Firaq Gorakhpuri ki Tanqeed Nigari by Qamar Siddiqui

Articles

فراق کی تنقید نگاری

ڈاکٹر قمر صدیقی

 

فراق گورکھپوری نے تنقید کے دو مجموعے ”اندازے“ اور ”حاشیے“ اور اردو کی عشقیہ شاعری پر ایک کتابچہ یادگار چھوڑے ہیں ۔ ان میں ’اندازے‘ تقریباً چار سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مجموعے میں کل دس مضامین ہیں جس میں پانچ غزل یا غزل گو شعرا سے متعلق ہے۔ در اصل فراق کی تنقید اکثر و بیشتر اردو غزل کے آس پاس ہی رہی ہے۔ انھوں نے دہلی اور لکھنو¿ اسکول، داخلیت اور خارجیت، زمینوں کے انتخاب اور مطلعوں کی موزونیت کے علاوہ ریاض، مصحفی ، ذوق اور حالی وغیرہ کی شاعری کا فنی و تشریحی جائزہ پیش کیا ہے۔
’اندازے‘ کے دیباچے میں فراق گورکھپوری نے جس طرح روایت سے وابستگی اور ہم آہنگی پر زور دیتے ہوئے ترقی پسند ادب کی تحسین کی ہے وہ ان کے تنقیدی مسلک کی غمازی کرتا ہے۔ دیباچے میں انھوں نے بالکل تاثراتی انداز اپناتے ہوئے ادب اور تنقید میں میانہ روی کو مقدم گردانا ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں کہ:
” خوش نصیب ہیں نئی نسل والوں میں اور نئے ادب کے قدر شناسوں میں وہ لوگ جو پرانی غزلوں کے سمندر میں ڈوب کر ایسے ایسے موتی نکال لائے ہیں جن کی آب و تاب کو وقت دھندلا نہیں سکا۔ اقبال، اکبر، جوش، مجاز، زیدی اور جذبی اور ہماری نئی شاعری کے کئی اور نمائندے ہماری قدیم شاعری سے کم مستفید نہیں ہیں۔ لیکن نثر نگاروں، شاعروں اور پڑھنے والوں کی نئی نسل عجلت اور سہل پسندی کی غالباً شکار ہوئی ہے اور قدیم ادب سے منہ موڑ چکی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ پرانی شاعری میں بھی بہت نئی چیزیں ہیں۔ تسلسل تاریخِ انسانی اور تاریخِ ادب کا اٹل قانون ہے۔ ماضی سے بے خبری ترقی پسندی نہیں ہے ، نہ ماضی کی قدر شناسی رجعت پسندی اور قدامت پسندی ہے۔“
فراق کی تنقید پر مغربی تنقید کے اثرات بہت واضح ہیں۔ حالانکہ انھوں نے جس زمانے میں تنقید نگاری کا آغاز کیا اس وقت ناقدین کی اکثریت کا مغربی ادب کا مطالعہ زیادہ گہرا نہ تھا۔ فراق کے بیشتر معاصرین فکری طور پر آزاد، حالی اور شبلی کا تتبع کررہے تھے اور ان کی تحریروں میں اِنھیں قد آور شخصیات کا پرتو نظر آتا ہے۔ فراق نے اپنے معاصرین کے برخلاف مغربی افکار و نظریات سے استفادے پر زور دیا۔ اس ضمن میں خود فراق گورکھپوری نے تحریرکیا ہے کہ:
” میرے مذاقِ تنقید پر دو چیزوں کا بہت گہرا اثر رہا ہے۔ ایک تو خود میرے وجدانِ شعری کا ، دوسرے یورپین ادب اور تنقید کے مطالعے کا۔ مجھے اردو شعرا کو اس طرح سمجھنے سمجھانے میں بڑا لطف آتا ہے، جس طرح یورپین نقاد یورپین شعرا کو سمجھاتے ہیں۔ “
مغربی تنقید سے استفادے کے اس اعتراف میں اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ فراق نے مغربی تنقید کے کس دبستان کا تتبع کیا ہے۔ فراق کی تنقیدی تحریروں کے مطالعے سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کا رجحان تاثراتی تنقید کی طرف ہے۔ محولہ بالا پیراگراف میں ”وجدانِ شعری“ کی ترکیب بھی اس بات کی طرف دلالت کرتی ہے۔ ”وجدان“ ایک خوبصورت مگر پر اسرار لفظ ہے اور معنی سے گریز پائی اس لفظ کا خاصہ ہے۔ کیونکہ شاعر کا وجدان اور نقاد کا وجدان دو الگ الگ ذہنی وقوعے ہیں البتہ اس کے استعمال میں آسانی یہ ہوتی ہے کہ نقاد مختلف نوع موشگافیوں کی مشقت سے بچ جاتا ہے۔ چنانچہ اردو میں وجدان تاثراتی نقادوں کا مخصوص Toolہے اور مہدی افادی سے لے کر عبد الرحمن بجنوری اور فراق گورکھپوری تک لگ بھگ تمام تاثراتی نقاد وجدان کے میزان سے شعر کو تولتے نظر آتے ہیں۔ فراق کے مجموعے ’اندازے‘ سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
” مصحفی کی انفرادیت وجدانی سطح پر اپنا کام کرتی ہے۔“
” غم آمیز وجدان میں تنوع کے اتنے امکانات نہیں ہوتے جتنے نشاط آمیز وجدان میں ہوتے ہیں۔“
کتاب میں اس نوع کے تاثراتی جملے جگہ جگہ نظر آجاتے ہیں۔ تاثراتی تنقید اپنی اسی محدودیت کی وجہ سے بیشتر محاسنِ شعری کے بیان تک محدود رہتی ہے یا اپنی ارفع صورت میں بھی یہ تشریح و توضیح سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔
تاثراتی تنقید کے مغربی اصولوں کے مطابق مواد اور ہیئت پر توجہ دیئے بغیر صرف ادیب کی شخصیت کی بنیاد پر فن پارے کے حسن و قبح کا فیصلہ کرنا تاثراتی تنقید کہلاتا ہے۔ اس ضمن میں تاثراتی تنقید کے نظریہ ساز والٹر پیٹر کی رائے بھی ملاحظہ فرمالیں؛ ”تنقید نگار کی ذمہ داری بس اتنی ہے کہ وہ فن پارے کو اس کے اصلی روپ میں دیکھے اور ان کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کردے۔“ علاوہ ازیں یورپ میں تاثراتی نقادوں کا خیال تھا کہ کسی ادبی تخلیق کے مطالعے سے نقاد کے دل و دماغ اور اس کے شعور پر جو تاثرات مرتب ہوتے ہیں ، انھیں لفظوں میں سمودیا جائے اور یہی حقیقی تنقید ہے۔ مغرب میں تاثراتی تنقید کی یہ تحریک جے ۔ای اسپنگر کے خیالات سے متاثر رہی۔ اس کا کہنا تھا کہ داخلیت اور جذباتی و تاثراتی سطح ہی تنقید کا صحیح معیار ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ:
” کسی فن پارے کو دیکھ کر جو جذبات و احساسات دل پر طاری ہوتے ہوں ان کو ہو بہو بیان کردینا تاثراتی دبستان سے تعلق رکھنے والے نقاد کے نزدیک تنقید نگاری کا سب سے بڑا منصب ہے۔“
فراق کی تنقیدی تحریریں بھی مذکورہ بالا خصوصیات سے مبرا نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے فراق کی تنقید اور تنقیدی فیصلے بیشتر صورتوں میں ایسے تاثرات پر مبنی ہوتے ہیں جن کی جڑیں بچپن کی یادوں میں پیوست ہیں۔ مثال کے طور پر ان کی یہ تحریریں ملاحظہ ہوں:
” ایک زمانہ ہوا جب میں نے مولوی اسمعیل میرٹھی کی مرتب کردہ کتاب ” تزکِ اردو“ میں جو میرے نصاب میں تھی غالباً پہلے پہل مصحفی کا نام دیکھا اور سنا۔ اب میرے جذبات کا حال سنیے، سب سے قابلِ توجہ بات تو یہ تھی کہ مصحفی کا تخلص وہ لفظ تھا جس کی صورت و صوت نے فوراً مجھ پر اپنی دلکش انفرادیت کا اثر ڈالا۔“
” مجھے بچپن سے نہ جانے کیوں ذوق کا کلام نا پسند تھا۔ “
” میں نے بھی اور شاید آپ نے بھی سات آٹھ برس کی عمر میں پہلے پہل حالی کا نام سنا ہوگا۔“
کچی عمر کے ناپختہ تاثرات سے اس طرح Conditionedہوکر کوئی تنقیدی نکتہ پیدا کرنا ظاہر ہے تقریباً نا ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فراق گورکھپوری کی تنقیدی تحریریں ہمیں کوئی راہ نہیں سجھاتیں ، کسی منزل کا پتہ نہیں دیتیں۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اندھیری رات میں یہاں وہاں چمکتے ہوئے جگنوﺅں کی مانند ان کی تحریروں میں بصیرت سے پُر جملے ایک ایسا جمالیاتی تاثر قائم کرتے ہیں جس کا سحر ہمارے ذہنوں پر تادیر قائم رہتا ہے۔
٭٭٭

مضمون نگار سہ ماہی رسالہ ’’اردو چینل‘‘ اور ادبی ویب پپورٹل ’’اردو چینل ڈاٹ اِن‘‘ کے مدیر ہیں

مضمون نگار سے رابطہ:

[email protected]

09773402060