Intekhab E Kalam Hasrat Azeemabadi

Articles

حسرتؔ عظیم آبادی


انتخابِ کلام حسرتؔ عظیم آبادی

 

 

عزیزو تم نہ کچھ اس کو کہو ہوا سو ہوا
نپٹ ہی تند ہے ظالم کی خو ہوا سو ہوا

خطا سے اس کی نہیں نام کو غبار ملال
میں رو رو ڈالا ہے سب دل سے دھو ہوا سو ہوا

ہنسے ہے دل میں یہ نا دردمند سب سن سن
تو دکھ کو عشق کے اے دل نہ رو ہوا سو ہوا

ستم گرو جو تمہیں رحم کی ہو کچھ توفیق
ستم کی اپنے تلافی کرو ہوا سو ہوا

تو کون ہے کہ ہو ملنے سے غیر کے مانع
دل اس کو ہاتھ سے اپنے نہ کھو ہوا سو ہوا

نہ سرگزشت مری پوچھ مجھ سے کچھ اے بخت
تو اپنے خوابِ فراغت میں سو ہوا سو ہوا

محبت ایک طرح کی نری سماجت ہے
میں چھوڑوں ہوں تری اب جستجو ہوا سو ہوا

بیان حال سے رکتا ہے حسرت اب یارو
نہ پوچھو اس سے نہ کچھ تم کہو ہوا سو ہوا
٭٭٭

ہے یاد تجھ سے میرا وہ شرح حال دینا
اور سن کے تیرا اس کو ہنس ہنس کے ٹال دینا

کر کر کے یاد اس کی بے حال ہوں نہایت
فرصت ذرا تو مجھ کو تو اے خیال دینا

اس زلف کج کے عقدے ہرگز کھلے نہ مجھ پر
کیوں اس کو شانہ کر کے ایک ایک بال دینا

میں مدعا کو اپنے محمل کہوں ہوں تجھ سے
گوش دل اپنا ایدھر صاحب جمال دینا

اس عمر بھر میں تجھ سے مانگا ہے ایک بوسہ
خالی پڑے نہ پیارے میرا سوال دینا

دیکھے ہے دور سے تو کہتا ہے بے مروت
یہ کون آ گھسا ہے اس کو نکال دینا

قابو ہے تیرا حسرت مت چھوڑ مدعی کو
دشمن کو مصلحت نیں ہرگز مجال دینا
٭٭٭

اس زلف سے دل ہو کر آزاد بہت رویا
یہ سلسلہ¿ الفت کر یاد بہت رویا

رحم اس کو نہ تھا ہرگز ہر چند بحال سگ
اس کوچے میں میں کر فریاد بہت رویا

مظلومی مری اور ظلم دیکھ اس بت کافر کا
رحم آیا ستم کے تئیں بے داد بہت رویا

دل غم سے نہ ہو خالی رونے سے مرا لیکن
تا ہو مرے رونے سے وہ شاد بہت رویا

اس عشق کی مجبوری ناصح پہ کھلی جب سے
کر منع محبت کا ارشاد بہت رویا

انجام محبت کا بوجھا تھا مگر اس کو
جب دل لگا شیریں سے فرہاد بہت رویا

ہے تازہ گرفتاروں کی فریاد کو کیا رقت
شب نالہ مرا سن کر صیاد بہت رویا

سنگیں دلی اس بت کی میں جس سے کہی حسرت
ہر چند دل اس کا تھا فولاد بہت رویا
٭٭٭

اب تجھ سے پھرا یہ دل ناکام ہمارا
اس کوچے میں کم ہی رہے گا کام ہمارا

ہے سخت مرے درپئے جاں تیرا غم ہجر
جاناں سے کہے جا کوئی پیغام ہمارا

جاگیر میں ہے غیر کی وہ بوسہ¿ لب گو
قائم رہے یہ منصب دشنام ہمارا

ہونے نہیں پاتے یہ مرے دیدہ¿ تر خشک
دولت سے تری تر ہے سدا جام ہمارا

دو دن میں کسی کام کا رہنے کا نہیں تو
کچھ تجھ سے نکل لے کبھی تو کام ہمارا

اک روز ملا عالم مستی میں جو ہم سے
تنہا بت بدمست مے آشام ہمارا

شمشیر علم کر کے لگا کہنے رکھوں ٹھور
بدنام تو کرتا پھرے ہے نام ہمارا

ایام کے ہر ذکر سے اور فکر سے فارغ
یا عشق ہے ورد سحر و شام ہمارا

ہوتا نہ فریبندہ ¿دل کاش کے حسرت
آغاز میں یہ عشق بد انجام ہمارا
٭٭٭

دامن ہے میرا دشت کا دامان دوسرا
میری طرح نہ پھاڑے گریبان دوسرا

یک رنگ ہوں میں اس گل رعنا کے عشق میں
بلبل نہ ہوں کہ ڈھونڈوں گلستان دوسرا

تھا ہی غم فراق ملا اس میں درد رشک
مفلس کے گھر میں آیا یہ مہمان دوسرا

تیری حیائے چشم سا دیکھا نہیں رقیب
یاں احتیاج کیا ہے نگہبان دوسرا

عریاں تنوں کے سر پہ تری خاک کو رہے
در کارواں نہیں سر و سامان دوسرا

کیجے ضمیر خاک کو آدم کی چھان اگر
اس شکل کا بن آوے نہ انسان دوسرا

جوع البقر رکھے یہ شیخ شکم پرست
اک خوان کھا کہے ہے کہاں خوان دوسرا

سیر عجب رکھے ہے تری جلوہ گاہ ناز
اس لطف کا کہاں ہے خیابان دوسرا

نقد دل اس کو دینا ہے حسرت ثواب و فرض
اس زلف سا نہ ہوگا پریشان دوسرا
٭٭٭