Inteekhab E Kalam Shah Mubarak Aabro

Articles

شاہ مبارک آبرو


انتخابِ کلام شاہ مبارک آبرو

 

تمہارے لوگ کہتے ہیں کمر ہے

کہاں ہے کس طرح کی ہے کدھر ہے

لب شیریں چھپے نہیں رنگ پاں سیں

نہاں منقار طوطی میں شکر ہے

کیا ہے بے خبر دونوں جہاں سیں

محبت کے نشے میں کیا اثر ہے

ترا مکھ دیکھ آئینا ہوا ہے

تحیر دل کوں میرے اس قدر ہے

تخلص آبروؔ بر جا ہے میرا

ہمیشہ اشک غم سیں چشم تر ہے

٭٭٭

آج یاروں کو مبارک ہو کہ صبح عید ہے

راگ ہے مے ہے چمن ہے دل ربا ہے دید ہے

دل دوانہ ہو گیا ہے دیکھ یہ صبح بہار

رسمسا پھولوں بسا آیا انکھوں میں نیند ہے

شیر عاشق آج کے دن کیوں رقیباں پے نہ ہوں

یار پایا ہے بغل میں خانۂ خورشید ہے

غم کے پیچھو راست کہتے ہیں کہ شادی ہووے ہے

حضرت رمضاں گئے تشریف لے اب عید ہے

عید کے دن رووتا ہے ہجر سیں رمضان کے

بے نصیب اس شیخ کی دیکھو عجب فہمید ہے

سلک اس کی نظم کا کیوں کر نہ ہووے قیمتی

آبروؔ کا شعر جو دیکھا سو مروارید ہے

٭٭٭

گناہ گاروں کی عذر خواہی ہمارے صاحب قبول کیجے

کرم تمہارے کی کر توقع یہ عرض کیتے ہیں مان لیجے

غریب عاجز جفا کے مارے فقیر بے کس گدا تمہارے

سو ویں ستم سیں مریں بچارے اگر جو ان پر کرم نہ کیجے

پڑے ہیں ہم بیچ میں بلا کے کرم کرو واسطے خدا کے

ہوئے ہیں بندے تری رضا کے جو کچھ کے حق میں ہمارے کیجے

بپت پڑی ہے جنہوں پے غم کی جگر میں آتش لگی الم کی

کہاں ہے طاقت انہیں ستم کی کہ جن پہ ایتا عتاب کیجے

ہمارے دل پہ جو کچھ کہ گزرا تمہارے دل پر اگر ہو ظاہر

تو کچھ عجب نہیں پتھر کی مانند اگر یتھا دل کی سن پسیجے

اگر گنہ بھی جو کچھ ہوا ہے کہ جس سیں ایتا ضرر ہوا ہے

تو ہم سیں وہ بے خبر ہوا ہے دلوں سیں اس کوں بھلائے دیجے

ہوئے ہیں ہم آبروؔ نشانے لگے ہیں طعنے کے تیر کھانے

ترا برا ہو ارے زمانے بتا تو اس طرح کیوں کہ جیجے

آیا ہے صبح نیند سوں اٹھ رسمسا ہوا

جامہ گلے میں رات کے پھولوں بسا ہوا

٭٭٭

کم مت گنو یہ بخت سیاہوں کا رنگ زرد

سونا وہی جو ہووے کسوٹی کسا ہوا

انداز سیں زیادہ نپٹ ناز خوش نہیں

جو خال حد سے زیادہ بڑھا سو مسا ہوا

قامت کا سب جگت منیں بالا ہوا ہے نام

قد اس قدر بلند تمہارا رسا ہوا

دل یوں ڈرے ہے زلف کا مارا وہ پھونک سیں

رسی سیں اژدہے کا ڈرے جوں ڈسا ہوا

اے آبروؔ اول سیں سمجھ پیچ عشق کا

پھر زلف سیں نکل نہ سکے دل پھنسا ہوا

٭٭٭

کماں ہوا ہے قد ابرو کے گوشہ گیروں کا

تباہے حال تری زلف کے اسیروں کا

ہر ایک سبز ہے ہندوستان کا معشوق

بجا ہے نام کہ بالم رکھا ہے کھیروں کا

مرید پیٹ کے کیوں نعرہ زن نہ ہوں ان کا

برا ہے حال کہ لاگا ہے زخم پیروں کا

برہ کی راہ میں جو کوئی گرا سو پھر نہ اٹھا

قدم پھرا نہیں یاں آ کے دست گیروں کا

وہ اور شکل ہے کرتی ہے دل کو جو تسخیر

عبث ہے شیخ ترا نقش یہ لکیروں کا

سیلی میں جوں کہ لٹکا ہو آبروؔ یوں دل

سجن کی زلف میں لٹکا لیا فقیروں کا

٭٭٭

یہ سبزہ اور یہ آب رواں اور ابر یہ گہرا

دوانہ نہیں کہ اب گھر میں رہوں میں چھوڑ کر صحرا

اندھیری رات میں مجنوں کو جنگل بیچ کیا ڈر ہے

پپیہا کوکلا کیوں مل کے دے ہیں ہر گھڑی پہرا

گیا تھا رات جھڑ بدلی میں ظالم کس طرف کوں تو

تڑپ سیں دل مرا بجلی کی جوں اب لگ نہیں ٹھہرا

وہ کاکل اس طرح کے ہیں بلا کالے کہ جو دیکھے

تو مر جا ناگ اس کا آب ہو جا خوف سیں زہرا

ایسی کہانی بکٹ ہے عشق کافر کی جو دیکھے

تو روویں نہ فلک اور چشم ہو جاں ان کی نو نہرا

رواں نہیں طبع جس کی شعر تر کی طرز پانے میں

نہیں ہوتا ہے اس کوں آبروؔ کے حرف سیں بہرا

٭٭٭