Adab Aur Maoshara by Qazi Jamal Husain

Articles

ادب اور معاشرہ

پروفیسر قاضی جمال حسین

ابتدائی دور سے لے کر دور جدید تک اردو کے شعری سرمایے کا مطالعہ اس حیثیت سے بھی دلچسپ و معنی خیز ہوگا کہ سماجی ڈھانچے میں تبدیلی کے زیر اثر محبت کاتصور اور محبوب کی شخصیت بھی متاثر ہوتی رہی ہے یہ تبدیلی انسانی تجربات و جذبات کے اتار چڑھا ؤ کا فطری نتیجہ ہے چنانچہ مغلیہ سلطنت کے عہد زوال میں محبوب کا کردار ان خصوصیات کا جامع نظر آتا ہے جو کسی بادشا ہ وقت کے لیے زیادہ موزوں تھیں کیو ں کہ بد نظمی ،لوٹ مار ،قتل وغارت گری کی کثرت کے باعث بادشاہ ہی عوام کی واحد جائے پناہ اور مرکزتوجہ تھا۔جاگیردارانہ نظام کی تخلیقات کے مطالعہ سے محبوب کا جو کردار ابھرتا ہے اور ا س کی شخصیت جن اوصاف وخصوصیات کی حامل نظر آتی ہے وہ ایک جفاکش ، ستم پیشہ ،اور سنگ دل حاکم وقت کو زیادہ زیب دیتی ہیں اور شاعر جو عوام کا نمائندہ ہے اس کے رحم و کرم ،توجہ و عنایت اورایک نظر کرم کا طالب ،اس کشمکش میں وہ بس ایک بے چارگی کی تصویر نظر آتا ہے۔ مزید برآں یہ کہ اخلاقی پابندیوں کی بنا پر محبو ب کی جانب سے ایک ادنیٰ التفات کا تصور بھی ناممکن تھا ایسی گھُٹی ہوئی اور تنگ فضا میں ظاہر ہے کہ محبت ایک المیہ کے سوا اور کیا ہوسکتی تھی ان حالات میں محبوب کی جو تصویر ہمارے سامنے آتی ہے وہ ایک ایسا شخص ہے جس کا معمول آئے دن کسی نہ کسی پر ظلم کرنا ،مشق نا ز کے نتیجے میں دوعالم کا خون کرنا ہے جس کا دشنہء مژگا ں ہمہ وقت لوگوں کو نیم بسمل اور بے جان کرنے کے بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے ۔گویا محبو ب انسانی جذبات سے عاری، محبت کی فطری خواہش سے محروم ایک ایسا ظالم ،تند خو اور سفاک بادشاہ تھا جس کے دل میں رعایا کے لیے کبھی نرم گوشہ نہیں ہوتا اور اسے ان پر ایک نگاہ غلط انداز ڈالنا بھی گوارا نہیں ،دنیا میں اور تو سب کچھ ممکن ہوسکتا ہے مگر معشوق اپنے چاہنے والا کا کبھی نہیں ہوسکتا ،بیچارہ عاشق اپنے اس محبوب کے قریب بھی نہیں بیٹھ سکتا، جس کی خاطر اس نے اپنے ایمان و آگہی تک کی پر وا ہ نہ کی ،اور پھر حد تو یہ کہ اس آداب عاشقی پر وہ نازاں بھی ہے۔
لیکن جب اخلاقی بندھنوں کے تنگ دائرے سے معاشرے کو نجات ملی اور جاگیردارانہ نظام حیات کی گرفت ہلکی پڑی تو محبوب کا مرمریں جسم قالب خاکی میں تبدیل ہوا اور رگ سنگ میں انسانی لہو دوڑنے لگا ،محبو ب کے دل میں بھی چاہنے اور چاہے جانے کی فطری خواہش بیدار ہوئی ۔عورتوں کی ہم نشینی ،بجائے اخلاقی جرم ،شرافت اور عزت کامعیار بنی۔ دولت کی فراوانی اور شجاع الدولہ جیسے حاکم وقت کے میلان طبع نے عورتوں کے اختلا ط کو اور بھی سہل بنادیا۔ چنانچہ جرأت ،مصحفی اور انشاء کی شاعری میں محبو ب کا جو کردار نظر آتا ہے وہ ایک ایسی عورت ہے جو محبت کا جواب نہ صرف محبت سے دیتی ہے بلکہ اظہار محبت میں جذباتی شوخی بلکہ سطحیت کو بھی معیوب نہیں سمجھتی جب یار کی جانب سے ہمیشہ ہی رخصت بیباکی و گستاخی میسر تھی تو بھلا لکھنؤ کے خو ش مزاج خجلت تقصیر کیوں کر گوارا کرتے ۔نتیجہ ظاہر ہے اس پورے سماجی نظام کا اثر شاعری پر بھی پڑا محبت کی جگہ جنسی جذبے نے اور پرد ہ نشین محبو ب کی جگہ شوخ و بے باک عورت نے لے لی ،جو اپنے عاشق کے گھر رات میں مہمان بھی ہوسکتی ہے ،عاشق کے اصرار پر نہ ماننے والی بات ،مان بھی سکتی ہے ۔ ملاقات کے وقت طرح طرح کے اشارے بھی ہوسکتے تھے ،جن کا جواب
’’دن ہے ابھی رات کے وقت ‘‘
جیسے الفاظ میںبھی دینے سے اسے عار نہیں ! ۱؎اب نہ تو محبوب میں وہ ایذارسانی ،بے باکی و سفاکی نظر آتی ہے اور نہ عاشق میں ذلت کی حدوں کو چھوتی ہوئی خاکساری ،محرومی اور نامرادی ۔یہاں شاعر ایک گوشت پوست کی عورت سے آشنا ہوتاہے جس کے سینے میں انسانی جذبات اور نسوانی خواہشات سے بھرا ہوا ایک دل ہے جس کا مظاہر ہ وہ اپنی عادات واطوارسے بھی کرتی ہے لیکن مختلف اقتصادی ،سیاسی اور تمدنی حالات

کل واقف راز اپنے سے وہ کہتا تھا یہ بات

جرأت کے یہاں رات جو مہمان گئے ہم

 

کیا جانیے کم بخت نے کیا ہم پہ کیا سحر

جو بات نہ تھی ماننے کی مان گئے ہم

اس طرح لکھنؤ کے مخصوص تمدن کی پروردہ شاعری میں محبوب کا کردار ایک ایسی عورت ہے جسے اپنے اور غیر سبھی چھیڑتے ہیں اوراسے اگر خوف ہے تو بس،کسی کے پس دیوا ر ہونے کا۔ ابواللیث صدیقی نے جرأت کے محبوب کے متعلق جو بات لکھی ہے وہ لکھنؤ کے تمام تر شعری سرمایے میں محبوب کے کردار کی نمائندگی کرتا ہے لکھتے ہیں:
’’جرأت کے دیوان کے مطالعہ سے معلو م ہوتاہے کہ ان کی محبوبہ ایک گداز بدن کی جوان عورت ہے ان کی محبت میں جنسی لگاؤ کا پہلو نمایاں ہے اس لیے وہ مضامین جن پر زیادہ زور دیاگیاہے دراصل نفسانی لذت کے اساس پر مبنی ہیں‘‘۔۱؎

کچھ اشارہ جو کیا ہم نے ملا قات کے وقت

ٹال کر کہنے لگا دن ہے ابھی رات کے وقت
ناسخ

چھیڑے ہے اس کوغیر تو کہتا ہے اس سے یوں

کوئی کھڑا نہ ہو پسِ دیوار دیکھنا
مصحفیؔ
۱؎ لکھنؤ کادبستان شاعری ،ابواللیث صدیقی ،ص ۱۵۲
کی تبدیلی کی بنا پر جب معاشرے نے پھر ایک نئی کروٹ لی اور نظام زندگی جاگیرداری سے سرمایے داری اور صنعتی تمدن میں داخل ہوا تو زندگی کے تقاضے بھی بدلے ، پرانے تہذیبی اقدارکی جگہ نئی تہذیبی قدریں منظر عام پر آئیں جن سے ادبی اقدار میں تبدیلیاں رونما ہوئیں ،زندگی کے متعلق انسانی رویہ بھی بدلا ۔ مسائل، فکریں،خارجی حالات،اور مادی حقائق نے فر دکے جذبے اور احساس ،فکر وشعور کو بھی متاثر کیا اب نہ تو اس کے سوچنے کا ڈھنگ پہلے کا سا رہا اور نہ اشیا کے متعلق اس کا رد عمل ۔
شاخ در شاخ سائنسی علوم کی کثرت اور وسعت ،حقیقت پسندی اور واقعیت ، کائنات اور کائنا ت کے مظاہرسے متعلق غیر جذباتی ،معتدل اور متوازن نقطئہ نظر پیچیدہ تر سماجی نظام سے ہم آہنگ ،حق ،حسن اور خیر کے نئے اصول و معیار نے شاعری میں محبت کے تصور اور محبوب کے کردار دونوں کو متاثر کیا ،اب محبت میں بجائے جذباتیت ایک سوچ اور گہری فکر کااحساس ہوتا ہے اب وصل کے سوا دوسری راحتیں بھی شاعر کا دامن دل کھینچتی ہیں اور زمانے کے دوسرے بہت سے غم اسے معشوق سے بیگانہ کردیتے ہیں شاعری میں اس نئی عورت کا ذکر کرتے ہوئے وزیر آغا نے لکھا ہے کہ :
’’نئی عورت کی ذہنی بلندی ،نزاکت اور شعریت کے پیش نظر غزل گو شاعر کو اظہار عشق میں کسی سپاٹ یا بے حد جذباتی طریق کے بجائے ایک ایسا پیرایہء بیان اختیار کرنا پڑا ہے جس میں لطیف اشاراتی عناصر کی فراوانی ہے اس میں بیشتر اوقات شاعر کے جذباتِ محبت میں عجیب سے ضبط و امتناع کا احساس بھی ہوتا ہے جس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ خود شاعر کے یہاں سوچ کا عنصر بڑھ گیا ہے دوسرے لفظوںمیں غزل گو شاعر کے یہاں جذبے اور فکر کا خوشگوار امتزج رونماہوا ہے جس کے باعث جذباتِ محبت میں ضبط و توازن اور رفعت کا احساس پیداہوتاہے ‘‘۔
محبت میں اسی ضبط وتوازن اور رفعت کے احساس نے جہاں جدید دور میں محبت کے تصور کو امتیاز بخشا ہے وہیں محبوب کی مخصوص روایتی شخصیت کو بھی متاثر کیا ہے چنانچہ اب وہ نہ تو محض ظالم ، جفاکار ،ستم پیشہ ہے اور نہ عریانیت ،فحاشی اور جسمانی لذت تک محدود کوئی طوائف ، بلکہ زمینی اوصاف کی حامل ایک ایسا کردا رہے جس میں کسی Normalعورت کے تمام جذبات ایک پُروقار ٹھہراؤ کے ساتھ نظر آتے ہیں ۔
دوپہر کی دھوپ میں مجھ کو بلانے کے لیے
وہ ترا کو ٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
اس پرسش کرم پہ تو آنسو نکل پڑے
کیا تو وہی خلوص سراپا ہے آج بھی

 

(حسرت)

(فراق)
تونے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لیے
اب یہی ترک تعلق کے بہانے مانگے
زندگی جن کی رفاقت پہ بہت نازاں تھی
ان سے بچھڑے ہیں تو اب آنکھ میں آنسو بھی نہیں

(شکیب)

(احمد فراز)

(زبیر رضوی)
ان اشعار میں محبو ب کا جو کردار ابھرتا ہے وہ جدید عہد کے تقاضوںسے نہ صرف ہم آہنگ ہے بلکہ ہمارے عہد کے شعرا کے طرز فکر اور ان کے وارداتِ ذہنی کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔زندگی کی الجھنیں ،ذہنی نا آسودگی،پراگندگی،اور یک گونہ بے حسی ،سب کچھ ان اشعار میں موجود ہے کہ شاعر جس معشوق کی رفاقت کو اپنا حاصل زیست سمجھتاہے ،شام فراق اس کی یاد میں آنکھوں سے جوئے خوں تو کیا اب ایک قطرہ آنسو بھی نہیں ٹپکتا کیوں کہ محبوب سے جداہو کر وہ کشمکش حیات میں کچھ ایسے کھو جاتا ہے کہ دنیا اور دنیا کی مختلف فکریں اسے محبوب کی یاد سے بیگانہ کردیتی ہیں اور حد تو یہ کہ موجود ہ زندگی کی روزافزوں پیچیدگیوں اور دشواریوں سے مجبور شاعر تنگ آکر اسی محبوب سے ترک تعلق کے بہانے ڈھونڈتا ہوا نظر آتاہے جس کی رسم وراہ کے لیے وہ مدتوں ترسا کیا تھا ۔ جب کہ معشوق شاعری کی روایات کے خلاف غیر متوقع طور پر عاشق کے تئیںمدتوں سراپاخلوص دکھائی دیتا ہے ۔
محبت کے تصور اور محبوب کے کردار میں عہد بہ عہدیہ تبدیلی ،اس کی بے اعتنائی ،ظلم اور سفاکی کی جگہ، شوخی، عریانیت ،اور ہوس پرستی کی یہ داستانیں اور پھر محبت کا میکانکی اور کاروباری انداز سب کچھ محض اتفاقی امور نہیں !اور نہ ہی کوئی غیبی کرشمہ ۔حقیقت یہ کہ پردوں پر بدلتی ہوئی یہ تصویریںپسِ پردہ تہذیبی اقدار اور معاصر سماجی نظام سے گہرا اور مضبوط رشتہ رکھتی ہیں کہ جوںجوں پس منظر میں عوامل اور محرکات بدلتے رہتے ہیں ادبی سرمایے سے ابھرنے والی یہ تصویریں بھی نہایت خاموشی سے اپنے اوصاف بدلتی رہتی ہیں۔
اس تمام گفتگو کاحاصل یہ ہے کہ ادب کی جملہ اصناف خواہ ان کا تعلق شاعری سے ہویا نثرنگاری سے ،اقتصادی ،سیاسی اور سماجی حالات سے بے نیا ز نہیں ہوتیں بلکہ تہذیبی قدریں شاعر کے تصور حسن اور نظریہء جمال سے لے کر دیگر ادبی اقدار تک کو متاثر کرتی ہیں حتی کہ خوب و نا خوب کے معیار بھی اس تہذیبی دباؤ اور تاریخی جبریت سے آزاد نہیں ہوتے معاشرتی حالات کے ہی زیراثر مختلف ادوار یں ادب کی نئی صنفیں وجود میں آتی رہی ہیںاور وقتاً فوقتاً شاعری کی نئی نئی صنفوں کو فروغ ہوتا رہا ہے غرض زبان سے لے کر موضوعات ، خیالات اور افکار، پھر اصناف ، ہیئتیں اور فنی وسائل سبھی کچھ ہم عصرتہذیبی اقدار اور سماجی حالات سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں اور اس طرح بہ نظر غائر ان خطوط پر ادبی سرمایے کا مطالعہ ہمیں مادی حقائق اور خارجی زندگی کو ادبی میلانا ت کے سلسلے میں کافی اہم بنادیتا ہے۔لیکن اصل مسئلہ اس سماجی دباؤ کی نوعیت کا ہے جو بہت سے غلط نتائج اور متعدد پیچیدگیوں کی وجہ بنتا ہے حالی نے ادب پر انھیں سماجی اثرات کے سلسلے میں لکھا ہے :
’’قاعدہ ہے کہ جس قدر سوسائٹی کے خیالات اس کی رائیں ،اس کی عادتیں ، اس کی نوعیتیں اس کا میلان اور مذاق بدلتا ہے اسی قدر شعر کی حالت بدلتی رہتی ہے اور یہ تبدیلی بالکل بے ارداہ معلوم ہوتی ہے کیوں کہ سوسائٹی کی حالت کو دیکھ کر شاعر قصداً اپنا رنگ نہیں بدلتا بلکہ سوسائٹی کے ساتھ ساتھ وہ خود بخود بدلتا چلا جاتا ہے شفائی صفاہانی کی نسبت جو کہا گیا ہے کہ اس کے علم کو شاعری نے اور اس کی شاعری کو ہجو گوئی نے بربادکیا اس کا منشا وہی سوسائٹی کادباؤ تھا اور عبید زاکانی نے جو علم وفضل سے دست بردار ہوکر ہزل گوئی اختیار کی یہ وہی زمانے کا اقتضا تھا‘‘۔۱؎
دراصل سوسائٹی کے ساتھ ساتھ شاعر یا ادیب کا خود بخود بدلتے رہنا اور اس تبدیلی کا بے ارادہ ہونا ہی قابل لحاظ ہے بہ صورت دیگر بہت سے معقول اور حق بجانب اختلافات پیداہوں گے جن کاجواب بھی جانب داری اور پہلے سے کسی طے شدہ نظریے کی حمایت کے سوا کچھ اور نہ ہوگا عہد اور ماحول تو خود اپنی ادبی اور فنی قدریں ساتھ لاتے ہیں جو ہر آن بدلتی ہوئی زندگی کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں اس میں فن کار کے شعور و ارداے کو بہت ز یادہ دخل نہیں ہوتا معاصر تہذیبی و اخلاقی قدریں ،مذہبی تصورات ،اقتصادی نظام ،سماجی ادارے اور سیاسی کشمکش یہ سبھی کچھ اس عہد کی ادبی تخلیقات میں موجود ہوتا ہے لیکن اثر اندازی اور اثر پذیری کا یہ عمل کچھ اتنا خاموش اور اس کی جہتیں اتنی غیر محدود ہوتی ہیں کہ ان کی نشان دہی خاصی دشوار ہوجاتی ہیں یہ مسئلہ اس وقت الجھتا ہے اور مشکل اس وقت اور پیدا ہوتی ہے جب نقاد درمیان میں آتا ہے اور ادب کو سماج یا ہیئت اجتماعی سے قریب تر لانے کی شعوری کوشش کرتا ہے جس کے نتیجے میں ادب کی اپنی ہیئت تبدیل ہونے لگتی ہے اور اس کی لے کچھ اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ادب بجائے فن ِلطیف کچھ اور ہی شکل اختیار کرلیتا ہے ادب میں سماجی شعور حقیقت نگاری اور جمالیاتی قدروں کے علاوہ فکر و نظر کی گہرائی ،اعلی آدرش ،افادیت ،زندگی کی ٹھوس اور متحرک حقیقتوں کا اظہار ،اجتماعی زندگی سے گہرا تعلق ، جیسے مطالبات سے شروع ہوکر ’بات‘سیاسی اغراض ،طبقاتی کشمکش اور سماجی اور معاشی مسائل کے براہ راست حل ڈھونڈنے تک جا پہنچتی ہے اور ادب محض کسی ایک گروہ اور ا س کے نظریات کی ترویج و

۱؎ مقدمہ شعر و شاعری ،خواجہ الطاف حسین حالی ،ؔص ۱۲۲
اشاعت کا آلہ ء کار بن کر رہ جاتا ہے ادب نہ تو بغاوت و انقلاب کا اسلحہ ہے اور نہ فسطائیت ، مناظرہ یا پروپیگنڈہ -اور فن -محض ز ندگی کا آئینہ دار ،ترجمان یا نقاد نہیں !بلکہ ز ندگی کے تجربات اور روحِ کائنات کا جمالیاتی و تاثراتی اظہار بھی ہے تاثر یا ذوق جمال سے عاری اظہار ،زندگی کی تفہیم تو کرسکتا ہے مگر سائنس یا فلسفہ کے نام پر ،جس کی نوعیت یا سطحیں ادبی اظہار سے قطعی مختلف ہوں گی۔ادب کے سماجی یا اجتماعی پہلو سے انکار مسلمات سے انکار ہوگا لیکن اس کی نوعیت غالباً یہ نہ ہوگی کہ وہ دور حاضر کی سماجی زندگی میں کھل کر حصہ لے ۔ظالموں کے ہاتھ سے عنان حکومت چھین کر بنی نوعِ ا نسان کے علم برداروں کو دے اور اپنی ساری تصویر یں اسی نقطئہ نظر سے بنائے ۔ اختر حسین رائے پوری نے ترقی پسند ادب و ادیب کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے یہ بات بھی لکھی ہے کہ :
’’ترقی پسند ادب صرف حقیقت پسند نہ ہوگا بلکہ اس کے سامنے حقیقت کا ایک صاف تخیل ہوگا او روہ ہر تصویر اسی نقطئہ نظر سے بنائے گا یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ہم اپنے سماجی فرض کو نہ سمجھیں…یعنی دور حاضر کی سماجی جنگ میں اس طبقہ کی تائید کرنا جو ظالموں اور غاصبوں کے ہاتھ سے عنان ِ حکومت چھین کر بنی نوعِ انسان کی آزادی کے علم بردارو ںکو دے رہا ہے ادب اپنا سماجی فر ض اس وقت تک ادا نہیں کرسکتا جب تک اس طبقے کا ہمنوا اور ہم گوش نہ ہوجائے ‘‘۔۱؎
مجنوں صاحب نے اگرچہ ترقی پسند ادیبو ںاور نقادو ں کے ان انتہا پسند انہ خیالات کو اپنے مضامین ’’ادب اور ترقی‘‘’’ادب کی جدلیاتی ماہیت‘‘ ادب اور مقصدوغیرہ ہیں بقدر امکان Justify کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کی مختلف تاویلیں بھی کی ہیں لیکن جب بنیادی نظریہ ہی ان توجیہوں کو قبول نہ کرتا ہو توایسی صورت میں یہ کوشش کس حد تک با رآور ہوسکتی ہے۔ چنانچہ اپنی انتہائی میانہ روی ،اور اعتدال پسندی کے باوجود ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ہمارے دور کی سب سے نمایا ںخصوصیت یہ ہے کہ اس وقت سرمایے و محنت کے تصادم کی شکل میں ہمارے سامنے سماجی نظام میں فساد پھیلائے ہوئے تھے ، یہ سرمایے دار اور محنت کرنے والوں کا جھگڑا دراصل گنتی کے چند قارونو ں اور خلق اللہ کا جھگڑا ہے اور ادیبوں اور فن کارو ںمیں ان دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کی نمائندگی کرنا ہے جیسا کہ وہ اب تک غیر شعوری طور پر کرتے رہے ہیں اس وقت غیر جانبداری نہ ممکن ہے ،نہ مفید ادیب یا شاعر کبھی اپنے دور کے خطرات وتصادمات سے بیگانگی نہیں برت سکتا ۔ترقی پسند جماعت اس سنگین حقیقت کو محسوس کرتی ہے اور دوسروں کو اس کی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہے‘‘۔۲؎

۱؎ ادب اور انقلاب ،اختر حسین رائے پوری ،ص۸۵۔۸۴
۲ ؎ ا دب اور زندگی ،احمد صدیق مجنوں ؔ،مضمون ’’نیا ادب کیا ہے، ص۲۲۲
مجنو ں صاحب کا مذکورہ بالا خیال اختر حسین رائے پوری ہی کی صدائے بازگشت معلوم ہوتاہے ۔ بنیادی نظریے میں کوئی اختلاف نہیں فرق صرف لہجہ اور طریق اظہار کا ہے کہ اختر حسین رائے پور ی کے لہجے میں شدت اور ادعائیت نمایا ں ہے جب کہ وہی خیالات مجنو ں صاحب کے یہاں لہجے کی نرمی اور علمیت کے ساتھ ساتھ وضاحتی انداز میں پیش کیے گئے ہیں ۔
شاعر یا ادیب سے سماجی فریضے کے اس مطالبے نے اصل مسئلے کو کافی حد تک پیچیدہ بنادیا
ہے کیوں کہ ایسی صورت میں ادبی فریضے مجروح ہوتے ہوئے دکھا ئی دیتے ہیں اولاً تو یہ کہ اس طر ح کے ادبی نظریات کا اگر تجزیہ کیا جائے اور قدرے ٹھہر کر صورت حال سمجھنے کی کوشش کی جائے تو خود عبارتوں کا داخلی تضاد اور اضطراب ادب کے قاری کو کسی واضح نتیجے تک پہنچنے اور پھر اسے قبول کرنے سے باز رکھتا ہے مثلاً مذکورہ عبارت ہی سے جو حقائق سامنے آتے ہیں وہ یہ کہ :
۱۔ہمارے دور کی خصوصیت سرمایے اور محنت کا تصادم ہے ۔
۲۔ نتیجتاً سماجی نظام میں فساد پھیلا ہوا ہے ۔
۳۔یہ فسا دچندقارونوں اور خلق اللہ کا جھگڑا ہے۔
۴۔ ادیب اور فن کار کو ان دونوں (قارونوں اور خلق اللہ)میں سے کسی ایک کی نمائندگی کرنا ہے ۔
۵۔ فن کار اب تک یہ نمائندگی غیر شعوری طور پر کرتا رہا ہے ۔
۶۔ اس تصادم یا فسا د کے وقت ادیب کی غیر جانب داری ممکن نہیں !
۷۔غیر جانب داری مفید بھی نہیں ۔
۸۔فن کار اپنے دور کے خطرات و تصادمات سے بیگانگی نہیں بر ت سکتا ۔
۹۔ترقی پسند جماعت نے اس حقیقت کو محسوس کیا ہے اور دوسروں کو بھی اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہے ۔
سماج میں پھیلے ہوئے فساد یا جھگڑے میں فن کار کا پڑنا ہی کیوں ضروری ہے اگر وہ قارونوں اور خلق اللہ کے بیچ ہونے والے اس فساد میں ہاتھ نہیں بٹاتا تو کیا یہ فسا د فرو نہیں ہوسکتا ؟اور کیا اس کے حصہ لینے سے مصالحت کی کوئی صورت نکل ہی آئے گی ۔مارکس کے نظریۂ جدلیت کے رو سے ہر قوت خود اپنے اندر ہی اپنی ضد کا مادہ بھی رکھتی ہے جن کی باہمی آویزش کائنا ت کو حرکت اور نموبخشتی رہتی ہے ۔ طبقاتی جد و جہد ،سماج میں انقلاب اور اس کی ترقی کاوسیلہ بنتا ہے ۔پھر سماج کا یہ طبقاتی اختلاف اقتصادی بنیادوں پر ہے جس کا تعلق ذرائع پیداوار وغیرہ سے ہے نہ کہ شاعری سے۔پھر یہ کہ طبقاتی کشمکش کے بعد وجود میں آنے والا نیا سماج طبقاتی اونچ نیچ یا اختلاف سے پاک نہیں ہوتا بلکہ ظلم کی نئی نئی شکلیں اور کشمکش کی نئی صورتیں پیدا ہوجاتی ہیں ایسی صورت حال میں بے چارہ شاعر اس جھگڑے میں حصہ لے تو کیا ،اور نہ لے تو کیا، معاشرے کا یہ تضاد اور کشمکش اگر ختم ہوتو سماجی حرکت اور اس کی ترقی متاثر ہوتی ہے اور یہ تصادم اگر جاویدانی ہے تو ادیب کے حصہ لینے سے فائدہ ہی کیا ہوا ۔اگر وہ شریک نہیں بھی ہوتاتو بھی تصاد م تو چلتا ہی رہے گا ۔
اس کے بعد جو دشواری نظرآتی ہے وہ یہ کہ بقول فاضل نقاد اگر ادیب نے اب تک غیر شعوری طور پر اس سرمایے و محنت کے تصادم میں کسی ایک کی نمائندگی کی ہے تو حسب روایت غیر شعوری طور پر وہ آ ئندہ بھی نمائندگی کرتا رہے گا۔ نمائندگی کے لیے اس درجہ اصرار اور تاکید کی کیاضرورت ؟ اگر نمائندگی کی اس تاکید سے کسی مخصوص طبقہ (خلق اللہ )کی شعوری نمائندگی کی طرف اشارہ ہے تو ادیب کافکر و شعور ،جو اس کے تجربات و مادی حالات کا نتیجہ ہے محض اس اشارے سے بدلا نہیں جاسکتا ۔
مجنو ں صاحب کایہ بھی خیال ہے کہ اس تصاد م کے وقت ادیب کی غیر جانب داری ممکن ہی نہیں جس کی رو سے غیر جانب داری کے مفید اور مضر ہونے کی بات ہی قطعاً بے معنی ہے کیوں کہ اس کا تو امکان ہی نہیں مضر یا مفید ہونے کی بحث تو جب اٹھتی ہے کہ اس غیر جانب داری کا امکان ہوتا ۔
آگے لکھتے ہیں کہ ’’فن کار اپنے دور کے خطرات و تصادمات سے بیگانگی نہیں برت سکتا ‘‘ اس عبارت کامفہوم یا تو بیگانگی کے امکان کی نفی ہوسکتا ہے یا زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ فن کار کو ہرگز بیگانگی نہیں برتنا چاہیے کہ اس بیگانگی کی صورت میں وہ اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں کوتاہی کرے گا اور فن کا ر کہے جانے کا مسحق نہیں ہوگا ۔
مفہوم کے پہلے امکان کی رو سے یہ کون سی مخفی حقیقت تھی جس کا ادراک ترقی پسند جماعت نے کرلیا ہے اور جس سے 1936ء سے قبل لوگ بے خبر تھے اور بالفرض اگر بے خبر بھی تھے تو اس بے خبر ی سے نقصان ہی کیا تھا اور اس حقیقت کے عرفان سے فائدہ ہی کیا پہنچا کہ ادیب اپنے دو ر کے تصاد مات سے بیگانہ نہیں رہ سکتا ۔ا س علم سے پہلے بھی ادیب بیگانہ نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے کیوں کہ مفروضے کی رو سے بیگانگی محال ہے ۔ترقی پسند جماعت دوسروں کو بھی کیوں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہے دوسروں کو اگر اس حقیقت کا عرفان ہوجائے کہ ’’فن کار کا اپنے دور کے خطرات سے بیگانہ رہنا محال ہے ‘‘تواس سے ادب کے سلسلے میں کیا نئے امکانا ت پیداہوجائیں گے۔
عبارت کے مفہوم کی دوسری صورت یہ تھی کہ فن کار کو بیگانہ نہ ہوناچاہیے ورنہ وہ فن کار کہے جانے کا مستحق نہ ہوگا ‘‘اس توجیہ کے پیش نظر ان فن پاروں کا کیا ہوگا جن میں اپنے دور کے کسی خطرے یا تصادم کا ذکرنہیں مثال کے طور پر:
اسد بندِ قبائے یار ہے فردوس کا غنچہ
اگر وا ہو تو دکھلا دوں کہ اک عالم گلستاں ہے
یا
نشۂ رنگ سے ہے واشدِ گل
مست کب بند قبا باندھتے ہیں
کیا ہم ان اشعار کو فن پارہ یا غالب کو فن کار محض اس بنیاد پر نہ کہیں کہ ان اشعار میں اپنے دور کے کسی خطرے کا ذکر نہیں ۔
یہ صورت حال محض مجنو ں صاحب تک محدود نہیں بلکہ مجنوں کامعاملہ ان کے وسیع مطالعہ ، گہری فکر اورشعر و ادب کے ستھر ے ذو ق کی بنا پر دیگر ترقی پسند شاعروں ،ادیبو ںاور نقادوں کے مقابلے میں بہت سلجھا ہوا ہے ۔اختر حسین رائے پوری کے تنقید ی نظریات کاجائزہ لیتے ہوئے شارب ردولوی نے جو نتائج نکالے ہیں اور ان کے متعلق جن خیالات کااظہار کیا ہے بڑی حد تک درست ہیں لکھتے ہیں :
’’اسی لیے اختر حسین رائے پوری کے یہاں ادبی تنقید سماجی اور عمرانی تجزیہ معلوم ہونے لگتی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ وہ ادب کوکمیونسٹ پارٹی کا آلہ کار بنانا چاہتے ہیں ان کی اس انتہا پسندی کے اشارے ان کے مضامین میں اکثر نظر آتے ہیں‘‘۔
آگے چل کر لکھتے ہیں :
’’وہ ادب کو ایک ماہر اقتصادیات اورسماجیات کی رپورٹ کی طر ح دیکھنا چاہتے ہیں وہ مارکس کے نظریات کے ایک جذباتی معلم اور مبلغ کی طرح آئے اور چوں کہ جذباتیت میں گہرائی و گیرائی نہیں ہوتی ہے اس لیے بہت جلد ان کے یہاں اس کا رد عمل شروع ہوگیا اور و ہ اس سے الگ ہوگئے ۔ان کے اسی اندا ز و رجحان کی دجہ سے انھیں سائنٹفک نقاد یا صحت مند مارکسی نقادوں میں شمار نہیں کیا جاسکتا‘‘۱؎
ادب کو معاصر تہذیبی اثرات و اقدار سے قریب تر لا نے کی اس انتہا پسندانہ شعوری کوشش
نے دوسری جانب بھی نقادوں کی ایک صف کھڑی کردی اور حقیقت ان دونوں انتہاؤں کے بیچ کہیں گم ہو کر رہ گئی۔یہ رد عمل ایک فطری امر تھا جس نے ادب میں سماجی حقائق کی اہمیت سے یکسر انکار کیا اور ادب کو فن کار کامحض شخصی اظہار قرار دیا چنانچہ کلیم الدین احمد کا خیال ہے کہ :
’’سماجی حالات سے ادب پیدا نہیں ہوتا اورنہ ہوسکتا ہے آرٹ کاوجود فن کار کی کاوشوں سے ہوتا ہے سماج کی کاوشوں سے نہیں ہوتایہ ایسی روشن حقیقت جس سے سمجھدارآدمی انکار نہیں کرسکتا مارکسی نقاد اس روشن حقیقت پر پرد ہ ڈالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں وہ ادب اور فن کی تخلیق میں فن کاروں کی انفرادیت کو کم ازکم اہمیت دیتے ہیں ‘‘۲؎

۱؎ جدید اردو تنقید ،اصول و نظریات ،شارب ردولوی ،ص۳۵۹۔۳۵۸
۲ ؎ اردو تنقید پر ایک نظر ،کلیم الدین احمد ،ص۱۹۱
یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ مارکس کے اقتصادی نظریات کی روشنی میں اد بی تنقید فن کار سے جس قسم کے سماجی شعور اور اجتماعی افادیت وغیرہ کا مطالبہ کرتی ہے اس سے ادیب کی آزادی اور ادب کافنی پہلو مجروح ہوتا ہے۔ اور یہ مارکس سے انتہائی ارادت کانتیجہ ہے کہ اس کے سماجی و اقتصادی نظریات کو فنو ن لطیفہ اور شاعری تک میں راہ دی گئی ۔بلکہ اس کے اصول و معیار تک مارکس کے فلسفے کی روشنی میں وضع کیے گئے۔ چنانچہ کلیم الدین احمد نے احتشام صاحب کی تنقیدی بصیرت کا جائزہ لیتے ہوئے ان پر جہاں اور بہت سے اعتراضات کیے ہیں وہیں یہ بات بھی کھل کرکہی ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں مارکس کی زبان سے کہتے ہیں ۔جو کچھ دیکھتے ہیں مارکس کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔اور خود مارکس کاحال بقول احسن فاروقی یہ ہے کہ :
’’مارکس کی تصانیف کامطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالکل یک طرفہ ذہن والا انسان تھا اور وہ سوشل تاریخ ہی کی عینک لگا کر ہر چیزکو دیکھتا تھا…مارکس بھی ادب میں وہی چیزیں دیکھتا ہے جو سوشل تاریخ اور کشمکش کے نقطئہ نظر سے اہم ہیں ۔ ایسی ہی چیزوں کو یکجاکردینا مارکسی تنقید کہلاتی ہے ‘‘۔۱؎
چنانچہ واقعہ ہے کہ بجائے فنی خوبیوں اور خامیو ں کے مارکسی نقاد کسی ادبی تخلیق کے قدر و معیار کے سلسلے میں مادی فلسفہ ،اجتماعی نظام ، سماجی تجزیہ ،تاریخی شعور ،جدلیاتی ماہیت ، طبقاتی تضاد،جہد ِحیات اور اقتصادی بنیادوں ہی کی بات کرتا ہے جن سے ادب یقینی طور پر متاثر تو ہوتا ہے لیکن اولاً تو یہ کہ اس اثر پذیری کی نوعیت دیگر علوم سے قطعاً مختلف ہوتی ہے اور جو فن کار کی تخئیل اور جذبے سے ہم آمیز ہوکر اپنی شناخت قطعا ختم کردیتی ہے اور ثانیاً یہ کہ ان امور کے علاوہ بھی دوسرے بہت سے شخصی عوامل ہیں جن سے ادب اور ادیب متاثر ہوتاہے اور جنھیں نظر انداز کرنے کے بعد ادب کی افہام و تفہیم ناممکن ہوگی ۔

۱؎ فن تنقید ،احسن فاروقی ،مشمولہ تنقیدی نظریات ،حصہ دوم، ص۱۶۶