Nepali Folk tale

Articles

چالاک نائی

نیپالی لوک ادب

ٰٓ ایک شہزادے کو اپنے نائی کی باتیں بہت پسند تھیں۔ہر صبح نائی اس کی داڑھی بنانے آیا کرتا تھااور داڑھی بناتے وقت وہ مختلف قسم کی باتیں کرتا تھا۔ جو کچھ وہ شہر والوں کے منہ سے سنتا آکر کہہ دیتا ۔
لیکن نائی کو شاہی پادری بالکل بھی پسند نہیں تھا جسے دربار کا ہر شخص عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا تھا ۔یہ بات نائی کو بہت نا خوشگوار گزرتی تھی جسے وہ برداشت نہیں کرسکتا تھا ۔لہٰذا  اس نے پادری سے چھٹکارا پانے کے لئے ایک منصوبہ بنایا ۔
ایک دن صبح جب وہ شہزادے کی داڑھی بنانے آیا تب اس نے معمول کے مطابق کوئی بات نہیں کی۔ ”تمہیں کیا ہوا ہے آج؟ تم بولتے کیوں نہیں؟“ شہزادے نے نائی سے پوچھا ۔
آخر کار اس کے منھ سے چند جملے نکلے” گذشتہ رات میں نے ایک خواب دیکھاکہ میں جنت میں ہوں جہاں میری ملاقات آپ کے والد بزرگوار اور عزت مآب والدہ سے ہوئی۔ لیکن وہ دونوں بہت پریشان تھے ۔
”کیوں ؟ انھیں کیا پریشانی ہے؟“ شہزادے نے پوچھا۔
چالاک نائی نے صورت بنا کر کہا ” انھیں پادری کی اشد ضرورت ہے جو ان کی روحانی ضرورتوں کو پورا کرسکیں ۔ انھوں نے کہا ہے کہ میں آپ سے اس بات کا تذکرہ کروں اگر آپ شاہی پادری کو ان کی خدمت میں بھیج سکیں توفوراََ جنت میں بھیج دیں ۔
”لیکن کیسے؟“
” اس کام میں کسی قسم کی کوئی مشکل در پیش نہیں آئے گی “ نائی نے جواب دیا۔” بس کفن پہنانا پڑے گا اور قبر میں لٹا نا ہوگا ۔ پھرپادری کی آنکھ سیدھا جنت میں کھلے گی۔“
” اچھا میں سمجھ گیا ۔ میں ایسا ہی کروں گا ۔“
نائی اور شہزادے کے درمیان جو باتیں ہوئیں اور جوفیصلہ کیا گیا یہ باتیں پادری کو معلوم پڑیں ۔لیکن وہ بھی بہت ہوشیاراور چالاک تھا۔اس نے شہزادہ سے درخواست کی کہ ایک مہینہ کی مہلت دی جائے تاکہ جنت کے سفر کے لئے مکمل تیاری کر لے۔
اس نے اپنی قبر کے لئے اپنے ہی باغ میں ایک جگہ منتخب کی۔اور ایک درجن مزدوروں کو تہہ خانہ بنوانے کے لئے لگا دیاجس کا راستہ سیدھا اس جگہ سے اس کے گھر کو نکلے۔پھر قبر میں اس نے ٹوٹی پھوٹی لکڑیاں ، گھاس اور پیڑ کے سوکھے ہوئے پتے سے تہہ خانہ کے دہانے کو چھپا دیا ۔
البتہ وہ مقدس دن آگیا جب پادری کو کفن پہنا کر قبر میں لٹانا تھا جس کی تیاری میں وہ پچھلے ایک مہینے سے لگا ہوا تھا۔پادری کو کفن پہنا کرقبر میں لٹا دیا گیا اورمٹی ڈا ل دی گئی اس طرح تدفین ہوگئی ۔ پادری نے کفن کھولا اور تہہ خانہ کے راستے اپنے گھر پہنچ گیا۔
تین سال کا عرصہ گزر گیا ۔اس دوران پادری نے اپنے بال، داڑھی اور ناخن نہیں کاٹے اور انھیں بڑھنے دیا ۔ایک دن اچانک وہ گھر سے نکل کر شہزادہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔دربار میں حاضر ہوتے ہی سب کے ہوش اڑ گئے اور سب حیرانی سے پادری کو دیکھنے لگے۔
”تم جنت سے کب واپس آئے؟ شہزادے نے پوچھا ۔  ” اور تم نے اپنی صورت کیا بنا رکھی ہے۔ تمہارے بال ، داڑھی اور ناخن اس قدر بڑھے ہوئے کیوں ہیں؟ “
” اسی لیے تو میں آج یہاں آیا ہوں۔“ پادری نے جواب دیا۔ ”کون بے وقوف ہے جو جنت کا آرام چھوڑ کر یہاں زمین پر آئے گا ۔اگر یہ خاص مقصد نہیں تو اور کیا ہے؟ آپ کو معلوم ہے تقریباََایک سال ہوگئے۔ آپ کے والد کے پاس ایک استاد نائی تھا جسے کسی وجہ سے پچھلے چند مہینوں سے جنت سے باہر کسی کام کے لیے بھیج دیا گیا ہے ۔ اس کی جگہ کوئی دوسرا نائی اب تک جنت میں نہیں آیا ۔آپ کے والد بزرگوار نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے پاس جاﺅں اور آپ سے کہوں کہ آپ فوراََ کوئی نائی بھیج دیں تاکہ ان کی ضرورت پوری ہوجائے۔“
شہزادے نے نائی کو حکم دیا کے وہ جنت میں چلا جائے۔
نائی بہت زیادہ ڈر گیا کیوں کہ اس کی بازی الٹ گئی تھی ۔وہ بہت دیر تک خاموش رہا کیوں کہ وہ شہزادے کے حکم کو ماننے سے انکار نہیں کر سکتا تھا۔شہزادے کے حکم دیتے ہی سپاہیوں نے قبر کھودناشروع کردی۔بیچارے نائی کو کفن پہنا کر زندہ درگور کر دیا گیا۔

سبق: جیسا بوئوگے ویسا ہی کاٹو گے۔

 


انگریزی سے ترجمہ:حیدر شمسی