Intekhab E Kalam Meer Abdulhai TabaN

Articles

میر عبد الحئی تاباں


انتخابِ کلام میر عبد الحئی تاباں

 

نہ کوئی دوست اپنا ، یار اپنا ، مہرباں اپنا
سناو¿ں کس کو غم اپنا ، الم اپنا ، فغاں اپنا

نہ طاقت ہے اشارے کی ، نہ کہنے کی ، نہ سننے کی
کہوں کیا میں ، سنوں کیا میں ، بتاو¿ں کیا بیاں اپنا

بہت چاہا کہ آوے یا ر ، یا اس دل کو صبر آوے
نہ یار آیا ، نہ صبر آیا ، دیا جی میں نداں اپنا

قفس میں بند ہیں ، بے بال و پر ہیں ، سخت بے پر ہیں
نہ گلشن دیکھ سکتے ہیں ، نہ اب وہ آشیاں اپنا

ہوا ہوں گم میں لشکر میں پری رویاں کی ہے ظالم
کہاں ڈھونڈوں ، کسے پوچھوں نہیں پاتا نشاں اپنا

مجھے آتا ہے رونا اپنی تنہائی پہ اے تاباں
نہ یار اپنا ، نہ دل اپنا ، نہ تن اپنا ، نہ جاں اپنا
٭٭٭

اک بار سر پہ ٹوٹ پڑی آ بلائے عشق
پوچھوں میں کس طبیب سے یارو دوائے عشق

یارو ، مرے طریق کو کیا پوچھتے ہو تم
شیدائے درد و رنج ہوں اور مبتلائے عشق

کرتا ہے مجھ کو جرمِ محبت سے سنگ سار
پھر پوچھتا ہے کیوں رے تجھے دوں سزائے عشق

یارب میں چوٹِ عشق سے ہوں سخت بے قرار
اے کاش اور رنج تو دیتا سوائے عشق

مانند گردِ باد میری مشتِ خاک کو
لے کر گئی کدھر کو اوڑا کر ہوائے عشق

کیا جانے کیا کرے گی وہ خانہ خرابیاں
تاباں کو بے طرح سے لگی ہے ہوائے عشق
٭٭٭

بچتا ہی نہیں ہو جسے آزارِ محبت
یارب کوئی نہ ہووے گرفتارِ محبت

کہتے ہیں میری نبض کے تئیں دیکھ کر بتاں
جینے کا نہیں آہ یہ بیارِ محبت

عاشق تو بہت ہوویں گے پر مجھ سا نہ ہوگا
دیوانہ و اندوہ و غم خوارِ محبت

ہر چند چھپاوے گا یہ تاباں نہ چھپے گا
ظاہر ہے ترے چہرے سے آثارِ محبت
٭٭٭

میں ہوکے ترے غم میں ناشاد بہت رویا
راتوں کے تئیں کرکے فریاد بہت رویا

گلشن سے جو وہ لایا بلبل نے دیا جس کو
قسمت کے اوپر اپنی صیاد بہت رویا

حسرت میں دیا جس کو محنت میں نہ ہوئی راحت
میں حال ترا سُن کر فرہاد بہت رویا

نشتر جو چبھایا تھا پر خون نہ نکلا تھا
کر فصد مری آخر فصّاد بہت رویا

کر قتل مجھے اُن نے عالم میں بہت ڈھونڈا
جب مجھ سا نہ پایا تو جلاد بہت رویا

جب یار مرا بگڑا خط آنے سے تاباں
تب حسن کو میں اُس کے کر یاد بہت رویا
٭٭٭

آشنا ہوچکا ہوں میں سب کا
جس کو دیکھا سو اپنے مطلب کا

آ کبھو تو مری طرف کافر
میں ترستا ہوں دیکھ تو کب کا

ہیں بہوت جامہ زیب پر ہم نے
کوئی دیکھا نہیں تری چھب کا

جب میں آیا عدم سے ہستی میں
آہ روتا ہی میں رہا تب کا

میرے روزِ سیاہ کو وہ جانے
دکھ سہا جس نے ہجر کی شب کا

بلبلو کیا کرو گے اب چھٹ کر
گلستاں تو اُجڑ چکا کب کا

اے طبیبو سوائے وصل کبھو
کچھ بھی درماں ہے عشق کے تپ کا

ہم تو تاباں ہوئے ہیں لا مشرب
مجملہ دیکھ سب کے مذہب کا
٭٭٭