Allama Iqbal ki Nazm “Shua E Ummed” Aik Mutala by Dr. Mohd. Zubair

Articles

علامہ اقبال ؔ کی نظم’’شعاعِ امید ‘‘

ڈاکٹرمحمد زبیر

علامہ اقبال ؔ اپنے عہد کے ایک عظیم شاعر، بلندپایہ فلسفی ، ممتازمفکراوربے مثل مدبّرہیں۔ ان کا شمارجدید اردو نظم کے اہم شعرا میں ہوتا ہے ۔ ان کی شاعری میں فکرکی وحدت بھی ہے اور بلا کی ہمہ گیری بھی ۔ اقبال کی طبیعت بچپن ہی سے شعرگوئی کی طرف مائل تھی لہٰذا سید میر حسن کی سرپرستی اور صحبت نے ان کے دل میں شعرکہنے کا شوق پیدا کیا۔ ۱۸۹۴ء میں داغ دہلوی کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہوئے اور۱۸۹۶ء میں انھوں نے اس رشتے کا ذکر فخر کے ساتھ کیا ہے :
مجھے بھی فخر ہے شاگردیِ داغِ سخنداں کا
ادبی دنیا میں اقبال کی شناخت ایک قدآور شاعر، ماہر فن اور عظیم فلسفی کی حیثیت سے ہے ۔ان کے فلسفہ اور فکروفن پر جس قدر اظہارِخیال کیا گیا ہے ایسی نظیر بمشکل ملے گی۔ آج بھی فکرِاقبال ،نقادوں اور دانشوروں کے لیے نہ صرف ایک اہم موضوع ہے بلکہ سرمایۂ ادب بھی ہے اور ذخیر�ۂ انمول بھی۔ اقبال اپنے فن اور فکرکے اعتبارسے تمام انسانیت کے سچے ہمدرد اور قوم وملت کے پاسبا ں تھے ۔ انھوں نے اپنی زندگی کے کئی اہم سال جرمنی میں صَرف کیے اور وہیں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ چونکہ وہ شاعر تھے لہٰذا یہ فطری بات تھی کہ جرمن ادبیات ان کے اوپر اثرانداز ہوتے خصوصاً جرمن شاعری ،چنانچہ اقبال جرمن ادب سے اپنا دامن نہیں بچاسکے ۔ اہم بات یہ تھی کہ وہاں مشرقی تحریک، ادب میں ایک نمایاں مقام حاصل کرچکی تھی، حافظؔ ،سعدیؔ ، رومیؔ اوردیگرایرانی شعراکے خیالات اورادبی روایات جرمن ادبیات پر اثر انداز ہوئے اوران کی پیروی بھی ہوئی۔ بایں سبب جرمن شاعری کایہ رجحان اقبال کے لیے بالخصوص بڑاپرکشش تھا لہٰذا انھوں نے اس کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔گوئٹے کی شاعری سے وہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ۔ بقول یوسف حسین خاں:
’’اقبال کو فارسی اوراردوکاجو ورثہ ملا اسے اس نے اپنے جذب دروں سے کچھ سے کچھ بنادیا اس نے زندگی کے توانا اورمتحرک تصورات کو نئے قالب میں ڈھال کراپنی شاعری کی صورت گری کی۔ وہ فارسی اوراردو کی روایات کے علاوہ مغربی علم وحکمت سے بھی متاثرہوا ۔چونکہ اس کاذہن فعّال اورتخلیقی تھا،اس نے مغربی افکارپرمشرقی روحانیت کاغازہ بڑی چابک دستی سے مل دیا۔اس طرح اس نے جو مرکب بنایااس میں چونکہ خود اس کے خونِ جگرکی آمیزش تھی اس لیے ہم اسے اس کی مخصوص روحانی تخلیق کہہ سکتے ہیں۔‘‘(اقبال کافن :یوسف حسین خاں،ص ۲۵۔۲۶)
علامہ اقبال ؔ ایک پیامی شاعرہیں وہ بھٹکے ہوئے راہی کو اس کی منزل کاپتہ دیناچاہتے ہیں یہی سبب ہے کہ انہوں نے فنِ شاعری کو وسیلۂ اظہار بنایا۔ اقبالؔ نے اپنے دل کی آواز کوزیادہ اہمیت دی اوراسے اپنی شاعری کے ذریعے بروئے کار لاتے ہوئے اپنی قوم کو جھنجھوڑنے کا کام کیاہے اور درسِ عمل کا پیغام بھی دیاہے۔ انھوں نے شاعری کومحض حصولِ مسرت کاذریعہ نہیں سمجھابلکہ زندگی کو بہتربنانے اورسنوارنے کا وسیلہ بھی قرار دیا ہے۔رجائیت اقبال کی شاعری کا ایک اہم پہلوہے لہٰذا امید کا دامن اپنے ہاتھ سے کبھی نہیں چھوڑتے اورنہ ہی مایوس ہوتے ہیں۔ اردو شعروادب میں اپنی فنی بصیرت سے جو جواہر ریزے بخشے ہیں ان میں ان کی نظموں کا اہم حصہ ہے۔ ان کی نمائندہ نظموں میں ’’شعاعِ امید‘‘کا بھی شمار ہوتاہے جو موضوع ، ہیئت اور معنوی اعتبارسے کئی اختصاص کی حامل ہے۔اس نظم میں اقبال ؔ نے ترکیب بندہیئت کاانتخاب کیاہے اوربحر بھی مترنم استعمال کی ہے ۔لفظوں کے انتخاب و تکرار سے موسیقیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ نورالحسن نقوی ’شعاعِ امید‘ کے فنی محاسن پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طرازہیں :
’’فن کار شاعری کے فن میں کامل دستگاہ رکھتاہو تو اس کے قلم سے چھوکرفلسفہ وپیغام بھی مکمل شعر بن جاتاہے۔ اقبال کی نظم’’شعاعِ امید‘‘ اس کازندہ ثبوت ہے ۔ یہ ایک چھوٹی سی دل آویز نظم ہے ۔ اس کی دل کشی کا راز یہ ہے کہ رمزیت واشاریت ، احساس کی شدت ، تخیل کی بلند پروازی ، پیرایۂ بیان کی دل آویزی اوران کے سوا بھی جتنے فنی وسائل ممکن ہیں شاعرنے ان سب کو انتہائی سلیقے کے ساتھ استعمال کیاہے ، خیال کیساہی اچھوتا کیوں نہ ہوقاری کی توجہ کو صرف ایک بارجذب کرسکتاہے اورشعاعِ امیدکامرکزی خیال ایسااچھوتابھی نہیں لیکن اس نظم کوجتنی بارپڑھیے اتنی بارپہلے سے سوالطف حاصل ہوتاہے۔‘‘
(اقبال شاعرومفکر: نورالحسن نقوی ، ص :۲۳۱)
اقبال کی نظم’’ شعاعِ امید‘‘کی تجزیاتی قرأت کے ذریعے اس کے اصل فکری سرچشموں تک رسائی کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔ ’’شعاعِ امید ‘‘ میں جس نوع کے خیالات کا اظہار کیاگیا ہے اس کا جزوی اظہار ان کی دوسری نظموں جیسے ’’ساقی نامہ ‘‘ اور ’’شاہین‘‘ وغیرہ میں بھی موجود ہے۔ البتہ ’’شعاعِ امید‘‘ کا کینوس زیادہ وسیع، متنوع اورہمہ گیرہونے کے ساتھ ساتھ حیات بخش بھی ہے ۔تکنیک کا تنوع بھی اس نظم میں جابجا نظر آتاہے۔ ’’شعاعِ امید‘‘میں اقبال نے جن کرداروں کو اپنے پیام کا وسیلہ بنایا ہے ان میں سب سے اہم کردار ایک شوخ اورسیماب صفت کرن ہے۔ اقبال نے سورج اوراس کی شعاعوں کی زبان سے جو پیغام ادا کرایا ہے وہ اچھوتا اور لا فانی ہے۔ ’’شعاعِ امید ‘‘ ایک اہم موضوع ہے اقبال سے پہلے بھی شعرانے اس موضوع کو برتاہے۔اقبال کا اختصاص یہ ہے کہ ان کی نظم میں استعارے اور تشبیہیں حسب حال اور توانا ہیں۔اس نظم میں کل تین بند ہیں ، پہلااوردوسرا بندچار چار اشعار اور تیسرا بند نو اشعار پر مشتمل ہے۔ ’’شعاعِ امید‘‘ شاعرکاپیامِ امید ہے جس میں تمثیلی پیرایۂ اظہار اختیار کیا گیا ہے۔
سورج دنیا کے عجیب وغریب چکر کو دیکھ کر اب مایوس ہوچکاہے وہ دنیا میں جتنا زیادہ اجالا پھیلانے کی کوشش کرتاہے اس کا اندھیرا اتناہی بڑھتاجارہا ہے۔ وہ اپنی شعاعوں سے مخاطب ہے کہ ایک زمانے سے تم گردآلود فضاؤں میں دنیا کو منور کرنے کی خاطر اپنا گھربار چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھاتی پھررہی ہو، تمھاری کوششیں سب بے سود ہیں ۔نہ ریت کے ذروں میں پہلی سی چمک ہے اورنہ گل ولالہ میں پہلی سی دل آویزی وکشش باقی ہے۔ آخر کار سورج ناامید ہوکراپنی شعاعوں کو حکم دیتا ہے کہ اس تاریک دنیا کے ویرانے درو بام سے لوٹ آؤ اور پھرسے میرے پرنور سینے میں سماجاؤ۔
سورج نے دیا اپنی شعاعوں کو یہ پیغام
دنیاہے عجب چیز! کبھی صبح، کبھی شام
مدت سے تم آوارہ ہوپہنائے فضا میں
بڑھتی ہی چلی جاتی ہے بے مہریِ ایام
نے ریت کے ذروں پہ چمکنے میں ہے راحت
نے مثلِ صبا طوفِ گل و لالہ میں آرام
پھر میرے تجلّی کدۂ دل میں سماجاؤ
چھوڑو چمنستان و بیابان و در و بام
دوسرے بند میں شعاعیں سورج کے حکم کوبجالاتی ہیں اور دنیا کوچھوڑ کر اپنے بچھڑے ہوئے آقاسے ہم آغوش ہوجاتی ہیں۔تمام شعاعیں یک زبان ہوکرمغرب ومشرق کی شکایت کرتی ہیں اورکہتی ہیں کہ مغرب میں اجالاممکن نہیں کیونکہ مشینوں کے دھوئیں یعنی صنعت کاری اورمادہ پرستی سے ان کے دل مردہ اورزنگ آلود ہوچکے ہیں ۔ مشرقی ممالک پر بھی اس کے اثرات صاف نظرآرہے ہیں، مشرقی قوم بھی فرنگیوں کے طرح بے عملی اوربے راہ روی کاشکار ہے جس سے ان کے اندر مایوسی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔مغربی اور مشرقی عوام کے حالات اور کردارسے بیزار شعاعیں سورج سے کہتی ہیں کہ اب ہمارا دنیا میں چمکنا بے سود اور بے معنی ہے، لہٰذا ہمیں اپنے پاس بلالو اور اپنے سینے میں چھپالو۔
آفاق کے ہرگوشے سے اٹھتی ہیں شعاعیں
بچھڑے ہوئے خورشید سے ہوتی ہیں ہم آغوش
اک شورہے مغر ب میں اجالا نہیں ممکن
افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے ہے سیہ پوش
مشرق نہیں گو لذتِ نظارہ سے محروم
لیکن صفتِ عالمِ لاہوت ہے خاموش
پھرہم کواسی سینۂ روشن میں چھپالے
اے مہرِ جہاں تاب نہ کر ہم کو فراموش
تیسرے بند میں شاعرنے ایک ایسی شوخ کرن کا ذکر کیاہے جو سورج کے پاس لوٹنا نہیں چاہتی۔امید کی یہ شوخ کرن ابھی مایوس نہیں ہے اور وہ آرام کرنابھی نہیں جانتی ہے، وہ چاہتی ہے کہ اسے اپنی ذمے داری پوری کرنے کاموقع دیاجائے۔ ساری کرنیں ناامید و نامراد ہوکر اپنے مرکزکی طرف لوٹ جاتی ہیں مگریہ شوخ کرن اپنے ہاتھوں سے امید کا دامن نہیں چھوڑتی ۔ وہ مشرقی ممالک خصوصاً ہندوستان کو اپنے نور سے منور کرنا چاہتی ہے ۔یہ شوخ کرن کوئی اور نہیں خود علامہ اقبال کی ذات ہے۔ علامہ اقبال شاعری کے ذریعے اپنی قوم کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنا چاہتے ہیں ۔چنانچہ یہ شوخ کرن سرزمینِ ہند کو کسی صورت میں چھوڑنے کو تیار نہیں ، وہ ہندوستان کی تاریک فضاؤں کوروشن اور گہری نیند سوئے ہوئے ہندوستانیوں کو بیدار کرنے کاعزم کرتی ہے۔اس کے بعد ’’شعاعِ امید‘‘ خاکِ ہند کی عظمت کا ذکر کرتی ہے اور اپنی امیدوں کا مرکز قرار دیتی ہے۔ یہی وہ سرزمین ہے جسے اقبال نے اپنے آنسوؤں سے سیراب کیاہے ،اسی خاکِ ہند نے چاندستاروں کوروشنی بخشی ہے اور یہاں کے کنکرپتھر، موتیوں سے بیش قیمت ہیں ۔ اس سرزمین پربڑے بڑے شاعر، علما اور مفکرین نے جنم لیاہے، مگراب یہاں خاموشی ہے ، یہ خاموشی اس بات کو عیاں کرتی ہے کہ ہندوستانی قوم ہندو اور مسلمان دونوں ہی خوابِ غفلت کا شکار ہیں ۔ برہمن بت خانے کے دروازے پر سورہا ہے اور مسلمان اپنی تقدیراور قسمت پر آنسو بہارہا ہے۔یہاں یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ علامہ اقبالؔ نے صرف ہندوؤں اور مسلمانوں کو ہی مخاطب کیاہے د راصل انھوں نے ساری انسانیت کو مخاطب کیا ہے اور قومیت و وطن کے نام پر انسانیت کو تقسیم کرنے کی مخالفت کی ہے ۔ آخری شعر میں شاعر سورج کی شوخ کرن کی زبان سے یہ پیغام دیتا ہے کہ مشرق اور مغرب میں کوئی امتیاز نہیں ، فطرت یہاں کی تاریکی ختم کرکے ساری دنیا میں روشنی پھیلاناچاہتی ہے، یعنی دنیاکے تمام آلام ومصائب اورہرطرح کی خرابیوں کودور کرکے خوشیاں بھردیناچاہتی ہے۔
اک شوخ کرن ، شوخ مثالِ نگہ حور
آرام سے فارغ صفتِ جوہرِ سیماب
بولی کہ مجھے رخصتِ تنویر عطا ہو
جب تک نہ ہومشرق کاہراک ذرہ جہاں تاب
چھوڑوں گی نہ میں ہند کی تاریک فضاکو
جب تک نہ اٹھیں خواب سے مردانِ گراں خواب
خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز
اقبالؔ کے اشکوں سے یہ خاک ہے سیراب
چشم مہ و پرویں ہے اسی خاک سے روشن
یہ خاک کہ ہے جس کا خزف ریزہ در ناب
اس خاک سے اٹھے ہیں وہ غواصِ معانی
جن کے لیے ہربحرِ پر آشوب ہے پایاب
جس سازکے نغموں سے حرارت تھی دلوں میں
محفل کا وہی سازہے بیگانۂ مضراب
بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن
تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہ محراب
مشرق سے ہو بیزار، نہ مغرب سے حذرکر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
علامہ اقبال اپنی نظم’’شعاعِ امید ‘‘ کے ذریعہ اپنی قوم وملت کو اس امر کی جانب راغب کرناچاہتے ہیں کہ انسان کو کبھی ناامید اور مایوس نہیں ہوناچاہیئے کیونکہ مذہب اسلام میں ناامیدی کفر ہے اورانسان جیسی امید رکھتاہے اسی کے مطابق فیصلے بھی صادرہوتے ہیں ۔ اقبال گہری بصیرت کے مالک تھے ، ان کے فکروعمل کا کوئی گوشہ مخفی نہ تھا، انھوں نے بڑی جرأت کے ساتھ اسلامی تصوف کی ترجمانی کی اورمغربی تہذیب کی خرابیوں اوراس کے انجام کی نشان دہی بھی کی۔
’’شعاعِ امید ‘‘ اقبال کی ایک مشہور نظم ہے ۔اس نظم کو اگر ہم اقبال کا فنی اور فکری شاہکار کہیں توبے جانہ ہوگا۔ اس میں اقبال بحیثیت شاعر، فنکار اور مفکر اپنے فن کے عروج پر ہیں۔یہ نظم تصویرکشی ، منظرنگاری ، محاکات اور وطن پرستی کے گہرے جذبات سے نہ صرف معمور ہے بلکہ اس میں شاعر کی قادرالکلامی ، فن پر کامل دستگاہ ، جزئیات نگاری پر فنکارانہ دسترس اوراس کے دل وروح کے سوزوگدازبھی اجاگر ہوئے ہیں۔اس لحاظ سے اگر غورکریں تو اس نظم میں میرانیسؔ جیسی منظرنگاری بھی ہے ، میرؔ جیسی جذبات نگاری بھی اور غالبؔ جیسی معنی آفرینی بھی۔ان پہلوؤں کے پیش نظر اگر ہم اقبال کے کلام کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ان کے یہاں استاذشعرا کی تمام خوبیاں یک جا ہوگئی ہیں ۔
ناقدین ادب نے علامہ اقبال کی نظم ’’شعاعِ امید‘‘کی نہ صرف سراہناکی ہیں بلکہ اس کے مختلف اجزا اور اس کی خصوصیات کی وضاحت بھی کی ہیں ۔ کلیم الدین احمد اقبال کی شاعری کے زیادہ قائل نہی مگر انہیں بھی اعتراف ہے کہ’’ شعاعِ امید‘‘ ایک کامیاب تخلیقی تجربہ ہے ۔ نظم کی تعریف کرتے ہوئے لکھاہے:
’’کیسی حسین وپاکیزہ نظم ہے ! یہاں ارتقائے خیال ہے ، اشعار میں ربط وتسلسل ہے ۔ خیالات میں ابتدا ، عروج اور پھر انتہا بھی ہے ۔ یہ صحیح معنوں میں نظم ہے ، غزل نے نظم کابھیس نہیں بدلاہے ۔ خیالات میں تخیل کارنگ ہے ، طرزِ ادا سادہ اور پاکیزہ ہے ۔ باربار پڑھنے سے اس کی دل کشی میں کمی نہیں ، اضافہ ہوتاہے ۔ کاش اقبال اس قسم کی نظمیں اور لکھتے۔‘‘(بحوالہ: اقبال شاعرومفکر، ص ۲۳۹)
اقبال کی نظم’شعاعِ امید ‘‘کاشمار ان کی بہترین نظموں میں ہوتاہے ۔ اس کے الفاظ اور آہنگ نے اسے ایسا دلکش بنا دیاہے کہ باربار پڑھنے کو جی چاہتا ہے ۔نظم کا ربط وتسلسل شروع سے آخر تک برقرار رہتا ہے اور اشعار صوری اورمعنوی ہر دو اعتبارسے آپس میں اس طرح مربوط وپیوست ہیں کہ ذرابھی اِدھراُدھرکرنے کی گنجائش نہیں پائی جاتی ۔ روانی اورسلاست ایسی کہ اکثراشعار فوراً یاد ہوجاتے ہیں۔ ایسامعلوم ہوتاہے کہ سورج اور اس کی شعاعوں کی گفتگو بالکل فطری ہے ۔سادگی، جوش،اصلیت اورنغمگی ایسی کہ کوئی پڑھے تو خود بخود گنگنانے لگے۔
***
ڈاکٹر محمد زبیر نے ممبئی میں اردو تحقیق کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ نوجوان لکھنے والوں میں توجہ سے پڑھے جاتے ہیں۔