Global Village and Society

Articles

عالمی بستی اور سماج

پروفیسر طفیل ڈھانہ

 

ہم عالمی بستی کے لوگ ہیں۔ گلوبل ولیج بن گئی ہے دنیا ہماری۔ بڑی بحث تھی اس موضوع پر ، بڑا شور تھا گلوبلائزیشن پر ، مگر اب نہیں ہے۔ اب ہم گلوبلائزیشن کے ساتھ جینا سیکھ رہے ہیں۔ پہلے ڈر رہے تھے ، اب تربیت لے رہے ہیں۔ گلوبلائزیشن والے کہتے ہیں کہ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کمال ہے کہ دنیا سب کے لیے ایک جیسی ہوگئی ہے۔ تبدیلی ٹیکنالوجی کے ساتھ آئی ہے، معاشی بھی اور اخلاقی بھی۔ کلوننگ، کمپیوٹر، سیٹیلائٹ اور بہت سی ٹیکنالوجی لے کے آئی ہے مابعد جدیدیت ۔ گلوبلائزیشن بھی اسی کا نتیجہ ہے۔ اپنے کمرے میں بیٹھ کر ہم کسی سے بھی رابطہ اور بات چیت کرسکتے ہیں۔ کوئی رکاوٹ نہیں درمیان میں۔ یہ ہے گلوبل وِلیج ۔ جو جغرافیائی سرحدیں نیشنل ازم نے بنائی تھیں وہ اب برائے نام رہ گئی ہیں۔
پہلے بس ایک سرکاری چینل تھالیکن اب سینکڑوں چینلس ہیں۔ خبر پر سرکار جو پابندی لگاتی تھی وہ اب ختم ہوگئی ہے۔ گلوبل وِلیج میں کہاں کیا ہوا ، اب ہم دیکھ سکتے ہیں۔ اچھا ہے میڈیا آزاد ہوا کیو نکہ ہم دنیا سے علیحدہ نہیں رہ سکتے۔ مگر میڈیا کی آزادی عالمی کارپوریشنوں کا بھی مطالبہ تھا۔ لہٰذا قومی خبروں کا زمانہ گیا۔ عالمی خبروں کا عہد آگیا ہے۔ اس میں بزنس ہے۔ میڈیا والے اطلاعات بیچتے ہیں، ہم خریدار ہیں۔ قومی میڈیا قومی اطلاعات دیتا تھا ، عالمی میڈیا عالمی اطلاعات لے کے آگیا ہے۔ عالمی میڈیا عالمی کارپوریشن لے کے آئی ہے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ خبروں کے درمیان ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کا اشتہار آجاتا ہے۔ اس لیے ، کیونکہ آزاد میڈیا کارپوریشنوں کا نوکر ہے۔ ہرچینل پر کارپوریشنوں کے اشتہار چلتے ہیں کیونکہ وہ پیسہ دیتے ہیںچینل والوں کو۔ اس بزنس میں کمائی اچھی ہے۔ ساری خبریں، سارے پروگرام عالمی کارپوریشنوں کے پیسوں سے چلتے ہیں۔ خدمت نہیں ، یہ بزنس ہے۔ عالمی کارپوریشن جو دکھائے گی، ہم دیکھیں گے۔ جو بیچے گی ہم خریدیں گے۔ ٹیکنالوجی ملٹی نیشنل کارپوریشن کے پاس ہے۔ چینل والے ٹیکنالوجی خریدنے والے ہیں۔ کارپوریشن نے میڈیا ٹیکنالوجی ایجاد کی ہے تو اسے فروخت بھی کرنا ہے۔ لہٰذا میڈیا کو آزادی دلائی کارپوریشن والوں نے۔ ہم بھی خوش اور وہ بھی خوش۔
رابطوں کے لیے موبائل فون بنادیا ۔ کمپنیوں نے ہمارے لیے انٹرنیٹ چلا دیا۔ ہم رابطہ کرسکتے ہیں مگر قیمت ادا کرتے ہیں کمپنی والوں کو۔ ہماری ضرورت کا سارا سامان ہے ان کے پاس ۔ لہٰذا وہ بیچے گیں اور ہم خریدیں گے۔ اس لیے کارپوریشن والے گلوبلائزیشن لے کے آئے ہیں۔ زراعت ، صنعت ، تعلیم ، تجارت ، ٹرانسپورٹ میں کارپوریشن آگئی ہے۔ موٹر وے بنایا، بسیں چلا رہے ہیں۔ ریلوے وزیر نہیں چلا سکتے مگر ملٹی نیشنل والے چلا لیں گے۔ بجلی کمپنیاں بنارہی ہیں، گیس ، تیل کمپنیاں نکالتی ہیں۔ ڈیم کمپنیاں بنادیں گی۔ کیونکہ ہمارے پاس ٹیکنالوجی ہے نہ سرمایہ۔ علم و دانش اور سائنس سبھی کچھ کمپنیوں کے دستِ نگر ہے۔ شہر میں ڈپارٹمنٹل اسٹور کھلے ہیں، گورمے اور میکڈونلڈ۔ یہاں بھی کمپنیوں کی فروخت ہوتی ہے۔ کمپنی کے مقابلے میں ہماری دکان نہیں چل سکتی۔ عالمی بستی میں ہم پرچون فروش ہیں۔ ہمارے کاروباری اشرافیہ کی اس سے بڑی حیثیت نہیں ہے عالمی معاشی نظام میں۔
مجھے لالہ لال دین یاد آتا ہے۔ لال دین پھیری والا، کپڑا بیچتا تھا۔ شہر سے کپڑا لاکے گاﺅں میں بیچتا تھا لال دین سائیکل پر۔ کبھی سائیکل خراب، کبھی طبیعت خراب۔ پھر یوں ہوا کہ کپڑے کی ایک بڑی دکان کھل گئی گاﺅں میں۔شہر سے آیا ہوا یک بڑا سودا گر تھا وہ دکان کھولنے والا۔ لالہ لال دین بوڑھا ہوگیا تھا، تھک گیا تھا۔ اس نے بڑی دکان پر نوکری کرلی۔ وہ دکان کھولتا، جھاڑو دیتااور مالک کی خدمت کرتا تھا۔اچھا شریف آدمی تھا ، لال دین پھیری والا۔ کاروبار میں کامیابی کادرس دیتا تھا بستی کے نوجوانوں کو۔
عالمی بستی میں ، میونسپل کمیٹی سے بڑی حیثیت نہیں ہے حکومت کی۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے حکومت کو جو کام دیا ہے وہ اتنا ہی ہے جتنا کہ ایک میونسل کمیٹی کے پاس ہوتا ہے۔ امن قائم کرو تاکہ ملک میں کاروبار چلے۔ شہروں کی صفائی کرو، ٹریفک کنٹرول کرو۔کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہنر مند تیار کرو۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے ہماری حکومت اتنا کرلے تو اچھا ہے۔ نہیں تو یہ لوگ حکومتوں کا سودا کرنے کو بھی تیار رہتے ہیں۔
پچھلی صدی میں حملہ کیا تھا امریکہ نے عراق پر۔ بغداد قدیم تہذیب کی بنیاد والا کلاسیکل شہر تھا۔ برباد کیا نیٹو والوں نے۔ نیٹو فوجی کارپوریشن ہے۔ عراق تنہا تھا ، مگر صدام تنہا نہ تھا۔ کتنے لوگ عراق والوں کے ساتھ تھے، صدام کے ساتھ تھے۔ مگر احتجاج کام نہ آیا۔ کتنے بڑے بڑے جھوٹ بولے تھے بش نے عراق پر حملہ کرنے کے لیے۔
صدام نے اجازت نہ دی تھی کارپوریشن والوں کو عراق میں داخل ہونے کی۔ بس اتنی لڑائی تھی۔ عراق قومی ریاست تھی۔ لوگ خوشحال تھے، اچھا معاشرہ تھا، کارپوریشنوں والے عراق والوںکو لوٹنے آئے تھے۔صدام نے انکار کیا اور دروازے بند کردیئے تھے کارپوریشن والوں کے لیے۔ مگر اندر سے کچھ سیاست پیشہ مل گئے امریکہ والوں کو۔ وہ کارپوریشن والوں کے ساتھ بزنس چاہتے تھے اس لیے اُن کے ساتھ مل گئے۔ عراق کی حکومت میں جو لوگ تھے سارے قتل کیے گئے۔ صدام کو سولی پرچڑھایا گیا۔ کیا جج تھا ، عدالت لگانے والا؟ کیا حکومت تھی عراق میں؟ پارلیمنٹ کی حیثیت میونسپل کمیٹی سے زیادہ نہ تھی اُس وقت عراق میں۔ جمہوریت تو امریکہ میں نہیں، یورپ میں بھی نہیں ہے۔ کیونکہ یہاں بھی کارپوریشن کی سلطانی ہے۔ قذافی کو مار کے صحرا میں دفن کیا۔ شام اور یمن میں خانہ جنگی کا دور دورہ ہے۔ کہانی بس اتنی ہے کہ دیواریں گرا رہے ہیں گلوبلائزیشن والے ، اپنی دنیا بنانے کے لیے۔
٭٭٭
مشمولہ سہ ماہی ” ارد چینل“ شمارہ نمبر 34 صفحہ نمر 58تا 60