Majaz Ka Tassaur E Jamal

Articles

مجازؔ کا تصور ِجمال

ڈاکٹر رشید اشرف خان

 

 

دنیا کی ہر قدیم و جدید زبان کا شعری و نثری ادب اور آرٹ کے سبھی اسکول تذکرۂ حسن وجمال سے بھرے پڑے ہیں ۔زبان خواہ ادب کی ہو یا رنگ ونور کی موسیقی کی ہو یا رقص وسرود کی ، بہر حال کسی نہ کسی شکل و صورت میں نمائش و اظہار حسن وجمال سے عاری نہیں ہے۔اس نمائش واظہار کے طریقے اور مظاہر گونا گوں ہیں۔شرط یہ ہے کہ دیکھنے والی آنکھیں ، سننے والے کان، محسوس کرنے والادل اور سمجھنے والا دماغ ہو۔
’’جمالیات‘‘ نسبتاََ ایک قدرے جدید اصطلاح ِ ادب سمجھی جاتی ہے لیکن حقیقتاََ ایسا نہیں ہے ۔ البتہ اس کو سمجھنے اور محل استعمال کے سائنٹفک مطالعہ کی کوششیں کسی قدر نئی ضرور ہیں ۔ جمالیات کے بنیادی موضوع کے متعلق ہم اس وقت تک کچھ نہیں کہہ سکتے جب تک اس کا علم حاصل نہ ہوجائے اور اس کے جوہر کی پہچان نہ ہوجائے۔ جمالیات کی ایک بڑی تاریخ ہے، اس نے بہت سی ارتقائی منزلیں طے کی ہیں۔ اگرچہ جمالیات بذات خود ایک فلسفیانہ اور تکنیکی اصطلاح ہے لیکن خود جمالیات نے کتنی نئی اور معنی خیز اصطلاحوں کو جنم دیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ لفظ’’ جمالیات‘‘ کی صرف ایک مکمل تعریف پیش کرنا ممکن نہیں ، پیاز کے چھلکوں کی طرح اس کے معانی و مفاہیم تہہ بہ تہہ ، پرت در پرت پوشیدہ ہیں۔جمالیاتی تصورات کو مختلف مثالوں ، نمونوں اور تشریحات کے ذریعہ سمجھا اور سمجھایا جاسکتا ہے۔اس تھیوری کو سمجھنے کے لیے اسرارالحق مجازؔ کی شاعری کو نقطۂ مطالعہ بنایا گیاہے۔
کلیات مجاز ’’آہنگ‘‘ اور ان پر لکھے گئے مختلف النوع مضامین کے بالاستیعاب مطالعے سے جمالیات کی راہیں پہلے سے کہیں زیادہ روشن ہوجاتی ہیں۔مثال کے طور پر مجاز کی نظم ’’ تعارف‘‘ کو ان کے جمالیاتی شعور کا نچوڑ سمجھا جاسکتا ہے۔ کلیات مجاز کا وہ ایڈیشن جسے آزاد کتاب گھر کلاں محل دہلی نے مارچ ۱۹۵۲ء میں شائع کیا تھاجس میں نظم تعارف صفحہ ۶۱ پر شائع کی گئی ہے جب کہ اصول ترتیب کے اعتبار سے اسے فیض احمد فیض کے تحریر کردہ دیباچہ کے فوراََ بعد ہونا تھا ۔ نظم کے اختتام پر سن تصنیف ۱۹۳۵ء لکھا ہوا ہے جب کہ صحیح سن تصنیف ۲۸ ستمبر ۱۹۳۱ء ہے یہ مستند خبرمجاز کے والد سراج الحق نے پنے عزیز دوست شیخ ممتاز حسین جونپوری کو دی تھی جس کو انھوں نے اپنے ایک مضمون میں اس طرح نقل کیا ہے:
’’مجازؔ نے اپنی تعارف والی نظم جو ۲۸ستمبر ۱۹۳۱ء کو اپنے کرم فرما آصف علی صاحب ایم۔ایل ۔اے کے آرام کمرے میں بیٹھ کر خدا جانے کیا سوچ کر لکھی تھی‘‘
( مضمون: مجاز کا سوگ اور اس کی شاعری، مشمولہ نیا دور مجاز نمبر ستمبر، اکتوبر ۲۰۱۲ء ص ۱۱)
اگر جامع و مانع انداز میں کہا جائے تو مجاز سراپا جمال تھے یعنی ان کوقدرت نے کچھ ایسی حسن پرستی اور جمال پسندی عطا فرمائی تھی کہ وہ کائنات کی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی چیزمیں جلوۂ جمال دیکھ سکتے تھے۔ مثال کے طور پر نظم’’تعارف‘‘ حقیقی معنوں میں از ابتدا تا انتہا مجازؔ کے ذوق جمال کی بولتی تصویر ہے۔نظم کا مطلع یا پہلا شعر خیالات وجذبات شاعر کی افہام وتفہیم میں بلا مبالغہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے :
خوب پہچان لو اسرار ہوں میں
جنسِ الفت کا طلب گار ہوں میں
پہلے مصرعے کی تحکمانہ بناوٹ مصرع کی جزالت و معنویت کو کہیں سے کہیں پہنچا رہی ہے۔ بجائے اپنے تخلص کے نام اسرار( اسرارالحق) کا استعمال جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔ معنوی اعتبار سے ’’اسرار ‘‘ جو ’’سِر‘‘ بمعنی راز کی جمع ہے ، شاعر کی شخصیت میں ایک خاص وزن ووقارکا آئینہ دار ہے۔ بہ الفاظ دیگر شاعر اپنے وجود اور اس وجود سے منسلک درجنوں رازوں کے پوشیدہ ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جب ہم اس کی طرف پوری طرح متوجہ ہوجاتے ہیں تو وہ یکے بعد دیگرے ہر راز کھولتا چلا جاتا ہے مثلاََ :
جنسِ الفت کا طلب گار ہوں میں
مصرعۂ ثانی کا بے ساختہ پن یا بے تکلفی شاعر کی مکمل شخصیت کو بے نقاب کر دیتی ہے۔ بالکل ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کسی تھیٹر کا پردہ اچانک کھلا اور پردے کے پیچھے چھپے ہوئے مناظر و کردار ہماری نگاہوں کے سامنے آنے لگے۔ یہ ڈرامائی کیفیت نہایت درجہ آگاہ کن(Alarming) اور مہیّج (Stimulating)ہے۔ شاعر نے جنس الفت کے علاوہ کسی دوسری چیزکی طلب گار ی ہی نہیں کی۔ اسی بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ شاعر ہر اس شے ، وجود یا جذبے کو پسند کرتا ہے جس میں جنس یا اس کی پسندیدگی شامل ہو۔ بس یہی پسند تو ’’جمالیت‘‘ ہے خواہ اس کی تعمیر میں منفیت ہو یا اثبات ہو۔ رومان کا مرکز ثقل ہر خوبصورتی ہے۔ جب کہ جمالیات کا نعرہ یہ ہے کہ جو بھی چیز مجھے پسند ہے وہ حسین ہے۔
ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجازؔ کی شاعری میں قطعی طور پر رومان کا فقدان ہے لیکن مادی اور جنسی محبت کے ساتھ ساتھ ان کے اشعار میں جمالیات کے نقطۂ نظرکی بھی حد سے زیادہ کارفرمائی ہے ۔ جمال پرستی کا پہلا نمونہ ہمیں اس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب ہم مجاز کو علی گڑھ میں ایک طالب علم کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ اپنی یاد گار زمانہ نظم ’’نذر علی گڑھ‘‘ ۱۹۳۶ء میں مجاز کہتے ہیں:
اس فرش سے ہم نے اڑ اڑ کر افلاک کے تارے توڑے ہیں
ناہید سے کی ہے سر گوشی ، پروین سے رشتے جوڑے ہیں
اس بزم میں تیغیں کھینچی ہیں، اس بزم میں ساغر توڑے ہیں
اس بزم میں آنکھ بچھائی ہے ، اس بزم میں دل تک جوڑے ہیں
بادی النظر میں ایک عام قاری یا اردو ادب کا ایک باضابطہ ذہین طالب علم مذکورہ بالا مصرعوں کی تشریح کرتے ہوئے یہی کہے گا کہ ناہید وپروین افلاک کے دو بلند پایہ خوب صورت اور روشن ستارے ہیں لیکن حیاتِ مجاز کے پس منظر میں شاید لاشعوری طور پر ان کا استعمال تزئینِ بیان کے لیے کیا گیا ہے۔پروفیسر قاضی افضال حسین نے لکھا ہے کہ:
’’ہم اسے مجاز ؔکا خاص انداز بھی تصور کرسکتے ہیں کہ انھوں نے اپنے اشعار میں ایسے اسما نظم کیے ہیں جو ہمارے معاشرہ میں لڑکیوں کے عام نام خیال کیے جاتے ہیں ۔ پروفیسر محمد حسن نے اپنے ایک مضمون میں نذر علی گڑھ کے (مذکورۂ بالا) ایک شعر کی نشان دہی کی ہے جس میں ناہید اور پروین کا نام آیا ہے ،جن کی طرف سے مجاز کے لیے پیغام آیا تھا‘‘
( مضمون: عشق مجازی اور دیوانگی، مشمولہ نیا دور مجاز نمبر ستمبر، اکتوبر ۲۰۱۲ء ص ۱۱۳)
’’نورا‘‘ مجازؔکی ایک نمایندہ نظم ہے ۔ ۳۵ اشعار پر مشتمل اس نظم کا ذیلی عنوان ’’نرس کی چارہ گری‘‘ ہے۔اس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ’’نورا‘‘ کی معصومیت اور والہانہ خدمت گزاری نے جس طرح بیمار مجازؔ کے احساس جمال کو مہمیز کیا ہے۔ شاعر کی کشادہ دلی اور بے تعصبی دیکھیے کہ وہ نرس کی شخصیت اور عقیدے کی بھی پذیرائی کررہا ہے ۔اس سے انجیل مقدس کی تلاوت کو عقیدت بھرے کانوں سے سن رہا ہے۔ اسے بنت مریم ، ارض کلیسا کی ماہ پارہ تثلیث کی دختر نیک اختر اور کنیز سلیمان کے القاب سے یاد کرتا ہے پھر اس سے خاموش محبت کا اظہار کرتا ہے۔ اس اظہارکی پاکیزگی اور بے ساختگی نے اس بھولی بھالی معصوم نرس کے منھ یہ پیغام کہلوالیا کہ ع
کہ کس روز آؤ گے بیمار ہوکر
مجازؔ ایک ایسا شاعر ہے جو محض رومانی خیالات اور بیان عشق و محبت تک ہی ا پنی شعری تخلیقات کو محدود نہیں رکھتابلکہ جب یہ رومان جذبۂ عشق و محبت اور کاروبار شوق پختہ تر اور تابندہ تر ہوجاتا ہے تو شاعر کی نگاہ ماورائے حسن و عشق بھی دیکھنے لگتی ہے۔ اب وہ حسین اشیا اور پر کشش واقعات کے علاوہ کم رتبہ اشخاص، غیر اہم واقعات ، غیر شاعرانہ مناظر اور اکثر ناپسندیدہ باتوں میں بھی حسن کی علامتیں ، عشق کی سرگرمیاں اور غیر ذی روح میں بھی روحانیت کی جھلکیاں دیکھنے لگتا ہے۔ یہ بصارت کی معراج ہے جو سفرِ بصیرت میں بھی فن کار کی معاونت کرنے لگتی ہے۔ مثال کے طور مجازؔ کی نظم ’’رات اور ریل‘‘ کا حوالہ دیا جاسکتا ہے ۔یہ نظم چالیس اشعار پر مشتمل ہے اور ۱۹۳۳ء کی تخلیق ہے جب ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کی شروعات نہیں ہوئی تھی۔ مجازؔ انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستہ تو تھے لیکن ’’رات اور ریل‘‘ اس انجمن کا ثمر پیش رس نہیں تھی۔ انھوں نے آگرہ میں انٹر میڈیٹ کے طالب علم کی حیثیت سے ۱۹۲۹ء میں شاعری شروع کی تھی ۔ ۱۹۲۹ء اور ۱۹۳۳ء میں محض چار سال کا فرق ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مجازؔ نے انگریزی میں Robert Southey کی نظم ’’The Train‘‘ اور لسان العصر اکبر الہ آبادی کی نظم ’’ریل‘‘ ضرور پڑھی ہوگی لیکن ’’رات اور ریل‘‘ مجازؔ کی طبع زاد نظم ہے۔ ان کاذہن جذبیؔ، فانیؔ اور آل احمدسرور کی صحبت میں اتنا ترقی پذیر ، مشاہدہ اتنا بالغ اور زبان اتنی پختہ ہوچکی تھی کہ فطری احساس جمال کی آبیاری اس درجہ باثمر ہوگئی۔ ریل کا بیان چھوٹے بچوں کے لیے صرف تفریح اور دل بستگی کا سامان ہوتا ہے جیسا کہ مجازؔ نے کہا ہے کہ ع
نونہالوں کو سناتی ، میٹھی میٹھی لوریاں
خیر یہ تو الگ بحث ہے۔ نظم کو پڑھ کر ایک سنجیدہ قاری بڑی شدت سے محسوس کرتا ہے کہ شاعر کا لب ولہجہ نرم اور رومانوی ہے اس میں ترقی پسندوں کے علم باغیانہ اور انقلابی تیور نہیںہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ شاعر کے دل ودماغ میں انقلابی جراثیم کی موجودگی سے یکسر انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود اگر ہم غور کریں تو بیک وقت کئی جمالیاتی پہلو اندھیرے میں رہ رہ کر ہماری آنکھوں کو چکا چوند کردیتے ہیں۔ مثلاََ نیم شب کی خامشی، زیر لب گنگنانا، چھم چھم کا سرود دل نشیں ، نازنینوں کو سنہرے خواب دکھانا، سیماب چھلکانا، رخش بے عناں، چراغ طور دکھلاناوغیرہ یہ تمام صوتی محاسن اور بصری مناظر ایک جمال پسند شاعر کے فنی آلے اور شعر ی اوزار کہے جاسکتے ہیں۔
’’آہنگ‘‘ صرف ایک مجموعہ کلام ہی نہیں بلکہ مجازؔ کے لطیف جذبات اور فلک بوس خیالات کا دل نواز غیر فانی البم بھی ہے۔جمالیاتی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو ’’ آوارہ ‘‘ بھی مجاز ؔ کا ایک شاہکار ہے۔ یہ نظم ۱۹۳۷ء میں کہی گئی تھی ۔اس زمانے میں مجاز ؔ آل انڈیا ریڈیو ، نئی دہلی سے منسلک تھے اور A.I.R. کے رکن کی حیثیت سے پندرہ روزہ ’’آواز‘‘ کا سب ایڈیٹر تھے۔ مجازؔ کی بہن حمیدہ سالم لکھتی ہیں :
’’ جگن بھیا۱۹۳۶ء میں دہلی گئے اور تقریباََ ایک سال تک ’’آواز‘‘ کی سب ایڈیٹری کے فرائض انجام دیے۔ دہلی کے قیام کے دوران جگن بھیا کے دل نے ایک ایسی چوٹ کھائی جس کا زخم ان کی زندگی میں کبھی نہ بھر سکا‘‘
(مضمون: جگن بھیامطبوعہ افکار ، کراچی ، مجاز نمبر ص ۵۶)
دہلی میں لگنے والی جس دلی چوٹ کی طرف مجاز ؔ کی بہن حمیدہ سالم اور کچھ سوانح نگاروں نے اشارہ کیا ہے کہ اس کا سبب زہرہ تھیں جن کی دلکش اداؤں نے شاعر کے دل کو اس درجہ متاثر و محسور کیا کہ وہ فلمی انداز سے مجازؔ کے دل ودماغ پراس قدر مسلط ہوگئیں کہ وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے اور جب پتہ چلا کہ وہ ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہے تھے تو ان پر عجیب و غریب وحشت و دیوانگی کا دورہ پڑگیا۔زہرہ کے والد دہلی میں کسی کالج کے پرنسپل تھے۔ ایک بار زہرہ مجازؔ کو اپنے والد سے ملوانے لے گئیں تو پہلے انھوں نے مجازؔ کا خوش روئی سے استقبال کیا لیکن جب مجازؔ سے ان کی آمدنی کے بارے میں پوچھا تو اٹھ کر اندر چلے گئے اور زہرہ سے نہایت ناگوار لہجے میں کہا کہ میں ایسے لوگوں سے نہیں ملتا جس کی آمدنی صرف دو تین ہزار روپے ہو ۔ اس توہین آمیز برتا ؤ کو برداشت نہ کرتے ہوئے مجازؔ زہرہ کے گھر سے چلے آئے۔اوڈین سنیما کے پاس پہنچتے پہنچتے ان کے قلب مضطر کے زخموں کی سوزش ناقابل برداشت ہوگئی ۔ کچھ دیر تک اِدھر اُدھر بے مقصد ٹہلتے رہے، دوکان سے سگریٹ اور کاغذ خریدا اور بنچ پر بیٹھ کر لکھنے لگے:
شہر کی رات ، اور میں ناشاد وناکارہ پھروں
جگمگاتی ، جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک در بدر مارا پھروں
اے غم دل کیا کروں ، اے وحشت دل کیا کروں
جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی
رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی
میرے سینے پر مگر دہکی ہوئی شمشیر سی
اے غم دل کیا کروں ، اے وحشت دل کیا کروں
یہ روپہلی چھاؤں ، یہ آکاش پر تاروں کا جال
جیسے صوفی کا تصور جیسے عاشق کا خیال
آہ ، لیکن کون جانے کون سمجھے دل کا حال
اے غم دل کیا کروں ، اے وحشت دل کیا کروں
پہلے بند میں ’’ غیر کی بستی‘ سے مراد دہلی ہے جہاں مجازؔ ملازمت کرتے تھے اور یہیں ان کی منظور نظر زہرہ بھی رہتی تھی لہٰذا شاعر کے لیے یہ شہر جمالیات کا مرکز تھا ۔ اگر زہرہ تک شاعر کی مستقل رسائی ممکن ہوتی تو یقین تھا کہ مجازؔ دہلی کو غیر کی بستی کہہ کر نہ پکارتے گو یا دہلی اور زہرہ دونوں شاعر کے لیے لازم و ملزوم تھے۔ ان کی عدم یافت نے گویا احساس جمال میں یکبارگی پچاس فیصدی کمی کردی۔ شاعر کے ذہن میں اس لمحے تک جھلملاتے قمقموں کی زنجیر ، رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر اس وقت تک جلوہ افروز تصورات تھے جب تک زہرہ کے وصل کی آس تھی۔ صوفی کا تصور اور عاشق کا خیال کے استعارے جان بوجھ کر استعمال کیے گئے ہیں کیوں کہ صوفی اللہ کے تصور میں کھویا رہتا ہے اور عاشق اپنی محبوبہ کے خیال میں گم رہتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر صوفی اور عاشق دونوں ہی اپنے اپنے نشانات کو شاذ ونادر ہی پاسکتے ہیں۔ جمال بھی بعض اوقات حقیقی موجودات سے آشنا ہوتا ہے اور اکثر و بیشتر خوش فہمیوں کا شکار بنتا ہے۔
پندرہ بندوں پر مشتمل مذکورہ نظم میں ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر بند کا تیسرا مصرع مجازؔ کی شکست اور ہزیمت کا اعلان نامہ محسوس ہوتا ہے ۔ ان مصرعوں میں شاعر کی شکست خوردگی کی علامت بھی ہے اور اس میں پوشیدہ جمال پرستی کے نمونے بھی ہیں جن سے شاعر کو ناقابل بیان لذت آفرینی ملتی ہے ۔ اس لطیف شے کے لیے وہ تا عمر متلاشی اور تمنائی رہے ۔ اس لذت آفرینی کا صحیح احساس آپ کو اور ہم کو نہیں ہوسکتا ۔ اس احساس کے لیے مجازؔ کا سا دل، اس کے خونیں تجربات اور اس قوت آخذۂ جمال کی ضرورت ہے جو خدا نے مجازؔ کو عطا کیا تھا۔
نظم ’’ آوارہ‘‘ کے حوالے سے چند باتیں خصوصیت کے ساتھ عرض کرنی ہیں، پہلی بات یہ کہ نظم رومان سے شروع ہوکر انقلاب پر ختم ہوتی ہے۔ نظم کے نصف حصے تک مجازؔ کی شاعری جمالیات کی بہترین مثال ہے۔نظم کے آخری چار بند جارحانہ اور انقلابی جذبات کی بازگشت ہیں۔ ان بندوں کا لب و لہجہ، Diction اور انداز پیش کش ترقی پسندوں کی حرکیMovementsکا مظہر ہے جس سے شاعر کی چڑچڑاہٹ اور تخریب کاری کا پتہ چلتا ہے۔ علم نفسیات کا اصول ہے کہ محبت ونفرت اعتدال کے ساتھ بیک وقت یکجا نہیں ہوسکتے لہٰذا میرا خیال ہے کہ آوارہ کے ابتدائی بند اوڈین سنیما کے آس پاس کہے گئے ہیں باقی بند بعد میں کسی اور مقام پر کہہ کر اس نظم میں جوڑے گئے ہوں گے۔ آوارہ کے بارے میں یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس نظم کا جنم مجازؔ کی شراب خوری کے دوران ہرگز نہیں ہوا کیوں کہ زبان کی جو لطافت ، الفاظ کا جو انتخاب اور مصرعوں کی جو ادبی سجاوٹ اس نظم میں نظر آتی ہے وہ نشے کے عالم میں ممکن نہیں۔ ایک قابل توجہ امر یہ ہے کہ آوارہ کے مصرع ’’ پھر کسی شہناز لالہ رخ کے کاشانے میں چل‘‘ کی قرات غلط ہے اسے شہناز و لالہ رخ ہونا چاہیے۔ علی گڑھ میں شہناز اور لالہ رخ نام کی دو نوجوان لڑکیاں تھیں جنھیں مجازؔ پسند کرتے تھے۔آخری بات یہ کہ آوارہ سراسر خود کلامی یا Soliloquy(صحبت باخود) کا عملی نمونہ ہے ۔تنہائی جمالیاتی اصطلاح ہے جسے مجازؔ نے اس نظم میں بہ حسن خوبی استعمال کیا ہے۔ فراق گورکھپوری نے لکھا ہے کہ:
’’ یہ نظم شاعر کی زندگی کے آخری چھ سات سال اور اس کے المناک خاتمے کی پیشین گوئی تھی۔ یہ نظم بارود پر چنگاری کے منڈلانے کا منظر پیش کررہی تھی۔نظم کی نوک پلک نظر فریب بھی تھی اور اعلا ن خطرہ بھی کررہی تھی ۔ایک سوئے ہوئے جوالا مکھی کے عنقریب پھٹ جانے کی گڑگڑاہٹیں اس نظم میں سنائی دیتی تھیں۔ نظم میں ایک خطرناک دلکشی تھی ۔اس میں مقناطیسی کشش تھی مگر نظم کے سحر سامری سے انکار ممکن تھا‘‘
(مضمون: ایسے پیدا کہاں ہیں مست وخراب، مشمولہ افکار(کراچی) مجازؔ نمبر ص ۱۷۱)
آوارہ کے علاوہ مجازؔ کی کہی ہوئی نظمیں مثلاََ نذردل، مجبوریاں، نذرخالدہ، خواب سحر،آبنگ نو، آج بھی، لکھنؤ، اعتراف ،بتان حرم اور فکر وغیرہ بھی جمالیاتی مطالعہ کا تقاضہ کرتی ہیں۔
مذکورۂ بالا نظموں کے علاوہ مجازؔ کی تخلیق کردہ غزلیں بھی ان کے مخصوص تغزل کی بو قلمونی اور خیالات وجذبات ست رنگی قوس قزح کی دلکشی ودل ربائی کے سہارے ہمارے احساس شعروشباب اور نوخیز جلوہ ہائے جمال کی منفرد عکاسی کرتی ہیں۔یہاں پر اس بات کا ذکر غیر ضروری نہ ہوگا کہ دنیا میں جتنے بھی فنون لطیفہ ہیں وہ کم وبیش سبھی فلسفۂ جمالیات سے اکتساب فیض کرتے ہیں۔اس ضمن میں پروفیسر قاضی جمال حسین کا یہ محاکمہ قابل توجہ ہے:
’’ بام گارٹن نے حسن کے تمام مظاہر اور احساس حسن کی تمام کیفیات کو جمالیات کے دائرے میں شامل کیا تھا، خواہ اس حسن کا تعلق مناظر فطرت سے ہو، انسانی حسن یا فنون لطیفہ سے۔ ایسی ہر چیز اور ایسے تمام مظاہر حسن جن کا حسی ادراک مسرت بخش ہو اور جو ہمارے احساس جمال کو بر انگیختہ کرے ، جمالیاتی مطالعہ کا موضوع ہے‘‘
( جمالیات اور اردو شاعری ص ۱۳)
اس بیان کی روشنی میں غزلیات مجاز ؔ کا مطالعہ بلا شبہ مسرت بخش اور بصیرت افروز ہے۔بعض کم علم ،جلد باز اور تنگ نظر اشخاص غزل کو ایک محدود ، پسماندہ اور تنگ دامن صنف سخن سمجھتے ہیں جیسا کہ کلیم الدین احمد نے سمجھا اور سمجھایایا بعض نام نہاد ترقی پسندوں نے اس غلط نظریے کی تبلیغ کی ،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ غزل کی تثلیث (عاشق، محبوب اور رقیب) کا ئنات کی وسعتوں کو آشکار کرتے آئے ہیں۔ مجازؔنے نظمیں زیادہ کہیں اور غزلیں تعداد میں کم کہی ہیں لیکن جتنی کہی ہیں وہ فنی لحاظ سے بہت عمدہ ہیں۔ مثال کے طورپر یہ غزلیہ اشعار دیکھیے جو ایک سنجیدہ قاری سے مجازؔ کی صناعی اور فن کاری کی داد مانگتی ہے:
حسن کو بے حجاب ہوناتھا
شوق کو کامیاب ہونا تھا
ہجر میں کیف اضطراب نہ پوچھ
خون دل ہی شراب ہونا تھا
تیرے جلوؤں میں گھر گیا آخر
ذرے کو آفتاب ہونا تھا
کچھ تمھاری نگاہ کافر تھی
کچھ مجھے بھی خراب ہونا تھا
جس طرح رنگ برنگی مچھلیاں صاف و شفاف پانی میں ڈبکیاں لگاتی ہوئی خوبصورت نظر آتی ہیں بالکل اسی طرح ایک اچھی غزل کے اشعار رومانیت ، غنائیت اور جمالیت کے رس میں ڈوب کر پڑھنے اور سننے میں بھی اچھے لگتے ہیں اور معنویت اور تاثر کے لحاظ سے بے پناہ ہوتے ہیں ۔مثال کے طور پر یہ شعر دیکھیے:
فلک کی سمت کس حسرت سے تکتے ہیں معاذاللہ
یہ نالے نارسا ہوکر ، یہ آہیں بے اثر ہوکر
اس شعر میں معاذاللہ کی ترکیب کے عرفان سے شاعر نے جو فائدہ اٹھایا ہے وہ معنوی پہلو سے شعر وادب میں مجاز ؔ کا بہترین تحفہ ہے۔نالوں کی نارسائی اور آہوں کی بے اثری کا عالم ، امید وبیم اور حسرت ویاس کے ساتھ نیلے آسمان کو تکتے رہنے کا مزہ اسی کو ہوتا ہے جو ایک فطری جمال پرست عاشق کی طرح زخم کے کرب کی لذت سے آشنا ہو۔ اسی طرح کا ایک اور شعر :
یہ کس کے حسن کے رنگین جلوے چھائے جاتے ہیں
شفق کی سرخیاں بن کر تجلیِ سحر ہوکر
جب عاشق دل میں حسن محبوب کی یاد کو بسا کر آسمان کی طرف تکتا رہتا ہے تو فطری طور پر وہ بہ قدر ذوق نظر فضائے آسمانی سے فیض یاب ہوتا ہے ۔ شفق کی سرخیاں ، صبح کے خوبصورت اجالے کا اس کے دل ودماغ پر اثر پڑتا ہے۔ اس کی نگاہوں میں ایک جہان فکرو نظر آباد ہوجاتا ہے۔ایک غزل میں مجاز ؔ کہتے ہیں:
تو جہاں ہے زمزمہ پرداز ہے
دل جہاں ہے گوش بر آواز ہے
چھپ گئے وہ ساز ہستی چھیڑ کر
اب تو بس آواز ہی آواز ہے
آپ کی مخمور آنکھوں کی قسم
میری میخواری بھی اب تک راز ہے
ان اشعارکو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مجازؔ نے بغیر مضمون آفرینی کا مصنوعی سہارا لیے محض رومانی زبان ، ذاتی تجربات اور جذباتی لب ولہجہ استعمال کیا ہے۔ مذکورہ اشعار با لکل نجی عشق کے آئینہ دار ہیں لیکن ان میں جو رنگ جمال پوشیدہ ہے وہ ذاتی ہوکر بھی دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس مختصر سے محاکمے کے بعد یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مجازؔ کی شاعری میں جمالیاتی قدریں نظریۂ اظہاریت کی بہترین مثال ہے۔ آہنگ کی جملہ شاعری میں مجازؔ نے اپناجمالیاتی احساس اور حسن وعشق کے سربستہ رازوں کو تمام تر جزئیات کے ساتھ منعکس کیا ہے۔ یہاں پر یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ کلیات مجاز کا جمالیاتی مطالعہ ادبی مطالعے سے کہیں زیادہ وسیع النظری اور ہمہ گیر یت کا مطالبہ کرتا ہے۔
٭٭٭