Ali Sardar Jafri ki Manzil

Articles

علی سردار جعفری کی منزل ایک جائزہ

ڈاکٹر معزہ قاضی

!‘‘

ہندوستان میں تلک کو چھے سال کی قید پر مزدوروں کی ہڑتال، جلیان والا باغ کے حادثے کے بعد انگریزی حکومت کے خلاف ہڑتالیں ، دھرنے اور جلوس، ولایتی مال کا بائیکاٹ ، ہزاروں کی تعداد میں مزدوروں ، طالب علموں اور کارکنوں کی گرفتاریوں سے اردو ادب بھی متاثر ہو رہا تھا ۔ ۱۹۳۵ء میں سجاد ظہیر نے داکٹر محمد دین تاثیر ، ملک راج آنند ، ڈاکٹر جیوتی گھوش اور پرمود سین کے ساتھ مل کر ایک ادبی حلقہ کو وجود بخشا جس نے ہندوستانی ترقی پسند ادیبوں کی ایسو سی ایشن کے نام سے ایک انجمن تشکیل کی ۔ ۱۹۳۵ ء کے آخر میں سجاد ظہیر لندن سے ہندو ستان لوٹے اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے نام سے باقاعدہ تنظیم قائم کی ۔
لکھنؤ میں منعقدہ پہلی کانفرنس میں ترقی پسند کانفرنس میں ترقی پسند مصنفین کا اعلان نامہ منظور کیا گیا جس کی چند سطریں حسب ذیل ہیں :
ہم اس انجمن کے ذریعے ہر اس جذبے کی ترجمانی کریں گے جو ہمارے وطن کو ایک نئی اور بہتر زندگی کی راہ دکھائے ۔ اس کام میں ہم اپنی اور غیر ملکیوں کی تہذیب اور تمدن سے فائدہ اٹھائیں گے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان کا نیا ادب ہماری زندگی کے بنیادی مسائل کے اپنا موضوع بنائے۔ یہ بھوک ، افلاس ، سماجی پستی اور غلامی کے مسائل ہیں ۔ ہم ان تمام آثار کی مخالفت کریں گے جو ہمیں لاچاری ، پستی اور توہم پرستی کی طرف لے جا رہے ہیں ۔ ۱ ؎
لہذا ادب برائے ادب کے بر خلاف ادب برائے زندگی کو اپنا مقصد بنا لیا گیا ۔ ترقی پسند تحریک سے پہلے اردو میں پریم چند کے زیر اثر اصلاحی اور حقیقت نگاری کے افسانے ملتے ہیں ۔ انھوں نے عام انسانی مسائل ، غربت اور افلاس کی زندگی اور معاشی استحصال کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہوئے انسانی نابرابری کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا۔پریم چند سے متاثر افسانہ نگاروں میں اعظم کریوی ، علی عباس حسینی ، سدرشن اور سہیل عظیم آبادی تھے ۔ پریم چند نے ترقی پسند تحریک کے پہلے جلسے میں اپنے صدارتی کلمات میں حسن کے معیار کو بدلنے کی جو بات کی تھی وہ ترقی پسند تحریک کا ایک بنیادی منشور بن گئی اور ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے سماج کے ان سلگتے ہوئے مسائل کو پیش کرنا شروع کیا ۔ اس میں پریم چند کا تتبع کرنے والوں میں کئی افسانہ نگار تھے ۔ شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ان افسانہ نگاروں نے نہ صرف پریم چند کے اثرات قبول کئے بلکہ اس میں وسعت پیدا کی ۔ کرشن چندر ، اوپیندر ناتھ اشک ، راجندر سنگھ بیدی ، عصمت چغتا ئی وغیرہ کا تعلق اسی توسیع شدہ حقیقت پسندانہ افسانے سے ہے ۔
عتیق احمد صاحب نے ان افسانہ نگاروں کے علاوہ جن ناموں کا ذکر کیا ہے ، ان میں سردار جعفری اور اخترالایمان کے نام نمایاں ہیں ۔ بقول عتیق صاحب :
اختر الایمان کے افسانے بھی تعداد میں اتنے ہی قلیل تھے جتنے کہ سردار جعفری کے ہے ۔ لیکن وہ صرف ساقی (دہلی) کے صفحات میں مقید ہو کر رہ گئے اور اب شاید تقسیم ہندوستان کے بعد کی نسل اخترالایمان کے اس ادبی پہلو سے بالعموم با خبر بھی نہیں ۔ ۲ ؎
علی سردار جعفری ایک ممتاز اور کثیرالجہات ادبی رہنما تھے جنھوں نے افسانوی دنیا میںخود کو ڈھالنے کی کوشش کی اور افسانے کو ہی ابتدا ء ً اپنا ذریعہ ٔ اظہار بنایا لیکن کوئی بھی فن ، اگر مزاج کے ہم آہنگ نہ ہو تو پروان نہیںچڑھتا ۔ جعفری صاحب نے بھی مروجہ روایت کے تحت افسانے لکھے تاہم انہیں یہ محسوس ہوا کہ ان کا مزاج اور ان کی ادبی تخلیقی صلاحیت افسانہ نگاری سے زیادہ شاعری سے ہم آہنگ ہے ، لہٰذا انھوں نے افسانہ نگاری کو خیرباد کہہ دیا اور شاعری کو اپنایا ۔سردار جعفری کی ادبی زندگی کا ابتدائی زمانہ ایک طرح سے کشمکش کا زمانہ محسوس ہوتا ہے ۔ کشمکش یعنی افسانہ یا شاعری ۔ اس کشمکش میں شاعری جیت گئی۔ جعفری صاحب نے بھی ایک انٹرویو میں رام لعل کے سو ال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھاکہ وہ اپنا شمار ناکام افسانہ نگاروں میں کرتے ہیں ۳؎ لیکن ان کے افسانے آج بھی توجہ طلب ہیں۔ انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ترقی پسند نظریات پر قائم کرتے ہوئے عام رواج کے تحت ایک ڈرامہ اور چند افسانے سپرد قلم کیے جو مجموعے کی شکل میں منزل کے نام سے حلقۂ ادب لکھنؤ کی جانب سے ۱۹۴۰ء یا ۱۹۴۱ ء میں شائع ہوا ۔ اس مجموعے منزل میں چھے نثر پارے ہیں جن میں سب سے پہلا نثر پارہ ان کا یک بابی ڈرامہ سپاہی کی موت ہے ۔ اس کا موضو ع بھی ان کے دوسرے ڈرامے یہ کس کا خون ہے سے ملتا جلتا ہے ۔ اس ڈرامے کے علاوہ منزل میں علی سردار جعفری کے پانچ افسانے ہیں جن کے نام منزل ، بارہ آنے ، پاپ ، مسجد کے زیر سایہ اور آدم زاد ہیں ۔
یک بابی ڈرامہ’ سپاہی کی موت‘ میں انھوں نے اکتوبر ۱۹۱۶ ء کی ایک شام کا منظر پیش کیا ہے جس میں فرانس کی مشرقی سرحد پر ایک چھوٹے سے اسکول کو فوجی اسپتال میں تبدیل کیا گیا ہے جہاں ایک ہندوستانی سپاہی ہندوستانی وارڈ میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے انگریزی وارڈ میں نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑا ہے ۔ اس کے سر پر لگی گولی نکالنے سے اس کی جان بچ سکتی ہے ۔ ایک فرانسیسی نرس سے وہ دھیمے دھیمے لہجے میں اپنی بیوی اور چھوٹے سے بیٹے کی باتیں کرتا ہے ۔ گاؤں کو یاد کرتا ہے ۔ اسے اس بات کی فکر ہے کہ اس کی بیوی سوچتی ہوگی کہ وہ اسے بھول گیا ۔ سپاہی آپریشن کے انتظار میں ہے ۔ گھر پہنچنے کی جلدی ہے ۔لیکن ڈاکٹر کے حکم پر نرس کو با دلِ نا خواستہ سپاہی کو صرف اس لیے زہر دینا پڑتا ہے کہ زخمی انگریز سارجنٹ کو انگریزی وارڈ میں جگہ مل سکے ۔جگہ ملنے کے بعد بھی سارجنٹ مو ت کی نیند سو جاتا ہے ۔
’ منزل‘ ایک اونچے جاگیردار خاندا ن کی پڑھی لکھی ، خوبصورت اور اپنے انقلابی خالہ زاد بھائی عظمت کے خیالات سے متا ثر لڑکی فاطمہ کی کہانی ہے ۔ عظمت انگریزوں کا دشمن اور کٹر کانگریسی ہے جس کی وجہ سے فاطمہ کے واالد نے اسے گھر سے نکال دیا ۔ عظمت کی انقلابی سوچ سے فاطمہ مکمل طور پر اتفاق کرتی ہے ۔اس کی شادی ضلع کے ڈپٹی کمشنر اشفاق سے ہوتی ہے ۔ بیٹے شفیق کو سنبھالنے والی عورت دلاری کو بچے کے سونے کے کڑے چرانے کے الزام میں سزا ہو جاتی ہے ۔ مسجد کے معاملے پر فائرنگ سے فاطمہ کو اشفاق کی درندگی کا احساس ہوتا ہے ۔ حالات سے باخبر ہونے پر فاطمہ کے انقلابی ذہن میں ہلچل شروع ہوتی ہے اور وہ بوڑھی ماما اور بچے کے ساتھ نکل پڑتی ہے جہاں وہ تینوں بندوق کی گولیوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ صبح گھر پہنچ کر اشفاق کو پتہ چلتا ہے کہ رات ہی سے فاطمہ، بچے اور بوڑھی ماما کے ساتھ غائب ہے ۔ وہ معاملے کی تہہ تک پہنچتا ہے ۔ فاطمہ اسے زخمی حالت میں اسپتال میں ملتی ہے جبکہ بچے کی لاش کی خبر بھی مل جاتی ہے۔ فاطمہ کو چھے مہینے کی سزا خود اشفاق کو سنانی پڑتی ہے ۔اس وقت اسے خود سے نفرت محسوس ہوتی ہے ۔جیل میں دلاری فاطمہ کو پہچان لیتی ہے اور دیگر خواتین کے پوچھنے پر اس سے سوال کرتی ہے :
’’کیا صاحب نے تمھیں نہیں بچایا ؟‘‘
تو ان عورتوں کے کان کھڑے ہو گئے ۔
فاطمہ نے جواب دیا : ’’یہ ان کے اختیار سے باہر تھا ۔‘‘
سب عورتوں نے یک زبان ہو کر کہا : ’’ظلم تو حکومت کرتی ہے ۔ حاکم بے چارے کیا کریں ۔‘‘
فاطمہ نے تنک کے کہا : ’’پھر وہ حاکم بنتے ہی کیوں ہیں !‘‘
’آدم زاد‘ ایک ایسی بیاہتا جھناکا کی کہانی ہے جس کی شادی ہوئے آٹھ برس گزر چکے تھے ۔ شوہر کی صورت صرف ایک مرتبہ دیکھی تھی ۔ شادی کے فوراً بعد ہی اس کا شوہر گاؤں کے دیگر جوانوں کے ساتھ فوج میں شامل ہو کر میدان جنگ میں اترا اور انہیں کی طرح وہ بھی جنگ کے خاتمے کے بعد بھی لوٹ کر نہ آیا ۔ جھناکا کو نہ تو سسرال والوں نے پوچھا اور نہ ہی ماں باپ نے کہ خود ان ہی کے گزر بسر کے لالے پڑے ہوئے تھے ۔ ایسے میں لاپتہ شوہر کی بیوی کی دیہات میں کیا حیثیت ؟ اور جب اس نے ننھے سے وجود کو جنم دیاذہن میں سوالات کلبلانے لگے کہ بچے کو پانچ سیر دھان دینے وا لے چودھری کے لڑکے کے سر تھوپے یا گھسیٹے کے ، گیہوں نبانے کے بہانے گھر بلانے والے عیدو کے متھے تھوپے یا اس آدمی کے ، جو چودھری کے گھر آیا تھا اور ایک روپیہ دے گیا تھا ۔گاؤں والوں کو جب معلوم ہوا کہ جھناکا کو جلندھر نہیں تھا بلکہ بچے کی پیدائش کے آثار تھے تب عیدو ، فقیرا ، مولوی عنایت محمد ، پنڈت کیدار ناتھ اور چودھری سب ہی نے فیصلہ صادر کر دیا کہ وہ گاؤں میں نہیں رہ سکتی۔ جھناکا نے بھری پنچایت میں اپنا گھونگھٹ الٹ دیا اور :
جھناکا نے مغرور نگاہوں سے سارے مجمع کا دیکھا اور کہنے لگی
’’ چودھری یہاں کون ہے جو گنگا نہیں نہایا ! ‘‘
رخساروں پر خون کی ایک لہر دوڑ گئی۔ گھونگھٹ خود بخود چہرے پر آگیا ۔
جھناکا بچے کو گود میں لے کر چل دی۔
مجمع میںسے ہر شخص اسے اپنا بچہ سمجھ رہا تھا ۔
یک بابی ڈرامے ’سپاہی کی موت ‘ میں تعصب اور نسلی برتری کی ایک گھناونی تصویر نے عالم انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا لیکن اسی کے ساتھ ایک احساس بھی جنم لیتا ہے جو اس سپاہی کی بیوہ اور معصوم بچے کے درد سے آشنا ہے ۔ ’آدم زاد‘ میں جنگ کے ایسے اثرات جن میں گھروں کی عزت چند سیر چاول اور گیہوں کے لیے داؤ پر لگتی ہے اور پھر ایسے حالات میں جنم لینے والے بچے ، جنھیں دنیا میں لانے والے غیور مرد اپنانے سے گریز کرتے ہیں او ر ’منزل‘ میں حکومت سنبھالنے کی خاطر عوام سے جنگ کرنے اور انصاف کی گدے پر بیٹھ کر بے بس و لاچار اور نہتی عوام کو گولیوں سے بھون دینے اور زخمیوں کو جیلوں میں ٹھونسنے والے حاکم بھی معاشرے کی خرابیوں کے ذمہ دار اور جنگ کا ہی ایک حصہ ہوتے ہیں جبکہ جنگ خود معاشرے کی برائیوں کی ذمہ دار ہوتی ہے ۔ کئی سپاہیوں کی بیواؤں اور ان کے بچوں کے دلوں میں بسا ہوا درد ، کئی بیویوں کے ٹوٹتے انتظاراور سرمایہ داروں ، حاکموں اور مردوں کے ہاتھوں عوام ، غریبو ں اور عورتوں کے استحصال کو جعفری صاحب نے اپنی شاعری کا بھی موضوع بنایا ۔ ان کی غزل کا شعر غریب عوام کی زندگی کی تصویر پیش کرتا ہے :
؎کتنی آشاؤں کی لاشیں سوکھتیں دل کے آنگن میں
کتنے سورج ڈوب گئے ہیں چہروں کے پیلے پن میں
’پاپ‘ اندرا کی کہانی ہے جو ماں کے مرنے کے بعداپنے سوتیلے باپ کے ساتھ زندگی گزارتی ہے ۔ وہ نہایت شریف اور خدمت گزار لڑکی ہے لیکن ایک رات نشے میں دھت سوتیلے باپ ہی کی ہوس کا شکار ہو کر ایک بچی کی ماں بن جاتی ہے ۔یہاں سے اس کی زندگی میں موڑ آجاتا ہے اور نوجوانوں کی دل لگی کا سامان بن جاتی ہے ۔اس کی ملاقات ایک مسلمان لڑکے سے ہوتی ہے ۔ اندرا پورا یقین ہو جاتا ہے کہ وہ اس سے شادی کرے گا ۔ حاملہ ہونے پر جب وہ شادی کی بات کرتی ہے تو وہ لڑکا مذہب کا فرق بتا کر اسے ٹالنے کی کوشش کرتا ہے ۔ لڑکے کا جواب سن کر اندرا حسرت بھری ، آنسوؤں سے بھیگی آنکھوں سے کہتی ہے :
’’ تمھارا مذہب تمھیں میری جان بچانے سے روکتا ہے ، اچھا

یہ ایک جملہ اندرا کی بے بسی اور ڈھیر ہوتے ہوئے وجود کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے ۔
’مسجد کے زیر سایہ‘ ایک ایسی ماں کی کہانی ہے جو کہیں کام نہ ملنے پراپنے بھوکے بچے کو لیے گلیوں سڑکوں پربھیک مانگتی پھرتی ہے ۔ باورچیوں کی دکانوں ، ہوٹلوں سے گرم گرم کبابوں اور روٹیوں کی خو شبو سے بچہ اور بلک رہا تھا ۔ ٹریم سے کسی شخص نے ایک پیسہ زمین پر پھینکا اور سارے فقیر اس پر ٹوٹ پڑے ۔ کسی طرح ماں کے ہاتھ پیسہ لگا لیکن بچہ گود سے گر نے لگا ۔ بچے کو سنبھالنے لگی توایک فقیر پیسہ جھولی میں ڈال کر چل دیا ۔ بچہ نہ تو سنبھالا جائے ، نہ پھینکا جائے ۔آخر وہ دیوانہ وار مسجد کی سیڑھیو ں کی طرف دوڑی اور ایک خوا نچے سے پانی میں بھیگے ہوئے بڑے دونوں مٹھیوں میں بھر کر بھاگی ۔ کئی آدمی اس کے پیچھے دوڑے ۔ اس نے آدھے بڑے اپنے منہ میں بھر لیے اور آدھے بچے کی طرف اچھال دیے۔ لوگوں نے اس کی پٹائی یہ کہہ کہہ کرکی کہ :
’’گورنمنٹ کو اس کا انتظام کرنا چاہیے ۔‘‘
’’ اسمبلی میں اس کے متعلق قانون پاس کرنے کی ضرورت ہے ۔‘‘
’’جو بھیک مانگے اسے سزا ملنی چاہیے ۔‘‘
لیکن بچہ سارے ہنگامے سے دور مٹی سے بھرے بڑے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے سمیٹنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
افسانے’ بارہ آنے ‘ کا کباڑی رات کے وقت کباڑ خانے کے عقبی کمرے میں تاڑی خانہ اور اوپری کمرے میں قحبہ خانہ چلاتا ہے جہاں مزدوری نہ پانے والی فاقہ کش کسانوں اور گھروں کی بیٹیاں مجبوراً بارہ آنے میں جسم فروشی پر مجبور ہو جاتی ہیں ۔ جمنا اس کہانی کاکردار ہے جسے رامی اپنے ساتھ اس قحبہ خانے پر لے آتی ہے ۔ آنسو بھری آنکھوں سے وہ رامی سے لوٹنے کی اجازت تو مانگتی ہے لیکن قرض کے بوجھ سے اپنے باپ کے جھکی ہوئی کمر اور ماں کے غمزدہ اور جھریوں بھرے چہرے ، بہن بھائی اور اپنے اس دیہات کے خیال سے جہاں آمدنی کی کوئی صورت نہیں ، اگلے دن آنے کا ارادہ کر لیتی ہے ، اس بات سے بے خبر کہ دو مزدور، ایک لنگڑا اور ایک کانا اس کے پیچھے آ رہے ہیں ۔
سردار جعفری نے ان تینوں افسانوں میں معاشرے کی خرابیوں اور اخلاقی مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ اندرا نے سوال اٹھایا ہے مذہب پر لیکن اس سوال کے تیر کی نوک کا رخ مذہب سے زیادہ اس لڑکے کی جانب ہے جس نے ایک مجبور اور بے بس لڑکی کا استحصال کرتے وقت مذہب کو یاد نہ کیا لیکن اسے اپنانے کے لیے مذہب کا فرق یاد آیا ۔ مذہب کی تعلیمات کو اپنے شوق و ہوس میں تو بھول گیا لیکن اندراکو زندہ در گور کرتے وقت اسے مذہب یاد آ گیا ۔کیا یہی مذہب ہے ؟ مسجد علامت ہے سکون کی ، برابری کی ، زندگی کے متوازن اصولوں کی ۔ مسجد ، جہاں امیری غریبی ، محمود و ایاز اور بندہ و بندہ نواز کا فرق مٹ جاتا ہے ۔ عبادت ، ذریعہ ہے خدا تک پہنچنے کا اور خدا کی تعلیمات پر عمل کرنے کا ۔ اسی مسجد کے زیر سایہ ایک بھوکے بچے کی ماں بڑے چرانے پر مجبور ہے ۔ایک طرف اس خدا کا گھر ہے جو مساوات ، بھوکے پیٹ کو بھرنے اور برہنہ تن کو ڈھانکنے کا حکم دیتا ہے اور دوسری طرف بچے کی بھوک ، جسے ماں دور کرنا چاہتی ہے ۔ سردار جعفری نے معاشرے کی ایسی کمزوری کی طرف اشارہ کیا ہے جس پربڑے بڑے لوگوں کی بڑی بڑی باتیں ، فلاح و بہبودی ، نیکی ، غربا و مساکین کی مدد ، بہو بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کی باتیں ہی باتیں ہوتی ہیں جبکہ حقیقتاً سب بے معنی ہے ۔
سردار جعفری نے جہاں زندگی کے مختلف پہلوؤں اور معاشرے کی خامیوں کی طرف اشارہ کیا ہے وہیں انھوں نے عورت کی پختگی اور سماج سے لڑنے کی ہمت کی بھی داد دی ہے ۔ پھر وہ’ آدم زاد ‘ کی جھناکا ہو جو زندگی کے طوفانوں سے لڑنا جانتی ہے اور چودھری کے لڑکے کو تڑخ کر جواب دیتی ہے کہ :
’’ بھیا چلوریا تھکت ہے ، ڈگریا ناہیں تھکتی ۔‘‘
یا’ منزل‘ کی فاطمہ جو ان حاکموں پر چوٹ کرتی ہے جو حکومت کے ہاتھوں مجبور ہو جاتے ہیں :
’’ اگر حکومت ظالم ہے تو حاکم کیوں بنتے ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ نہ صرف انگریزی حکومت کے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی ہے بلکہ اس ظالم حکومت کے لیے اپنی خدمات پیش کرکے ظالم حاکم بننے پر طنز کرتی ہے ۔سردار جعفری نے اپنی تمثیلی نظم’ نئی دنیا کو سلام ‘ میں مریم کا پیکر بعد میں تراشاجبکہ پہلے ہی سے ان کے یہاں عورت کا تصور نہایت صاف ستھرا اور نکھراہوا سا رہا ہے ۔ان کی نظر میں عورت محض حسن و جوانی کا پیکر اور خلوت کی ساتھی نہیں بلکہ وہ نا انصافی کے خلاف احتجاج کی علامت بھی ہے ، چاہے وہ احتجاج کسی مرد کے خلاف ہو ، معا شرے کے خلاف ہو یاپھر حکومت کے خلاف ۔اسی تصور کو انھوں نے اپنے چند افسانوں کے پیکر میں ڈھالنے کی اولین کوشش کی ہے جو بعد میں ان کی نظموں میں مکمل وجود پا گیا اور وہ کہہ اٹھے کہ عورت :
ع تبسم نہیں صرف ، تلوار بھی ہے
بقول سردار جعفری ، انھوں نے ایشیائی افلاس کے بد ترین نمونے دیکھے ہیں ۔ دیہاتوں میں ایسی غربت دیکھی کہ لاکھوں آدمی چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک بار کھانا کھاتے ہیں ۔ ۱۹۳۳ء میں ان کی عمر بیس برس تھی ۔اتنی کم عمری میں انھوں نے سرمایہ داروں کو غریبوں کا استحصال اور حق تلفی کرتے دیکھا ۔ کسانوں کی پیٹھوں پر لدی اینٹیں ، پیڑوں پر بالوں سے لٹکی عورتیں ، کسان عورتوں کی کسی معمولی جرم کی پاداش میں برہنگی اور پتلی سوکھی ٹا نگیں اور برے سے پیٹ والے بیمار بچے دیکھے ۔ یہ تمام معاشرتی خرابیاں جن کی ذمہ دار جنگ بھی ہے اور یہی تمام باتیں انھیں پریشان کرتی رہیں ۔ ۴ ؎ ممبئی یونیورسٹی میں ۲۴،۲۵ دسمبر کو سردار جعفری کی فن اور شخصیت پر منعقدہ قومی سیمینار میں ڈاکٹر انور ظہیرانصاری ( بڑودہ ) نے کہا تھا :
’’ سردار جعفری نے یہ افسانے جس سن میں لکھے ہیں اس وقت ان کی عمرغالباً ۲۳ یا ۲۴ برس ہوگی ۔ اس عمر میں ان کی سوچ اور نظر کتنی گہری تھی ، اس کا اندازہ ان کے افسانوں سے ہوتا ہے ۔‘‘
سردار جعفری کی پیدائش ۱۹۱۳ ء کی ہے اور یہ افسانے ۱۹۳۶ء سے ۱۹۳۸ ء کے درمیان لکھے گئے ہیں ۔ اس لحاظ سے ان کی عمر ۲۳ برس ہوگی ۔ اس عمر میں اتنی گہری نظر اور اتنا وسیع مشاہدہ معمولی بات نہیں ہے جبکہ عمر کا یہ دور لا ابالی اور کھلنڈرے پن کا ہوتا ہے ۔بعد میں جب انھوں نے شاعری کو اپنا مطمح نظر بنایا تب انھوں نے اپنے اسی مشاہدے اور نظر کی گہرائی اور گیرائی کو اشعار کا نہایت خوبصورت جامہ پہنایا اور زخمی ماحول کی آسودہ منزل کے لیے صدا بلند کی :
؎ زخمی سرحد ، زخمی قومیں ، زخمی انساں ، زخمی ملک
حرف حق کی صلیب اٹھائے کوئی مسیح تو آئے اب
سردار جعفری کے ان افسانوں میں زندگی کے کئی رنگ دکھائی دیتے ہیں ۔ معاشرے کی خرابیاں تو ہیں ہی ، استحصال تو ہو رہا ہے لیکن کون کس کا استحصال کر رہا ہے ؟ کہیں حاکم رعایا کا تو کہیں مرد عورت کا اورکہیں احساس برتری کمزور و ناتواں کا ۔ان سب سے بڑھ کر کہیں تو خود عورت ، عورت کا استحصال کرتی ہے تو کہیں غریب خود غریب کا ۔استحصال تو کل بھی ہو رہا تھا ، آج بھی ہو رہا ہے لیکن ترقی پسند مصنفین کے اعلان نامے کے مطابق جس منزل کی بات سردار جعفری نے اپنے پیش لفظ میں کی ہے ، اگر وہاں تک پہنچ گئے تو شاید معاشرے میں کچھ سدھار دکھائی دے ۔ ان کا خواب انقلاب لانا ہے ، ان کا خواب اسی آسودہ منزل تک پہنچنا ہے ۔ بقول سردار جعفری :
’’ یہ افسانے ہندوستان کی اس تحریک کی پیداوار ہیں جس نے زندگی کا تصور بدل دیا ہے ۔اس لیے ان میں اس تلخی کا احساس باعث تعجب نہیں جو درمیانی طبقہ کی طبع نازک پر گراں گذرے گی ۔ مگر اس کو کیا کیا جائے کہ ہمارا موجودہ نظام زندگی کچھ ایسا ہی ہے ۔‘‘ ۵؎
علی سردار جعفری کے افسانے موجودہ نظام کے ناسوروں کا مداوا چاہتے ہیں۔ ان کا خواب ایک ایسی دنیا کا ہے جو اس نظام میں پل رہی قابل نفرت چیزوں سے پاک ہو اور اس خوشگوار دنیا تک پہنچنے کے لیے راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو روندنا ہے ۔ یہی ان کی منزل ہے جسے انھوں نے آنے والے انقلاب کے نام معنون کیا ہے ۔
٭٭٭
حواشی :
۱؎ سردار جعفری : ترقی پسند ادب ، مطبوعہ یونین پرنتنگ پریس ، ۱۹۵۰ء اور ۱۹۵۷ء ، دہلی ۔ ص ۲۴
۲؎ عتیق احمد : سردار جعفری کے افسانے ، افکار : سردار جعفری نمبر ، زیر اہتمام افکار فاؤنڈیشن ، نومبر دسمبر ۱۹۹۱ء ، کراچی ۔ ص ۵۵۸
۳؎ رام لعل : سردار جعفری سے گفتگو ، افکار : سردار جعفری نمبر ، زیر اہتمام افکار فاؤنڈیشن ، نومبر دسمبر ۱۹۹۱ء ، کراچی ۔ ص ۴۵
۴؎ سردار جعفری : خود نوشت ، افکار : سردار جعفری نمبر ، زیر اہتمام افکار فاؤنڈیشن ، نومبر دسمبر ۱۹۹۱ء ، کراچی ۔ ص ۶۴۴
۵؎ سردار جعفری : پیش لفظ ، منزل ، مطبوعہ حلقہ ادب لکھنؤ ۔ ص۵