Ana ki Taskeen a Short Story by Noman Nazeer

Articles

انا کی تسکین

نعمان نذیر

چھت مسلسل چھلنی ہو رہی تھی گو یا کسی جنگ میں دشمن کی گولیوں کے نشانے پہ ہو اور اس میں مسلسل چھید ہو رہے ہوں۔ ان سوراخوں سے پا نی کے تیز رفتار قطرے خون کی دھاریوں کی ما نند چل رہے تھے۔ بارش تھی کی تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ دسمبر کی اس با رش نے خون رگوں میں جما دیا تھا۔رضیہ اور اللہ دتہ اپنے بچوں کو مثل پرندوں کی اپنے پروں میں چھپائے بیٹھے تھے۔جیسے شکاری سامنے موجود ہو اور شکار اپنے بچاؤ کی آخری کوشش کر رہا ہو۔ اس قاتل موسم میں کچے کمرے میں موجود گرم انگیٹھی تو کب کی ٹھنڈ ی ہو چکی تھی بستر بھی مسلسل چھت ٹپکنے سے کافی حد تک گیلے ہو چکے تھے۔
رضیہ اور اللہ دتہ پیدائشی مفلس نہ تھے بلکہ ایک آفت کے مارے اس حال میں تھے۔ اللہ دتہ کے پاس وراثت میں ملی ۴ ایکڑ زمین تھی جس میں فصل اگا کے وہ اچھا گزر بسر کر رہے تھے۔اللہ دتہ کا باپ اب بہت بوڑھا ہو چکا تھا اور بیمار بھی رہتا تھا۔اس کا ایک چھوٹا بھائی سکول میں اچھا طالب علم رہنے کے بعد اب کا لج میں داخل ہو چکا تھا۔سکول کے سب اساتذہ اس کی قابلیت کے متعرف تھے۔اللہ دتہ سے عمر میں آٹھ نو سا ل چھوٹا تھا اس نے تو پڑھائی میں زیادہ دلچسپی نہ لی اور باپ کے ساتھ کھتی باڑی کر نے لگا۔اب تمام خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اس پہ تھی۔اس لیے اس کی خواہش تھی کے اس کا بھائی پڑ لکھ کر اچھا مسقبل بنائے کیھتوں میں کیا رکھا ہے مٹی میں مٹی ہو نا۔
حبیب اللہ نے میڑک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پا س اور مز ید تعلیم کے لئے شہر میں کا لج میں داخلہ لے لیا۔ گاؤں سے شہر کا فاصلہ بارہ تیرا میل تھا۔ساتھ کے گاؤں سے ایک بس روز صبح شہر کو جا تی اورشام سے قبل واپس آجا تی اس لئے اس کا شہر جا نا زیادہ مشکل نہ ہوا۔کالج میں بھی جلد ہی اس نے نمایاں طالب ِ علوں میں جگہ بنا لی۔گاؤں میں بھی سب اس کو بڑی عزت دیتے تھے کہ وہ گاؤں والوں کے لئے فخر کا باعث تھا۔بل کھاتی سڑکوں پہ وہ زندگی کی منزلوں کا متلاشی تھا۔
حبیب اللہ نے ایف۔ایس۔ سی میں کامیابی کے بعد بی۔ایس۔سی میں داخلہ لے لیا۔اس کو سکالر شپ مل گئی جس کی وجہ سے بھائی پہ خرچے کا زیادہ بوجھ نہ پڑا۔وہ کا لج سے چھٹی کے بعد ایک جگہ ٹیوشن پڑھانے کے بعد گھر آتا۔اس نے کچھ رقم جمع کر کے اور کچھ بھائی سے لے کر ایک پرانی موٹر سائیکل لے لی تاکہ شہر ٓانے جا نے میں آسانی ہو۔ پورے گاؤں میں سے وہ چند ایک پڑے لکھے لوگوں میں سے ایک تھا گاؤں کے نوجوان زیادہ تر زمینداری، غلہ بانی کی طرف راغب ہو جا تے۔گاؤں کا سب سے بڑا زمیندار چوہدری عبدالعزیز تھا۔ چوہدری صاحب نیک سیرت،ہمدرد اور غریبوں کے خیر خواہ تھے صلوۃ و صوم کے پابند۔۔۔۔۔۔!! لیکن حبیب اللہ کے تعلیم حاصل کرنے کی خبر نے ان کے دل میں کوئی خاص خوشگورگی کا احساس پیدا نہ کیا۔۔۔۔ چوہدری کا اپنا بیٹا نہ تھا اس کی واحد اکلوتی اولاد ایک بیٹی تھی۔اس کی واحد اکلوتی وارث لیکن چوہدری کی طبیعت میں اسی قدر حرص و لالچ بھی شامل تھا۔اس کا بھائی شہر میں رہتا تھا اس کے تین بیٹے تھے جو وہیں تعلیم حاصل کر رہے تھے اور ایک اپنا کاروبار چوہدری کی نسبت ان کا مزاج روشن خیال تھا لیکن چوہدر ی فرسودہ خیالات کا مالک تھا۔اس کی بیٹی”عالیہ“بمشکل میڑک پاس کیا اور چوہدری نے اسے شہر کے مشہور کالج میں داخل کرویا جبکہ عالیہ کی طبعت پڑھائی کی جانب ہو نے کے برابر تھی۔ایک روز چوہدری نے اللہ دتہ کو ڈیرے پہ بلایا،اس سے حبیب کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ وہ حویلی میں آکے چھوٹی چوہدرانی(عالیہ) کو آکے پڑھایا کرے۔ اللہ دتہ جی سرکار جو آپ کا حکم وہ ضرور آئے گا اور سر کے بل چل کے آئے گا۔۔۔۔ حبیب بھائی کی تا کید کے مطابق شام کو حویلی پہنچا اس کوعام لو گوں کی طرح بیٹھک میں نہیں بٹھایا گیا۔ چوہدرانی نیک اور رحم دل خاتون تھی وہ حبیب کے سا تھ بہت عزت سے پیش آتی وہ اُسے استاد کا درجہ دیتی اور بیٹوں کی طر ح سمجھتی جبکہ چوہدری کا رویہ یکسر مختلف تھا۔عالیہ کا رویہ پڑھائی کی جابب کچھ اچھا نہ تھا۔لیکن وہ حبیب کے سا تھ بہت عزت سے پیش آتی۔ دو ماہ گذر گئے عالیہ کے امتحان قریب آگئے اس نے با پ سے کہلوایا کہ اب اس کو حبیب کی زیادہ ضرورت ہے وہ اسے امتحانات کے دوران زیادہ وقت دے تا کہ اس کا نتیجہ اچھا آئے۔ وہ اس کی اکلوتی لاڈلی بیٹی تھی اس کی با ت کو کیسے رد کر سکتا تھا سا تھ ہی اس کو یہ خوشی بھی ہو ئی کہ اس کا پڑھائی میں دل لگ گیا۔۔۔۔۔ عالیہ حبیب کی منتظر رہتی اس کی آنکھوں کی چمک کچھ اور ہی بتا رہی تھی۔ حبیب کو ایک دو با ر اس با ت کا شک ہو لیکن اس نے زیادہ توجہ نہ دی۔ عالیہ اس کے باتوں سے زیادہ اس کی طرف توجہ دینے لگی۔عالیہ نے اس سے اظہار کر دیا کہ وہ اسے پسند کرنے لگی ہے حبیب نے اس با ت پہ تعجب کا اظہار کیا اور اس ڈانٹا بھی لیکن وہ اس کی تما م باتوں کو برداشت کر گئی لیکن با ت سمجھنے کو تیا ر نہ ہوئی۔حبیب اس بات کا خوف نا ک انجام جا نتا تھا لیکن وہ فل وقت آنے سے انکار بھی نہیں کر سکتا تھا اس کی سوچوں کی گھتی مزیدالجھ رہی تھی۔عالیہ جذباتیت کی اس انتہا پہ تھی جہاں کوئی نصحت کار گر نہیں ہو تی۔
سردیوں کے خاتمے کے بعد بہار کے موسم کی آمد آمد تھی۔ گاؤں کے ہر سو ہریالی کی بہار تھی گندم کی ٖفصل جواں تھی سٹوں میں دانہ پڑ چکا تھا سرسوں کے پھول ختم ہو کہ پھلیوں کی صورت میں ڈھل چکے تھے۔دوپہر کے وقت کریم عالیہ کو حساب کے پر چے کی تیاری کروا رہا تھا۔چوہدری صاحب ڈیرے پہ تھے۔عالیہ کے پرچے جلد ہی شروع ہو نے والے تھے۔عالیہ کی آنکھوں میں ایسی چمک تھی کہ مشکل سے ہی ایسی نظر رائیگاں جا تی ہے۔عالیہ نے پھر وہی مو ضو ع چھیڑا لیکن کریم نے تو جہ نہ دی۔عالیہ نے بسی کے آنسو بہانے لگی حبیب نے گھبراہٹ کے عالم میں اس کو سمجھانے کی بہت کو شش کی۔اس نے شفقت سے اس کے سر پہ ہا تھ رکھا۔ عالیہ رونے ہو اس کے گلے لگ گیا اس نے خود کو الگ ہو نے کی بہت کو شش کیا لیکن وہ پھوٹ پھو ٹ کر رو نے لگی۔ اچانک چوہدری صاحب آگئے بیٹی کو اس حالت میں گاؤں کیاایک معمولی لڑکے کے سا تھ دیکھ کر یک لخت سکتے میں آگئے۔ ایک لمحے کے بعد وہ وہاں سے اپنے کمرے کی جانب چلے گئے۔ کئی راتوں تک وہ سو نہ سکے لیکن اس راز کو فاش نہ کیا کہ اس میں اپنی عزت کے تاتار ہونے کا اندیشہ تھا۔
چند دن بعد ایک خبر جنگل میں آگ کی طر ح پھیلی کہ چوہدری عبدالعزیز کے گھر میں چوری ہو گئی ہے اس میں لاکھوں مالیت کے زیورات کے علاوہ نقدی بھی شا مل تھی۔حبیب کے امتحا نا ت کے سلسلے میں کا لج سے چھٹیاں تھی اور وہ اس کی تیاری کر رہا تھا۔ اپریل کے مہینے کا آغاز تھا وہ صحن میں موجود دریک کے درخت کے پتلی چھاؤں میں چارپائی پہ بیٹھا پڑھائی میں مشغول تھا کہ اچانک گھر کے پرانے زنگ آلود دروازے پہ دستک رضیہ نے دروازہ کھولا تو پولیس کی وردی میں ملبوس چار سپاہی اندر آئے اورحبیب جو چار پائی سے اُٹھنے کا اردہ ہی کر رہا تھا آدبوچااُس کو ہتھکڑیاں لگا کر جانے لگے وہ حیران تھا رضیہ رونے لگی حبیب نے بھی حیرت اور پریشانی کے عالم میں پوچھا کہ آخر قصور کیا ہے پولیس والے اس کو گاڑی میں بٹھاتے ہو ئے صرف اتنا بولے ”چوری“۔۔۔۔چوہدری عزیز کے گھر چوری نمک حرام نے۔۔۔۔چوری کی!!
جیل کے تاریک کمرے میں وہ بیٹھا اسی سوچ میں غرق تھا جرم۔۔۔کیسا جرم۔۔عالیہ کا مجھ سے محبت کرنا۔۔ کیونکہ میں میری حثیت۔۔ سوچوں کا جال الجھتا ہی جا رہا تھا۔اس کو ایک ایسے جرم کی سزا دی جا رہی ہے جس میں اس کا کو ئی قصور بھی نہیں۔ لیکن اس راز کو کبھی اس نے بھی فاش نہ کیا۔ کریم کے بھائی نے بہت دوڑ دوپ کی لیکن ایک عام دیہاتی غریب آدمی کی کون سنتا۔آخر کار چوہدری کی لاکھوں کی چوری تھی۔۔۔۔سال بھر میں دو ایکڑ زمین بک گئی لیکن اس کی رہائی نہ ہوئی۔اللہ دتہ بہت رویا منت سماجت کی لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی۔عالیہ نے اپنے باپ کو ساری بات بتائی کی اصل قصور وار وہ خود ہے اس پہ چوہدری صاحب نے بہت مہربانی کہ بقایا دو ایکڑ زمین کے بدلے صلح ہو گئی اور حبیب ڈیڑھ سال کی قید با مشقت کے بعد رہا ہو گیا۔اس دوران اس کا بوڑھا باپ جوان بیٹے کے دکھ میں دنیا سے چل بسا۔بھائی کے پاس بھی اب کچھ نہ بچاتھا۔ زمین مال مویشی سب بک گیا۔اللہ دتا محنت مزدوری پہ آگیا زمین جو اس کی آس اس کا مان تھی اب چوہدری کے پاس تھی۔حوالات میں بے جا تشدد کے باعث حبیب کی ہڈیاں کمزور ہو گئیں اس کی صحت نے بھی جواب دے دیا سانس کی تکلیف دمے کی صورت اختیار کر چکی تھی۔اللہ دیہ ان سب مشکلات کو برداشت کرتے کرتے قبل از وقت بوڑھا اور کمزور ہو رہا تھا مگر پھر بھی حوصلہ نہ ہارا۔حبیب سارا دن گھر میں پڑ ا اس خوف ناک وقعے کی وجہ سوچتارہتا۔ گھر کے درو دیوار اس کو قید سے کم نہ لگتے اب وہ اپنی بیماری سے بھی لڑ رہا تھا اور حالات سے بھی۔گھر کے حالات دن بہ دن خستہ حالی کا شکار ہو ر تھے۔کھیتی باڑی کے لئے اب زمین بھی نہ تھی۔اللہ دتہ اب محنت مزدوری کرتا تھا۔حبیب دو ہفتے بعد شہر میں سرکاری ہسپتال میں گھنٹوں قطاروں میں لگ کے دوائی لے کہ آتا غریب کا واحد سہارا سرکاری ہسپتال ہی ہو تا ہے جس میں ڈاکٹر تک پہنچنے کے لئے بھی صبرو استقامت سے کا م لینا پڑتا ہے۔حبیب کو علا ج سے زیادہ افاقہ نہ ہو رہا تھا۔اس کے مرض میں بتدریج اضافہ ہی ہو تا رہا۔
اللہ دتہ سارا دن چوہدری کے ہاں کام کاج کرتا۔ چوہدری اس کی ایمانداری اور کام کی لگن سے خو ش تھا۔ایک دن اس نے اسے ڈیرے پہ بلایا اس کے کام کی تعریف کی اور کہا کہ اس ڈیرے کے تمام کام کی دیکھ بھا ل وہ کرے گا اور حساب کتا ب کے لئے اپنے بھائی حبیب کی مدد بھی لے سکتا ہے کیونکہ وہ پڑھا لکھا نو جوان ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر سخاوت یہ کہ اگر وہ چاہے تو ڈیرے پہ ہی اپنی رہائش رکھ سکتا ہے یہ سب ایک درد دل اور ہمدر انسان ہی کہہ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔چوہدری جی آپ ہمارے مالک ہیں آپ کے سواء ہمارا اور ہے کون آپ کے اعلٰی ظرفی ہے جو اس غریب کو اس قابل سمجھا۔اللہ دتہ شکرانہ انداز میں بو لا۔
حبیب کو احساسِ ندامت ہر وقت ستاتا کی اس کی وجہ سے سارا خاندان تباہ ہو گیا۔یہ خیال اس کے دل پہ چرکے لگاتا۔بھائی نے اس کی خاطر اپنا سب کچھ لُٹا دیا اور اب بھی اس کی خاطر سب کچھ کرنے کو تیا ر ہے کہ کسی طرح اس کی صحت بحا ل ہو جائے اور اپنی پڑھائی پھر سے شروع کرکے اپنا اچھا مستقبل بنا سکے۔حبیب حسب معمول دوا کی خاطر ہسپتال گیا تو ڈاکٹروں نے اس کو داخل کر لیا اس کے مزید ٹیسٹ بھی کراوئے۔ اس کو ٹی بی کا مرض تشخیص ہوا۔ ڈاکٹروں نے اس کو اچھے ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیا جس کا خرچ تو زیادہ لیکن سہولیات تما م موجود تھیں۔اللہ دتہ نے چوہدری سے قرض لے کر اس کے علاج کا بندوبست کیا۔ڈاکٹروں نے علاج شروع کیا۔اللہ دتہ ہر دوسرے دن اس کی خیر خبر لینے آتا۔وہ سارا دن ہسپتال میں لاورثوں کی طرح پڑا بھائی کی راہ تکتا رہتا۔اس وارڈ میں موجود دوسرے مریضوں کے عزیز و اقارب آتے تو ان کو دیکھ اس کا دل بیٹھ سا جاتا جو جاتے ہو ئے اس پہ بھی ہمدردی کی ایک نگاہ ڈال جا تے۔۔۔۔۔۔ ہسپتال کے ڈاکٹروں سے لے کر خاکروب تک سھبی اس کو جاننے لگے آتے جا تے اس سے خیریت دریافت کر تے۔جو آپس میں بات کرتے تو کہتے بے چارہ غریب جوان۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی آتا آکے مل کے واپس چلا جا تا اس کے سواء کر بھی کیا سکتا تھا سب کچھ لُٹا دینے کے بعد اب اگر محنت مزدوری بھی نہ کرتا تو جسم اور روح کا رشتہ کیسے برقرار رہتا۔اس کے دو معصوم بچے بھی تھے جو اب دو وقت کی روٹی کے بھی محتاج تھے۔ہسپتال میں حبیب کو آئے دو ہفتے بیت چکے تھے۔ڈاکٹروں کو اب اس کی بہتر ی کی کا فی اُمید نظر آنے لگی تھی۔ بظاہر اب اس کی حالت اب ویسی نہ تھی جیسے دو ہفتے پہلے سے اب بہت بہتر تھا۔ایک سہ پہر اس کو اچانک کھانسی کا شدید دورہ پڑا اس کے ساتھ ہی اُسے ایک خون آلود قہہ آئی۔اس کی حالت خراب ہو نے لگی۔ ڈیوٹی پہ معمور وارڈ نرس نے ڈاکٹر کو بلایا اس کا سا نس اکھڑ رہا تھا۔ اس کی سانس کی بحالی کی پوری کوشش کی گئی۔ڈاکٹروں اور نرسوں کی آنکھیں سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کی جا نب دیکھنے لگے ان نظر وں میں ہی جواب تھا۔۔۔۔۔۔سوری۔۔۔
گاؤں مں اس قابل ہونہار نوجوان کی لاش پہنچنے پہ کہرام مچ گیا ہر کوئی اشکبار تھا۔ چوہدری صاحب نے کفن دفن کا بندوبست کرایا۔ لواحقین کی خوب داد رسی کی۔کیونکہ وہ سب کے ہمدرد تھے۔۔۔۔اللہ دتہ کئی روز تک بھوکا پیاسا روتا رہا بھائی کی قبر سے نہ ہلا مگر۔۔۔زندگی بہت کچھ کرنے پہ مجبور کر دیتی ہے۔ عالیہ کو جب اس بات کا علم ہوا تو اس نے بہت آہ زاری کی اس کے ساتھ ہونے والے سلوک کا ذمہ دار باپ کو ٹھہرا اس راز کو فاش کر دیا جس نے کئی زندگیاں اُجاڑی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن چوہدری انا پرست تھا کیوں کہ وہ با اختیار تھا عالیہ کی محبت یک طرفہ تھی اس بات کو جاننے کے باوجود اس کی انا کی تسکین ابھی نہ ہوئی تھی۔
چند ماہ بعد ہی چوہدری نے قرض کی واپسی کا تقاضا شروع کر دیا۔ اللہ دتہ تو دو وقت کی روٹی کا محتاج تھا وہ قرض کی واپسی کو اتنا جلدی رقم واپس کر نا اس کے بس میں نہ تھا۔ چوہدری نے چند ماہ کے انتظار کے بعد قرض کے بدلے اللہ دتہ کا گھر بھی کے لیا اُس کو رہنے کے لئے ڈیرے پہ جانور باندھنے والے کمروں سے متصل ایک کمرہ رہنے کے لئے دیا تاکہ وہ اس کی ملازمت بھی کرتے رہیں۔