زیادہ گئی تھی سارا عالم سوتا تھا
نام تیرا لے لے کر کوئی درد کا مارا روتا تھا
جسم وجنس: فراق نے جسم و جنس کو احساس و ادراک اور فکر و فلسفہ میں ڈھال کرغزل میں پیش کیا ہے، یہ فراق کی ہی انفرادیت ہے، فراق نے جسم سے کائنات اور عشق سے عشقِ انسانیت کا سفر لاجواب انداز سے طے کیا ہے
ایک مدت سے تری یادبھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
ہندوستانی تہذیب کی عکاسی : فراقایک سچے محب و طن اور اپنی تہذیب سے بے انتہا محبت کرنے والے انسان تھے ، اس لیے ان غزلوں میں ہندوستانی تہذیب اوررنگ کافی نما یاں ہے خود انہوں نے اس تعلق سے لکھا ہے کہ ”ہندوستانی تہذیب میری غزلوں میں عشقیہ جذبات اور احساس کی نزاکتوں اور نرمیوں کا لہجہ اختیار کر لیتی ہیں۔“ اسی پہلو کو دوسری جگہ فراق نے اس انداز سے بیا ن کیا ہے کہ
” میرے و جدان پر عمر بھر ہندوستان کے قدیم ترین اور پاکیزہ ترین ادب اور دیگر فنون لطیفہ اور نظریہ¿ زندگی کا گہرے سے گہرااثر رہا ہے۔ساتھ ہی ساتھ بہترین فارسی شاعری، اردو شاعری ، انگریزی شاعری کے بہترین نثر و نظم کا ادب فلسفہ، اشتراکیت کی فکر یات قدیم و جدید ، یورپ کے ثقافتی خزانوں کے اثرات بھی میری غزل پر اثرا نداز ہوتے رہے ہیں میں نے اپنی غزلوں میں یہ چاہا ہے کہ اپنے ہر اہل وطن کو ہندوستا ن کے مزاج کا روح عصر اور صحت مند تصور دے دوں، میں نے یہ چاہا ہے کہ میری شاعری دھرتی کی شاعری ہے۔“(۷)
اشتراکی رنگ: فراق نے جب شاعری کی ابتدا کی تھی تو داغاور امیر کا زمانہ تھا، مگر جب عروج کا زمانہ آیا تو اشتراکی اور ترقی پسند تحریک کی شروعات بڑے زوو شور سے ہوئی، فراق بھی اس تحریک سے وابستہ ہوگئے اور شاعری کو قومیت کے نئے زنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی
زندگی کو بھی منھ دکھانا ہے
رہ چکے تیرے بے قرار بہت
بعد کے شعراپر فراق کا رنگ: جس طرح فراق نے کلاسیکی شعر اکے اثرات قبول کیے فراق کے بعد آنے والے جدید شعرا نے بھی فراق کے اثرات قبول کیے جن میں ناصر کاظمی، خلیل الرحمن اعظمی اور شاذ تمکنت وغیرہ کے نام اہمیت سے لیے جاتے ہیں۔
ناصر کاظمی
تو کون ہے ترا نام ہے کیا
کیا سچ ہے کہ تیرے ہوگئے ہم
خلیل الرحمن اعظمی
ایسی راتیں بھی ہم پہ گزریں ہیں
تیرے پہلو میں تیری یاد آئی
ساقی فاروقی
وہ مری روح کی الجھن کا سبب جانتا ہے
جسم کی پیاس بجھانے پہ بھی راضی نکلا
حرفِ آخر: فراق زندگی ، فکر اور فن دونوں اعتبارسے تمام ہی چیزوں میں انفرادیت رکھنے والے شاعر ہیں، ان کی شاعری میں مشرق و مغرب دونوں مزاج کا حسین امتزاج ملتا ہے، انہوں نے کلاسیکی شعراکے اثرات قبول کیے اور اس سے انحراف کر کے ایک نئی راہ بھی نکالی ، گرچہ خلیق انجم صاحب نے کہا ہے کہ ” ان کے سامنے کوئی واضح راہ نہیں تھی“چوں کہ فراق بیک وقت کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور ہندوستانی تہذیب، مناظر قدرت، فطرت انسانی، زبان و ساز اور انگریزی، ہندی، فارسی ،اردو ، سنسکرت سے مل کر ایک نئی تہذیب ان کی شاعری میں رچ بس رہی تھی انہوں نے ان تمام چیزوں کو ملا کر اپنی ایک منفرد آواز بنائی ، فراق کا شمار ان جدید غزل گو شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے غزل کو جدت و ندرت اور نئے آواز و آہنگ سے آشنا کیا ۔ فراق کا کمال ہے کہ انہوں نے حسن و عشق اور جسم و حسن کو بھی احساسات و ادراک میں ڈھال کر ایک نئے اور اچھوتے انداز میں پیش کیا، ان کی شاعری میں ترقی پسند تحریک اور دیگر رحجانات اور ہندوستانی دیومالائی عناصر کا بھی رنگ دکھاتی دیتا ہے، انسان دوستی کاجذبہ بھی فراق کامنفرد ہے۔ انہوں نے غزل میں بہت سی خوبصورت تشبیہات و استعارات، علائم اور لفظیات پیش کیے جس کی نظیر یں ملتی۔ ان کی شاعری میں ڈرامائی عناصر بھی بہت خوبصورت نظر آتا ہے
تارے بھی ہیں بیدار زمیں جاگ رہی ہے
پچھلے کو بھی وہ آنکھ کہیںجاگ رہی ہے
……………………………………..
حوالہ جات
(۱) فراق دیار شب کامسافر شمیم حنفی جامعیہ میگزین شمارہ ۶۹۹۱ء دسمبر ص؛ ۱۵۱
(۲)فراق دیار شب کامسافر پروفیسر عتیق اللہ جامعیہ میگزین شمارہ ۶۹۹۱ء دسمبر ص؛۴۰۱
(۳) ص؛۵۰۱
(۴)شاعری کی تنقید ابوالکلام قاسمی ص؛۱۰۱
(۵)فراق گورکھپوری اسلوب احمد انصاری مجموعہ¿ مضامین انجمن ترقی اردو دہلی
(۶)فراق اور فراق کی شاعری پروفیسر ممتاز حسین
(۷)آج کل دہلی فراق گورکھپوری ص؛۴
(۸)پچھلی رات فراق گورکھپوری ص؛۷
(۹)فراقگورکھپوری ڈاکٹر خلیق انجم انجمن ترقی اردو دہلی ص؛۳۹۱


مضمون نگار شعبہ اردو ،دہلی یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں

مضمون نگار سے رابطہ:

[email protected]
9871523432