AIK TAHZEEBI MURAQQA : KAI CHAAND THEY SAREY AASMAN

Articles

ایک تہذیبی مرقع: کئی چاند تھے سرِ آسماں

معید رشیدی

معید رشیدی

ایک تہذیبی مرقع: کئی چاند تھے سرِ آسماں

کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں بعض اوقات اپنی مرضی کے بغیر بھی ہم تسلیم کرلیتے ہیں ۔ ادب کا جس طرح ایک اجتماعی منظرنامہ ہوتا ہے ، اسی طرح اس منظرنامے یا اس کے کسی مخصوص پہلو سے متعلق ہماری اجتماعی رائے بھی ہوتی ہے جس کا اعتراف بعض حضرات کھل کر ، بعض دبی زبان میں اور بعض خاموش رہ کر کرتے ہیں ۔ علمی بنیادوں پر شمس الرحمن فاروقی قاموسی شخصیت کے مالک ہیں ۔ اس سے ان کا سخت سے سخت مخالف بھی انکار نہیں کرتا۔ان کا ناول ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ اردو کی پہلی کتاب ہے جسے پینگوئن انڈیا نے 2006میں شائع کی تھی ۔’امراو¿جان ادا‘ اور ’ آگ کا دریا ‘ کے بعد جو ناول سب سے زیادہ زیر بحث ثابت ہوا ہے وہ ’ کئی چاند تھے سر آسماں‘ ہے ۔ اس ناول کا ہندی اور انگریزی اڈیشن بھی شائع ہوکر مقبول ہوچکا ہے ۔ اگر کسی متن سے کثرت و شدت کے ساتھ اختلاف و اعتراف کیا جائے اور اختلاف یا اعتراف کرنے والوں کی کثیر تعداد صف اول کے مصنفین و ناقدین کے علاوہ طلبہ اور عام قارئین تک پہنچ جائے تو اس واقعے سے ایک نتیجہ تو کوئی بھی آسانی سے اخذ کرسکتا ہے کہ موضوع بحث متن کوئی عام تحریر نہیں ہے اور اسے آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔جب وہ متن اپنی سرحدوں کو توڑ کر عالمی سطح پر موضوع گفتگو بن جائے تو لامحالہ اس کی اہمیت کا معترف ہونا پڑتا ہے ۔
’کئی چاند تھے سر آسماں ‘ کی اہمیت اور تخلیقی حیثیت کااستقبال و اعتراف کرنے والوں کی کمی نہیں ۔ THE MIRROR OF BEAUTYکے نام سے اس ناول کی انگریزی میں اشاعت نے فاروقی صاحب کو یقینا Celebrityہونے کا عالمی اعزاز بخشا ہے ۔ حالیہ برسوں میں ہندوپاک میں جو لٹریچر فیسٹول منعقد کیے گئے ، ان میں اس ناول پر سیر حاصل گفتگو کی گئی اور اردو، ہندی اور انگریزی کے اخباروں نے بھی اس کے متعلقات کو اپنے صفحات سے مزین کیا۔2015کے DSC Prize for South Asian Literatureکے آخری منتخب پانچ ناموں میں جب اس ناول کا انتخاب ہوا تو اہل اردو کی نظر اس ناول پر نہیں بلکہ انعام کی رقم پچاس ہزار امریکی ڈالر پر تھی ۔ اطلاعاً عرض ہے کہ اس انعام کے لیے ہند نژاد امریکی مصنفہ جھمپا لہڑی کے نام کا اعلان کردیا گیا ہے ۔ افسوس ہوا کہ اردو میں لکھی گئی ایک کتاب اپنے تمام استحقاق کے باوجود انعام سے محروم رہی ، لیکن اس سے فاروقی صاحب کی علمی حیثیت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ ان کی علمی اور تخلیقی حیثیت کا اعتراف کرنے والوں میںنوبل انعام یافتہ ترکی مصنف اورہان پاموک نے لکھا ہے :
An erudite,amazing historical novel,elegiac in tone and written with heartfelt attention to the details and the rituals of a lost culture.
پاکستانی انگریزی ناول نگار محمد حنیف نے اس ناول کو ہندوستانی ناولوں کا کوہ نور قرار دیا ہے اور اس کے شکوہ، چمک اور پراسراریت کا اعتراف کیا ہے ۔ پاکستان نژاد برٹش ناول نگار ندیم اسلم نے اس ناول کو پراسرار بتاتے ہوئے کہا ہے کہ فاروقی نے اس ناول کو Historyاور Illusionکے تانے بانے میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ بُنا ہے ۔ پاکستان نژاد کینیڈین ناول نگار مشرف علی فاروقی ،The Annual of Urdu Studiesکے مدیرمشہور ادیب و مترجم محمد عمر میمن، ہندی کے ادیب وشوناتھ ترپاٹھی، وندناراگ،کیدارناتھ سنگھ کے علاوہ غیر اردو داں طبقے کا ایک اہم ادب دوست حصہ اس ناول کی تعریف میں رطب اللسان ہے ۔ اس ناول سے متعلق اردو میں لکھے گئے مضامین پر مشتمل ایک مکمل کتاب ’ خدا لگتی ‘ [مرتبہ : لئیق صلاح /سید ارشاد حیدر]شائع ہوچکی ہے ۔اس ناول پر اردو کے بعض اہم مصنفین کرشن موہن، اسلم فرخی ، افضال احمد سید، انورسدیدوغیرہ نے اظہار خیال کیا ہے ۔ اردو کے مصنفین میں ہم صرف انتظار حسین کے دو اقتباسات درج کرنا چاہتے ہیں ۔پہلا ان کے ایک مکتوب کا اقتباس ہے اور دوسرا ’دی ڈان‘ میں چھپے انگریزی میں لکھے گئے ایک تبصرے کا اقتباس :
بھائی میں نے آپ کا لوہا مان لیا۔ اگر اس سے پہلے کوئی عزیز مجھے بتاتا کہ فلاں صاحب نے بہت علمی مطالعہ اور تحقیق کے بعد ایک ناول لکھا ہے ۔ لکھا ہوگا ۔ اگر وہ قرآن کا جامہ پہن کربھی آتا اور مجھے قائل کرنے کی کوشش کرتا تو میں قائل نہ ہوتا ۔ سو میں نے ایک شک کے ساتھ پڑھنا شروع کیا تھا۔ مگر رفتہ رفتہ جادو چڑھنا شروع ہوااور ایسا چڑھا کہ میرے سارے شک رفو چکر ہوگئے ۔
مدتوں کے بعد اردو میں ایسا ایک ناول آیا ہے جس نے ہندوپاک کی ادبی دنیا میں ہلچل مچادی ہے ۔….یہاں ہم تاریخ کو تخلیقی طور پر فکشن کے روپ میں ڈھلتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔….ہم اسے زوال آمادہ مغلیہ سلطنت کے آخری برسوں کی دستاویز کہہ سکتے ہیں ۔
جہاں ملکی اور غیرملکی سطح پر اعتراف کی یہ سطح ہو وہاں اردو کے ایک پروفیسر صاحب نے مجھے مشورہ دیا کہ بھائی مضمون لکھنے سے پہلے آپ اسے بطورناول تو Establishکرلیجیے! ۔گویا ہندوستان کے اردوحلقوں میں اب تک یہی طے نہیں ہوسکاہے کہ یہ متن ناول ہے بھی یا نہیں ۔ ہمارے بعض احباب کو اس ناول کے موضوع اور بعض کو زبان اور بعض کو دونوں پر سخت اعتراض ہے ۔ ہر شخص کو اختلاف کا حق ہے لیکن اس اختلاف میں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ہم ایک ہی جھٹکے میں کسی شخص کی زندگی بھر کی بصیرتوں کو منسوخ کردیتے ہیں اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا ۔ ہر اہم اور بڑے متن میں اعتراف اور اختلاف کی صورتیں موجود ہوتی ہیں ۔ ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ’آگ کا دریا‘ کو غیر اہم اور اوسط درجے کا ناول مانتے ہیں ، لیکن جب عالمی سطح پر اس کا اعتراف کیا جاتا ہے تو ذہن سوچنے پر مجبور ہوتا ہے۔ 2008 میںفرانسیسی مصنف زین میری گوستاو¿لے کلے زیو (Jean-Marie Gustave Le Clézio) کو اس کے ناول پرادب کا نوبل پرائز دیاگیا تھا۔سات دسمبر 2008کے نوبل لکچر میں اس نے دنیا کے چند اہم نظرانداز کیے گئے مصنفین میں قرةالعین حیدر کا نام لیا تھا اور ان سب کے ساتھ اس نے عینی کے نام اپنے نوبل انعام کو منسوب کیا تھااور اعتراف کیا تھا کہ قرةالعین حیدر کو ’آگ کا دریا‘ کے لیے نوبل انعام کا مستحق قرار دیا جانا چاہیے تھا۔علم کی ناقدری کے اس عہد میں کس سے گفتگو کی جائے اور کسے قائل کیا جائے ۔ ہمارے یہاں اکثر ادبی فیصلے ذاتی رویوں اور سودوزیاں کی میزان پر کرلیے جاتے ہیں ۔
’کئی چاند تھے سر آسماں ‘ کا متن اگر ناول نہیں تو کیا ہے ؟اس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے ۔ اگر کمزور ناول ہے تو اس کے لیے دلائل کا فقدان ہے ۔ صرف یہ کہہ دینا کہ تاریخ کو موضوع بنایا گیا ہے اور اس کے بیانیہ میں تاریخی کتب اور قدیم لغات سے استفادہ کیا گیا ہے ، اس لیے فرسودہ اور بے کار ہے ، قطعی مناسب نہیں ۔اسی بات کو اگر تعریف کے پیرایے میں کہا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ فاروقی صاحب نے انیسویں صدی کی ہنداسلامی تہذیب کو اس کی پوری گہرائی ، لطافت اور طاقت کے ساتھ تخلیق کیا ہے ۔ ا س لیے یہ تاریخ نہیں ماضی کی بازیافت ہے ۔یہ تاریخ نہیں تہذیبی مرقع ہے ۔ اگر تاریخ پر اصرارہی مقصود ہو تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ ناول تاریخ کی از سر نو تخلیق ہے ۔ وزیر خانم کی صورت میں ایک تاریخی اشارے کو انیسویں صدی کے حسن کازندہ شہکار(Celebrated beauty) بنادیا ہے اور یہ شہکار انیسویں صدی کے ہندوستان کا چہرہ بن گیا ہے ۔یہ اس تہذیب کا حوالہ ہے جس میں تہذیب شاعری اور شاعری تہذیب میں گھل گئی تھی ۔یہ ناول اقبال کے ایک مصرعے کی تعبیر ہے :”دردوداغ و سوز و سازو جستجو و آرزو“۔فاروقی صاحب اسے تاریخی ناول نہیں مانتے جبکہ قارئین کا ایک بڑا طبقہ اسے تاریخی ناول ہی کی حیثیت سے پڑھتا ہے ۔مصنف کا اصرار ہے کہ یہ تاریخ نہیں ، تہذیبی مرقع ہے ۔یعنی تہذیبی نقوش یہاں مختلف رنگوں میں متحرک نظر آتے ہیں ۔ اس ناول میں تاریخ کی صحت سے زیادہ تہذیب کی صحت کا خیال رکھا گیا ہے ۔ اکثر کردار تاریخ کا زندہ حوالہ ہیں ۔ غالب ، مومن ، ذوق ،حکیم احسن اللہ خان،گھنشیام لال عاصی،ظہیر دہلوی، مرزا فخرو، نواب یوسف علی خاں،صہبائی ، نواب شمس الدین احمد، داغ دہلوی ، بہادر شاہ ظفر، ولیم فریزر، مارسٹن بلیک وغیرہ ۔مصنف نے ان حضرات کے خاکوں میں Illusionپیدا کیا ہے ۔اس لیے یہ ناول تاریخ نہیں تاریخ کا التباس ہے ۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تاریخی کرداروں کے حوالے میں تخلیق کار کی بعض آزادیا ں سلب ہو جا تی ہیں اور وہ اپنی مرضی کے مطا بق کر داروں کو واقعات سے نہیں جو ڑ سکتا ۔وہ سوانح کی صحت کے چکر میں اپنے اوپر بعض پا بندیا ں عائد کر لیتا ہے مگر فاروقی صاحب نے کر داروں کو قابل توجہ بنا نے کے لیے دلچسپ ،گرما گر م اور پھڑکتے ہو ئے فقرے تر اشے ہیں اور سا تھ ہی مر قع نگا ری کے بہترین نمو نے پیش کیے ہیں ۔یہ کردار اس ناول میں تلمیحی واقعات کے بجائے علامتی حقیقت بن گئے ہیں ۔ وزیر خانم سے متعلق تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ وہ داغ دہلوی کی والدہ ہیں ۔مورخین نے انھیں داغ کے حالاتِ زندگی کے سلسلے میں معلوم حوالوں کے حاشیے پر رکھا ہے ۔داغ کے اجداد کی کچھ تاریخ کا علم فاروقی صاحب کووزیر کے پوتے وسیم جعفرسے ہوا اور ایک تخیلی کردار ماہرامراض چشم ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی کی زبانی وسیم جعفر کی کہانی چل پڑی ۔ اٹھارویں صدی کے راجپوتا نے سے جو کہا نی شروع ہو ئی تھی وہ 1856 تک محیط لال قلعہ میں آکر ختم ہو ئی ۔ اختتامیہ المیہ پر ہے۔یہ تہذیب کا آئینہ اور کھوئے ہوئے کی جستجو ہے ۔
فاروقی صاحب نے اس ناول میں مندرج اہم تا ریخی واقعات کی صحت کا حتی الا مکا ن اہتمام کیا ہے۔ایسے واقعات کم ہیں اور سہارے کے بطور استعمال کیے گئے ہیں۔تاریخی واقعات کی صحت کا اہتمام کرنا غالباً ضروری بھی تھا تاکہ قاری تاریخی حوالوں سے بصیرت کشید کرنے میں گمراہ نہ ہوجائے ۔ مجموعی طور پر اس ناول کے علمیاتی پہلو کئی سطحوں پر ہماری بصیرتوں کو انگیز کرتے ہیں۔ اس کی علمیاتی قوتوں کے سبب ہی اسے عالمانہ تخلیقی کارنامہ قرار دیا جارہا ہے ۔یہ تخلیقی سطح پر انیسویں صدی کے ہندوستان کا وجودیاتی رزمیہ ہے اور شعریاتی سطح پر شاندار بزمیہ ۔یہ اس نا ول کا اعجا ز ہے کہ بعض تاریخی حقائق کو بھی قاری افسانہ سمجھ کر پڑھتا ہے اور بعض افسانوں کو تاریخی حقائق پر محمول کرلیتا ہے اور ان سے حظ اٹھا تا ہے۔ جزئیات کے بیان میں نا ول نگا ر کی دوررس نگاہ اور عمیق تا ریخی و تہذیبی مطالعے کی داد جتنی دی جا ئے ، کم ہے ۔جنسی افعال کی جزئیا ت نگا ری بھی انھو ں نے غضب کی ،کی ہے ۔ عمارات ، ملبو سات ،اسلحہ جا ت ، آلاتِ مو سیقی ،سازو سامان،سواریا ں،کھانے پینے کی چیزوں اور منا ظر کی ایسی تفصیل پیش کی ہے جس سے اس عہد کی پو ری تصویر آنکھو ں کے سامنے پھر جا تی ہے ۔انھوں نے جو پیکر ترتیب دیے ہیں، ان سے اس عہد کی شخصیتو ں کی شکل و صورت ،حرکا ت و سکنا ت ، نشست و بر خاست کے آداب ،طبیعت کی رنگا رنگی ، آواز کی کیفیا ت،ملبو سات کا انصرام ، وضع قطع اور حالا ت و واقعات نما یاں ہو تے ہیں ۔
فاروقی صاحب نے نا ول میں جو زبان استعمال کی ہے وہ اٹھا رویں اور انیسویں صدی سے متصف ہے ۔انھو ں نے اس زبان کا اسلو ب تذکروں ،سوانح ،خود نو شت اور دیگر دستا ویزی حوالہ جا ت سے اخذ کیا ہے جبکہ زبان کی صحت کے لیے انھوں نے جا ن شیکسپیر ،ڈنکن فور بس ،جا ن گلکرسٹ وغیرہ کے مر تب کر دہ لغات سے رجو ع کیا ہے ۔ انھوں نے وہی زبان لکھی ہے جو اٹھا رویں اور انیسویں صدی کے معاشرے میں رائج تھی ۔ انھو ں نے اس کا التزام خصوصی طورپر کیا ہے کہ بیا نیہ میں کوئی بھی ایسا لفظ نہ آنے پا ئے جو اس زما نے میں مستعمل نہ تھا ۔اس لیے زبان کا مغلق اور گنجلک ہو نا عین فطری ہے اور کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ایسے الفا ظ کیو ں بر تے گئے ۔عر بی اور فا رسی الفا ظ کی کثرت اس زمانے کے لسا نی مذاق کا پتا دیتی ہے ۔ وہ محاورے جو دہلی اور حضرتِ دہلی میں مستعمل تھے مصنف نے انہیں بڑی خوبی سے استعمال کیا ہے ۔مکا لمو ں میں بیگما ت ، نو ابین ،امراو روئسا، شعر اوادبا ،عشاق ،خدام ،نو کر چا کر ،کی زبان اس طر ح پیش کی گئی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ہم بھی اس عہد میں مو جو د ہیں اور ان کی گفتگو سے محظوظ ہو رہے ہیں ۔ناول نگا رنے اس طر ح ہمیں اس دنیا کی سیر کر ائی ہے جو ہماری تہذیب کی بنیا د ہے اور جسے ہم فرامو ش کر چلے تھے ۔عورتو ں کے محاوارات کو بر تنے میں نا ول نگا ر کو قدرت حاصل ہے ۔ہم نے محسوس کیا ہے کہ اس ناول کی زبان سے متعلق دو طرح کی آرا موجود ہیں ۔ کچھ لوگ اس اسلوب کو قابل رشک بتاتے ہیں اور حیرت سے کہتے ہیں کہ واہ فاروقی نے کیا زبان لکھی ہے ۔ کچھ لوگ ان کے اسلوب کو اس ناول کے لیے سب سے بڑا عیب گردانتے ہیں ۔ اعتراض یہ ہے کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے ماحول کی عکاسی کے لیے کیا ضروری ہے کہ اس زمانے ہی کی زبان اور اسلوب کا استعمال کیا جائے ؟ اس عہد کو آج کے روز مرہ میں کیوں نہیں پیش کیا جاسکتا ؟ Time Out Delhiکی مدیر Sonal Shahنے بھی اپنے انٹرویو میں فاروقی صاحب سے سوال کیا تھا :
For both Urdu and English novels, you restricted yourself to words from the 19th-century lexicon.”The Mirror of Beauty” is very readable, but is the original book a challenge for native Urdu speakers?
فاروقی صاحب نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ انھوں نے یہ اسلوب شعوری طور پر اختیار کیا ہے ۔ اس لیے لوگوں کے اعتراضات کی پروا کیے بغیر انھیں اپنے ویژن میں ایماندار ہونا چاہیے ۔ہر قاری کی ذہنی اور علمی استعداد مختلف ہوتی ہے ۔ بعض حضرات کے لیے یہ اسلوب دقت طلب محسوس نہیں ہوتا لیکن کچھ لوگ قدیم اور مشکل لفظیات کے لیے فرہنگ کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ اسلوب کے لحاظ سے اصل اردو متن مشکل ہے لیکن اردو کے قدیم و جدید محاوروں اور لسانی مزاج سے آشنا ذہنوں کو یہ مسئلہ پریشان نہیں کرتا ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم اکثر لغت سے رجوع کرنے میں گھبراتے ہیں ۔ آج اتنا عرصہ گزرجانے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی کی بعض لفظیات ترک ہوچکی ہیں اور ہمارے نئے لسانی مزاج کو انھیں قبول کرنے میں تامل ہوتا ہے ۔کم سے کم گفتگو کی حد تک وہ نامانوس اور غریب معلوم پڑتے ہیں ۔ناول کی قرا¿ت میں مجھے بھی ایسی بعض لفظیات کا سامنا کرنا پڑا جن سے تخلیق کی روانی میں خلل محسوس ہوا ۔ یہ بھی محسوس ہوا کہ مصنف معنی پر لفظ کو ترجیح دے رہا ہے ، مگر یہ پہلو ضمنی ہیں ۔ ضمنی اختلافات کے سبب پورے متن کو ناقابل قبول نہیں قرار دیا جاسکتا ۔
متن کے بین السطور میں بعض موقعوں پر تنقیدی بیانیہ بھی در آیا ہے ۔ غور طلب پہلو ہے کہ اس عہد میں ایک نئی شعریات مرتب ہورہی تھی ۔ محاوروں کے مسائل ، لفظ و معنی کی نزاکتوں اور اشعار کے برجستہ استعمال کے منظرنامے میں یہ کیسے ممکن نہیں تھا کہ شعر اور زبان سے متعلق اس عہد کی تنقیدی بصیرت کسی کردار کی زبانی مترشح نہ ہو ۔ یہ اعتراض صرف اس لیے ممکن ہوسکا ہے کہ مصنف کو ہم اول اول نقاد کی حیثیت سے جانتے ہیں ۔ ورنہ کسی اور کے قلم سے اگر یہ متن تخلیق پاتا تو اس قسم کی غیرسنجیدہ شکایت نہ ہوتی۔ ایک اعتراض یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ جزئیات کے بیان میں فاروقی صاحب نے معلومات کو شعوری طور پر ٹھونسنے کی کوشش کی ہے ۔ ہمارا معروضہ ہے کہ ماضی کی یہ ’معلومات ‘ نئی نسل کے لیے حیرت اور آگہی کے درمیان بصیرت تک پہنچنے کا وسیلہ ہے ۔ اس لیے یہ اعتراض بھی ضمنی ہے ۔ ناول کے مندرجات ہما ری روایات کے امین اور ہماری میراث ہیں جنھیں ہم کھو چکے تھے ۔ نا و ل کے مطالعے کے بعد ان کی روحانی اور جذباتی باز یا فت ہو تی ہے۔
یہ خانم کی محبتو ں کی ادھو ر ی داستان ہی نہیںبلکہ ایک صدی سے کچھ زیادہ کی تہذیبی دستا ویز ہے۔فاروقی صاحب اس متن کو تہذیبی مرقع کہنے پر مصر ہیں ۔ اگر معترضین اس متن کو ناول نہ بھی تسلیم کریں اور تہذیبی مرقع تسلیم کرلیں تو مصنف کی محنت کام آجاتی ہے اور مقصد پورا ہوجاتا ہے ۔
ہم نے ’تصویر‘ کو کتاب بنتے دیکھا اور کتاب کو ناول۔حقیقت کو افسانے کے قالب میں ڈھلتے ہوئے دیکھا ۔ خواب نے دستک دی اور ماضی نے دروزہ کھولا ۔ دیکھتے ہیں کہ دور تلک اندھیرے اجالے کی کشمکش ہے ۔ گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں ۔ کوئی شعر سنارہاہے اور ہرطرف سے داد و تحسین کی صدائیں بلند ہورہی ہیں ۔ ایک سلطنت اور ایک تہذیب پر اندھیرا گہرا ہوتا جارہاہے ۔ دہلی کے لال قلعے سے ایک سایہ لہراتا ہوا ہماری آنکھوں سے گزرگیا ہے ۔ ہم نے شاید انیسویں صدی کے حسن و جلال کا وہ آئینہ دیکھ لیا ہے جس میں ہمارا وجود فخر ، تاسف، مسرت اور حیرانی کے ملے جلے اثرات سے بے چین ہوگیا ہے ۔ اب یہ بے چینی دور تلک جائے گی ۔
——————————–

مشمولہ سہ ماہی ”اردو چینل“ جلد :18۔شمارہ :1(جنوری تا مارچ2016)مدیر: ڈاکٹر قمر صدیقی