problems of Urdu teaching at University Level

Articles

یونیورسٹی سطح پر اردو تدریس کے مسائل

سیّد اقبال

 

ہم بڑے خوش نصیب ہیں کہ ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ہماری زندگی اپنی پچھلی نسل سے قدرے بہتر ہے۔ ہم بہتر گھروں میں رہتے ہیں، اُن سے بہتر کھانا ہمیں نصیب ہے، اُن سے بہتر کپڑے میّسر ہیں اور ہماری تنخواہیں بھی اُن کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پچھلے پچاس برسوں کے مقابلے میں تعلیم آج کہیں زیادہ عام ہے۔حکمت کا نظام بھی قدرے بہتر ہوچلا ہے اور ہم اپنے پرکھوں کے مقابلے میں دس پندرہ سال زیادہ جی رہے ہیں،مواصلاتی نظام تو اِس قدر ترقی کرگیا ہے کہ گھر بیٹھے ہم جس سے چاہیں اور جب چاہیں منٹوں میں گفتگو کر سکتے ہیں، انٹرنیٹ نے دنیا ہماری گود میں ڈال دی ہے اور سارے عالم کی ہر طرح کی معلومات صرف ایک بٹن دباتے ہی اسکرین پر نمودار ہو جاتی ہے۔ یہی نہیں ہم اتنے پُرامن حالات میں جی رہے ہیں کہ ہمیں آزادی¿ تحریر اور آزادی¿ تقریر کا احساس تک نہیں ہوا۔اس کے باوجود ہم نہایت بدنصیب بھی ہیں کہ اب ہمیں ایک ایسے دور میں جینا پڑ رہا ہے جہاں معیشت کی حکمرانی ہے اور بازار ہماری زندگی کی کہانی لکھتے ہیں ۔سیاسی خداﺅں نے ٹکنالوجی کی مدد سے ہماری ذاتی زندگی کو ریکارڈ کرنا شروع کردیا ہے۔ لہذا کسی حکومت کے لیے صرف ایک بٹن دبا کر اس کے شہری کی پوری زندگی ، اس کی مالی حالت، اس کا بینک اکاﺅنٹ، اُس کے تعلقات، اُس کی ذاتی اہلیت، اُس کی پسندنا پسند ، یہاں تک کہ اُس کی بیماریاں اور ماضی میں کئے گئے سارے انکار کی تفصیل رکھنا نہایت آسان ہو گیا ہے۔ایک طرف مشینوں نے ہمیں فارغ اوقات کی نعمتوں سے نوازا ہے،دوسری طرف جرائم اور خودکشی کی شرح بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ انسانی تعلقات میں اتنی دراڑیں پیدا ہوگئی ہیں کہ پچاس سال میں اُن کا تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ خاندانی نظام تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ہی تھا، ملٹی نیشنل کارپوریشن نے ہماری روایتی ہنر مندی اور چھوٹے چھوٹے فنکاروں کی روزی پر بھی قدغن لگادی ہے۔تعلیم کا حصول بھی عام ہوا ہے اور نت نئے کورسیس بھی متعارف ہوئے ہیں۔ مگر اِن تعلیمی اداروں سے علم اور ذوق و شوق غائب ہوگئے ہیں ۔ طلباءکو ڈگریاں تو درکار ہیں مگر اُس کے لئے جو محنت اور عرق ریزی درکار ہے آج مفقود ہے۔علم فن کا عروج کیا ہوتا ہے اور اُسے حاصل کرنے کے لئے کتنی تگ ودو کرنی ہوتی ہے اُس سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی ۔ آج اخلاقیات باقی ہے نہ خیر خواہی، باقی ہے تو صرف مادی ترقی مادی ترقی کی زبردست خواہش ، اور جوابدہی کے تصور سے عاری ایک ایسی زندگی جہاں ایک فرد کی اپنی حیثیت اہم ہے نہ کہ معاشرے کی اہمیت اور ترقی ۔ ظاہر ہے جس معاشرے میں بازار اہم ہو چکے ہوں ، وہاں اخلاقیات، فلسفہ ، سماجی علوم اور زبان و ادب کی اہمیت کیا ہوگی۔اس لئے ہمیں زبان و ادب کی تدریس کے مسائل پر اگر بحث کرنی بھی ہے تو موجودہ معاشرے کے تناظر میں دیکھنا ہوگا، جہاں نصاب سے لیکر اساتذہ کا تقرر اور تحقیق کا کام، طلباءکی ذہنی صلاحیتیں ، معاشرے کے انھیں عوامل سے جڑی ہوئی ہیں۔وہ عوامل جو ہمارے لئے آئیڈیل یا کتابی نہیں رہے ۔یہ بھی یاد رہے کہ ہمارے کالیجز اور یونیورسٹیوں میں ان موضوعات پر سمینار اور ورکشاپ ہوتے رہیں گے(اور ہم اُن کے حل تلاش کرنے میں ہمیشہ ناکام رہیں گے) شاید اس لئے کہ ان عنوانات پر سمینار اور ورکشاپ منعقد کرنا صدر شعبہ کی محض ذمّہ داری ہے اور مجھ ایسے کم علم کو اور نا اہل  کو اُن عنوانات پر بولنے کی دعوت دینا ، اُن کی مجبوری ۔ سچ تو یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ہمیں بھی کچھ نہ کچھ بولنے کی عادت ہو چلی ہے ہاں یہ دعا ضرور کرتے ہیں کہ “کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی”
جہاں تک نصاب کا تعلق ہے اُس کی تیاری ایک بورڈ یا کمیٹی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جس میں اکثر و بیشتر وہی اساتذہ ہوتے ہیں جو برسہا برس سے کالجوں یا یونیورسٹیوں میں اردو پڑھا رہے ہیں ۔انھیں خوب اندازہ ہوتا ہے کہ پچھلے نصاب میں کیا کمی تھی جو اِس بار انھیں دور کرنی چاہئے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ پچھلا نصاب پڑھاتے وقت طلباءکا رسپانس(response) کیا تھا۔اور خود انھیں کتنی پریشانیاں اٹھانی پڑی تھیں۔لہذا ایک خاموش سمجھوتے کے تحت بورڈ کے ممبران عموماً ایسا نصاب تیار کرتے ہیں جس کو پڑھانے میں انھیں زیادہ دشواری نہ ہواور اُن عنوانات پر ایک یا دو کتابیں بآسانی دستیاب ہوں۔ غرض نصاب بنانے میں فوکس(focus) استاد ہوتا ہے، نہ طالبِ علم۔ بالفاظ دیگر اپنی تساہلی اور مواد کی دستیابی ایسے نصاب کی سب سے اہم ترجیح ہوا کرتی ہے۔اور یہ تیاری بھی اتنی رواروی میں کی جاتی ہے کہ لگتا ہے موصوف نے میٹنگ سے ایک دن قبل ہی اس کا ڈرافٹ تیار کیا تھا۔اور کالج یا یونیورسٹی کی لائبریری سے مطلوبہ کتابیں حاصل کر کے اُن  کی فہرست سے نصاب کے لئے عنوانات تجویز کر لئے تھے ۔ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ سارے کالجوں اور شعبہ کے سارے اساتذہ کے مشورے سے نصاب تیار کیا جائے۔اور یہ تو بہت کم ہوتا ہے کہ ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کے نصاب کو سامنے رکھ کر اپنا نصاب تیار کیا جائے۔ نتیجتاً نثر و نظم پڑھانے کے نام پر کسی شاعر اور ایک ناول نگار کو منتخب کرلیا اور شاعر کی دس بیس نظمیں اور ناول نگار کا ایک یا دو مشہور ناول تجویز کردیا۔ یہی حال کلاسیکی ادب کا ہوتا ہے۔ایک کلاسیکی شاعر اور کلاسیکی نثر و نگار غرض نصاب اس قدر مختصر ہوتا ہے کہ اگر کوئی سنجیدہ ، ایماندار اور صاحبِ علم استاد اُس ایک پرچے کو پڑھانا چاہے تو بڑی آسانی سے اُسے تین ماہ میں ختم کر سکتا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم اپنی سہولت کی خاطر طلباءکو ادب کے ایک بڑے حصّہ سے محروم کردیتے ہیں ۔ وہ اگر غالب کا مطالعہ کرتے ہیں تو میر اور اقبال  سے محروم ہوجاتے ہیں اور سردار جعفری کو پڑھ لیں تو فیض اور فراق سے متعارف نہیں ہو پاتے۔نظیر اوراکبر کا ذکر کیا کریں اسی طرح طلباءکی کثیرتعدادمنٹو، عصمت ،بیدی اور قرة العین حیدر کے نام تو جانتی ہی ہے ، مگر ان کی ادبی قدرو قیمت سے واقف نہیں ہو پاتی ۔ کہتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے کہ آج ایسے اساتذہ کا فقدان ہے جو کسی ایک ادیب کو پڑھانے سے قبل اردو فکشن کا احاطہ کرتے ہوئے سارے اہم ادیبوں سے طلباءکو متعارف کراتے ہیں۔ نہ ہی ایسے پڑھے لکھے اساتذہ نظر آتے ہیں جنھوں نے اردو شاعری کا عمیق مطالعہ کیا ہو۔ لکھنﺅ اور دہلی اسکول کی خوبیوں کے ساتھ ترقی پسند اور جدید شعراءکی منظومات سے بھی طلباءکو متعارف کراسکیں۔ یہاں تک کہ ایک یونیورسٹی نے بڑی خاموشی سے اپنے نصاب سے علامہ اقبال کو حذف کردیا ہے کہ اُن کے کلام کو پڑھانے والے اساتذہ مل نہیں پائے۔ شاید آپ اِس پر بھی یقین نہ کریں مگر اب شاید ہی کسی یونیورسٹی کے نصاب میں قصیدہ شامل ہو۔یہ اور بات ہے کہ اردو والے اپنے آقاﺅں کی قصیدہ خوانی میں دن رات لگے رہتے ہیں۔
اِس ضمن میں ایک اور بات قابلِ غور ہے ، ہم اردو طالبِ علموں کی محدود سوچ کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے محبوب دائروں سے باہر نہیں نکل پاتے، کبھی غزلیں پکڑ لیتی ہیں تو کبھی کوئی خوبصورت کہانی پیروں میں بیڑیاں ڈال دیتی ہیں ۔ جبکہ عالم کاری کے اِس زمانے میں ضرورت ہے کہ ہم دیگر علوم کے سے بھی کما حقہ واقفیت حاصل کریں ۔ ہندوستان کی مختلف IIT میں انجنیئرنگ کے کورسیز کے ساتھ Humanities کا کورس بھی پڑھایا جانا چا ہیے تا کہ ایک انجنیئرکو یہ علم ہوسکے کہ انسانی سماج کیسے بنتے بگڑتے ہیں اور عالمی سیاسی بساط پر کیا کچھ ہو رہا ہے۔کیا ہم یونیورسٹی کی سطح پر اپنے نصاب میں سماجی علوم کا ایک پرچہ رکھ کر اپنے طلباءکے ذہنی افق کو وا نہیں کر سکتے؟اسی طرح ہم اردو کے قواعد اور مضمون نویسی کے پرچے میں ترجمے کا چاہے وہ دس بیس نمبر کا ہی ہو ایک سوال ضرور رکھتے ہیں ۔ وہ اساتذہ جو انگریزی میں مہارت رکھتے ہیں وہ ترجمے کے فن سے طلباءکو کو متعارف بھی کراتے ہیں ۔مگر کیا ایک یا دو سوالوں کا حل کردینا بچوں کو انگریزی زبان سے واقف کرا پاتا ہے۔کیوں نہ ہم یونیورسٹی کی سطح پر طلباءکو انگریزی کا ایک باقاعدہ نصاب پڑھائیں یا انھیں انگریزی زبان کے ساتھ ادب کے اہم شہ پاروں کے متعارف کرائیں تا کہ جب یہ ڈگریاں لیکر نکلیں تو آج طاقت کی سب سے بڑی زبان سے اُن کی شناسائی تو ہو۔جواہر لال یونیورسٹی کے ڈاکٹر نامور سنگھ نے اپنی نوعیت کا ایک انوکھا تجربہ کیا تھا۔انھوں نے پوسٹ گریجویشن کی سطح پر ہندی کے طلباءکواردو اور اردو طلباءکو ہندی کے ایک ایک پرچے سے متعارف کرایا تھا تاکہ اِس بہانے وہ ایکدوسرے کے ادب سے واقف ہوں اور یوں زبان کی سطح پر سہی دو مختلف زبان کے طلباءکی دوریاں کچھ کم ہو سکیں ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ آپ چاہے کتنا ہی اعلیٰ اور معیاری نصاب بنالیں مگر اُسے پڑھانے والا اچھا استاد میسّر نہ ہو، تو پھر بھی وہ نصاب نرا نصاب ہی رہ جاتا ہے۔ بلکہ اکثر صورتوں میں ایک غیر معیاری ا ستاد اُس کاناس مار دیتا ہے ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک اچھے استاد نے ایک معمولی نصاب کو اتنا دلچسپ بنا کر پڑھایا کہ طلباءکی دلچسپی کورس کے خاتمے تک باقی رہی۔ غرض زبان و ادب کے پڑھانے کے لئے ایک اچھا استاد بے حد ضروری ہے کیوں کہ وہ صرف نصاب ہی نہیں پڑھاتا زبان کی باریکیوں سے روشناس کراتا ہے اور اپنے طلباءکو ذوقِ سلیم کی اس دولت سے نوازتا ہے جس کے سہارے وہ زندگی بھر دنیائے ادب کے سفر سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ان کی تدریسی صلاحیتیں ہمارے لئے مسئلہ بنی ہوئی ہےتو ہمیں تھوڑی دیر رک کر اپنے آپ سے یہ پوچھنا چاہئے کہ آخر ان کم نصیبوں کو کس نے پڑھایا تھا۔ کیا ان کے اساتذہ واقعی قد آور اساتذہ تھے ۔ کیا وہ علم و ادب سکھانے کے جنون میں مبتلا تھے؟ کیا ادب ان کا اوڑھنا بچھونا تھا؟کیا اپنے طلبا کی تربیت میں وہ دل و جان سے مصروف تھے؟ اگر اُن کے اساتذہ بھی معمولی صلاحیتوں کے افراد تھے تو پھر اُن کی اہلیت کا شکوہ کیوں کریں۔ در اصل آج اساتذہ کی وہ کھیپ ناپید ہے جن کے لئے زبان و ادب پڑھانا زندگی کا واحد مقصد ہوا کرتا تھا۔جو اپنی ساری زندگی ادب کے مطالعہ، علمی تحقیقی کام اور اپنے شاگردوں کی تربیت میں صرف کردیتے تھے۔ یہ اساتذہ اُن گھرانوں سے آئے تھے جہاں تہذیبی قدریں زندہ تھیں جہاں مادی آسائشوں اور نام و نمود کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔اِس لئے ساٹھ اور ستر کی دہائی تک آپ کو اردو کے ایسے اساتذہ کے نام سنائی پڑتے ہیں جو اپنے شعبوں کی شناخت تھے۔ علی گڑھ میں رشید احمد صدیقی ، خورشیدالاسلام، مسعود حسین خان، دہلی میں خواجہ احمد فاروقی، الہ باد میں اعجاز حسین ، احتشام حسین، ممبئی میں نجیب اشرف ندوی ظہیرالدین مدنی، عالی جعفری وغیرہ۔پھر زمانے نے کروٹ بدلی اور علم و تعلیم کا زوال شروع ہوا، اداروں کو گُھن لگنے لگی اور تہذیبی قدریں مدھم پڑتی گئیں ۔ لہذا بعد کی کھیپ جو آئی وہ پچھلی کھیپ سے کمتر نکلی ۔ پھر تو جو سلسلہ شروع ہوا تو علم تعلیم کے زوال کے ساتھ ساتھ دانشوری کی روایت بھی زوال پذیر ہوئی اور اساتذہ کی تقرری میں وہ سارے عوامل کام کرنے لگے جن کا تعلق کسی طورعلم و تعلیم سے نہیں تھا۔ کہیں سفارش کا سکّہ چلا تو کہیں کسی سیاسی قائد کا دباﺅ بڑھا، کہیں کسی شاگرد کو وفاداری کا صلہ دیا گیا۔تو کہیں علاقائیت کو مستحکم کیا گیا۔in-breeding کی اصلاح کا ذکر کیا کریں اقرباءپروری اور دوست نوازی نے بھی اردو کے شعبوں کو نہیں بخشا۔غرض حال یہ ہوا کہ تقرر کرنے والا تو پستہ قد تھا ہی ،جس کا تقرر کیا گیا وہ اُس سے بھی کوتاہ قد تھا۔ہارورڈ یونیورسٹی میں آج بھی جب کوئی اسامی خالی ہوتی ہے اُس کے لئے عالمی سطح پر تلاش شروع کردیتے ہیں ۔ کنیڈا کی ایک یونیورسٹی میں لکچرر شپ کے لئے وہاں کے صدر شعبہ نے ممبئی کے ایک پی۔ایچ۔ڈی کے طالبِ علم کو دعوت دی تھی۔صرف اس لئے کہ اس طالبِ علم کی پی۔ایچ۔ڈی کا مقالہ صدر موصوف نے پڑھا تھااور حیران تھے کہ اِس صاحبزادے نے اتنا معیاری مقالہ کیسے لکھ لیا۔ہمارے یہاں جب آپ شعبہ میں ایک بار داخل ہو جائیں تو پھر آپ ہر طرح کے امتحان سے بری ہو جاتے ہیں جبکہ غیر ملکی یونیورسٹیوں میں آج بھی اساتذہ کو صرف ایک سال کا کنٹریکٹ دیا جاتا ہے تاکہ ان کی صلاحیتوں کا باقاعدہ تجزیہ کرکے جس میں صدر شعبہ کی رائے، رفقائے کار کی رائے اور طلبا کی آراءاور پھر استاد کے علمی کاموں کی جانچ کے بعد ہی استاد محترم کو ان کے منصب پر باقی رکھا جاتا ہے۔ہم اِس طرح کا کوئی اصول بنائیں تو اساتذہ کی یونین ایک ہنگامہ کھڑا کردے گی۔ لہذا نا اہل سے نا اہل امیدوار بھی کالج یا یونیورسٹی کی لکچرر شپ کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے کیوں کہ اسے پتہ ہے،ایک بار اُسے تقرری کا پروانہ مل گیا پھر دنیا کی کوئی طاقت اُسے مات نہیں دے سکتی۔اب وہ سماج میں اونچے منصب پر فائز ہوگا اور چھٹے پے کمیشن کے حساب سے اچھی خاصی تنخواہ پائے گا۔ رہا پڑھنا پڑھانا ، تو نصاب ہی تو پڑھانا ہے کچھ نوٹس بنا لیں گے اور کچھ سابق طالبِ علموں سے لے لیں گے کچھ نہیں بن پڑا تو پوری کتاب زیروکس کرالیں گے۔اس دوران صدر شعبہ یا پرنسپال صاحب سے پینگیں بڑھنے لگیں تب تو سارے کام آسان ہو جائیں گے، اور کسی سے مقابلہ تو کرنا ہے نہیں ، خود کو بہتر کرنے کا جذبہ بھی عرصہ پہلے سرد ہوچکا ہے، ہاں اپنے jobکو permanent کرنے کے لئے جو لازمی قابلیت درکار ہوتی ہے جیسے orientation کورسیز اور ریفریشر کورسیز وغیرہ وہ بھی اب routine بن چکا ہے۔ اور ہر لیکچرر دیر سویر مکمل کرہی لیتا ہے۔رہی سمیناروں اور کانفرنسوں میں شرکت ، تو یہ آپ حضرات سے کہنے کی ضرورت نہیں ۔ یہ مرحلے بھی بڑی آسانی سے طے ہوجاتے ہیں
ہوتے نہ لیکچرر تو کئی لوگ جعفری
ساحل پہ بیچتے کہیں چھولے دہی بڑے
رہے ہمارے اساتذہ کے تحقیقی کام تو اس پر کچھ کہتے شرم آتی ہے۔کالج ہوں یا یونیورسٹی ،اردو کے شعبوں کی پی۔ایچ۔ڈی کی علمی دنیا میں کوئی وقت نہیں رہی پچھلے بیس پچیس برسوں میں اکادکا کوئی تحقیقی کام ہوگا جس نے اردو دنیا پر اپنے اثرات چھوڑے ہوں۔ورنہ یہ ایسی مشق ہو چکی ہے کہ آپ کا گائڈ آپ کے مقالے کو یہاں وہاں سے دیکھ کر یونیورسٹی میں پیش کردیتا ہے اور اپنے دوست ممتحن کو مطلع کردیتا ہے کہ بھائی مع اہل و عیال ہمارے شہر تشریف لے آئیے میرا شاگرد آپ کی مہمان نوازی کے لئے بے تاب ہے۔اب یہ لیکچرر صاحب کی ذمہ داری ہے کہ ممتحن صاحب کی آﺅ بھگت کریں ، اُن کے آرام کا خیال رکھیں انھیں اسٹیشن یا ائیرپورٹ لینے اور چھوڑنے جائیں اور انھیں یہ باور کرادیں کہ ان سے زیادہ پڑھا لکھا شخص اس قطعہءارض پر ابھی تک پیدا نہیں ہوا، مزید یہ کہ آپ نے ان کی ساری کتابیں اور مقالے پڑھ رکھے ہیں اور اپنے لکچرس میں صرف اُن سے ہی استفادہ کرتے ہیں۔ غرض یہ ڈرامہ اتنی پابندی اور اس مہارت سے کھیلا جاتا ہے کہ اب ہر مقالہ نگار کو پتہ ہے کہ اُسے اپنے گائڈ اور مہمان ممتحن کو ان کی محنت کا کتنا صلہ دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اساتذہ کے مقالے یونیورسٹی لائبریریوں کے کسی کونے میں ڈال دئیے جاتے ہیں اور وہ خود بھی کالج یا یونیورسٹی کے رجسٹرار کو اُس کی رسید دے کر بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے بھی کبھی کوئی علمی کارنامہ انجام دیا تھا۔ہاں اب یہ بات بھی کوئی راز نہیں رہ گئی کہ ایسے Ghost رائٹر بھی موجود ہیں جو مناسب حقِ محنت پر آپ کو مقالہ لکھ کر دیں گے۔ ظاہر ہے جب یونیورسٹی کا سارا نظام کرپٹ ہوچکا ہو وہاں شاطر قسم کے افراد کے لئے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری کا حصول کوئی مشکل کام نہیں رہ جاتا۔ چونکہ اردو والوں کے ہاں ایسا کوئی میکانزم بھی نہیں ہے جو آزادانہ طور پر ان مقالوں کی علمی حثیت جانچ سکے۔اس لئے ان مقالوں کی اکثریت صرف پی۔ایچ۔ڈی کی لازمی قابلیت کی خانہ پُری کے کام آتی ہے جس سے تنخواہ میں اضافہ مقصود ہوتا ہے اور بس۔
مختصراً یہ کہ اردو اساتذہ میں علم کے حصول کی خواہش نہیں رہ گئی ہے اور اب وہ بھی خود کو ڈگری تفویض کرنے کی فیکٹری کا ایک فرد سمجھنے لگے ہیں ۔ انھیں اب اپنے increment کی فکر رہتی ہے۔اور اُن کی ساری سہولتوں کی جس کا وہ خود کو مستحق سمجھتے ہیں۔انھیں اس بات کی فکر نہیں کہ اردو کے طالبِ علموں کی تعداد دن بدن گھٹتی جا رہی ہے۔ انھیں اس بات کا بھی دکھ نہیں کہ شہر کے مختلف کالجوں میں اردو کے شعبے بند ہونے لگے ہیں۔ یہ تو مہاراشٹرا آندھرا پردیش ایسی ریاستیں ہیں جہاں آج بھی اردو اسکول جاری ہیںاور کالجوں اور یونیورسٹیوں کو اردو کے طلباءمل جاتے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ ہماری اسکولی تعلیم کا حال بھی کچھ اچھا نہیں ہے۔بلکہ اسکولوں میں اردو کا معیار اس قدر ناقص ہوچلا ہے کہ اردو میں بی۔اے کرنے والے طلباءبھی ڈھنگ کا مضمون نہیں لکھ پاتے، اُن کا اِملا درست ہوتا ہے نہ تلفّظ، ادب سے شناسائی تو دور کی بات رہی، وہ تو صرف اِس لئے شعبہءاردو کا رخ کرتے ہیں کے ان کے نمبرات اتنے خراب ہوتے ہیں کہ وہ کسی اور شعبہ میں داخل ہو کر کامیاب ہو ہی نہیں سکتے۔ویسے بھی آرٹس فیکلٹی آج سارے ملک میں بحران کا شکار ہے اور ایک سروے کے مطابق آرٹس کے صرف دس فیصد طلباءہی عالمی معیار پر پورے اترتے ہیں۔(اردو والے تو شاید اس صد فیصد میں نظر بھی نہ آئیں)
بہر حال اگر ہمیں اردو کی تدریس کی بہتری کی طرف قدم بڑھانا ہے تو سب سے پہلے اسکول میں اردو کی تدریس پر دھیان دینا ہوگا۔ اپنے شعبوں میں ایسے افرادکا تقرر کرنا ہوگا جو اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کو اپنی زندگی کی اہم ترجیحات سمجھتے ہوں وہ ایسے افراد ہوں جو نہ صرف خود مطالعہ کا شوق رکھتے ہوں بلکہ طلباءکو مطالعہ پر مائل کر سکتے ہوں۔جو اپنی کلاسوں میں طلبا کو صرف ادب کی اعلیٰ قدروں سے متعارف کرانے کا ہنر ہی نہ جانتے ہوں بلکہ اپنے حسن سلوک اور کردار سے انھیں متاثر بھی کریں۔ وہ طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرنے اور انھیں تخلیقی سوچ اور تجزیہ کرنے پر بھی مائل کر سکیں اور تحریر و تقریر کے رموز و آداب سے بھی روشناس کراسکیں ۔ گو ایک مخصوص مدت میں نصاب کی تکمیل ایک استاد کی محض ذمہ داری قرار دی گئی ہے، مگر وہ چاہے تو اپنے اسی محدود وقت میں طلباءکو نصاب سے کچھ زیادہ بھی دے سکتا ہے۔ البتہ اس کے لئے ایک کھلا ذہن اور غیر جانب دارانہ اندازِ تدریس درکار ہے، جو ایک اچھا استاد چاہے تو تھوڑی سی محنت سے یقیناً حاصل کر سکتا ہے۔ ہمارے اساتذہ اسی محنت کو اپنا شعار بنالیں اور اپنے کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرنے لگیں تو اردو کی بے رنگ اور بے کیف تدریس میں انقلاب آسکتا ہے۔ اردو تدریس کے معیار کو بہتر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد سے نکل کر دیگر کالجوں اور یونیورسٹیوں سے رابطہ رکھیں ،جو تحقیقی کاموں میں شراکت کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔اور اساتذہ اور طلباءکے Excange پروگراموں کے انعقاد میں بھی۔ لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ ہم ایک لگے بندھے ڈھرے سے ہٹ کر صرف اور صرف اردو زبان و ادب کی محبت میں انتھک محنت پر راضی ہیں؟ یہ نہ بھولئے کہ کسی شعبہ کی شناخت اس کا معیار اور اُس کی ترقی اس بات پر منحصر ہے کہ اس شعبہ نے کتنے ذہین اور با ذوق طلباءکو اپنی طرف مائل کیا ، وہاں کے اساتذہ کتنے معیاری، کتنے محنتی،کتنے جنونی اور کتنے عالم ہیں، اور وہاں کس معیار کے علمی کام ہو رہے ہیں۔
٭٭٭