The Angel’s Feather by Angela Nanetti

Articles

فرشتے کا شہپر

انجیلا نانیتی

 

کہانی ’فرشتے کا شہپر‘ اطالوی زبان سے لی گئی ہے ۔ اس کی مصنفہ انجیلا نانیتی نے بچوں اور بالغوں کے لیے تقریباً بیس کتابیں لکھی ہیں۔ان کتابوں کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔انھیں ا کو”دی ہنس کریسچن اینڈرسن میڈل” (نوجوانوں کے لیے تحریر کردہ کتابوں پر دیا جانے والابین الاقوامی میڈل) سے بھی سرفراز کیا گیا۔انجیلا فی الحال پیس کارہ (اٹلی)میں سکونت پذیر ہیں۔
————————————–

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک فرشتے نے اپنا پر کھودیا۔حالانکہ ایسا بمشکل دو یا تین سو سالوں میں ایک مرتبہ ہوتا ہے لیکن اب یہ حادثہ رونما ہو چکا تھا۔وہ فرشتہ ایک ویران جھیل کے اوپر پرواز کر رہا تھا۔نیلے آسمان سے اسے حد نگاہ تک چراگاہیں ہی چراگاہیں نظر آ رہی تھیں۔اس پر اِس مسحور کن خوبصورتی کا خمار چھانے لگااور اس کے دل میں پانی کو چھونے کی خواہش بیدار ہوئی۔وہ پانی پر اترتا چلا گیا۔اسی لمحے اس کے پر ٹوٹ گئے۔اس کے وہاں سے گزرتے ہی پانی پر لرزہ طاری ہوگیا۔فرشتے نے اس حال میں آسمان کی طرف پرواز کی کہ اس کا ایک پر جھیل کے پانی پر ہی رہ گیا۔تب تک نہ کسی نے فرشتے کو دیکھا تھا اور نہ ہی اس کے ٹوٹے ہوئے پروں کو۔پانی پرصرف سفید چاندنی جیسی روشنی نظر آرہی تھی۔پانی نے دھیرے دھیرے اُس فرشتے کے پر کو ساحل تک پہنچا دیا۔
وقت گزرتا گیا جس جگہ فرشتے کا پر پڑا ہوا تھا اب وہاں پھول اگ آئے تھے۔صاف و شفاف خوبصورت پنکھڑیوں اور نازک تنوں کے ساتھ کھلنے والے پھول ساحلوں پر چھا گئے تھے۔اس سے پہلے ایسے پھول یہاں کبھی نہیں دیکھے گئے تھے۔اِس ویران جھیل پر سوائے اُس فرشتے کہ اور کوئی نہیں آتا تھا۔
ایک دن ایک عورت کے ساتھ ایک مرد کی وہاں آمد ہوئی۔ عورت انتہائی خوبرو اور جاذب نظر تھی اور مرد بھی اُس سے بہت محبت کرتا تھا۔شاید وہ کہیں دور کا سفرطے کرکے آئے تھے۔ تھکن کا احساس اُن کے چہروں سے نمایاں تھا۔ وہ جھیل کے ساحل پر رُکے اور وہاں کھلے ہوئے پھولوں کو دیکھنے لگے۔ یہ لوگ بہت غریب تھے لہٰذا مرد نے سوچا کہ یہ پھول اس عورت کے لیے بہترین تحفہ ہوں گے۔ ابھی وہ پھول توڑنے ہی والا تھا کہ عورت نے اسے منع کردیا۔اس نے کہا کہ ان پھولوں کو توڑا نہ جائے۔کیونکہ یہ پھول بہت خوبصورت ہیں اور ان کی طرف دیکھ لینا ہی کافی ہے۔
اس آدمی نے عورت سے کہا’’آئو اسی جگہ پر رک جاتے ہیں اور اپنا ایک مکان تعمیر کرتے ہیںتاکہ ہم ان پھولوں کو ہمیشہ دیکھتے رہیں۔‘‘ عورت نے بھی اپنی رضامندی ظاہر کردی۔
وہ دونوں وہیں رک گئے اور جھیل کے پتھروں اور جنگلی لکڑیوں سے اپنا گھر تعمیر کیا۔درختوں کی ہری بھری شاخوں سے کھڑکیوں کو سجایا۔روٹی سینکنے کے لیے ایک چولھا بھی بنایا اور کپڑے سکھانے کے لیے رسیاں باندھ دیںاور کھیتی کے لیے زمین بھی ہموار کرلی۔پھر اس شخص نے کہا’’اب ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ عورت نے دوبارہ رضا مندی میں اپنا سر ہلا دیا۔
لیکن جنگلوں کی مٹی لالچی تھی یہاں بیری اور جنگلی پھل تو اگتے رہے لیکن گیہوں کی فصل نے انہیں مایوس کیا۔یہاں بُنے ہوئے کپڑے بھی نہیں تھے۔برف باری کی وجہ سے یہاں ایسے پودے بھی نہیں پائے جاتے تھے جن سے کپڑے بنائے جاسکیں۔اسی حال میں ان کے یہاں پہلے بچے کی پیدائش ہوئی۔ اس موقع پرآدمی اپنی بیوی کو ایک خوبصورت قیمتی پتھر تحفے میں دینا چاہتا تھا۔وہ اپنی بیوی سے بے پناہ محبت کرتا تھا لیکن اس کے جیب میں چند سکوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔مایوس ہو کر وہ جھیل کے ساحل پر چلنے لگا تاکہ کم از کم وہاں سے ایک پھول توڑ کر اپنی بیوی کو تحفے میں دے سکے۔لیکن رات بھر تیز ہوائیں چلتی رہیں اور ان ہوائوں نے پھولوں کو تہس نہس کرکے ان کی پنکھڑیوں کو جھیل پر بکھیر دیاتھا۔
اس آدمی نے خود سے کہا’’صبر‘‘کرو،میں انہیں جمع کروں گا اور اس سے ایک ہار بنائوں گا۔
وہ اپنے گھر واپس آیا، اپنا جال اٹھایا اور جھیل پر پہنچ کر بکھری ہوئی پنکھڑیوںکو جمع کرنے لگا۔ جب اس نے بہت ساری پنکھڑیاں جمع کرلیں تب اسے نظر آیا کہ کوئی چیز اس کے جال میں چمک رہی ہے۔ اس نے اسے اٹھا کر سوچا شاید کوئی چھوٹی مچھلی ہے؟لیکن اس نے دیکھا کہ وہ ویسی نہیں ہے جیسی مچھلیاں وہ عام طور پر پکڑا کرتا ہے۔اسے محسوس ہوا کہ یہ کوئی قیمتی دھات یا خالص چاندی سے بنی ہوئی کوئی شئے ہے۔کہیں کہیں سے یہ شئے سونے کی طرح بھی چمکتی نظر آ رہی تھی۔
حیرت اور خوشی کے جذبات سے سرشار وہ اُس چیز کو عورت کے پاس لے آیا اور کہا ’’میں شہر جاکر اسے بیچ دوں گا اور تمہارے لیے، تمہاری آنکھوں کے رنگ کا ایک خوبصورت پتھر خرید لائوں گا۔‘‘
لیکن عورت نے انکار کردیااور کہا کہ’’ اس طرح کی مچھلیاں فروخت کرنے کے لیے نہیں ہوتیں۔یہ اتنی خوبصورت ہے کہ اس کی طرف دیکھنا ہی کافی ہے۔‘‘
اِس مرتبہ آدمی نے عورت کی باتوں پر دھیان نہیں دیا۔وہ مچھلی بیچ کر خوبصورت پتھر خریدنے کے لیے شہر چلا گیا۔کچھ دیر بعد وہ مطمئن ہوکر اس عورت کے پاس واپس آگیا۔آتے ہی اس نے کہا ’’یہ میری طرف سے تمہارے لیے تحفہ ہے۔‘‘لیکن اس عورت کے چہرے پر مسکراہٹ جیسی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔
کچھ ہی عرصہ میں چاندی کی مچھلی کی خبر پورے شہر میں پھیل گئی۔اس کے بعد لوگ بھیڑ کی شکل میں جھیل کی طرف نکل پڑے۔
ان لوگوں نے ہر قسم کا جال پھیلایااور مختلف قسم کی مچھلیاں پکڑیں لیکن ان میں کوئی مچھلی اس چاندی کی مچھلی کی طرح نہیں تھی۔ اس کے بعد بھی انہوں نے اپنی کوشش نہیں چھوڑی اور اس وقت تک مچھلیاں پکڑتے رہے جب تک پانی آلودہ اور جھیل کی تمام مچھلیاں ختم نہیں ہوگئیں، جب تک پھولوں کے تنے ٹوت کر بہہ نہ گئے،جب تک پھولوں کا نام و نشان مٹ نہ گیا۔
اس عورت نے سوچا کہ اب یہاں دوبارہ کبھی پھول نہیں کھلیں گے اور وہ بہت اداس ہوگئی۔ اس نے اس پتھر کو اٹھایا جس کے سبب اتنی تباہی پھیلی تھی اور اسے جھیل میں پھینک دیا۔آدمی نے اسے دیکھا لیکن کچھ بھی نہیں کہا۔ اس کے بعد وہ کبھی بھی خوش نہیں رہ سکے۔
گرمیوں کا موسم گزر گیا اور موسمِ سرما آگیا۔یہ برفیلا اور طوفانی سرد موسم تھا۔ایک رات ان کا بچہ روتے ہوئے بیدار ہوا، ماں نے اسے تسلّی دیتے ہوئے گیت گانا شروع کیا۔اس کا گیت ہوا کے دوش پر تیرتا ہوا کھڑکیوں سے باہر نکلا۔تب برفیلے طوفان اور گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایک فرشتہ وہاں سے گزررہا تھا۔فرشتہ راستہ بھٹک چکا تھا۔اس نے مترنم آواز میں اس عورت کو گاتے ہوئے سنا۔گیت کی نغمگی اس کے حواس پر چھا گئی اوراسے محسوس ہونے لگا کہ وہ اپنے گھر واپس آچکا ہے۔وہ آندھیوں کی پیروی کرتا ہوا جھیل کی سطح سے کافی نیچے پرواز کرنے لگا۔جب وہ کھڑکی کے سامنے پہنچا تب اسے احساس ہوا کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے۔لیکن وہ گیت اتنا میٹھا اور مترنم تھا کہ فرشتہ وہاں رک کر اسے سننے لگا۔
بچے کے سونے تک وہ عورت گاتی ہی رہی اور فرشتہ کھڑکی کے پاس کھڑا رہ کر سنتا رہا۔کچھ دیر بعد اس نے اپنے پروں کو حرکت دی اور وہاں سے پرواز کرگیا۔شاید اسی وقت آندھی نے اس کے ایک پر کو توڑ دیا۔ صبح کے وقت اُس کاپَر منجمد جھیل پر کسی چمکتی ہوئی چاندی کی طرح پڑا ہوا تھا۔
کسی نے بھی اس پر غور نہیں کیا۔ سب یہی سمجھتے رہے کہ یہ چمکتی ہوئی شئے سورج کی شعاعوں کا عکس ہے۔لیکن بہار کے موسم میں جب برف پگھلنے لگی تب جھیل میں ایک صاف و شفاف نئے پودے کھلتے ہوئے نظر آئے۔
وہ عورت اور آدمی کبھی یہ جان نہیں پائے کہ کوئی فرشتہ بھی کبھی ادھر سے گزرا تھا۔ لیکن اس کے بعد سے وہ دونوں دوبارہ خوش رہنے لگے۔
——————————-

انگریزی سے ترجمہ : ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر

مترجم نور الاسلام جونیئر کالج ، گوونڈی ممبئی میں انگریزی کے استاد ہیں

مضمون نگار سے رابطہ:

[email protected]

09987173997