Mumtaz shiireen

Articles

ممتاز شیریں: شخصیت اور فن (خطوط کے آئینے میں)

ڈاکٹر تنظیم الفردوس

ممتاز شیریں 12 ستمبر 1924ء کوہندو پور، آندھرا پردیش ، ہندوستان میں پیدا ہوئیں۔ ممتاز شیریں کے نانا ٹیپو قاسم خان نے اپنی اس نواسی کو تعلیم و تربیت کی خاطر اپنے پاس میسور بلا لیا ۔اس طرح وہ بچپن ہی میں اپنے ننھیال میں رہنے لگیں۔ ممتاز شیریں کے نانا اور نانی نے اپنی اس ہو نہار نواسی کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ وہ خود بھی تعلیم یافتہ تھے اور گھر میں علمی و ادبی ماحول بھی میسر تھا ۔ممتاز شیریں ایک فطین طالبہ تھیں انھوں نے تیرہ (13)برس کی عمر میں میٹرک کا امتحان درجہ اول میں امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ ان کے اساتذہ ان کی قابلیت اور خداداد صلاحیتوں کے معترف تھے ۔1941ء میں ممتاز شیریں نے مہارانی کالج بنگلور سے بی اے کا امتحان پاس کیا ۔1942ء میں ممتاز شیریں کی شادی صمد شاہین سے ہو گئی۔ ممتاز شیریں نے 1944ء میں اپنے شوہر صمد شاہین سے مل کر بنگلور سے ایک ادبی مجلے “نیا دور” کی اشاعت کا آغاز کیا۔اس رجحان ساز ادبی مجلے نے جمود کا خاتمہ کیا اور مسائل ادب اور تخلیقی محرکات کے بارے میں چشم کشا صداقتیں سامنے لانے کی سعی کی گئی ۔صمد شاہین پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے ۔انھوں نے وکالت کے بعد ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اس کے بعد وہ حکومت پاکستان میں سرکاری ملازم ہو گئے۔ وہ ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے بیورو آف ریفرنس اینڈ ریسرچ میں جوائنٹ ڈائریکٹر کے منصب پر فائز ہوئے۔ ممتاز شیریں نے زمانہ طالب علمی ہی سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ۔ان کی سنجیدگی ،فہم و فراست ،تدبر و بصیرت اور وسیع مطالعہ نے انھیں سب کی منظور نظر بنا دیا۔ ہر جماعت میں وہ اول آتیں اور ہر مضمون میں امتحان میں وہ سر فہرست رہتیں۔ ملک کی تقسیم کے بعد ممتاز شیریں کا خاندان ہجرت کر کے کراچی پہنچا۔ کراچی آنے کے بعد ممتاز شیریں نے اپنے ادبی مجلے نیا دور کی اشاعت پر توجہ دی اور کراچی سے اس کی باقاعدہ اشاعت کاآغاز ہو گیا لیکن 1952ء میں ممتاز شیریں اپنے شوہر کے ہمراہ بیرون ملک چلی گئیں اور یوں یہ مجلہ اس طرح بند ہو ا کہ پھر کبھی اس کی اشاعت کی نوبت نہ آئی۔ ادبی مجلہ نیادور ممتاز شیریں کی تنقیدی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔ ممتاز شیریں نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔اس کے بعد وہ برطانیہ چلی گئیں اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں جدید انگریزی تنقید میں اختصاصی مہارت فراہم کرنے والی تدریسی کلاسز میں داخلہ لیا اور انگریزی ادب کے نابغہ روزگار نقادوں اور ادیبوں سے اکتساب فیض کیااور انگریزی ادب کا وسیع مطالعہ کیا۔ ممتاز شیریں کی دلی تمنا تھی کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ان کی تعلیم جاری رہے اور وہ اس عظیم جامعہ سے ڈاکٹریٹ (ڈی فل ) کریں لیکن بعض ناگزیر حالات اور خاندانی مسائل کے باعث وہ اپنا نصب العین حاصل نہ کر سکیں اور انھیں اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کر کے پاکستان وا پس آنا پڑا۔ اس کا انھیں عمر بھر قلق رہا۔

ممتاز شیریں نے 1942ء میں تخلیق ادب میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔ان کا پہلا افسانہ انگڑائی ادبی مجلہ ساقی دہلی میں 1944ء میں شائع ہو ا تو ادبی حلقوں میں اسے زبردست پذیرائی ملی ۔اس افسانے میں ممتاز شیریں نے فرائڈ کے نظریہ تحلیل نفسی کو جس مو ثر انداز میں پیش نظر رکھا ہے وہ قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔ افسانہ کیا ہے عبرت کا ایک تازیانہ ہے ۔ایک لڑکی بچپن میں اپنی ہی جنس کی ایک دوسری عورت سے پیمان وفا باندھ لیتی ہے۔ جب وہ بھر پور شباب کی منزل کو پہنچتی ہے تو اس کے مزاج اور جذبات میں جو مد و جزر پیدا ہوتا ہے وہ اسے مخالف جنس کی جانب کشش پر مجبور کر دیتا ہے۔ جذبات کی یہ کروٹ اور محبت کی یہ انگڑائی نفسیاتی اعتبار سے گہری معنویت کی حامل ہے ۔بچپن کی نا پختہ باتیں جوانی میں جس طرح بدل جاتی ہیں، ان کا حقیقت پسندانہ تجزیہ اس ا فسانے کا اہم موضوع ہے۔ مشہور افسانہ انگڑائی ممتاز شیریں کے پہلے افسانوی مجموعے اپنی نگریا میں شامل ہے ۔وقت کے ساتھ خیالات میں جو تغیر و تبدل ہوتا ہے وہ قاری کے لیے ایک انوکھا تجربہ بن جاتا ہے ۔یہ تجربہ جہاں جذباتی اور نفسیاتی اضطراب کا مظہر ہے وہاں اس کی تہہ میں روحانی مسرت کے منابع کا سراغ بھی ملتاہے ۔ وہ ایک مستعد اور فعال تخلیق کار تھیں ۔ان کے اسلوب کوعلمی و ادبی حلقوں نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔

اردو ادب میں حریت فکر کی روایت کوپروان چڑھانے میں ممتاز شیریں کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔وہ عجز و انکسار اور خلوص کا پیکر تھیں ۔ظلمت نیم روز ہو یا منٹو نوری نہ ناری ہر جگہ اسلوبیاتی تنوع کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ قدرت اللہ شہاب اور محمود ہاشمی کے اسلوب کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں ۔قدرت اللہ شہاب کی تصنیف “یا خدا” اور محمود ہاشمی کی تصنیف “کشمیر اداس ہے” کا پیرایۂ آغاز جس خلوص کے ساتھ ممتاز شیریں نے لکھا ہے وہ ان کی تنقیدی بصیرت کے ارفع معیار کی دلیل ہے ۔وطن اور اہل وطن کے ساتھ قلبی لگاؤ اور والہانہ محبت ان کے قلب ،جسم اور روح سے عبارت تھی ابتدا میں اگرچہ وہ کرشن چندر کے فن افسانہ نگاری کی مداح رہیں مگر جب کرشن چندر نے پاکستان کی آزادی اور تقسیم ہند کے موضوع پر افسانوں میں کانگریسی سوچ کی ترجمانی کی تو ممتاز شیریں نے اس انداز فکر پر نہ صرف گرفت کی بلکہ اسے سخت نا پسند کرتے ہوئے کرشن چندر کے بارے میں اپنے خیالات سے رجوع کر لیااور تقسیم ہند کے واقعات اور ان کے اثرات کے بارے میں کرشن چندر کی رائے سے اختلاف کیا۔ممتاز شیریں نے اردو ادب میں منٹو اور عصمت چغتائی پر جنس کے حوالے سے کی جانے والی تنقید کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے ان کے اسلوب کو بہ نظر تحسین دیکھا۔ممتاز شیریں کا تنقیدی مسلک کئی اعتبار سے محمد حسن عسکری کے قریب تر دکھائی دیتا ہے۔ سب کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے لبریز ان کا سلوک ان کی شخصیت کاامتیاز ی وصف تھا ۔ان کے اسلوب کی بے ساختگی اور بے تکلفی اپنی مثال آپ ہے۔ زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس اور اسلوب کی ندرت کے اعجاز سے انھوں نے ادب ،فن اور زندگی کو نئے آفاق سے آشنا کیا ۔ان کے ہاں فن کار کی انا، سلیقہ اور علم و ادب کے ساتھ قلبی لگاﺅ، وطن اور اہل وطن کے ساتھ والہانہ وابستگی کی جو کیفیت ہے وہ انھیں ایک اہم مقام عطا کرتی ہے ۔ادب کو انسانیت کے وقاراور سر بلندی کے لیے استعمال کرنے کی وہ زبردست حامی تھیں ۔انھوں نے داخلی اور خارجی احساسات کو جس مہارت سے پیرایہ ءاظہار عطا کیا ہے وہ قابل غور ہے ۔

ممتاز شیریں کو انگریزی ، اردو ،عربی، فارسی اور پاکستان کی متعدد علاقائی زبانوں کے ادب پر دسترس حاصل تھی ۔عالمی کلاسیک کا انھوں نے عمیق مطالعہ کیا تھا۔ زندگی کے نت نئے مطالب اور مفاہیم کی جستجو ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔ اپنی تخلیقی تحریروں اور تنقیدی مقالات کے معجز نما اثر سے وہ قاری کو زندگی کے مثبت شعور سے متمتع کرنے کی آرزو مند تھیں۔ ان کی تخلیقی اور تنقیدی تحریریں ید بیضا کا معجزہ دکھاتی ہیں اور حیات و کائنات کے ایسے متعدد تجربات جن سے عام قاری بالعموم نا آشنا رہتا ہے ممتاز شیریں کی پر تاثیر تحریروں کے مطالعے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ تو گویا پہلے ہی سے اس کے نہاں خانہ دل میں جا گزیں تھا ۔اس طرح فکر و خیال کی دنیا میں ایک انقلاب رونما ہو تا ہے جس کی وجہ سے قاری کے دل میں اک ولولۂ تازہ پیدا ہوتا ہے ۔ ترجمے کے ذریعے وہ دو تہذیبوں کو قریب تر لانا چاہتی تھیں۔ تراجم کے ذریعے انھوں نے اردو زبان کو نئے جذبوں، نئے امکانات، نئے مزاج اور نئے تخلیقی محرکات سے روشناس کرانے کی مقدور بھر کوشش کی ۔ان کے تراجم کی ایک اہم اور نمایاں خوبی یہ ہے کہ ان کے مطالعہ کے بعد قاری ان کے تخلیق کار کی روح سے ہم کلام ہو جاتا ہے مترجم کی حیثیت سے وہ پس منظر میں رہتے ہوئے قاری کو ترجمے کی حقیقی روح سے متعارف کرنے میں کبھی تامل نہیں کرتیں ۔ان کے تراجم سے اردو کے افسانوی ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا اور فکر و خیال کو حسن و دلکشی اور لطافت کے اعلیٰ معیار تک پہنچانے میں کامیابی ہوئی۔افسانوی ادب کی تنقید میں ممتاز شیریں کا دبنگ لہجہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ گزشتہ آٹھ عشروں میں لکھی جانے والی اردو تنقید پر نظر ڈالیں تو کوئی بھی خاتون نقاد دکھائی نہیں دیتی ۔ممتاز شیریں نے اردو تنقید کے دامن میں اپنی عالمانہ تنقید کے گوہر نایاب ڈال کر اسے عالمی ادب میں معزز و مفتخر کردیا ۔ زندگی کی صداقتوں کو اپنے اسلوب کی حسن کاریوں سے مزین کرنے والی اس عظیم ادیبہ کے تخلیقی کارنامے تاریخ ادب میں آب زر سے لکھے جائیں گے اور تاریخ ہر دور میں ان کے فقیدالمثال اسلوب لا ئق صد رشک و تحسین کا م اور عظیم نام کی تعظیم کرے گی۔

1954ء میں ہالینڈ کے دار الحکومت ہیگ میں ایک بین الاقوامی ادبی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ا س عالمی ادبی کانفرنس میں عالمی ادب اور انسانیت کو درپیش مسائل کے بارے میں وقیع مقالات پیش کیے گئے ۔ممتاز شیریں کو اس عالمی ادبی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہوا۔اس عالمی ادبی کانفرنس میں ممتاز شیریں نے دنیا کے نامور ادیبوں سے ملاقات کی اور عالمی ادب کے تناظر میں عصری آگہی کے موضوع پر ان کے خیالات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ادب کو وہ زندگی کی تنقید اور درپیش صورت حال کی اصلاح کے لیے بہت اہم سمجھتی تھیں ۔

اپنی تخلیقی کامرانیوں سے ممتاز شیریں نے اردو دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ۔رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے ان کے توانا اور ابد آشنا اسلوب میں سمٹ آئے تھے۔ ان کی تمام تحریریں قلب اورروح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثرآفرینی سے لبریز تھیں۔ ممتاز شیریں کی درج ذیل تصانیف انھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام پر فائز کریں گی ۔

افسانوی مجموعے

  • اپنی نگریا
  • حدیث دیگراں
  • میگھ ملہار
  • ظلمت نیم روز (فسادات کے افسانے) ترتیب: ڈاکٹر آصف فرخی

تنقید

  • معیار
  • منٹو، نوری نہ ناری

مدیر

  • نیا دور (ادبی جریدہ)

تراجم

  • درشہوار (جان اسٹین بیک کا ناول دی پرل کا ترجمہ)
  • پاپ کی زندگی ( امریکی افسانوں کا مجموعہ)

ممتاز شیریں پر کتب

ملازمت

ممتاز شیریں اپنی زندگی کے آخری دنوں میں حکومت پاکستان کی وفاقی وزارت تعلیم میں بہ حیثیت مشیر خدمات پر مامور تھیں ۔

وفات

ممتاز شیریں کو 1972ء میں پیٹ کے سرطان کا عارضہ لاحق ہو گیا ۔مرض میں اس قدر شدت آگئی کہ 11 مارچ 1973ء کو پولی کلینک اسلام آباد میں وہ انتقال کر گئیں ۔ تانیثیت (Feminism) کی علم بردار حرف صداقت لکھنے والی اس با کمال ،پر عزم ،فطین اور جری تخلیق کار کی الم ناک موت نے اردو ادب کو نا قابل اندمال صدمات سے دوچار کر دیا۔


 

ممتاز شیریں: شخصیت اور فن

(خطوط کے آئینے میں)

ڈاکٹر تنظیم الفردوس

اُردو ادب میں ممتاز شیرین چند نہایت عالمانہ بصیرت کی حامل مصنفوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ وہ اُردو کے تین بہترین افسانہ نگاروں میں بے شک شامل نہ کی جائیں لیکن اس فن میں ان کی ہنرمندی، ادبی شعور، تخلیقی حساسیات اور ذہانت نے شامل ہوکر اُردو افسانے اور اس کی تنقید کو بہت کچھ دیا ہے۔ فنِ تنقید کے عمومی موضوعات کے حوالے سے بھی شیرین نے ستھرا اور اعلٰی درجے کا کام کیا اور عملی تنقید کے بہترین نمونے بھی فراہم کیے۔ ایک صحافی اور اپنے وقت کے اہم ادبی رسالے کی مدیرہ و منتظمہ کی حیثیت سے بھی انہوں نے نمایاں شناخت حاصل کی۔ اسی حیثیت میں انھوں نے عالمی افسانوی ادب کے تراجم کا سلسلہ بھی شروع کیا جو ان کی ادبی تنوع پسندی کی ایک انفرادی جہت ہے۔
اسی طرح مشاہیر، ہمعصر ادیبوں اور دوستوں کے نام اُن کے خطوط نہ صرف ان کی شخصیت کے مختلف النوع پہلووں کو اُجاگر کرتے ہیں بلکہ اپنے عصر کے حالات، ادبی تاریخ، رُجحانات، مسائل اور سرگرمیوں کا احاطہ بھی بڑی خوبی سے کرتے ہیں۔ اِن خطوط سے ممتاز شیریں کی زندگی کے اُن گوشوں کی نقاب کشائی بھی ہوتی ہے جن کی مدد سے ان کی رواداری اور متواضع شخصیت کا علم ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کے جتنے خط منظرِ عام پر آنے چاہئے تھے وہ نہ آسکے جب کہ وہ برسوں ایک اہم رسالے کی ادارت کرتی رہیں۔ محض اس ایک ذمہ داری کی وجہ سے اپنے عہد کے بے شمار مشاہیرکو انھوں نے خطوط تحریر کیے ہوں گے۔ اگر وہ تمام خط سامنے آسکیں تو یقیناً ادبی دُنیا کو اُن کے افکار و تصورات کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوسکیں گی۔
ہر لکھنے والے کے لیے خط تحریر کرتے ہوئے نہ کوئی محّرک  ضرور ہوتا ہے اور اسی محّرک کی بنا پر مکتوب نگار اپنی حد تک مکتوب نویسی کا کوئی نہ کوئی ضابط متعین کر لیتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ مکتوب نگار کی آواز سو فیصد ذاتی ہوتی ہے۔ حالاں کہ اپنی عملی زندگی میں وہی مکتوب نگار اپنی ایک منفرد سماجی آواز بھی رکھتا ہے اور اس کی ادبی تخلیقات میں بھی اس کی ایک علیحدہ آواز گونجتی ہے۔ لیکن خطوط میں مکتوب نگار کی آواز ایک ایسے انسان کی آواز “ایک ایسے انسان دوست کی ہوتی ہے جو عظیم فنکار ہوتے ہوئے بھی ایک عام انسان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جو خلوت کدے میں اپنے چہرے اور تہہ دار تہہ شخصیت سے تمام پردے ہٹا دیتا ہے۔”۱
بے شک ایک اچھے خط کو ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب مکاتیب کی تحریر کے وقت اس کی اشاعت کا کوئی منصوبہ ذہن میں نہ ہو۔ ہمارے مشہور مکتوب نگاروں کے مجموعہ مکاتیب کے حوالے سے یہ دونوں صورتیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ کسی بھی صورت میں اگر اسلوب میں روانی، بیان میں پختگی اور ہمعصر رجحانات پر گہری نظر مکاتیب کا خاصہ ہو تو ان کی ادبی حیثیت مسلمہ ہے۔
ممتاز شیرین نے رشتہ داروں، دوستوں ہم عصروں اور ادبی دُنیا کے نامور مدیروں کو بے شمار خطوط لکھے۔ ان خطوط میں ان کے ذاتی معاملات کا بیان بھی ہے، ادبی مباحثوں پر تبصرے بھی ہیں، ادبی دُنیا کی بے مہری کے تذکرے بھی ملتے ہیں اور اپنی تصانیف پر بے لاگ تنقید کا انداز بھی دکھائی دیتا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ افسانہ نگاری اور افسانہ نگاری کی تنقید کے حوالے سے بہت سے خطوط میں وہ اپنے ادبی موقف کا اظہار کرتی ہیں۔ یہ خطوط  زیادہ خالص اور حقیقی جذبات کی موثر نشاندہی کرتے ہیں۔
ابوبکر عباد اپنی کتاب میں ممتاز شیرین کے خطوط کو بلحاظِ موضوع چار اقسام میں تقسیم کرتے ہیں۔
۱۔        اپنے اور اپنے فن کے بارے میں
۲۔        دوسرے افراد اور ان کے رویوں سے متعلق
۳۔        ذاتی نوعیت کے
۴۔        سیاحت کے احوال و واقعات پر مشتمل۔ ۲
پہلے دو اقسام کے خطوط اکثر ادبی دوستوں، رسالوں کے مدیروں اور اپنے فن کے کھرے نقادوں کو لکھے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔ انہی میں کچھ افراد سے نجی مراسم بھی گہرے تھے۔ لٰہذا انھیں اور بعض عزیزوں کو ذاتی حالات و معاملات پر مبنی خطوط بھی تحریر کیے گئے ہیں۔ چوتھی قسم کے خطوط میں اہم ترین خط وہ ہیں جو انھوں نے مختلف ممالک میں قیام کے دوران صمد شاہین کی بھانجی اور اپنی عزیز دوست زینت جہاں کو لکھے تھے۔ تاج سعید نے ان کے انتقال کے بعد جب “قند” کا “ممتاز شیرین نمبر” نکالنے کا منصوبہ بنایا تو صمد شاہین کی وساطت سے انھین انگریزی میں لکھے گئے ان خطوط کا اسی (۸۰) سے زائد صفحات پر مشتمل مسودہ موصول ہوا۔ جن میں سے انتخاب کے بعد ان میں کچھ کا ترجمہ کرواکے مذکورہ نمبر میں شامل کر لیا گیا۔
ان کے فن اور شخصیت کے حوالے سے اہم خطوط میں محمد سلیم الرحمٰن کے نام خطوط مشمولہ “قومی زبان” ۱۹۹۰ء ونیز “سوغات” (بنگلور( شمارہ نمبر۳، ستمبر ۱۹۹۲ء ضمیر الدین احمد کے نام مشمولہ “سوغات” (کراچی) شمارہ نمبر ۶، مارچ ۱۹۹۴ء۔ شاہد حمید کے نام مشمولہ “صحرابیں” (لاہور) ۱۹۹۲ء۔ محمود ایاز کے نام مشمولہ “سوغات” (بنگلور)، شمارہ نمبر ۳، ستمبر ۱۹۹۲ء۔ اوپندر ناتھ اشک کے نام۔ ۳ بنام نظیر صدیقی مشمولہ “نامے میرے نام آئے” کے علاوہ مدیر نقوش محمد طفیل کے نام ۴۲ خطوط “تحقیق نامہ” : جی سی یونیورسٹی، ۲۰۰۶ میں صفحہ نمرب ۳۴۵ تا ۳۸۶ میں شائع ہوئے۔ /لاہور کے خصوصی شمارہ ۲۰۰۵
اپنے افسانوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بسا اوقات مبصرین کی رائے سے اتفاق کرتی ہیں، کھبی وضاحتی انداز اختیار کرتی ہیں اور کھبی ناقدین کی رائے سے قطعی عدم اتفاق کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ مثلاً محمد سلیم الرحمٰن نے ان کے مجموعے “میگھ ملہار” پرپاکستان ٹائمز میں تبصرہ کیا تھا جس کا لہجہ بے حد سخت تھا۔ ۱۹۶۳ء میں سلیم الرحمٰن کی ممتاز شیرین سے براہِ راست خط و کتابت جاری تھی تو شاید کسی موقع پر سلیم الرحمٰن نے ندامت ظاہر کی ہوگی۔ اس کے جواب میں وہ لکھتی ہیں:
“نادم ہونے کی بھی آپ نے ایک کہی۔ جب آپ نے یہ سب کچھ سچائی سے محسوس کرکے
لکھا ہے تو اس میں نادم ہونے کی کیا بات ہے۔ ویسے بھی میں ان زود حِس قسم کے ادیبوں
میں سے نہیں ہوں جو ذراسی بھی تنقید کا برامان جاتے ہیں جب میں خود نقاد ہوں تو اپنی
تحریروں پر دوسروں کی تنقید کو بھی برداشت کرسکتی ہوں۔” ۴
لیکن شاہد حمید کے نام ۱۶ ستمبر ۱۹۵۰ء کے خط میں وہ شاہد حمید کی اپنے افسانوں سے متعلق رائے کو بالکل مسترد کردیتی ہیں۔ الگ الگ افسانوں کا ذکر کرتے ہوئے ان افسانوں سے متعلق اپنے نقطہ نظر کا حوالہ دیتی ہیں اور اپنے افسانے “آئینہ” کو وقیع اور بلند قرار دیتے ہوئے لکھتی ہیں:
“دوسروں کے افسانوں پر تنقید کرتے ہوئے اگر میں معروضیت برت سکتی ہوں تو اپنے متعلق بھی مرا رویہ مختلف نہیں ہوتا۔ اور اپنے افسانوں کے بارے میں اگر میں بہت زیادہ خوش فہم نہیں (کیوں کہ برائے ادب کا مجھے کچھ اندازہ ہے) تو بدظن بھی نہیں ہوں۔ اتنی خود اعتمادی مجھ میں ہے”۔۵
اسی خود اعتمادی کا مظاہرہ وہ ضمیر الدین احمد کے نام اپنے خط میں اس انداز میں کرتی ہیں:
“آپ کو اس کی شکایت ہے کہ وقار عظیم صاحب نے “ساقی” میں میرے بارے میں مضمون میں آپ کو یونہی ذکر کردیا ہے۔ اب اسے کیا کہیے گا کہ عبادت بریلوی نے “ساقی” میں پچیس سالہ تنقید پر مضمون میں میرا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا ہے۔ حالاں کہ بعض اونچے ادبی حلقوں میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں دو ہی وقیع نقاد ہیں۔ ایک عسکری صاحب ایک میں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ جان بوجھ کر مجھے نظراندازکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کی وجہ کا بھی اندازہ ہے کہ کیوں؟ میں لحاظ سے داد نہیں چاہتی کہ عورتوں میں میں ایک ہی نقاد ہوں۔ ادب میں عورت مرد کی تفریق کیوں لایا جائے۔ دونوں کی ادبی حیثیت ساتھ ساتھ متعین کی جاسکتی ہے۔ لیکن ایک ایسے مضمون میں جس میں ان تک کا ذکر ہو جنھوں نے صرف ایک ایک تنقیدی مضامین لکھے ہیں، میرا نام تک نہ لیا جائے تعجب خیز ہے۔” ۶
اس طرح اپنے تراجم کے سلسلے میں کئی خطوط میں تذکرہ کرتی ہیں۔ کامیوں کے ناول “اجنبی” کے ترجمے کے حوالے سے ۲۹ جنوری ۱۹۶۳ء نظیر صدیقی کو لکھتی ہیں:
“اس وقت میں کاموکی کتاب کا ترجمہ کر رہی ہوں۔ یہ ابھی ممکن نہیں ہوا ہے۔ مکتبہ جدید کا تقاضا ہے کہ جلد از جلد مکمل کرلوں۔ ترجمے کے علاوہ دیباچہ کے طور پر ۔۔۔۔۔۔۔ ایک سیر حاصل مضمون بھی چاہتے ہیں۔ اسی کام میں لگی ہوئی ہوں۔” ۷
لیکن محمد سلیم الرحمٰن کے نام اپنے خط میں لکھتی ہیں کہ:
“اجنبی” کا یا کسی اور کتاب کا ترجمہ نہیں کررہی۔ جن دنوں میں “اجنبی” کا ترجمہ کر رہی تھی مجھے معلوم ہوا کہ ایک اور مکتبے والے کسی اور صاحب سے اس کا ترجمہ پہلے ہی کراچکے ہیں۔” ۸
اس خط کے حاشیے میں سلیم الرحمٰن  لکھتے ہیں کہ:
“ترجمہ “بشیر چشتی” نے کیا تھا۔ ممتاز شیرین ترجمہ کرتیں تو خوب ہوتا۔ نامکمل ترجمے کا مسودہ شاید ان کاغذات میں موجود ہو۔” ۹
محمد سلیم الرحمٰن ہی کے نام ایک اور خط میں وہ “میگھ ملہار” پر ان کے کیے ہوئے تبصرے کو سراہتے ہوئے لکھتی ہیں کہ:
“آپ نے بالکل ٹھیک لکھا ہے کہ “میگھ ملہار” میں میرے فن کی سب سے نمائندہ، بہترین اور اصل تخلیق “کفارہ” ہی ہے۔ “کفارہ” میگھ ملہار” کی طرح صرف ادبی تجربہ نہیں ہے بلکہ ایک سچا تجربہ ہے۔ ایک روح کا   نہیں لکھا۔ میں نے اسے بھی ایک کیفColdbloodeallyاور Calculatinglyتجربہ۔ ویسے “میگھ ملہار” بھی نے
اور Learningاور سرشاری میں ڈوب کر لکھا تھا۔ البتہ اس افسانے میں آگے چل کر جیسا کہ آپ نے لکھا ہے،
میں توازن قائم کرنا مشکل ہوگیا۔”۱۰Creativity
اسی افسانے کے بارے میں محمود ایاز کو لکھتی ہیں:
ہو رہی ہے۔ مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ مظفر علی سید کے اس  Controversial          “آج کل یہ کتاب خوب
مضمون کے علاوہ ڈاکٹر احسن فاروقی نے “سات رنگ” کے سالنامے کے لیے بہت تفصیلی مضمون لکھا ہے۔ “نیا  رہی اور یہ تو آپ کوRunner Upدور” میں سلیم احمد طویل مضمون لکھ رہے ہیں۔ آدم جی پرائیز کے لیے یہ کتاب
معلوم ہی ہوگا کہ بہترین افسانے کا انعام “کفارہ” کو ملا۔” ۱۱
“سوغات” (بنگلور) میں شیرین کے ایک خط کے حاشیے میں محمود ایاز نے لکھا ہے:
“مرحومہ کی خواہش پر اس کا انگریزی سے ترجمہ میں نے کیا تھا”۱۲
اگرچہ ممتاز شیرین نے اپنی بہت سی تحریروں میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ “کفارہ” بنیادی طور پرکے نام سے تحریر کیا گیا تھا۔ مگر اتفاق سے کسی مقام پر بھی انھوں نے“The Atonement”انگریزی میں
“کفارہ” کے مترجم کا ذکر نہیں کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے کئی افسانوں اور مضامین کے ترجمے لوگوں نے کیے۔ بلکہ ایک خط میں محمود ایاز ہی کو ۹ مئی ۱۹۶۳ء کو لکھتی ہیں:
“اگر اب بھی گنجائش ہو تو ایک چیز بھیج رہی ہوں۔ ایک مختصر سا انگریزی مضمون جو مجھ سے پطرس بخاری نے لکھوایا تھا۔ وہ ایک کتاب مرتب کر رہے تھے جس کے لیے انھوں نے دنیا بھر کے فلسفیوں، سائنس دانوں اور ادیبوں وغیرہ سے اس طرح کے تاثرات طلب کیے تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے مجھے بھی لکھا تھا۔ پھر نہیں معلوم اس کتاب کا کیا ہوا۔ شاید کتاب مرتب ہونے سے پہلے ہی پطرس بخاری صاحب وفات پاگئے۔ میں جانتی ہوں آپ بے حد مصروف ہیں لیکن مضمون چھوٹا سا ہے اگر مریم زمانی ایز ترجمے کے لیے تھوڑا سا وقت نکال سکتی ہوں تو پھر ان کے سپرد کر دیجیے۔” ۱۳
گویا محمود ایاز اور ان کی بیگم سے ترجمے کے سلسلے میں ان کی مراسلت رہا کرتی تھی۔ لیکن زینت جہاں کو کراچی سے خط میں تحریر کرتی ہیں کہ:
“تمھیں میرا افسانہ “کفارہ” پڑھنے کی بڑی خواہش تھی۔ حقیقت میں یہ افسانہ میں نے انگریزی زبان میں ۔۔۔ تخلیق کیا تھا اور اس کا ترجمہ اُردو میں “کفارہ” کی سرخی کے ساتھ کیا، انگریزی افسانہ نسبتاً زیادہ موثر ہے۔” ۱۴
مذکورہ بالا جملہ اس قدر صریح معنویت کا حامل ہے کہ اس کے سامنے “محمود ایز” صاحب کے محولہ بالا جملے کا استناد محلِ نظر معلوم ہوتا ہے۔
ان کے چند اہم خطوط میں سے ایک “اوپندرناتھ اشک” کے نام لکھا گیا ہے۔ جس کا طویل اقتباس ابوبکر عباد نے اپنی کتاب میں دیا ہے۔ اس خط سے نیا دور اور ترقی پسندوں کے مناقشے کی تفصیل معلوم ہوتی ہے۔ “نظام” میں ترقی پسند تحریک کے اجلاس کی روداد چھپی تھی جس سے معلوم ہوا کہ “قدوس صہبائی” نے “نیا دور” سمیت رجعت پسند رسائل پر پابندی کی تحریک پیش کی تھی۔ قدوس صہبائی کی ناراضگی کی وجہ بھی بیان کرتی ہیں کہ ممتاز شیریں نے صہبائی کے افسانوں پر سخت تنقید کی تھی اور “نیا دور” میں ان کے غیر معیاری افسانے کی اشاعت سے انکار کردیا تھا۔ لہٰذا قدوس صہبائی سخت ناراض ہوگئے اور ممتاز شیرین اور “نیا دور” کی مخالفت پر اتر گئے۔ راقم الحروف نے ممتاز شیرین کے کاغذات کے درمیان قدوس صہبائی کا ایک خط دیکھا ہے۔ جو درشت لہجے میں ہے۔ شیرین، اشک کے خط میں قدوس صہبائی کے بارے میں لکھتی ہیں:
“جو کچھ ہم نے محسوس کیا لکھا اور وہ برامان گئے اور اس وقت سے ہم پر بہت بگڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے اگر “نظام” کے ہرایڈیٹوریل میں اور ان کی بائیکاٹ والی تحریک میں “نیا دور” رجعت پسند رسالوں کے لیے سرِ فہرست پیش کیا گیا تو ہمیں کوئی تعجب نہیں ہوا۔ البتہ جناب سجاد ظہیر کو “نیا دور” میں کون سی چیز کھٹکی ہے، نہیں معلوم۔ ” ۱۵
مدیر نقوش محمد طفیل کے نام “تحقیق نامہ” کے خصوصی شمارے میں شامل صفحہ نمبر ۳۴۵۔۳۸۶ پر ۴۲خطوط ۱۹۴۶ء سے ۱۹۶۴ء عرصے میں لکھے گئے ہیں۔ “نیا دور” کی اشاعت کے عرصے کے دوران اِن خطوط میں مضامین، افسانے، تراجم اور تصویر کے تبادلے کے موضوعات نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ ممتاز شیرین کی ادبی و ضعداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے “نیا دور” کے لیے مخصوص کیا ہوا اپنا مضمون “کشمیر اداس ہے” کا دیباچہ نقوش میں اشاعت کے لیے بھجوادیا ہے۔ کیوں کہ طفیل صاحب کو انکار کرنا مناسب نہ تھا۔ ۱۶۔
اسی طرح سے احمد علی صاحب کا بڑی محنت سے تیار کیا ہوا ایک مضمون و قار عظیم صاحب کے پاس ترجمے کے لیے گیا۔ اطلاع ملی کہ گم ہوگیا ہے۔ کیوں کہ مضمون شیرین کے توسط سے گیا تھا لہٰذا وہ بڑی بے چینی سے مضمون کی تلاش پر اصرار کرتی ہیں۔ ۱۷
۲۳اکتوبر ۱۹۵۱ء کے خط سے بات پر افسوس کا اظہار کرتی ہیں کہ محمد طفیل صاحب نے نقوش کا “الوداعی نمبر” نکالنے کے فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کے بعد والے خط میں قدرے تفصیل سے ان مسائل اور معاملات پر اظہارِ خیال کرتی ہیں جو اچھے ادبی رسائل کے اجرا اور تسلسل کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔ اسی خط میں وہ انھیں ایک مخلصانہ مشورہ دیتی ہیں:
“آپ اسے ماہانہ کی بجائے سہہ ماہی بنادیں یوں مضامین کی فراہمی میں اتنی دشواری محسوس نہ ہوگی اور پھر اچھے مضامین جمع ہوسکیں گے اور پرچہ کا معیار برقرار رہے گا۔۔۔۔۔۔ آپ “نقوش” کو سہہ ماہی بنائیں تو      پر چہ خاصا ضخیم ہوگا اور ہر پرچہ ایک “خاص نمبر” کی حیثیت رکھے گا۔ آپ کسی نہ کسی خصوصیت کے ساتھ ہر پرچہ کو خاص نمبر ہی کی طرح شائع کریں تو بہتر رہے گا۔” ۱۸
اس خط میں وہ طفیل صاحب کے استفسار پر یہ بھی بتاتی ہیں کہ میں “نقوش” کے لیے سال بھر میں کتنا لکھ سکتی ہوں اس سلسلے میں کوئی قطعی بات نہیں کہہ سکتی کیوں کہ ایک تو میں بہت کم لکھتی ہوں اور دوسرے یہ کہ “نیا دور” ہی کی ضروریات پوری ہو جائے تو کافی ہے۔۔۔۔۔ آگے چل کر خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ “نقوش” کی اشاعت تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور رسالے نے اپنا معیار خوبی سے برقرار رکھا ہے۔ ان خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ طفیل صاحب سے شیرین اور صمد شاہین کے بے تکلفی پر مبنی مراسم تھے۔ اسی لیے وہ نجی احوال اور صمد شاہین کی منصبی مصروفیات کو بھی اکثر بیان کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ اپنی دیگر مصروفیات مثلاً سیر وسیاحت وغیرہ سے، بچوں کے تعلیمی مدارج سے بھی طفیل کو آگاہ کرتی رہتی ہیں۔
۱۹۵۴ء اور ۱۹۵۵ء میں تحریر کیے گئے چند خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ “نقوش” کے شخصیات نمبر کے منصوبے سے شیرین کو دلچسپی رہی۔ طفیل صاحب چاہتے تھے کہ کوئی صاحبِ علم شیرین کی شخصیت پر جامع مضمون لکھ دے۔ انھوں نے خود شیرین سے ایسے کسی لکھاری کا نام تجویز کرنے کی فرمائش کی۔ انھوں نے کچھ نام اور ان کے پتے طفیل صاحب کو بھجوادیے۔ لیکن وہ خود اس مقصد کے لیے کسی سے فرمائش کرنے پر آمادہ نہ ہوئیں۔ کیوں کہ یہ ان کے خیال میں مناسب بات نہیں تھی۔ شخصیت پر مضمون لکھنے کے لیے وہ سر سری اور عمومی مراسم کو کافی نہیں سمجھتی تھیں۔ اسی لیے احمد علی پر مضمون لکھنے سے معذرت کر لیتی ہیں۔ اسی طرح اپنے حوالے سے بھی بعض اشخاص کی معذرت (مثلاً کشفی صاحب کی) کو بجا اور روا سمجھتی ہیں۔ “نقوش” شخصیات نمبر (ا) میں ممتاز شیرین پر مضمون نہ آسکا۔ ۱۹
انہی خطوط میں منٹو میموریل کمیٹی کے حوالے سے اپنی مصروفیات کا بیان کرتی ہیں اس کمیٹی میں لاہور سے نمائندگی کے لیے طفیل صاحب کے نام کی تجویز کی اطلاع بھی فراہم کرتی ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ منٹو کے بہترین افسانوں کا اعلٰی درجہ کا انتخاب اور فن و شخصیت پر مبنی مضامین سے سجی کتاب اہلِ ادب کی جانب سے منٹو کی ادبی خدمات کے خراجِ تحسین کے لیے آنی چاہیے۔ ۲۰
انہی دنون وہ تیزی سے منٹو پر کتاب بھی مکمل کرنا چاہتی ہیں۔ ایک خط میں طفیل صاحب کو اطلاع دیتی ہیں۔ کہ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی ہو رہا ہے اور انگریزی و اُردو میں یہ کتاب ایک ساتھ چھپے گی۔ ۲۱
معلوم نہیں بعد میں انگریزی کتاب کا ترجمہ کہاں تک پہنچا۔ اُردو میں یہ نامکمل کتاب تو شائع ہو گئی ۲۲ اکتوبر ۱۵۵۶ء کے ایک خط میں “نقوش” شخصیات نمبر ۲ کی اشاعت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ میں فرمائش کرکے اپنے اوپر مضمون نہیں لکھوا سکتی تھی البتہ اپنے دیور کے ایک مضمون کا تذکرہ کرتی ہیں۔ جنھوں نے عصمت چغتائی پر ان کے دیور کا مضمون دیکھ کر اپنی بھاوج یعنی ممتاز شیرین پر بڑی محنت سے مضمون لکھا تھا۔ لیکن بیجھنے سے پہلے ہی رسالہ چھپ گیا۔ لہٰذہ مضمون نگار کو افسوس ہوا۔ اپنے بارے میں لکھتی ہیں کہ “اب کے تو میں نے محسوس بھی نہیں کیا۔” ۲۲
۲۳ اپریل ۱۹۵۷ء کے خط میں اپنے افسانوں کے فرانسیسی تراجم کا احوال بیان کرتے ہوئے ایملی برو نٹے کے ناول “وُدِرنگ ہائٹس” کے ترجمے کا ذکر کرتی ہیں۔ یہ ذمہ داری مکتبہ جدید والوں نے ان کے سپرد کی تھی۔ ۲۳ چند خط بنکاک میں قیام کے دوران لکھے گئے۔ جن میں “نقوش” کے “طنز و مزاح” نمبر کے لیے ستائش کے ساتھ ساتھ رفیق حسین کی افسانہ نگاری کو بھی بڑے جچے تلے انداز میں سراہا گیا ہے۔ ۲۴  ۱۶ اگست ۱۹۶۲ء کے خط میں “میگھ ملہار” کی اشاعت کی اطلاع دیتی ہیں۔ اور اپنے حالیہ افسانے “کفارہ” کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
“اسے آپ ضرور پڑھیں۔ اس میں میں نے ان لمحات کو فنی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے۔ جب موت مجھ سے بہت قریب تھی۔ مجروح مامتا کے ذاتی المیے کو یہاں آفاتی حیثیت دی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے آپ یہ افسانہ کرسکیں گے۔” ۲۵Appreciateواقع
چند خطوط میں ناسازی طبع کا احوال اور مضمون کی ترسیل میں تاخیر پر معذرت کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ چند خطوط صمد شاہین کی ڈھاکہ پوسٹنگ کے دوران لکھے گئے ہیں۔
جون ۱۹۴۳ء کے چند خطوط سے “نقوش” کے آپ بیتی نمبر کی تیاری کے سلسلے میں استفسار ہے۔ اور اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں اپنی خود نوشت “ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے” کے لیے تحریک اس نمبر کی بنا پر ہوئی تھی۔ ۱۷ جنوری ۱۹۶۴ء کو انقرہ سے لکھے گئے خط میں تحریر کرتی ہیں:
“اب یہاں انقرہ پہنچتے ہی میں نے پہلا کام یہی کیا کہ پھر سے آپ بیتی لکھنی شروع کی۔۔۔۔۔۔ بہر حال مکمل کرلے ہے۔ اگر اب بھی “آپ بیتی نمبر” میں گنجائش ہے تو از راہِ کرم فوراً مطلع فرمائیں، بھیج دوں گی۔” ۲۶
بعض دیگر احباب، مدیر ان اور صاحبانِ علم کو لکھے گئے خطوط کے مقابلے پر محمد طفیل کے نام ان خطوط میں بے تکلف مراسم کی جھلک نمایاں ہے۔ اس بے تکلفی کی وجہ سے خطوط کا اسلوب رواں اور شگفتہ ہے۔ اور اس قسم کی پیچیدگی پیدا نہیں ہوتی جیسی کہ پر تکلف اور رسمی خطوط کے اسلوب میں نمایاں ہوکر ممتاز شیریں کی تحریر کے حسن کو متاثر کرتی ہے۔
ان کے خطوط کے معلوم اور مطبوعہ حصے میں سے زینت جہاں کے نام لکھے گئے بے حد اہمیت کے حامل خط انقرہ اور اسلام آباد میں آخری قیام تک کے عرصے میں ضبطِ تحریر میں لائے گئے۔ انقرہ سے لکھے گئے ان کے خطوط سوانحی بھی ہیں اور سیاحتی بھی۔ یوں تو ممتاز شیرین بنگلور سے کراچی کے سفر ہجرت کو اپنے لیے سب سے اہم سفر قراردیتی ہیں لیکن دنیا کے مختلف خطوں اور علاقوں کی سیر کے دوران ان کے اندر چھپا ہوا دلنشین اسلوب کا انشائیہ نگار نمایاں ہو جاتا ہے اور اسی نمائندگی کی بناء پر زینت جہاں کے نام لکھے گئے ان خطوط کے اکثر حصے مختلف ممالک کے جغرافیائی، تہذیبی اور سماجی سفر نامے یا سیاحت نامے بن گئے ہیں۔ اگر انھوں نے محض خارجی مناظر کے بیان پر زور دیا ہوتا تو شاید یہ محض جغرافیائی منظر نامے ہوتے لیکن ممتاز شیرین نے جغرافیائی تفصیلات کی فراہمی میں محسوسات کی شمولیت کے ذریعے ایک اچھوتا، منفرد اور اپنے گزشتہ اسالیب کے مقابلے پر زندہ تر اسلوب کا سراغ پالیا ہے۔ ان خطوط میں ہندوستان، روم، ترکی اور پاکستان کے مختلف شہروں کے بارے میں تفصیلات قلم بند کی ہیں۔ ان کے یہ مکاتیب صرف مکتوب ہی نہیں رہتے بلکہ ان میں مضمون یا انشائیے کی خصوصیات بھی پیدا ہوگئی ہیں۔ ۲۷
جب وہ ہندوستان کی سیر کرتی ہیں تو ایک جانب لکھنو اور جے پور کی دید سے محرومی کا دکھ بیان کرتی ہیں، دوسری جانب دہلی، آگرہ، علی گڑھ ، چندی گڑھ اور امرتسر کے علاوہ بہت سے دوسرے شہروں کی سیر کا لطف بیان کرتے ہوئے اس گہرے اور ابدی تاثر کا بینا کرتی ہیں جو تاج محل کے صاف، شفاف اور لطیف حسن نے ان کے ذہن پر چھوڑا اور اس کے بعد “ہمالیہ کے شاندار جاہ و جلال نے بھی مجھے بڑا متاثر کیا۔ جس کی تحیر انگیز عظمت و رفعت خدائے بزرگ وبر ترکی شانِ کبریائی کی شہادت دیتی ہے۔ اور ہم وہاں اسے بہت قریب محسوس کرتے ہیں۔” ۲۸
پہاڑوں کی یہ ہیبت و عظمت ترکی کے رفیع الشان پہاڑوں کی سیاحت کے دوران بھی قائم رہتی ہے لیکن یہاں اس عظمت میں ان پہاڑوں کے تاریخی پس منظر اور دیو مالائی مقبولیت کی شمولیت دکھائی دیتی ہے اور تفصیل بیان کرتی چلی جاتی ہیں۔
پہاڑ کی سیر کو گئے۔ یہ پہاڑ یونانیPagasns          “اولمپس یونانی دیوتاوں کا استھان ہے۔ ازمیر کے مقام پر ہم
رہتا تھا اور یہیں اس پہاڑ پر اس نے عظیم رزمیہ Homerدیو مالا میں شاعری کی علامت ہے۔ ازمیر میں ہومر
تخلیق کی تھی۔ سکندر نے یہاں جو قلعہ تعمیر کیا تھا وہ ابھی تک اچھی حالت میں موجود ہے۔Illiad and Odessy
ہے۔ ٹرائے آف ہیلن ازمیرHellenic Worldتمہیں معلوم ہوگا کہ جسے اب مغربی ترکی کہتے ہیں وہ عہد سلف کی
کے بالکل قریب ہے۔ اور یہاں پہنچ کر یونانی تاریخ، یونانی دیو مالا اور یونانی ادب ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔  ازمیر سے چند میل دور ہے۔ یہاں ہم نے یونانی اور باز نطینی تہذیب کے عظیم الشان کھنڈراتEuphesusیوفیسس
کے معبد اور اپالو کے مجسمہ کے خرابے موجود ہیں۔ میرے Diana میں Pergamumدیکھے۔ یوفیسس اور پرگیمم
کو دوبارہ زندہIpheginiaاس خط کے لفافہ پر اپالو ہی کے مجسمہ کی تصویر ہے۔ یہیں پر قربانی کی بھینٹ چڑھی
کو شہر افسوس کہا جاتا ہے۔ یہی وہ شہرِ گناہ ہے جہاں Euphesusکرکے اسے پجارن اور پروہت بنایا گیا۔۔۔۔۔۔
اصحابِ کہف نے بھاگ کر ایک غار میں پناہ لی تھی۔ شہر سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر وہ غار ہے جہاں Mount of اصحابِ کہف (قرآن شریف کے مطابق) تین سو نوسال تک سوتے رہے۔ اس سے آگے کوہ عنادل
ہے۔ ترکی میں اب اسے بلبل ڈاگ کہا جاتا ہے۔ اس کی چوٹی پر دوشیزہ مریم نے اپنی زندگی کے Nightingales
آخری سال بسر کیے تھے۔ حضرت عیسّی کے مصلوب ہونے کے بعد سینٹ جان نامی مبلغ انجیل مریم کو ایشیائے کوچک لے آئے تھے اور مریم کا قیام وہیں رہا ہم نے دوشیزہ مریم کی مقدس قیام گاہ کی بھی زیارت کی۔” ۲۹
ایک اور خط میں ترکی کی ثقافت، رہن سہن اور لوگوں کے عمومی رجحانات مثلاً گفتگو کے آداب، اخلاقی حیثیت، خوراک اور رہائش کے طرز پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اپنی ایک ترکی سہیلی کے خاندان اور ان کے رکھ رکھاو کا تعارف پیش کرتی ہیں۔ قدیم و جدید کے امتزاج سے نشونما پانے والی لڑکیوں اور بے ریا، زمانہ سازی سے دور نئی نسل کے ترک انھیں بڑے “بامروت، مخلص اور خوش اخلاق” نظر آتے ہیں۔ ۳۰۔
جب روم اور اٹلی کے سیر کا احوال بیان کرتی ہیں تو ان تمام تاریخی، روایتی اور اساطیری واقعات و مقامات کا تذکرہ کرتی ہیں جنھوں نے مغرب و ایشیا کے بہت سے ادبی تصورات کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ اُردو ادب کو بھی وسعت بخشی ہے۔ وسعت کی نئی شکلوں کو ہم نئے نئے رموزوں اور اساطیری اشاروں کی صورت میں اپنے ادب کی مختلف ہئیتوں میں جلوہ گر ہوتا دیکھ سکتے ہیں، زینت جہاں کو ایک خط میں روم اور نیپلز کے بارے میں اپنے ادب کی مختلف ہئیتوں میں جلوہ گر ہوتا دیکھ سکتے ہیں، زینت جہاں کو ایک خط میں روم اور نیپلز کے بارے میں تحریر کرتی ہیں:
“اٹلی کے شہر روم اور نیپلز ہم نے بارہ سال قبل بھی دیکھے تھے لیکن اس مرتبہ روم نئے روپ میں تھا۔ اس شاندار اور عظیم تاریخی شہر نے کچھ زیادہ ہی متاثر کیا۔ روم کا ذرہ ذرہ اس کی گزشتہ عظمت کے گن کاتا ہے۔
سے اور جولیس سیزر، آگسٹس اور طورجان کے فورم کے کھنڈرات سے اب بھی ماضی کیCollosseumنیرو کے
شان و شوکت جھلکتی ہے اور ان جگہوں کو دیکھے ہی ذہن ایک دم کسی داستان میں کھو جاتا ہے۔ کبھی خیال آتا ہے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں انٹونی نے سیزر کی میت پر اپنی مشہور عالم تقریر کی تھی۔ ” ۳۱
ایک اور خط میں شیرین یوں رقم طراز ہیں:
“انطالیہ کی سیر نے بڑا لطف دیا۔ اس کا قدرتی حسن لاجواب اور سکون بخش ہے۔ بحرِ روم کے نیلگوں پانی کا نظارہ قابل دید ہے کو کناروں کے پاس فیروزی، پھر آگے ہلکا نیلا اور رفتہ رفتہ بیچ سمندر میں گہرا نیلا   کاپہاڑی سلسلہ ہے جو ایک عجیب رنگ بخشتا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے “Tourus”دکھائی دیتا ہے۔ پس منظر میں
جیسے یہ پہاڑ سراسر سمندرہی سے اٹھے ہوں۔ ہم نے بہت سے تاریخی مقامات اور کھنڈرات بھی دیکھے۔ مثلاً
۔۔۔۔۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے قلو پطرہ غروب آفتاب کا نظارہ کیا کرتی تھی۔” ۳۲As Pendos
سفر کے ان مراحل میں انھوں نے مختلف ممالک کی سیر کی۔ نئے نئے انداز کے لوگ دیکھے۔ جدید سے جدید شہر کے حسنِ تعمیرکو سراہا لیکن جس شہر نے انھیں سب سے زیادہ متاثر کیا۔ اس بارے میں وہ اپنے محسوسات کا آغاز ان الفاظ میں کرتی ہیں:
دنیا کے ایک قدیم ترین اور عظیم ترین اور عظیم الشان دارالحکومت استنبول کا کوئی جواب نہیں۔ اس شہر کے مختلف نام رہے ہیں۔ بازنطینہ، نیا روم، قسطنطنیہ، استنبول وغیرہ۔ اسے مہا آنند (روحانی مسرت) کا استھان کہنا چاہیے۔” ۳۳
قیام انقرہ کے دوران مختصر مدت کے لیے پاکستان جانا ہوا تو کئی شہر کی سیر کی اس کی روداد بھی زینت جہاں کے ایک خط میں کچھ یوں ہے:
“ہم مری، ایبٹ آباد، ٹیکسلہ کے علاوہ اسلام آباد کی سیر کو بھی گئے جو پاکستان کا نیا دارلخلافہ ہے اور راولپنڈی سے صرف چند میل کے فاصلے پر ہے۔ راولپنڈی میں ہم ایک بڑے بنگلے میں مقیم تھے جس کے پائیں باغ میں سرو، سورج مکھی اور رنگا رنگ گلابوں کے جھرمٹ تھے۔ چاندنی میں وہاں کے کھلے سبزہ زاروں میں بیٹھ کر سبز چائے پینے میں کیا لطف آتا تھا؟ ۔۔۔۔ میں پشاور میں تقریباً تین چار روز مشکور بھائی اور ان کے اہل و عیال کے ساتھ رہی اور وہاں تقریباً تمام قابلِ دید مقامات کی سیر کی۔ یونیورسٹی کا شاندار کمیپس، وارسک ڈیم، لنڈی کوتل، تاریخی درہ خیبر اور افغانستان کی سرحد تورخم، کیا تھا جو نہیں دیکھا۔” ۳۴
مختلف ممالک کی سیر، ملازمت کی زنجیر سے کھنچتی  ہوئی انھیں اسلام آباد لے آئی۔ یہ ایک تو آباد شہر ہے شیرین کے خیال میں تین سال کے اندر بیابان میں مکمل شہر بسا دینا کسی کمال سے کم نہیں۔۔۔۔ ان کے خیال میں:
“اسلام آباد کی خاص کشش اس کی تازہ ہوا، سبزہ اور دیہی علاقے کا فطری حسن ہے جس کے ساتھ اسے ایک جدید شہر کی تمام سہولتیں بھی مل گئی ہیں۔ فطرت یہاں اچھوتے حسن کے ساتھ موجود ہے۔ ہر طرف سے مری کی خاکستری رنگ کی پہاڑیوں سے گھرا ہوا اسلام آباد نہایت خوش کن منظر ہے۔ چناں چہ اس کے مختلف حصوں کو بھی رومانی اور اشاریاتی قسم کے نام دیے گئے ہیں۔ مثلاً روپ، پھلواری، گلشن، سنبل، کہسار، آب پارہ۔”۳۵
اس شہر میں انھیں سب سے خوبصورت آواز سنبل والی مسجد سے آنے والی اذان کی آواز محسوس ہوتی تھی۔ اگرچہ دفتری اور سرکاری ضابط بندی نے یہاں ماحول میں یکسانیت پیدا کردی تھی لیکن ان کے خیال میں “یہ  بہت پیارا شہر ہے۔ شیشے کی طرح صاف، وسیع میدانوں، سبزہ زاروں، ہواوں اور سکون کا گہوارہ۔” ۳۶
زینت جہاں کے نام انہی خطوط سے ہمیں ممتاز شیرین کے مرض الموت کے آغاز کا علم ہوتا ہے۔ جو ۱۹۷۰ء سے ہوا اور مارچ ۱۹۷۳ء میں وہ اس مرض سے ہار مان گئیں ۔۔۔۔ اسی عرصے میں ان کے اوپر ذہنی سکوت کا وہ حملہ ہوا جس نے ان کی تخلیقی صلاحتوں کو بے طرح متاثر کیا۔ ۲۳ اگست ۱۹۷۱ء کے ایک خط میں جب بیرونِ ملک صمد شاہین کی پھر سے تقرری کا امکان ہوا تو زینت جہاں کو لکھتی ہیں:
” کچھ عرصہ پہلے مجھے ایسا لگتا تھا جیسے لکھنے کے لیے کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ معلوم ہوتا تھا کہ زندگی بالکل ہی رک گئی ہے۔ کوئی چونکا دینے والی یا خاص خبر باقی نہیں رہی تھی، مستقبل کے لیے کوئی خاص منصوبے نہیں تھے۔” ۳۷
لیکن اسلام آباد سے ترکِ سکونت سے قبل وہ قرب و جوار کی مکمل سیاحت کرلینا چہتی تھی اسی لیے سوات کی سیر بھی کی اور پہاڑوں کے درمیان دم بخود کردینے والے مناظر سے خوب حظ اٹھایا۔ ۳۸
دنیا ک اہم ترین مقامات کی سیر کے دوران ممتاز شیریں نے محض کھلی آنکھوں سے خارج کا مشاہدہ نہیں کیا بلکہ باطنی نگاہوں کی گہرائی کو بروئے کار لاتے ہوئے اس عظمتِ رفتہ کا مشاہدہ بھی کیا تھا۔ جس عظمت کی نشانی وہ شخصیات تھی جنھوں نے حیاتِ ابدی حاصل کرلی ہے۔ دنیا بھر کی چیدہ چیدہ جاویداں شخصیات، جو ہمارے ادب میں بھی علامت بن کر اس کی نئی معنویت کی صورت گری کر رہے ہیں۔ ادبی شخصیات کو لکھے گئے شیریں کے خطوط میں لہجے کی سنجیدگی اور بیان کی علمیت کی وجہ سے
“زبان کو اظہار کی پوری قوت رکھنے کے باوجود بہت زیادہ صحیح اور ستھری نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے مقابلے میں زینت جہاں کے نام جو خطوط ہیں ان میں زبان و بیان کی کمزوریاں نہیں ہیں۔ اندازِ بیان نہایت شگفتہ اور تاثیر ہے۔ ان خطوط کی نثر نپی تلی ہے۔ اظہارمیں ایک روانی بھی ہے اور بیان میں ایک قوت بھی۔” ۳۹
اظہار کی یہ روانی اور بیان کی یہ قوت کسی مربوط اور منضبطہ سفر نامے کی متقاضی تھیں، اس قسم کا سفرنامہ یا انشائیہ تحریر کرنے کی خواہش کا اظہار خود شیرین نے زینت جہاں سے ایک خط میں کیا تھا۔ ۳۹  لبنٰی شاہین کے تصرف میں ممتاز شیرین کے مسودات کی چھان پھٹک کے دوران ایک نامکمل سفری انشائیہ “مشرق و مغرب کے درمیان” ملا۔ اس انشائیے میں اسی اسلوب اور قوت اظہار کا تسلسل ملے گا جو مذکورہ خطوط میں دکھائی دیتا ہے۔ ایک ٹکڑا ملاحظہ فرمائیں:
“رات گہری ہوچلی تھی،
فضا میں ایک بھاری سی سیٹی کی آواز گونج اٹھی۔ ساکت جہاز میں ایک حرکت، ایک تھرتھراہٹ سی پیدا ہوئی اور یہ مرمریں، شفاف، حسین اطالوی جہاز بحیرہ روم کے گہرے نیلے پانیوں کو کاٹتا ہوا نکل گیا۔
جہاز اس سرزمین کو چھوڑ رہا تھا جسے “مغرب” کہتے ہیں اور “سوئے مشرق” روانہ ہو رہا تھا۔ “مشرق” اور “مغرب”، یہ دو الفاظ سمت کا اشارہ کرنے کے علاوہ اور کتنے مہینوں کے حامل بن گئے ہیں۔ تہذیب و تمدن کا امتیاز، رنگ و نسل کا امتیاز ۔۔۔۔۔ صدیوں کی آقائی اور غلامی۔۔۔۔۔
لیکن یہ اطلالیہ تھا، اطالیہ جو یوں مغرب کا دوروزہ ہے، لیکن مشرق سے کہیں زیادہ قریب۔ اطالیہ جہاں مغربی ممالک میں گھوم پھر کر آئیں تو اچانک یوں محسوس ہوتا ہے ہم پھر مشرق میں آگئے ہیں۔
ہم سب عرشے پر کھڑے ہاتھ ہلا ہلا کر گویا نیپلز کو الودع کہہ رہے تھے۔” ۴۰
اسلوب کے اس تسلسل کو ہم کچھ اور پہلے ان کی نامکمل خودنوشت “ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے” میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ رواں، پُر جوش اور اظہار کی قوت سے لبریز یہ اسلوب بیان جیسے جیسے بڑھتا جا رہا تھا ویسے ویسے ان کے طبعی اور جسمانی نظام میں درد کا جال پھیلتا جا رہا تھا۔ موت وہ اٹل، حتمی اور یقینی قوت تھی Fascinateجو ساٹھویں دہائی کے آخری چند برسوں میں ان کی تحریروں کے ساتھ ساتھ ان کے محسوسات کی بھی
کر رہی تھی۔
سب سے پہلے ۲۴ مئی ۱۹۵۷ء کو محمد طفیل مدیر نقوش کو لکھے گئے ایک خط سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں “باشو بھائی کی نانی اماں بستر مرگ پر تھیں۔ دو ہفتے ان کی حالت بہت خراب رہی۔ آخر چند دن ہوئے انتقال فرما گئیں۔ “انا اللہ و انا الیہ راجعون” وہ میرے لئے بالکل “آئینہ” کی نانی بی کی طرح یوں ان کی موت سے “آئینہ” کی کہانی پھر سے دہرائی گئی!
موت سے کچھ اتنی بڑی حقیقت ہے اور فنا اور اہدیت کا ایسا احساس قائم کرتی ہے کہ عام دُنیوی وقت کا احساس بھلا دیتی ہے۔ گھنٹے،دن ماہ و سال کے لیے بیرونی وقت بے حقیقت بن جاتا ہے۔” ۴۱
ان کی خود نوشت میں موت کے بیان کا یہ اسلوب دیکھیے۔
“عائشہ خانم جنھیں ہم عاشو پھوپھی بلایا کرتے تھے۔ وہ اکثر ہمیں ۔۔۔۔۔ قیامت کے آثار اور روزِ حشر کے قصے سنایا کرتی تھیں کچھ ان کی باتیں ذہن میں رہ گئی تھیں اور قرآن شریف کے وہ حصے پڑھ کر جن میں قیامت  خواب دیکھتی رہی۔۔۔۔۔ خوف کی کپکپی طاری ہے اورNightmarishکا ذکر ہے، میں مسلسل کئی دن تک قیامت کے
میں سجدہ ریزہ ہوگئی ہوں، عجب خدا ترسی کا عالم تھا۔ پھر اچانک یہ سب کچھ نظروں سے غائب ہوگیا اور ہر طرف نور ہی نور چھا گیا۔ مجھے احساس ہوا یہ نور الٰہی ہے۔ جو خیرہ کن ہونے کے باوجود انتہائی طمانیت بخش ہے۔ پھر برسوں بعد آج سے تین سال پہلے جب حقیقت میں میں نے موت کے اپنے بہت قریب محسوس کیا تھا۔ مجھے اس طمانیت بخش نور کی، اس نفسِ مطمئنہ کی جستجو تھی۔” ۴۲
اور زینت جہاں کے خطوط میں ۱۹۷۱ء کے بعد کے خطوط کے وہ حصے جب وہ اپنی بیماری، عزیزوں
سے دوری اور اپنی تنہائی کا ذکر کرتی ہیں تب بھی نفسِ مطمئنہ کی یہ جستجو ان کے اسلوب کا نمایاں حصہ ہی رہتی ہے۔ جس نے ان کے فن کو ایک مخصوص انفرادیت بخشی تھی۔ یہی انفرادیت ممتاز شیرین کی خطوط میں بھی نظر آتی ہے۔
حوالہ جات
۱۔         خطوطِ غالب، حصہ اول، مرتبہ خلیق انجم، نجمن ترقی اردو پاکستان ۱۹۹۲ء ص ۱۲۶، ۱۲۷
۲۔        ابوبکر عباد، “ممتاز شیرین ناقد، کہانی کار”، دہلی، ۲۰۰۶ء ص ۲۸۶
۳۔        ایضاً، ص ۲۹۱
۴۔        ممتاز شیرین بنام محمد سلیم الرحٰمن مورخہ ۶ جون ۱۹۶۳ء مشمولہ “قومی زبان”، کراچی، اکتوبر ۱۹۹۲ء
ص ۱۹
۵۔        ممتاز شیرین بنام شاہد حمید مورخہ ۱۶ ستمبر ۱۹۵۰ء مشمولہ “محرابیں”، لاہور ۱۹۹۲ء ص ۱۵
۶۔        ممتاز شیرین بنام ضمیر الدین احمد بحوالہ ابوبکر عباد، ص ۲۸۷
۷۔        متاز شیرین بنام نظیر صدیقی مورخہ ۲۹ جنوری ۱۹۶۳ء مشمولہ “نامے جو میرے نام آئے”، مرتبہ مصطفٰی
راہی، اشاعتِ ادب، روال پنڈی، ۱۹۸۴ء ص ۲۱۳
۸۔        ممتاز شیرین بنام محمد سلیم الرحمٰن مورخہ ۶ جون ۱۹۶۳ء “مشمولہ “قومی زبان”، کراچی، اکتوبر ۱۹۹۲ء
ص ۱۹
۹۔       ممتاز شیرین بنام محمد سلیم الرحمٰن بحوالہ ابوبکر عباد، ص ۲۸۹
۱۰۔      ممتاز شیرین بنام محمد سلیم الرحمٰن مورخہ ۶ جون ۱۹۶۳ء “مشمولہ قومی زبان”، اکتوبر ۱۹۹۲ء ص ۱۸
۱۱۔      ممتاز شیرین بنام محمود ایز بحوالہ ابوبکر عباد، ص ۲۸۹
۱۲۔      ممتاز شیرین بنام محمود ایز بحوالہ ابوبکر عباد، ص ۲۸۹
۱۳۔      ممتاز شیرین بنام محمود ایاز مورخہ ۹ مئی ۱۹۶۳ء مشمون “سوغات”، بنگلور، شمارہ نمبر ۳، ۱۹۹۲ء ص
۳۱۹
۱۴۔      ممتاز شیرین بنام زینت جہاں مورخہ ۲۰ فروری ۱۹۶۳ء مشمولہ “قند” مردان، ممتاز شیریں نمبر، ستمبر،
اکتوبر ۱۹۷۳ء ص ۱۱۳
۱۵۔      ممتاز شیرین بنام اوپندرناتھ اشک، بحوالہ ابوبکر عباد، ص ۲۹۱
۱۶۔      ممتاز شیرین بنام محمد طفیل مورخہ ۱۲ اپریل ۱۹۵۰، مشمولہ “تحقیق نام” شعبہ اردو، جی،سی یونیورسٹی،
لاہور شمارہ ۲۰۰۵ء ۲۰۰۶ ء ص ۳۴۸
۱۷۔      ایضاً، مورخہ ۲۴ جنوری ۱۹۵۱ء ص ۳۵۰
۱۸۔      ایضاً، مورخہ ۱۶ جنوری ۱۹۵۲ء ص ۳۵۲
۱۹۔      ایضاً، مورخہ فروری ۱۹۵۵ء ص ۳۵۹
۲۰۔      ایضاً، ص ۳۶۰
۲۱۔      ایضاً، مورخہ ۲۰ مارچ ۱۹۵۵ء ص ۳۶۴
۲۲۔      ایضاً، مورخہ ۲۲ اکتوبر ۱۹۵۶ء ص ۳۶۴
۲۳۔      ایضاً مورخہ ۲۳ اپریل ۱۹۵۷ء ص ۳۶۸
۲۴۔      ایضاً مورخہ ۱۰ جون ۱۹۵۹ء ص ۳۷۳
۲۵۔      ایضاً مورخہ ۱۶ اگست ۱۹۶۲ء ص ۳۷۵، ۳۷۶
۲۶۔      ایضاً مورخہ ۱۸ جنوری ۱۹۶۴ء ص ۳۸۴
۲۷۔      ابوبکر عباد، ص ۲۹۱
۲۸۔      ممتاز شیرین بنام زینت جہاں مورخہ ۳۱ اکتوبر ۱۹۶۳ء مشمولہ “قند” ، ممتاز شیرین نمبر، ص ۱۱۴
۲۹۔      ایضاً، مورخہ ۳۱ مئی ۱۹۶۴ء ص ۱۱۴، ۱۱۵
۳۰۔      ایضاً، س ں، ص ۱۱۸
۳۱۔      ایضاً
۳۲۔      ایضاً مورخہ ۷ مارچ ۱۹۶۵ء ص ۱۱۷
۳۳۔      ایضاً مورخہ ۸ اکتوبر ۱۹۶۶ء ۱۱۹
۳۴۔      ایضاً مورخہ ۱۳ اکتوبر ۱۹۶۳ء ۱۱۴
۳۵۔      ایضاً مورخہ ۷ اپریل ۱۹۶۷ء ص ۱۲۱
۳۶۔      ایضاً مورخہ ۱۹ اپریل ۱۹۶۹ء ص ۱۲۳
۳۷۔      ایضاً مورخہ ۲۳ اگست ۱۹۷۱ء ص ۱۲۷
۳۸۔      ایضاً
۳۹۔      ابوبکر عباد، ص ۲۹۵
۴۰۔      ممتاز شیرین، “مشرق و مغرب کے درمیان” (غیر مطبوعہ)، مخزونہ ذاتی کاغزات
۴۱۔      ممتازشیرین رین بنام محمد طفیل مورخہ ۲۴ مئی ۱۹۵۷ء، مشمولہ “تحقیق نامہ”، ص ۳۷۰
۴۲۔      ممتاز شیرین “ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے”، مشمولہ “قند”، ممتاز شیرین نمبر، ص ۱۰۶
کتابیات
۱۔        ابوبکر عباد،:ممتاز شیرین ناقد، کہانی کار” دہلی، ۲۰۰۶ء
۲۔        غالب، “خطوطِ غالب”، حصہ اول، مرتبہ خلیق انجم، نجمن رقی اُردو پاکستان، ۱۹۹۲ء
۳۔        نظیر صدیقی، “نامے جو میرے نام آئے”، مرتبہ مصطفٰی راہی، اشاعتِ ادب، راول پنڈی، ۱۹۸۴ء
۴۔        ممتاز شیرین، “مشرق و مغرب کے درمیان” (غیر مطبوعہ)، مخزونہ لبنٰی شاہین صاحبہ کراچی
۵۔        ممتاز شیرین، “ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے”، مشمولہ “قند”، ممتاز شیرین نمبر ستمبر، اکگوبر ۱۹۷۳ء
۶۔        ممتاز شیرین بنام محمد سلیم الرحمٰن مورخہ ۶ جون ۱۹۶۳ء، مشمولہ “قومی زبان”، کراچی، اکتوبر ۱۹۹۲ء
۷۔        ممتاز شیرین بنام شاہد حمید مورخہ ۱۶ ستمبر ۱۹۵۰ء مشمولہ “سوغات”، بنگلور، شمارہ نمبر ۳، ۱۹۹۲ء
۸۔        ممتاز شیرین بنام محمود ایاز مورخہ ۹ مئی ۱۹۶۳ء مشمولہ “سوغات”، بنگلور،شمارہ نمبر ۳، ۱۹۹۲ء۔ؤ
۹۔       ممتاز شیرین بنام زینت جہاں (مکاتیب) مشمولہ “قند” مردان، ممتاز شیرین نمبر، ستمبر، اکتوبر ۱۹۷۳ء
۱۰۔      ممتاز شیرین بنام محمد طفیل (مکاتیب) مشمولہ “تحقیق نامہ”، شعبہ اُردو، ج۔ سی یونیورسٹی، لاہور، شمارہ            ۲۰۰۵ء ۲۰۰۶ء