ADAB AUR INSAN BY IQBAL MAJEED

Articles

ادب اور انسان

اقبال مجید

اقبال مجید

کہتے ہیں کہ ہر عہد کے اپنے مخصوص ادبی رجحانات ہوا کرتے ہیں اور بقول احتشام حسین انہی رجحانات کے تحت اس عہد کی ادبی اور استعاراتی کائنات بھی مرتب ہوا کرتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ترقی پسند تحریک اس وقت وجود میں آئی جب نظریہ سازی کا دنیا میں چلن اور بول بالا تھا۔ مارکس کے نظریے نے لینن اور اسٹالن کو پید اکیا۔ سرمایہ داری کے نظریے نے فورڈ جیسے صنعت کار کو۔ مغائرت کے نظریے نے ہپّی نوجوانوں کی نسل کو اور گاندھی کے نظریے نے عدم تشدد پر اکتفا کرنے والے محکوم بیداروں کو پیدا کیا۔ یہی نہیں دنیا کے کالونائزر اپنی اپنی نوآبادیوں کے تحفظ ، بقا اور استحکام کے لیے قدم قدم پر نظریہ سازی میں لگے تھے۔ جب نظریہ پیدا ہوتا ہے تو اپنے تحفظ اور بقا کے لیے اس کی نفی کرنے والی ہر شے کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ کرتا ہے چاہے وہ آرٹ ہو یا ادب ، سائنس ہو یا فلسفہ۔ ایک اندازے کے مطابق سجاد ظہیر ساٹھ فیصد پارٹی کی سرگرمیوں میں مصروف رہتے اور چالیس فیصدترقی پسند ادبی تحریک کے کاموں میں۔ میرے خیال میں کسی کو یہ خوش فہمی نہ ہوگی کہ پنڈت نہرو نے سجاد ظہیر کو کانگریس کی آئیڈیالوجی کو پچھاڑنے اور اس کے برسوں کے کیے دھرے پر پانی پھیرنے اور ملک میں کمیونسٹ حکومت کے قیام کے لیے پاکستان سے ہندوستان بلایا تھا بلکہ جد و جہد آزادی میں کھدّر پہن کر آنند بھون میں اپنے ساتھ کام کرنے کے لیے اور فراق وغیرہ کی طرح جیل جانے کے لیے بلایا تھا۔ سجاد ظہیر کے لیے پہلے نظام حکومت کو بدلنا اور اس انقلاب کے ذریعے سماجی مسائل کو ٹھیک کرنا کتنا دشوار تھا اس کا جواب ہمیں ملک میں کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ اور سجاد ظہیر کی سوانح حیات سے مل جائے گا۔ لیکن آج ہم سجاد ظہیر کے عہد میں نہیں ہیں۔ ہمارے دیکھے ہوئے بیشتر خواب بکھر چکے ہیں۔ ماضی قریب کی تاریخ کے کُوبَڑ جو کبھی ہمیں پہاڑ جیسے لگتے تھے ، عہدِ حاضر کے کوبڑوں کے مقابلے میں بچکانے ہوچکے ہیں۔ نوعِ انسان کی بربریت کے تازہ منظر نامے نے چارلس لائل (Charles Lyell) کی کتاب Principles of Geologyکے ان خیالات کی تصدیق شروع کردی ہے۔
The most significant and dimunitive of species have each slaughtered their thousands why not we lords of creation do the same.
اس منظر نامے کو دیکھ کر دنیا کے مہذب انسانوں کے ختم ہوجانے کی چارلس ڈارون کی پیشن گوئی یاد آجاتی ہے۔ جس نے کہا تھا:
At some future period not very distant as measured in centuries, the civilized races of man will almost certainly eterminate and replace through out the world the savage races.
اس منطر نامے میں بھولے بھالے مولانا حسرت موہانی کی ترقی پسندی داستانِ پارینہ بن چکی ہے۔ روس کے انہدام اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد طاقتوروں نے اپنے اقتدار کی توسیع کے لیے جس طرح Proxy Wrasلڑی ہیں اور حفظِ ماتقدم کے نام پر سائنس اور ٹیکنالوجی کی برتری کے صدقے میں طاقت کا جس پیمانے پر ننگا ناچ ناچا ہے اور جس انداز میں انسانیت اور انسانوں کا قتلِ عام کیا ہے اس کی مثال تاریخ میں نہ ملے گی۔
اب Genetic Scienceنے یہ بات پایہ¿ ثبوت کو پہنچا دی ہے کہ سی آئی اے کے خون میں قدرتی طور پر سب سے زیادہ سرگرم رہنے والے خود پسند اور خود غرض جینس نے اپنی بقا کے لیے کہاں کہاں اور کون کون سے ظالمانہ کارنامے انجام دیئے ہیں۔ پریم چند کی معصوم ترقی پسندی کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ سی آئی اے نے مختلف ممالک میں اپنی نگرانی میں غیر قانونی افیون کی کاشت کروا کر پھر اسے ہیروئن بنانے والی فیکٹریوں میں آخری شکل دے کر اربوں ڈالر کی جو ناجائز دولت پیدا کروائی تھی وہ دولت اس نے مختلف ممالک میں اپنے ہی پیدا کیے ہوئے اور پالے پوسے ہوئے دہشت گردوں کو چوری چھپے اسلحہ فراہم کرنے پر خرچ کی۔ کیونکہ امریکن کانگریس سے درپردہ لڑی جانے والی Proxy Wars کے لیے قانونی فنڈ حاصل کرنا حکومت کے لےے مشکل ہوتا جارہا تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ سی آئی اے نے امنِ عالم کو سب سے بڑا نقصان پہنچایا وہ یہ تھا کہ اس نے تشدد کو پیدا کرنے، اس کے ذریعے دہشت پھیلانے، پرائیویٹ ملیشیاﺅں کو منظم اور مسلح کرنے اور پھر ممولے کو شہباز سے لڑانے کے خصوصی فن اور مہارت پر اپنی سب سے بڑی عالمی اجارہ داری قائم کی اور لاکھوں مظلوموں اور بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور آج بھی اتار رہی ہے۔
اب ذرا عہدِ حاضرکے ایک اور المناک پہلو پر نظر ڈالیے۔ علم و آگہی کی نئی صورتِ حال نوعِ بشر کو جس طرح خوف زدہ کیے ہے وہ ہمارے لیے کافی تشویشناک ہے۔ جیسے جیسے علم بڑھ رہا ہے انسان فطرت، تاریخ اور روح کی قوت کی جانب سے مشکوک اور بیزار ہوتا جارہا ہے۔ کرسچن سالمن نے ناول کے فن پر اپنے خیالات درج کرتے ہوئے وجود کی اس ناگوار اور ناقابلِ برداشت صداقت کی طرف یوں اشارہ کیا ہے:
”سائنس اور ٹیکنالوجی میں معجزاتی انکشافات اور ایجادات کرنے کے بعد فطرت کے مالک اور مختار انسان کو اچانک یہ احساس ہوا کہ وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہے، نہ فطرت پر (جو کرہ¿ ارض سے بتدریج معدوم ہورہی ہے) اس کا اختیار ہے ، نہ تاریخ پر (جو اس کے قابو سے نکل چکی ہے) اور نہ ہی خود پر (کہ وہ روح کے غیر منطقی تازیانے پر عمل کررہا ہے) لیکن اگر خدا کائنات سے رخصت ہوچکا ہے اور آدمی خود اپنا مالک اور مختار نہیں رہا تو پھر مالک و مختار کون ہے؟ کرہ¿ ارض بغیر کسی مالک اور مختار کے خلا میں گردش کررہا ہے؟ یہ ہے وجود کی ناقابلِ برداشت صداقت“
دوسری جانب ہمارے ٹی وی چینلوں کے چھوٹے پردے کو کرسچن سالمن کی اس بکواس سے کچھ لینا نہیں ہے۔ وہاں مقابلوں اور انعامات کے ذریعے عام لوگوں کو کروڑ پتی بنانے کی ایک ہوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ اگر ٹوائین بی جیسے عالموں کے یہ خیالات درست ہیں کہ تمدن کی ترقی کی سیڑھی پر انسان ایک قدم اوپر چڑھتا ہے تو اکثر دو قدم نیچے پھسل بھی جایا کرتا ہے اور یہ کمبخت انسان شہد کی مکھی کی طرح Conditioned Social Insectنہیں ہے کہ پھولوں سے شہد کشید کرکے اسے چھتے میں جمع کرنے کے عمل میں ہی ساری زندگی کاٹ دے کیونکہ انسان ہر دن اپنی منتخب کی ہوئی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں ملیامیٹ کرکے نئی زندگی منتخب کرتا ہے۔ تو کیا وہ ہردم بدلتے ہوئے Choicesیعنی انتخابات کا اسیر ہے اور ان کے بغیر ایک پل نہیں رہ سکتا اور یہی نہیں اس کے انتخاب میں گلوکار غلام علی اور بارود دونوں شامل ہیں۔ وہ ان میں کس کو کب قبول کرکے ، دوسرے کو مسترد کردے یہ قیاس لگانا مشکل ہے۔ کیونکہ کبھی کبھی وہ غلام علی سے بارود کا اور بارود سے غلام علی کا کام لینے کی بھی تمنا کرتا ہے۔
اب ذرا ایک اور حقیقت پر نظر ڈالیے جس کو ادراک کی افزائش نے خاصا پیچیدہ کردیا ہے، وہ یہ کہ فرد اور جماعت سے ہر نظام اقدار کے کچھ مطالبات ہوتے ہیں۔ فرد یا جماعت بے چاری ان مطالبات کی تکمیل کے لیے اپنی تمام تر قوتوں اور صلاحیتوں کو مسلسل خرچ کرتی رہتی ہے یہاں تک کہ فرد دوسرے کاموں کے لیے کھوکھلا ہوکر رہ جاتا ہے۔ پھر اسے یہ خیال آتا ہے کہ آخر ہم نے ایک فرد کی حیثیت سے کسی مخصوص نظامِ اقدار سے اپنا رشتہ کیوں قائم کیا تھا اور اس نے ہمیں کیا دیا اور کیا ہمارے اس رشتے کی کوئی معنویت اور مقصد تھا؟ بس یہیں پر یہ احساس بھی جاگتا ہے کہ کیا معنویت اور مقصدیت وہ چیز ہے جس کا ہماری ذات سے کچھ لینا دینا نہیں اور ہمیں صرف اسی حقیقت کو حقیقت مانتے رہنا چاہیے جو سماج اور ریاست کے ذریعے ہم پر لاد دی جائے تو کیا اس سے الگ ہٹ کر بھی کسی ترقی پسند فکر کا امکان ہے اور کیا وہ ترقی پسند فکر صرف کھلے اور آزاد معاشرے میں ہی ممکن ہے؟ اگر ہاں تو کیا ایسا کوئی آٹومیٹک تھرما میٹر ایجاد ہوسکتا ہے کہ جب معاشرے میں آزادی کا پارہ چڑھنے لگے یا کھلا پن زیادہ ہونے لگے تو وہ اسے سطح اعتدال پر لے آئے۔
جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں اس سے ہمارا بامعنی اور با مقصد رشتہ کیا ہے؟ اپنے پڑوسیوں سے، اپنے رشتوں کو با معنی اور بشر نواز بنانے کے لیے ہم آخر کن نئے اور موثر تخلیقی اوزاروں سے کام لیں۔ دنیا جیسا چاہتی ہے اگر ہم اسی طرح چلتے رہیں تو وہ کسی حد تک خوش رہتی ہے اور ہماری طرف بے فکر ہوجاتی ہے اور اگر ہم اپنے مفادات کی حفاظت میں کسی طور بھی مقابلہ آرائی پر اتر آئیں تو وہ ہمیں مٹا دینے کے درپے ہوجاتی ہے کیونکہ جیسا جو کچھ چل رہا ہوتا ہے اس میں ہم رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً سوشلسٹ انقلاب نے جو کچھ جیسا چل رہا تھا اس میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی۔ اس طرح بعض دانشوروں کے خیال میں ہماری تہذیب کی کہانی Status quoمیں رخنہ اندازیوں کی کہانی ہے تو پھر ہمارے موجودہ علم کے پاس اس سوال کا کیا جواب ہے کہ ہم نے کتنا کھو کر کتنا پایا؟ کیونکہ علم جس پر آج کی دنیا کو بہت ناز ہے اور جسے سب سے بڑی طاقت مانا جاتا ہے، اس کے معاملات بھی خاصے غور طلب ہیں۔ اگر علم میں بالا دستی کا مقصد طاقت میں بالا دستی حاصل کرنا ہے کہ علم ہی اصل طاقت ہے اور اس کے حاصل ہوجانے کے بعد اس طاقت کا مقصد اسے مظلوموں ، بے گناہوں ، ناداروں ، کمزوروں اور کم علموں کے خلاف استعمال کرکے خود کو مزید طاقتور بنانا ہے تو پھر لوگ سوال کرتے ہیں کہ ایسی طاقتور نسل اپنی حاصل کی ہوئی طاقت سے کسی کم طاقتور کے لیے دست بردار ہونا کیوں چاہے گی تو پھروہ صورت آخر کیا ہوگئی؟ کب ہوگی اور کیسے ہوگی کہ علم طاقت کا مترادف نہ بن کر بشر نوازی کا مترادف بن جائے۔ ہماری نمود کی کہانی میر تقی میر یہ کہہ کر پہلے ہی سنا چکے ہیں:
مری نمود نے مجھ کو کیا برابر خاک
میں نقش پا کی طرح پائمال اپنا ہوں
تو گویا نقشِ پا بنیں گے بھی اور پامال بھی ہوں گے۔ یہ انسان جو کچھ بھی ہے اور جیسا بھی ہے اور یہ ہزار شیوہ زندگی جو کچھ بھی ہے اور جیسی بھی ہے، انسان کو انھیں تِلوں سے تیل نکالنا ہے۔ اگر انسانی ذہن کی تکمیل میں نقص ہے تو ہمیں بہرحال اسے اس کی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کرنا ہوگا۔ اس ذہن سے ہم خواب دیکھتے ہیںاور یہ طے ہے کہ جانوروں اور انسانوں کے دیکھے ہوئے خوابوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ انسان اپنے خوابوں کو کسی حد اور کچھ دیر کے لیے آدھی ادھوری حقیقت میں ہی سہی Translate کرلینے کی قوت رکھتا ہے جبکہ یہ قیمتی وصف جانوروں میں نہیں ہے اور بغیر خوابوں کے نہ پچھلی ترقی پسندی ایک قدم آگے بڑھ سکی تھی اور نہ جدید ترقی پسندی بڑھ سکتی ہے۔ یہ سوچ کر کہ ’مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‘ ہاتھ پر ہاتھ رکھے تو نہیں بیٹھا رہا جاسکتا۔
٭٭٭