Intekhab E Kalam Raes Amrohvai

Articles

رئیس امروہوی


رئیس امروہوی کا منتخب کلام

 

ستمبر 1914ء اردو کے نامور اور منفرد لب ولہجہ کے شاعرو ادیب رئیس امروہوی صاحب کی تاریخ پیدائش ہے۔
رئیس امروہوی کا اصل نام سید محمد مہدی تھا اور وہ امروہہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد علامہ سید شفیق حسن ایلیا بھی ایک خوش گو شاعر اور عالم انسان تھے۔ رئیس امروہوی کی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے ہوا۔ قیام پاکستان سے قبل وہ امروہہ اور مراد آباد سے نکلنے والے کئی رسالوں سے وابستہ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی اور روزنامہ جنگ کراچی سے بطور قطعہ نگار اور کالم نگار وابستہ ہوگئے، اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی تا عمر جاری رہی۔
رئیس امروہوی کے شعری مجموعوں میں الف، پس غبار، حکایت نے، لالہ صحرا، ملبوس بہار، آثار اور قطعات کے چار مجموعے شامل ہیں جبکہ نفسیات اور مابعدالطبیعات کے موضوعات پر ان کی نثری تصانیف کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہے۔
22 ستمبر 1988ء کو رئیس امروہوی ایک نامعلوم قاتل کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔رئیس امروہوی کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

 

رئیس امروہوی کا منتخب کلام

 

میں جو تنہا رہِ طلب میں چلا

ایک سایہ مرے عقب میں چلا

صبح کے قافلوں سے نبھ نہ سکی

میں اکیلا سوادِ شب میں چلا

جب گھنے جنگلوں کی صف آئی

ایک تارا مرے عقب میں چلا

آگے آگے کوئی بگولا سا

عالمِ مستی و طرب میں چلا

میں کبھی حیرتِ طلب میں رکا

اور کبھی شدتِ غضب میں چلا

نہیں کھلتا کہ کون شخص ہوں میں

اور کس شخص کی طلب میں چلا

ایک انجان ذات کی جانب

الغرض میں بڑے تعب میں چلا

———————————

2

صبحِ نَو ہم تو ترے ساتھ نمایاں ہوں گے

اور ہوں گے جو ہلاکِ شبِ ہجراں ہوں گے

میری وحشت میں ابھی اور ترقی ہو گی

تیرے گیسو تو ابھی اور پریشاں ہوں گے

آزمائے گا بہرحال ہمیں جبرِ حیات

ہم ابھی اور اسیرِ غمِ دوراں ہوں گے

عاشقی اور مراحل سے ابھی گزرے گی

امتحاں اور محبت کے مری جاں ہوں گے

قلب پاکیزہ نہاد و دلِ صافی دے کر

آئینہ ہم کو بنایا ہے تو حیراں ہوں گے

صدقۂ تیرگیِ شب سے گلہ سنج نہ ہو

کہ نئے چاند اسی شب سے فروزاں ہوں گے

آج ہے جبر و تشدد کی حکومت ہم پر

کل ہمیں بیخ کنِ قیصر و خاقاں ہوں گے

وہ کہ اوہام و خرافات کے ہیں صیدِ زبوں

آخر اس دامِ غلامی سے گریزاں ہوں گے

صرف تاریخ کی رفتار بدل جائے گی

نئی تاریخ کے وارث یہی انساں ہوں گے

صدمۂ زیست کے شکوے نہ کر اے جانِ رئیسؔ

بخدا یہ نہ ترے درد کا داماں ہوں گے


 

3

سیاہ ہے دلِ گیتی سیاہ تر ہو جائے

خدا کرے کہ ہر اک شام بے سحر ہو جائے

کچھ اس روش سے چلے بادِ برگ ریز خزاں

کہ دور تک صفِ اشجار بے ثمر ہو جائے

بجائے رنگ رگِ غنچہ سے لہو ٹپکے

کھلے جو پھول تو ہر برگِ گل شرر ہو جائے

زمانہ پی تو رہا ہے شرابِ دانش کو

خدا کرے کہ یہی زہر کارگر ہو جائے

کوئی قدم نہ اٹھے سوئے منزل مقصود

دعا کرو کہ ہر اک راہ پُر خطر ہو جائے

یہ لوگ رہگزرِ زیست سے بھٹک جائیں

اجل قوافلِ ہستی کی ہم سفر ہو جائے

بہ قدرِ یک دو نفس بھی گراں ہے زحمتِ زیست

حیاتِ نوعِ بشر اور مختصر ہو جائے


 

4

خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم

گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم

صدیوں تک اہتمامِ شبِ ہجر میں رہے

صدیوں سے انتظارِ سحر کر رہے ہیں ہم

ذرے کے زخم دل پہ توجہ کیے بغیر

درمانِ درد شمس و قمر کر رہے ہیں ہم

ہر چند نازِ حسن پہ غالب نہ آ سکے

کچھ اور معرکے ہیں جو سر کر رہے ہیں ہم

صبحِ ازل سے شام ابد تک ہے ایک دن

یہ دن تڑپ تڑپ کے بسر کر رہے ہیں ہم

کوئی پکارتا ہے ہر اک حادثے کے ساتھ

تخلیقِ کائناتِ دگر کر رہے ہم

اے عرصۂ طلب کے سبک سیر قافلو

ٹھہرو کہ نظم راہ گزر کر رہے ہیں ہم

لکھ لکھ کے اشک و خوں سے حکایاتِ زندگی

آرائشِ کتابِ بشر کر رہے ہیں ہم

تخمینۂ حوادثِ طوفاں کے ساتھ ساتھ

بطنِ صدف میں وزنِ گہر کر رہے ہیں ہم

ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیسؔ

یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم


 

5

چل اے دل!سوئے شہرِ جانانہ چل

بصد شب رَوی ہائے مستانہ چل

یہی ہے تمنائے خواب و خمار

سوئے ارضِ افسون و افسانہ چل

یہی ہے تقاضائے شعر و شباب

سوئے شہرِ مہتاب و مے خانہ چل

بہ تعمیلِ منشورِ مے خانہ اُٹھ

بہ تجدیدِ پیمان و پیمانہ چل

مبارز طلب ہیں حوادث تو کیا؟

رجز پڑھ کے تُو رزم خواہانہ چل

مصائب ہیں ہنگامہ آرا تو ہوں

عَلَم کھول کر فتح مندانہ چل

جو مقصودِ خاطر ہے تنہا روی

تو آزاد و تنہا و یگانہ چل

جو تنہا روی کا سلیقہ نہ ہو

تو انجان راہوں میں تنہا نہ چل

اُٹھا دلق و کشکول و کاسہ اُٹھا

قلندر صفت چَل فقیرانہ چل

دف و چنگ و طاؤس و طنبور و نَے

بہ قانونِ شہرود و شاہانہ چل

شُتر بانِ لیلیٰ کو زحمت نہ دے

رہِ شوق میں بے حجابانہ چل

ابھی منزلیں منزلوں تک نہیں

ابھی دُور ہے شہرِ جانانہ چل

ابھی حُسن کی خیمہ گاہیں کہاں ؟

ابھی اور ویرانہ ویرانہ چل

ابھی شہرِ جاناں کی راہیں کہاں

ابھی اور بیگانہ بیگانہ چل

جَبل در جَبل دَشت در دَشت ابھی

جواں مردِ کہسار! مردانہ چل

وہ بنتِ قبیلہ نہ ہو منتظر

ذرا تیز اے عزمِ مستانہ چل

وہ سلمائے صحرا نہ ہو مضطرب

رَہِ دوست میں عذر خواہانہ چل

حریفوں کی چالوں سے غافل نہ ہو

کٹھن وادیوں میں حریفانہ چل

غزالوں کی آبادیاں ہیں قریب

غزل خوانیاں کر غزالانہ چل

بہت اجنبیت ہے اس شہر میں

چل اے دل! سوئے شہرِ جانانہ چل

——————————-