Viktoria Was Home All Alone by Martin Auer

Articles

خالی گھر اور تنہا وکٹوریہ

مارٹن آور

کہانی’ خالی گھر اور تنہا وکٹوریہ‘مارٹن آور کی تحریر کردہ ایک مضبوط ارادوں والی آسٹریائی لڑکی کی کہانی ہے۔ مارٹن آور کی شخصیت کی کئی جہات ہیں۔ تصنیف و تالیف کے علاوہ وہ اسٹیج اور صحافت سے بھی وابستہ ہیں۔ انھیں ادبِ اطفال پر آسٹریلین نیشنل ایوارڈ سے بھی سر فراز کیا جا چکا ہے۔

————————————–

ہر کوئی جا چکا تھااور وکٹوریہ گھر پر اکیلی تھی۔
’’جب سب جاچکے ہوتے ہیں تب میرا گھر ایک جادوئی جگہ بن جاتا ہے۔‘‘
وہ اپنے والدین کی خواب گاہ میں گئی اور وہاں پھیلی ہوئی چادر کو کھینچا۔بیڈ کے بالکل درمیان میں ایک بڑا بھالو لیٹا ہوا تھا۔وہ سیدھا اس کی طرف دیکھنے لگا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا
’’مجھے کچھ دو‘‘
بھالو کمرے سے باہر گیا اور وکٹوریہ کے لیے اس کے والد کی ہیٹ لے آیا۔وکٹوریہ نے اسے پہن لیا اور اس بھالو کو ڈھانک دیا۔
اس نے اپنی ماں کا نائٹ اسٹینڈ(بستر کے بازو میں موجود ٹیبل یا کباٹ)کھولا۔
یہاں سنہری آنکھوں والا ایک بڑا مینڈک بیٹھا ہوا تھا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا
’’مجھے کچھ دو‘‘
مینڈک اچھلتے ہوئے کمرے سے باہر گیا اور وکٹوریہ کے لیے اس کی والدہ کے جوتے لے آیا۔
وکٹوریہ نے جوتے پہن لیے اور نائٹ اسٹینڈ کو بند کردیا۔
وکٹوریہ نے الماری کی طرف دیکھا۔ وہاں سے اسے کچھ دھڑکنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھی۔وہ کپڑوں میں کچھ تلاش کرنے لگی۔تب اسے اپنے والد کا سردیوں میں پہنا جانے والا موٹا اور وزنی کوٹ نظر آیا۔دھڑکنے کی آواز اسی میں سے آرہی تھی۔وہ یہ دیکھنے کے لیے سوٹ کیس کے اوپر چڑھ گئی کہ کیا چیز دھڑک رہی ہے۔کوٹ کے اوپری جیب میں ایک بڑا سرخ وسیاہ دل دھڑک رہا تھا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا
کوٹ کے ایک کنارے والی جیب میں سنہری چابی اور دوسرے کنارے والی جیب میں کچھ بیج رکھے ہوئے تھے۔
’’کیا تم یہ مجھے دو گے‘‘اس نے دل سے دریافت کیا اور دل دھڑکنے لگا۔
تب اس نے چابی اور بیج لے لیے۔
وکٹوریہ پورے گھر میں بھٹکتی رہی، گھر بہت بڑا تھا۔
ایک کمرے میں ایک ڈیسک موجود تھا اور ڈیسک کے اوپر ایک کتاب رکھی ہوئی تھی۔وہ کرسی کے اوپر چڑھ گئی اور اس نے کتاب کھولی۔
کتاب میں تصویریں نہیں تھیں صرف کچھ الجھی ہوئی لکیریں نظر آرہی تھیں۔
’’آئو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے‘‘وکٹوریہ نے اپنے آپ سے کہا
اس نے اپنی سنہری چابی سے کتاب کو چھوا۔
الجھی ہوئی کالی لکیروں میں حرکت ہونے لگی۔وہ چھوٹے چھوٹے مرد اور عورتیں تھیں ، انہوں نے اب رقص کرنا شروع کردیا تھا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا اور صفحہ پلٹ دیا۔
اب وہ کالی الجھی ہوئی لکیریں ایسے تالاب میں تبدیل ہوگئیں جس پر بڑے بڑے پانی کے بلبلے تیر رہے تھے۔
وکٹوریہ نے ان بلبلوں کو اپنی چابی سے چھوا۔ان بلبلوں سے چھوٹے چھوٹے جرثومے پھسل کر اطراف میں تیرنے لگے۔ اب ان کی دُمیں غائب ہوچکی تھیں اور وہ مینڈک کی طرح نظر آرہے تھے۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا اور وہ صفحہ بھی پلٹ دیا۔
اگلے صفحے پر چھوٹے چھوٹے کیڑے تھے۔وکٹوریہ نے انہیں اپنی چابی سے چھوا۔
اچانک چاروں طرف کھٹمل پھیل گئے اور انہوں نے ان کیڑوں کو کھانا شروع کردیا۔
پھر چاروں طرف پرندے پھیلنے لگے اور ان پرندوں نے کھٹملوں کو کھانا شروع کیا۔
اس کے بعد اچانک لومڑیاں نمودار ہوئیں اور انہوں نے پرندوں کو کھا لیا۔
لیکن ایک لومڑی کے گلے میں ہڈی پھنس گئی اور اس کی موت ہوگئی۔
اچانک دوبارہ چھوٹے چھوٹے کیڑے نظر آنے لگے اور انہوں نے اس لومڑی کو کھالیا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا اور وہ صفحہ پلٹ دیا۔
اگلے صفحے پر ایک جنگل موجود تھا۔ اس نے جنگل کو اپنی چابی سے چھوا۔
اچانک وہاں کچھ لوگ نظر آنے لگے جو درختوں کو کاٹ رہے تھے۔
وہ درختوں کا استعمال گھر بنانے کے لیے اور شہر بنانے کے لیے کرتے تھے۔ وہ لوگ اپنے گھروں میں چلے گئے۔
اچانک آگ لگ گئی اور پورا شہر جل اٹھا۔
لوگوں نے اپنا سازوسامان باندھا اور باہر بھاگنے لگے۔
پھر ہوا اپنے ساتھ کچھ بیج اڑا کر لے آئی اور جنگل دوبارہ ہرا بھرا ہونے لگا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا اور کتاب کو بند کرکے اپنے پاس رکھ لیا۔
وہ کچن میں گئی، اس کی ماں سنک کے نیچے والے کباٹ میں گلدان رکھا کرتی تھی۔وکٹوریہ نے سب سے بڑا گلدان نکالا اور کمرے کے وسط میں بیٹھ گئی۔اس نے گلدان میں بیج ڈالے اور انہیں اوپر تک مٹی سے ڈھانک دیا۔
’’آئو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے؟‘‘وکٹوریہ نے اپنے آپ سے کہا اور گلدان کو اپنی سنہری چابی سے چھوا۔ مٹی میں حرکت شروع ہوئی ۔ بیجوں سے کونپلیں پھوٹ پھوٹ کر اوپر آنے لگیں۔کونپلیں مسلسل اونچائی کی جانب بڑھتی گئیں۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا
’’یہ جلد ہی کمرے سے باہر تک بڑھتی چلی جائیں گی‘‘
لیکن تب بھی کونپلیں شاخوں میں تبدیل ہو کر مسلسل بڑھتی رہیں۔
اب وکٹوریہ شاخوں پر چڑھنے لگی
وہ اوپر ہی اوپر چڑھتی رہی، کمرہ کسی مینار کی طرح اونچا نظر آرہا تھا۔
پتیوں کے درمیان سے ایک شیر جھانکتا ہوا نظر آرہا تھا۔وہ اپنا بڑا سا منہ کھولے دھاڑ رہا تھا۔
’’آئو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے ‘‘وکٹوریہ نے اپنے آپ سے کہا اور شیر کو اپنی سنہری چابی سے چھوا۔
اچانک شیر پالتو بلّی کے بچے کی طرح ہو گیا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا او ر اوپر چڑھتی گئی۔
اچانک بھیڑیے اس کی طرف دوڑتے ہوئے آنے لگے۔وہ تیز آواز میں غرّا رہے تھے۔ وکٹوریہ نے انہیں اپنی چابی سے چھوا اور تمام بھیڑیے دیکھتے ہی دیکھتے پالتو کتّے کے پلّوں میں تبدیل ہوگئے۔
’’یہ اچھا ہوا‘‘وکٹوریہ نے کہا اور اوپر چڑھتی گئی۔
اچانک اسے کچھ اجنبی لوگ نظر آئے جو اس کی طرف دیکھ کر چیخ و پکار کر رہے تھے۔لیکن وکٹوریہ انہیں سمجھ نہیں سکی۔
اس نے اپنی سنہری چابی باہر نکالی،لوگوں نے اس چابی کو چھوا تب اس نے انہیں سمجھ لیا۔
’’وکٹوریہ ! آپ آخر کار یہاں تک پہنچ ہی گئیں، ہم بہت خوش ہیں کہ آپ یہاں ہو۔ـ‘‘اجنبیوں نے کہا۔ لیکن اب وہ اجنبی نہیں رہ گئے تھے۔
’’کیوں؟ شکریہ‘‘وکٹوریہ نے کہا۔
پھر لوگوں نے اسے اپنے گھر، اپنی بلڈنگیں اور اپنے اپارٹمنٹس بتاتے ہوئے کہا،’’اگر تمہیں گھر چاہیے تو ہمارے گھروں میں سے کوئی ایک لے لو۔‘‘
’’کیوں؟ شکریہ۔‘‘وکٹوریہ نے کہا۔’’شاید بعد میں‘‘اور وہ اوپر چڑھتی گئی۔
وکٹوریہ اوپر ہی اوپر چڑھتی رہی اور شاخ کے آخری سرے پر پہنچ کر اس نے چاند کو دیکھا۔
شاخ کے آخری سرے پر ایک ٹیبل پر اس کے والد اور والدہ بیٹھے ہوئے تھے۔وہ شمع روشن کر کے اپنے ہاتھوں کو اٹھائے ہوئے تھے۔
چاند اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔وکٹوریہ!اس کی والدہ نے اسے مخاطب کیا۔ ’’کیا تم ہمارے ساتھ بیٹھنا پسند کروگی؟‘‘
’’ہاں ضرور‘‘وکٹوریہ نے کہا۔
————————————————–

انگریزی سے ترجمہ : ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر

مترجم نور الاسلام جونیئر کالج ، گوونڈی ممبئی میں انگریزی کے استاد ہیں

مضمون نگار سے رابطہ:

[email protected]

09987173997