ANWAR KHAN KI FANKARI BY DR. JAMAL RIZVI

Articles

انور خاں کی فنکاری

ڈاکٹرجمال رضوی

انور خاں کی فنکاری
ڈاکٹرجمال رضوی
ادب کی تخلیق کے اسباب و محرکات میں جس ایک نکتے کو متفقہ طور پر قبول کیا گیا ہے وہ یہ کہ موجودات و مظاہرات عالم کو جاننے اور سمجھنے کا عمل جب تک کیوںاور کیسے سے نہ شروع ہو تب تک ادب کی تخلیق کے امکان روشن نہیں ہو سکتے۔یوں اگر عمومی طور پر دیکھا جائے تو تہذیب و تمدن کے ارتقا میں بھی اس کیوںاور کیسے نے کلیدی کردار اد ا کیا ہے۔ہزاروں برس کو محیط انسانی تاریخ جن مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے عصر حاضر تک پہنچی ہے،اور آگے بھی جہاں تک اس کاسفر جاری رہے گا ،اسے کامیابی کی منزلوں سے ہمکنار کرنے میں انسان کے اس استفسار اور جستجو کی اہمیت کو بہر طور قبول کیا جائے گا۔اس مقام پر یہ واضح کر دینا بھی ضروری ہے کہ دنیا کا ہر انسان خواہ اس کا تعلق کسی بھی پس منظر سے ہو ،وہ اس استفسار اور جستجوسے بالکل اس قدر بے نیاز بھی نہیں ہوتا کہ اس کا ذہن حیات و کائنات کی نیرنگیوں میں پوشیدہ حقیقت کو دریافت کرنے کی کبھی کوئی کوشش ہی نہ کرتا ہو۔لیکن اس کوشش میں کسی ایک منزل یا نتیجہ خیز مقام تک پہنچنے میںکئی کڑے کوس طے کرنے پڑتے ہیں لہٰذا اکثریت فرار کی وہ راہ اختیار کر لیتی ہے جو اس کوشش سے وابستہ کرب کے بجائے آسودگی و اطمینان کی اس پناہ گاہ تک جاتی ہے جہاں مختلف قسم کی پابندیاں اور مجبوریاں اس کیوںاور کیسے پر حاوی ہو جاتی ہیں اور پھر اس کوشش کے جاری رہنے کا مظاہرہ تو کیا جاتا ہے لیکن اس مظاہرے سے صداقت کا عنصر مفقود ہو جاتا ہے۔عام انسان اور تخلیقی ذہن رکھنے والوںمیںبنیادی فرق اسی صداقت کی بنیاد پر قایم ہوتا ہے۔تخلیقی ذہن اپنے حال سے آسودہ و مطمئن ہونے کے بجائے زندگی کے ہر معاملے میں اپنے افکار و خیالات کو ان سوالوں کے ذریعہ توانا ومتحرک بنائے رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ادب کی تخلیق سے وابستہ افراد کی فکر کو وسعت اور تخیل کو بلندی تحقیق و جستجو کے لیے آمادہ کرنے والی اس قوت سے حاصل ہوتی ہے جہاں سے دانشوری کے چشمے پھوٹتے ہیں۔چونکہ ہر عہد کاانسانی معاشرہ اپنی تہذیبی روایات ، معاشی معاملات اور سیاسی صورتحال کی بنا پر ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے لہٰذا اس اختلاف سے ادب کا تخلیقی رویہ بھی ایک حد تک متاثر ہو تا ہے۔ اگر اس حوالے سے اردو ادب کا جائزہ لیا جائے تو اس کے ابتدائی دور سے اب تک رواں اس کے تخلیقی دھارے میں فکر و خیال اور اسلوب و ہیئت کی جو رنگا رنگی نظر آتی ہے وہ ہر عہد کے اپنے مخصوص مزاج کی ترجمانی کرتی ہے۔اگر بات خصوصی طور سے اردو افسانہ نگاری کی، کی جائے تو ایک صدی سے کچھ برس زیادہ پرانی اس صنف میں زبان و بیان اور موضوع کے جو تجربات ہوئے ان کے پیچھے بھی بیشتر یہی اسباب کارفرما رہے۔اس مضمون میںجس افسانہ نگار کے فن پر گفتگو مقصود ہے اس کا دور اردو کے افسانوی ادب میںموضوع اور طرز اظہار میںتجربات کا دور رہا ہے۔ان تجربات نے اردو کے افسانوی کینوس کو وسعت تو عطا کی لیکن اس وسعت کی بعض جہتیں اعتبار و وقار سے محروم رہیں۔اس محرومی کا خاص سبب بعض فیشن زدہ افسانہ نگاروں کا دوسروں سے منفرد اور نمایاںنظر آنے کا وہ رویہ تھا جس میںفنی ریاضت اور اس کے تئیں اخلاص کی مقدار بہت کم تھی۔ ایسی صورت میں افسانوں کے نام پر تخلیقات کا ذخیرہ تو جمع ہو گیا لیکن اس ذخیرے میںسب کچھ ایسا نہیں ہے جو ادب کی اس صنف کی قدر وقیمت میںاضافہ کرتا ہو۔چونکہ انور خاں بھی اسی زمانے میں بطور افسانہ نگار اردو کے ادبی حلقہ میں متعارف ہوئے اس لیے ان کے یہاں بھی بعض ایسی تخلیقات نظر آتی ہیں جو افسانہ نگار کی تخلیقیت پر چھائی یکسانیت اور اکتاہٹ کو نمایاں کرتی ہیں۔لیکن اس انداز اور مزاج کے حامل افسانے ان کے کل تخلیقی سرمایہ میںبرائے نام ہیں۔ان کے بیشتر افسانوں کو ادبی اعتبار حاصل ہوا یہی سبب ہے کہ ۱۹۸۰ء کے بعد کے افسانہ نگاروں کا تذکرہ انور خاں کے بغیر ادھورا سا محسوس ہوتا ہے ۔انور خاں کے افسانے کئی اعتبار سے قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ان میں زبان و بیان کا اچھوتا انداز، موضوعات کو برتنے کا منفرد تخلیقی رویہ اور اختصار میںجامعیت کی وہ کیفیت ہے کہ ہر سطر معنی خیزی سے معمورنظر آتی ہے ۔فن کی سطح پر یہ وہ عناصرہیںجو انور خاں کو اپنے معاصرین سے منفرد اور اردو کے افسانوی ادب میں نمایاں مقام عطا کرتے ہیں۔
انور خاں کے فنکارانہ امتیازات پر مزیدکچھ کہنے سے پیشتر ادب کی تخلیق کے اسباب و محرکات کے سلسلے میں جو گفتگو سطور بالا میںپیش کی گئی اس کے حوالے سے ان کے ایک خط کا اقتباس یہاں درج کر نا مناسب معلوم ہوتا ہے۔انور خاںنے یہ خط ۱۹۶۴ء میں انور قمر کے نام لکھاتھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ انور خاں کا افسانے کی تخلیقی دنیا سے رابطہ بھی قایم نہیںہوا تھا۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ راستے اور کھڑکیاں ۱۹۷۶ء میںپہلی بار شائع ہوا تھا۔اس افسانوی مجموعے کی اشاعت سے ۸؍برس قبل لکھا گیا یہ خط ان کے اس ذہنی رویہ کو ظاہر کرتا ہے جو ادب کی تخلیق کے اسباب مہیاکرتا ہے۔وہ اپنے اور اپنے گرد و اطراف کے حالات کے سیاق میںکچھ ایسے سوالات قایم کرتے ہیں جن کے جواب حاصل کرنے کی کوشش ہی فکر و خیال کو حیات و کائنات کی گہرائی و گیرائی کا جائزہ لینے پر آمادہ کرتی ہے۔ان کے الفاظ ہیںـ’’ میںجاننا چاہتا تھا، دنیا میںیہ اونچ نیچ کیوںہے؟ نیکی کیا ہے؟ بدی کیا ہے؟ نیکی کیوںکی جائے؟ بدی کیوں نہ کی جائے؟ اس دنیا میںمیری حقیقت کیا ہے؟ خود اس دنیا کی حقیقت کیا ہے؟ میںکیا کرسکتا ہوں؟ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میںکیا کروں؟ ‘‘۔اس دنیا اور دنیا کی حرکت و رفتار کی بقا کے ضامن حضرت انسان اور اس کی حیات سے وابستہ اقدار کے متعلق یہ استفسارات نہ صرف انور خاں کی ذہنی سطح کا پتہ دیتے ہیں بلکہ یہ ایک اشاریہ ہیں ان افسانو ں کے تخلیقی نہج کا جن کی بنا پر انھیں اردو افسانہ نگاری میںنمایاں مقام حاصل ہوا۔ان سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے عمل میںوہ افسانے وجود میںآئے جو انسانی سماج کے دلچسپ، حیرت انگیز، امید افزا اور کبھی مایوس کن و درد ناک حقائق سے روبرو کراتے ہیں۔یہا ںاک ذرا اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ خط کے منقولہ اقتباس میںصرف استفسار ہی نہیں ہے بلکہ اس استفسار میںروایت پرستی کے بجائے ایک نئی راہ بنانے کی خواہش صاف نظر آتی ہے۔بدی کیوںنہ کی جائے، یہ بظاہر ایک چھوٹا سا اور معمولی سوال ہے لیکن اس سے دو باتیںواضح ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ معاصر سماج میںنیکی اور بدی کے تصور سے انور خاں کا عدم اتفاق اور دوسرے یہ کہ اگر نیکی اپنے تمام تران مصدقہ حوالوںکے ساتھ جن کا تعلق سماجی اخلاقیات ، مذہبی عقائد اور تہذیبی روایات سے ہوتا ہے ،رائج ہو تو بھی کیا یہ ضروری ہے کہ اسی راہ پر چلا جائے اور کسی دوسرے راستے کی تلاش نہ کی جائے؟اسے معاشرتی اقدار سے بغاوت کے بجائے انسانی سماج سے ان کے اس بے پایاں خلوص کے طور پر دیکھنا چاہیے جو مسائل و مصایب میںگھرے انسانوں کی کس مپرسی اور محرومی پر جھنجھلا کر ایک نئی سمت دریافت کرنے کاعندیہ ظاہر کرتا ہے۔
انور خاں کے بیشتر افسانوں میںانسانی رویہ کا یہی انوکھاپن نظر آتا ہے ۔اس رویہ کو انسان کی خود پسندی، خود نمائی،تصنع اور ظاہر پرستی سے تعبیر کیا گیا ، اور اس لیے کیاگیاکہ یہ رویہ تہذیب و معاشرت کے مصدقہ ضابطوں اور طور طریقوں سے بالکل مختلف ہے۔یہ اختلاف اس حد تک بڑھتا ہے کہ جذبات کی نوعیت میںحیرت انگیز اور عبرت ناک قسم کی تبدیلی پیداہوجاتی ہے۔انور خاں کاافسانہ’ شاندار موت کے لیے‘ اس کی واضح مثال ہے۔افسانے کامرکزی کردار اس انسانی نفسیات سے بالکل میل نہیںکھاتا جو خوشی اور غم کے روایتی تصور کے ساتھ زندگی گزارتا ہے بلکہ اس افسانے میںموت جیسی کرب آمیز حقیقت کو بھی ایک جشن کے اہتمام میںتبدیل کر دیا گیاہے۔ڈائنا اس افسانے کا مرکزی کردار ہے ۔بستر مرگ پر لیٹی ڈائنا جس طرح اپنی موت کے جشن کا خاکہ تیار کرتی ہے وہ بظاہر اس کے شہرت پسند اور تصنع آمیز مزاج کو نمایاں کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی دنیوی شان و شوکت سے اس کی بے انتہا لگاوٹ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔یہ افسانہ پہلی قرات میںمکمل طور پر خیالی اور مثالی نظر آتا ہے کہ جس صورتحال کی عکاسی اس میں کی گئی ہے اس کا وقوع ہونا بہت حد تک بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے۔لیکن افسانے کی تخلیق کا زمانہ، اس زمانے کا طرز معاشرت، انسانی سماج کی ترجیحات اور زندگی کرنے کے طور طریقوں کو پیش نظر رکھ کر اگر اس افسانے کو پڑھا جائے تو اس کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ انور خاں نے عیاری اور مکاری کی دبیز تہہ میں پوشیدہ اس انسانی حقیقت کو دریافت کر لیا ہے جو سنگدلی اور سفاکیت کا آمیزہ ہے۔یہ سنگدلی اور سفاکیت جب تہذیب و تمدن کے خلعت سے آراستہ ہو کر پرشکوہ انداز میں معاشرہ میں ظہور کرتی ہے تو ڈائنا جیسے کردار وجود میں آتے ہیں۔انور خاں کے بیشتر افسانوں کے کردار وں کی فطرت اور نفسیات میں یہ حیرت انگیز قسم کے مظاہر نظر آتے ہیں۔
انور خاں کی فنکاری کا قابل ذکر وصف یہ ہے کہ وہ کرداروں کی تخلیق میں ان کے معاشرتی اور تہذیبی پس منظر سے وابستہ ان عناصر کو منتخب کرتے ہیں جو بہ ظاہر غیر معمولی اورایک بے رنگ سی حقیقت نظر آتے ہیں لیکن یہ معاشرتی اور تہذیبی عناصر انسانی شعور و عمل کو اس انداز سے متاثر کرتے ہیں کہ اس کی شخصیت بہ یک وقت کئی متضاد رنگوں کا ایسا مرقع بن جاتی ہے جس میں کسی ایک رنگ کی واضح دریافت اور اس دریافت کی بنا پر شخصیت کی کوئی شناخت قایم آسان نہیں ہوتا۔ڈائنا کے کردار کا انوکھا پن انہی عناصر کا پروردہ ہے جو انسان کے افکار و رویہ کو ایسا انداز عطا کرتے ہیں جس سے یقین و اعتبارکا مرحلہ حیرت و تاسف کا نہج اختیار کر لیتا ہے۔ افسانوی کرداروں کے باطن کو کھنگالنا اور ان جذبوں کو دریافت کرنا جو ان کے عمل و رد عمل کا محرک بنتے ہیں، اور پھر اس حوالے سے ایک عہد اور نظام معاشرت سے وابستہ ان حقائق کی جانب اشارہ کرنا جو اقدار کی نوعیت طے کرنے میںموثر کردار ادا کرتے ہیں،ایک فطری تخلیقی روش کے طور پر انور خاں کے افسانوں میں عموماً نظر آتی ہے جوان کی فنکاری کو صداقت اور دیانت کا درجہ عطا کرتی ہے۔ان کے یہاں زبان کے استعمال پرفنکارانہ عبور، افسانے میں دلچسپی اور حیرت زدگی کے عنصر کو شروع سے آخر تک برقرار رکھنا اور اس کے ساتھ ہی اختصار میں جامعیت کا وہ اندازجو افسانوی کرافٹ کو فنکاری کا معیاری نمونہ بنا دیتا ہے،ان کی تخلیقات کو انفرادی و امتیازی شناخت عطا کرتا ہے ۔ ان کا کوئی بھی افسانہ اتنا طویل نہیں ہے کہ جس کو پڑھنے کے لیے باقاعدہ قصد کیا جائے بلکہ اس معاملے میں ان کے افسانے مختصر ہونے کے ساتھ ہی ایک ایسی کشش اپنے اندر رکھتے ہیں کہ شروع سے آخر تک قاری کو باندھے رکھتے ہیں۔ افسانے کومختصر رکھتے ہوئے اس طرح مکمل کرنا کہ موضوع کی ترسیل کا پہلو تشنہ نہ رہے ،کمال فنکاری کا واضح ثبوت ہوتا ہے۔اگر فنکار شعوری طور پر مختصر افسانہ لکھنے کا ارادہ کرے اور موضوع کے ساتھ اس کا ٹریٹمنٹ ایسا ہمہ گیر اور معروضی نہ ہو جو کہ ترسیل کے عمل کو بہ خوبی انجام تک پہنچا سکے تو اس کی تخلیق فنی اعتبار سے کمزور مانی جاتی ہے۔اگر چہ انور خاں کے افسانوں کے موضوعات میں تنوع اور وسعت ہے تاہم انھوں نے ان کی پیشکش کا وہ انداز اختیار کیا ہے کہ صرف چند صفحات میں ہی وہ اپنی بات مکمل کر لیتے ہیں۔اس مرحلے سے سرخرو گزرنے میں ان کی لسانی تونگری ان کی معاونت کرتی ہے ۔وہ زبان کے استعمال کا ایسا سلیقہ اختیار کرتے ہیں جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ الفاظ کے لسانی مزاج اور تہذیبی سیاق سے پوری واقفیت رکھتے ہیں۔ان کی زبان میں دو باتیں خاص طور سے اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔پہلی یہ کہ یہ زبان اثر و تاثر سے تہی دامن نہیں ہے اور دوسری یہ کہ اس کے مزاج میں حسب موقع متاثر کن تبدیلی کو بہ آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔انھوں نے نہ صرف موضوع کی ترسیل کو فکشن کے تقاضوں اور معیار سے ہم آہنگ کرنے کی سعی کی بلکہ زبان کے معاملے میں بھی ان کی جز رسی کے مظاہر جابجا نظر آتے ہیں۔اس ضمن میں ان کے کچھ افسانوںسے مثالیں پیش کی جاتی ہیں جو اس دعوے کی توثیق کرتی ہیں کہ وہ ایسی زبان لکھنے پر قادر تھے جو افسانے کی فضا بندی اور کہانی کے ارتقائی عمل کی فطری تکمیل کے ساتھ ہی موضوع کے پس منظر اور پیش منظر کو بھر پور تاثر کے ساتھ منعکس کرتی ہے۔الفاظ کے انتخاب کا یہ سلیقہ چند منتخب افسانہ نگاروں کے یہاں ہی ملتا ہے اور انور خاں ان میں سے ایک تھے۔ان کے افسانوں میں بعض مقامات پر ایسے مختصر جملے بھی نظر آتے ہیں جو محض ایک یا دو سطروں پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن ان سے پورے افسانے کا موڈ اور موضوع کی نوعیت کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
۱۔ ’’ہائے ہائے، ہائے ہائے۔‘‘ منحنی پسلیوں کے پنجروں سے دل خراش آہیں پھڑ پھڑاتی ہوئی نکلیں اور فضا میں تیر گئیں۔ (فن کاری)
۲۔ہر چیز تھم گئی ہے۔چوراہے پر سے گزرتی بسیں،گاڑیاں،راہ گیر،سب وقت کے فرسودہ فریم میں تصویر کی مانند ساکت ہو گیے ہیں۔صرف شام اتررہی ہے دھیرے دھیرے گلی کوچوں میں،عمارتوں پر،ٹیلی گراف کے تاروں پر، اپنے گھروں کو رواںہوتے انسانوں کے جم غفیر پر۔ (شام رنگ)
۳۔گلی کوچے،عمارتیں، سڑکیں، لگتا ہے شور سے پھٹ پڑیں گے اور میں اپنے دوستوں کے نرغے سے باہر نکل آؤں گا۔ مگر کچھ بھی تو نہیں ہوتا۔بس جہاں تک نظر جاتی ہے شام اترتی دکھائی دیتی ہے۔ ملگجی،ملول،مایوس،تاسف اور محجوب۔ (ایضاً)
۴۔ہر چیز کے متعلق وہ رائے رکھتا ہے، صحیح رویہ اختیار کرتا ہے ، اور صحیح لوگوں سے ملتا ہے۔حال ہی میں اس نے شہر کے مناسب ترین علاقے میں مناسب ترین فلیٹ خریدا ہے ۔صحیح سے اس کی مراد ہوتی ، سماج کے اعلا ترین طبقے کے بہترین لوگوں کا طرز عمل۔ اس لیے وہ کبھی غلط نہیں ہوتا۔ویسے بھی وہ شماریات کا ماہر ہے۔ (اپنائیت)
انور خاں کے افسانوںسے درج کی گئی ان مثالوں میں زبان کا استعمال عبارت کے اختصار میں معنی کی وسعت کو آشکار کرتا ہے۔ان کے افسانوی بیانیہ کا یہ انداز موضوع کی افسانوی تشکیل میں مضمر ان پہلوؤں کی جانب اشارہ کرتا ہے جو افسانوی کرداروں کے عمل و رد عمل نیز کسی واقعہ کے رونما ہونے والے اسباب و محرکات کی جانب ذہن کو مبذول کرتے ہی۔اس عمل سے گزرتے ہوئے وہ بعض اوقات صرف ایک جملے سے اس کیفیت یا صورتحال کو منعکس کر دیتے ہیں جو افسانے کی تشکیل میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔اس ضمن میں پہلی مثال ان کے افسانے ’فن کاری ‘ سے لی گئی ہے۔ یہ افسانہ موضوع اور اس کے اظہار ہر دو اعتبار سے قابل ذکر ہے۔یہ افسانہ ٹریٹمنٹ کے اعتبا ر سے ’شاندار موت کے لیے ‘ سے کافی مماثلت رکھتا ہے۔جس طرح موت کی حیرت انگیز خواہش ڈائنا کے خیال و احساس کو عام انسانی رویہ کے بالکل برعکس رنگ میں ڈھال دیتی ہے اسی طرح ’فنکاری ‘ میں بے روزگار نوجوانوں کا اضطراب اور احتجاج انھیں فنکاری کی اس راہ پر ڈال دیتا ہے جو مسئلے کا کوئی موثر حل تلاش کرنے کے بجائے اس سے عارضی مفاد حاصل کرنے کا انھیںعادی بنا دیتی ہے۔ موت کا جشن منانے کی ڈائنا کی عجیب و غریب خواہش گرچہ صرف اس کی ذات تک محدود ہے لیکن اس قسم کی خواہش کے پیدا ہونے میں اس سماجی رویہ کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا جس کے سبب اس کی نفسیات میں ایسی پیچیدگی در آئی کہ وہ اپنی موت کو جشن طرب میں تبدیل کرنے کا خاکہ تیار کرنے پر آمادہ ہوئی ۔ڈائنا کی حیرت انگیز خواہش مرگ اس کے دل میں دبے ہوئے ان جذبات کو نمایاں کرتی ہے جو خود نمائی اور شہرت کو عزت و تکریم کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔فنکاری میں بھی اسی رویہ کا اظہار ہے لیکن یہاں خود نمائی کے اسباب مہیا کرنے والا سماج کا مقتدر طبقہ مسائل زدہ انسانوں کی ناداری اور محرومی کو اپنے ذوق تماشہ کی تسکین کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔بے روزگار نوجوان اس تماشے میں اپنا عارضی پارٹ ادا کرنے کے بعد پھر اسی مقام پر آجاتے ہیں جہاں محرومی اور مایوسی ان کا دائمی مقدر ہوتی ہے۔ سماج اور انسان کا باہمی ربط جب پیچیدگی کی اس منزل پر پہنچ جائے تو انسان کا وجود داخلی سطح پر اس قدر منتشر ہو جاتا ہے کہ پھر وہ اذیت میں لذت کے امکان تلاش کرنے لگتا ہے۔فنکاری میں بے روزگار نوجوانوں کا فنکارانہ احتجاج اسی امکان کی ایک صورت ہے ۔سماج کو بدلنے کا عزم لے کر اٹھنے والا نوجوانوں کا یہ گروہ مسئلے کا موثر تدارک تلاش کرنے کے بجائے وہ راستہ اختیار کرتا ہے جو بالآخر پورے سماج کے لیے ایک پیچیدہ مسئلہ بن جاتا ہے۔ اس افسانے کے ابتدائی حصہ سے پیش کی گئی درج بالا مثال افسانے کی فضا بندی کرنے کے ساتھ ہی ان ممکنہ صورتوں کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جن سے افسانے کا تانا بانا بنا گیا ہے۔
انور خاں کی فنکاری کاانفرادی پہلو یوں بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ افسانوی کینوس پر جن رنگوں کا استعمال کرتے ہیں وہ موضوع کی افسانوی تقلیب میںمتاثرکن کردار ادا کرتے ہیں۔افسانہ ’شام رنگ‘ سے جو دو مثالیں پیش کی گئیں ان سے افسانوی کینوس پر رنگوں کے استعمال کا یہی ہنر نمایاں ہوتا ہے۔بعض اوقات یہ رنگ نقش گری میںمتضاد کیفیت کے حامل ہونے کے باوجود تصویر کو اس طور سے ترتیب دیتے ہیں کہ تصویر کا ہر زاویہ ان رنگوں کے فنکارانہ استعمال کا معیاری نمونہ نظر آتا ہے۔اس افسانے کا عنوان جمود اور محجوبیت کااستعارہ ہے ۔ افسانے میں جمود اور محجوبیت کا خارجی ماحول کردار کے داخلی انتشار و اضطراب سے ہم آہنگ ہو کر وہ منظرنامہ ترتیب دیتا ہے جس پر کردار کی جذباتی کشمکش کے مختلف رنگ نمایاں نظر آتے ہیں۔یہ رنگ اس کی ذات کے کرب، وجود کی حقیقت کو دریافت کرنے کے عمل،احساس محرومی ،انسانی رویہ کی بوالعجبی اور آسودگی و سکون کی خواہش سے عبارت ہیںجو انسان کو ایک نئی دنیا کے آباد ہونے کی تمنا میں محو رکھتے ہیں۔ یہ افسانہ شہری معاشرہ میں ایک مستقل رجحان کی حیثیت حاصل کر چکے اس انسانی رویہ کو ظاہر کرتا ہے جس کے سبب انسانوں کے درمیان باہمی روابط پر مصنوعیت اس قدر غالب آجاتی ہے کہ برسوں کے شناسا چہرے بھی بعض اوقات اجنبی لگنے لگتے ہیں۔افسانے کا مرکزی کردار خود افسانہ نگار ہے جوبڑے شہروں میں انسانوں کے درمیان مصنوعی دوستی سے پیدا ہونے والے کرب کا اظہارواحد متکلم اور کہیں کہیںخود کلامی کے انداز میں کرتا ہے۔اس مرکزی کردار کے علاوہ افسانے میں ایک اور کردار نظر آتا ہے جسے انور خاں نے زید کا نام دیا ہے۔ اس کردار کا ظہور افسانے میں بہت کم مدت کے لیے ہوتا ہے اور چونکہ افسانے میں بیانیہ کا ایسا انداز اختیار کیا گیا ہے جس سے وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ واقعی ایک دوسرا کردار ہے جس سے افسانہ نگار محو گفتگو ہے۔ اس لیے زید کے اس کردار کو مرکزی کردار کا ہم زاد یا ضمیر کہہ سکتے ہیں جو افسانوی ماجرے میں مرکزی کردار کے ایک دوست کی امیج کے طور پر سامنے آتا ہے۔ افسانہ نگار نے اس کردارکے رویہ کو دوستانہ روابط کے درمیان پیدا ہونے والی اس سنگدالانہ بیگانگی کی صورت میں پیش کیا ہے جو عصر حاضر کے انسانی معاشرہ کا معمول بن گئی ہے ۔انور خاں نے شام کے ملگجی رنگ کے حوالے سے انسانی رویہ میں جذبہ و احساس کے مبہم اور غیر واضح پن کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ شام کی آمد افسانے کے مرکزی کردار کو بہ یک وقت دو متضاد صورتوں سے متاثر کرتی ہے۔ایک جانب سکوت اور جمود اور دوسری طرف شور و اضطراب۔انور خاں نے ان دو صورتوں کی تعبیر بڑے فنکارانہ انداز سے کی ہے جس میں سکوت اور جمود خارجی مظاہر سے وابستہ ہیں اور شور و اضطراب کی کیفیت کردار کے باطن میں کچوکے لگا رہی ہے۔اس افسانے کے محولہ بالا دونوں اقتباس اس متصادم کیفیت کا برملا اظہار ہیںجو کردار کو یقین اور غیر یقینی کے بھنور میں الجھائے ہوئے ہے۔دوسرے اقتبا س میں افسانے کا مرکزی کردارشام کے وقت اپنے اطراف میںبرپا شور اور ہنگامے سے جھنجھلا کر دوستوں کے نرغے سے نکل بھاگنے کی خواہش کا اظہار کر کے انسانی رشتوںمیں محبت اور اخلاص کے اس فقدان کی طرف اشارہ کرتا ہے جو دیرینہ تعلقات کو بھی غیر مستحکم اور رسمی بنا دیتا ہے۔یہ افسانہ انسانوں کے درمیان اجنبیت کے احساس سے پیدا ہونے والے اس کرب کو نمایاں کرتا ہے جو داخلی طور پر انسانی وجود کو رفتہ رفتہ مسمار کر دیتا ہے ۔افسانے کا اختتام انور خاں کی رجائیت کو واضح کرتا ہے جو ایسے کرب ناک حالات میں بھی خوشگوار تبدیلی کی امید کو پوری طرح زائل نہیں ہونے دیتی اور رشتوں کے اس کھیل میں بہت کچھ کھو دینے کے باوجود کچھ نیا حاصل کرنے کی امید افسانہ نگار کے انسانی اخلاص اور درد مندی کو نمایاں کرتی ہے۔
انور خاں کے افسانوں میں انسانی روپ بہروپ کے ایسے مظاہر نظر آتے ہیں جو دوسروں کو فریب دینے کے ساتھ ہی خود اس کی ذات کے لیے ایک پیچیدہ مسئلہ بن جاتے ہیں۔اس مسئلے سے الجھتے رہنا اور اس الجھن کے سبب پیدا ہونے والی اذیت کو برداشت کرنا اس کا مقدر ہو جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوی کرداروں کے ذریعہ انسانی رویہ کے اس عارضی پن اور غیر یقینی کیفیت کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے جو اقدار حیات کا کوئی واضح تصور پیش کرنے کے بجائے تہذیبی اور اخلاقی انحطاط کی روداد بیان کرتی ہے۔انور خاں نے ان افسانوں میں اپنے عصر کی ان حقیقتوں کو آئینہ کیا ہے جن کا تعلق سماجی، معاشی، تہذیبی اور اخلاقی قدروں میں تبدیلی کے اس انداز سے ہے جس نے انسان کے وجود کو جذبات سے عاری کر دیا ہے۔انسان کا یہ تبدیل شدہ روپ مصنوعات کی منڈی میں ایک شے محض کی حیثیت رکھتا ہے ۔یہی سبب ہے کہ انسان سماجی وقار اور اعتبار حاصل کرنے کے لیے اپنی ذات کو دنیوی چمک دمک والے اس خول میں مقید کر دیتا ہے جو معاشرے میں تعظیم اور احترام حاصل کرنے کی اس کوتر غیب دیتا ہے۔ حالانکہ اس خول میں پوشیدہ اس کا حقیقی وجود اضطراب و افسردگی کی ایک مسلسل کیفیت میں مبتلا رہتا ہے۔ اپنی ذات کے تئیں ا نسان کا یہ عمل جدید معاشرے کا وہ المیہ ہے جس نے انسانی رشتوں کے تقدس کو بڑی حد تک مجروح کر دیا ہے۔ایسے داخلی جبر سے مسلسل گزرتے ہوئے اس کا وجود ان خدشات و تحفظا ت کے تصوراتی آسیب کا شکار ہوجاتا ہے جو زندگی کو فطری انداز میں جینے سے اسے محروم رکھتے ہیں۔یہ آسیب انسان کے مزاج میں وہ سفلہ پن پیدا کر دیتا ہے کہ اگر وہ کسی دوسرے کو اس جبر سے آزاد دیکھتا ہے تو اس کے وجود کا ہی منکر ہو جاتا ہے ۔افسانہ ’شام رنگ‘ کے علاوہ ’اپنائیت‘ میں بھی انسان کی ذات سے وابستہ اسی کرب کو پیش کیا گیا ہے۔اس افسانے میں بھی شہری معاشرہ اور اس میں پرورش پانے والے چند دوستوں کی کہانی بیان کی گئی ہے اور ساتھ ہی اس کہانی میں صارفی کلچر کے سبب انسانی مزاج میں پیدا ہونے والی اس تبدیلی کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو صحیح اور غلط کے درمیان فرق کی بنیاد انسانی اقدار کے بجائے اقتصادی معیار کو قرار دیتی ہے۔یہ افسانہ ،افسانہ نگار کی اپنے عہد اور معاشرے سے اس وابستگی کو ظاہر کرتا ہے جو سماج کی رفتار کا بغور مشاہدہ کرنے سے قایم ہوتی ہے ۔ اس مشاہدے میں تبدیلی اور تغیر کا ہر مرحلہ افسانہ نگار کو ان انسانی و تہذیبی رویوں کا پتہ دیتا ہے جو اس عہد اور سماج کی شناخت میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔تبدیلی اور تغیر کا یہ عمل خارجی سطح سے گزر کر جب انسان کے داخل میں سرایت کر جاتا ہے تو پھر اس کا ہر عمل نمائشی اور خلوص و صداقت سے خالی ہو جاتا ہے ۔افسانہ اپنائیت کا وہ کردار جو اپنے دوستوں کے درمیان اپنی معاشی فضیلت کا اظہار کرتا ہے دراصل اسی نمائشی انسانی رویہ کا مظہر ہے ۔تشہیریت کے اس دور میں جبکہ ہر شے نمائش کی زد پر ہے خواہ اس کا تعلق سماج و تہذیب سے ہو، مذہب سے ہو ،سیاست سے ہو یا کہ انسانی اخلاقیات سے ہوایسے ماحول میں انسانوں کے مابین رشتوں میں صداقت اور سادگی کی تلاش کار لاحاصل ہے۔چونکہ یہ نمائش عالمی سطح پر ایک عام رجحان میں تبدیل ہو چکی ہے لہٰذا اگر کوئی چیز اس کے دائرے سے باہر نظر آتی ہے تو وہ تضحیک و تفریح کا ہدف بنتی ہے۔اگر چہ اس کا الگ ہونا صداقت اور سچائی پر ہی کیوں نہ مبنی ہو لیکن چونکہ وہ عام انسانی مزاج کے برعکس ہے اس لیے دنیا آسانی سے اسے قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی ۔ انور خاں کا ایک مختصر ترین افسانہ ’شاٹ‘ انسان کے اس نمائشی پن کا ایسا اظہار ہے جو تصنع اور صداقت کی کشاکش میں الجھے ہوئے وجود کو حیرت اور مایوسی کے اس مقام تک لے جاتی ہے جہاں اسے سب کچھ بے حقیقت نظر آنے لگتا ہے۔
انور خاں کے افسانوں میں شہری زندگی کے پر تصنع ماحول کے ساتھ ہی گاؤں کی سادہ زندگی کا عکس بھی ملتا ہے ۔افسانہ’ شاٹ‘میں مامی کا غائبانہ تعارف اوراس تعارف کے حوالے سے گاؤں کی انسانی زندگی میں اخلاص و سادگی کا اظہار یہ ظاہرکرتا ہے کہ انور خاں انسانی قدروںکی پامالی سے بچنے کا واحد راستہ انسان کی اس سادہ اور فطری زندگی میں دیکھتے ہیں جو رشتوں کے تقدس اور احترام کو بہر صورت برقرار رکھنے سے عبارت ہے۔انور خاں کے افسانوں کو اگر موضوعی تناسب کے لحاظ سے دیکھیں تو بیشتر وہ شہری معاشرہ کو ہی افسانے کا موضوع بناتے ہیں کہ اس معاشرہ کا انسان اپنی ذات میں ایسا عجائب گھر لیے پھرتا ہے جس کے مظاہر بعض اوقات حواس باختگی کا سبب بن جایا کرتے ہیں۔شہر ی زندگی کی چکاچوندمیں گم انسانی وجود اپنے باطن کی تاریکی سے الجھتے رہنے کے سبب خلفشار کی ایسی دائمی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اپنے اطراف کی ہر شے اسے ایک فریب نظر آنے لگتی ہے۔چونکہ وہ خود ایک مجسم فریب ہوتا ہے لہٰذا دوسروں کو یقین کی نظر سے دیکھنا اسے گوارہ نہیں ہوتا۔ انور خاں نے انسانی وجود پر طاری اس فریب زدگی کو مختلف صورتوں میں پیش کیا ہے جو کبھی مذہب، کبھی سیاست اور کبھی معاشی جبر کے حوالوں کے ساتھ منعکس ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں ان کے دو افسانے ’ہوا‘ اور ’برف باری‘ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔یہ افسانے نہ صرف موضوع کے لحاظ سے منفرد ہیں بلکہ افسانوی دنیا میں برتے جانے والے معاصر لسانی تجربات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ افسانہ ’ ہوا ‘ تمثیلی پیرائے میں لکھا گیا ہے جس میں انور خاں نے بیل اورمینڈک کی تمثیل سے اس انسانی رویہ کو پیش کیا ہے جو اپنے وجود پر فریب کا خول چڑھانے پر اس لیے آمادہ ہو جاتا ہے کہ یہ بناوٹی پن اس کے نزدیک ترقی اور کامیابی کے حصول کا وسیلہ ہے۔ یہ کوشش عارضی طمانیت کے اسباب مہیا کرتی ہے لیکن جب بناوٹی پن کے اس فشار سے جب اس کے وجود کی حقیقت پوری طرح معدوم ہونے لگتی ہے تو وہ پھر اپنے اسی اصلی رنگ میں آنے کی تمنا کرتا ہے جو اس کی حقیقی شناخت ہے۔افسانے میں ’ہوا ‘ کو معاصر سماج میںرائج اس تہذیبی رویہ کا استعارہ کہہ سکتے ہیں جو انسان کو اپنی حقیقت سے فراموش کر نقالی پر آمادہ کرتی ہے ۔ہر چندکہ اس کا یہ عمل بجائے خود اس کی ذات کے لیے ایسا مسئلہ بن جاتا ہے کہ وہ دوبارہ پھر وہی روپ حاصل کرنے کی خواہش کرتا ہے جس سے اس کے وجود کا فطری پن برقرار رہے۔اس افسانے میں انور خاں نے سیاست اور مذہب کے علاوہ اس دانشوری پر بھی گہرے طنز کیے ہیں جو اپنی فہم و فراست کو سماجی رتبہ حاصل کرنے کا وسیلہ سمجھتی ہے ۔یہ دانشوری حیات و کائنات کے حقیقی ادراک سے عاری صرف اپنے ذہن کے پروردہ خام تصورات کو دنیا کی حقیقت سمجھنے پر اکتفا کرتی ہے ۔یہ تصورات اس ’ہوا ‘ کے اثر کا نتیجہ ہوتے ہیں جو وجود کی حقیقت پر نقلی پن کا ملمع چڑھا دیتی ہے۔اس’ ہوا‘کے اثر سے مینڈکوں کا بیل میں تبدیل ہو جانا اور پھر کچھ مدت کے بعد اپنی تبدیل شدہ حالات پر افسوس کا اظہار اور پھر سے اپنے اصلی روپ کو حاصل کرنے کی خواہش کو تمثیل کے پیرائے میں بیان کرکے انورخاں نے انسانی رویہ میں شامل اس مکر وفریب کو نمایاں کیا ہے جو عارضی مفاد اور دنیوی شان و شوکت کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانے کا راستہ اختیار کر لیتی ہے۔ اس افسانے کے مختلف مقامات سے درج کی گئیں مندرجہ ذیل چند سطور اس صورتحال کی موثر ترجمانی کرتی ہیں۔
’’میرے پاس کئی ڈگریاں ہیں‘‘۔
’’ میں اونچی ذات کا مینڈک ہوں۔‘‘
’’معاشیات ، اقتصادیات، نفسیات، فلسفہ، تاریخ اور ادب پر میں نے بہت ساری کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔‘‘
’’میں سماج کے اونچے طبقے کے لوگوں سے خلط ملط رکھتا ہوں۔‘‘
’’میں انٹلکچول ہوں۔‘‘
’’خوب خوب۔۔۔۔اسلام مکمل نظام حیات ہے ۔ خوب سانس لو ، جس قدر قوت سے سانس کھینچ سکتے ہو ، کھینچو۔‘‘
’’ اگر پیٹ پھٹ جائے تو۔‘‘
’’شہید کہلاؤ گے شہید۔ اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی۔ حکیم فروغ اسلام گنگناتے اور قہقہے لگاتے زمین برابر کرتے گزر گیے۔‘‘
سائرن کی آواز کے عقب میں دو موٹر سائیکلیں زن سے گزریں اور ان کے پیچھے کار میں ایک عظیم الجثہ مینڈک سفید کرتا اور ٹوپی پہنے ہوئے گزرا۔
ان سطور میں مذہب، سیاست اور جھوٹی دانشوری کو ہدف بناتے ہوئے انور خاں نے مینڈک کی روایتی تمثیل سے استفادہ کیا ہے تاہم اس تمثیل کو انفرادیت عطا کرنے کے لیے ’ہوا‘ کے ذریعہ اپنے وجود کو تبدیل کرنے کا پہلو برآمد کر کے اس میں مزید دلچسپی اور طنز پیدا کر دیا ہے۔افسانہ ’برف باری‘ میں انور خاں نے قدرت تجریدی انداز اختیار کر کے مرکزی کردار کے حوالے سے فریب اور حقیقت کے تصادم میں اسیر انسان کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کو بیان کیا ہے۔ کردار کی یہ نفسیاتی کشمکش اسے تنہائی پسند بنا دیتی ہے اور اس تنہائی میں وہ حتی المقدرو اپنی ذات کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اس کی یہ کوشش اسے خیال و افکار کی اس بھول بھلیاں میں لے جاتی ہے جہاں وہ اپنی ذات کے حوالے سے تہذیب و تمدن، معاشرتی اقدار اور انسانی رویہ اور رشتوں میں الجھ کر اس حقیقت کو دریافت کرنے کی سعی کرتا ہے جو آفاقیت کی حامل ہو۔ دراصل عرفان ذات کا موضوع انور خاں کے بیشتر افسانوں میں اپنے عصری سماج و تہذیب کے سیاق میں نظر آتا ہے ۔ان کا یہ تخلیقی رویہ ان کے اس تجسس کو نمایاں کرتا ہے جو کسی مظہر اور آثار کے خارجی روپ میں پوشیدہ اس حقیقت کو دریافت کرنے کا خوگر ہے جو انسانی معاشرہ کی صورت اور ہیئت کو مختلف انداز میں متاثر کرتی ہے۔
انور خاں نے انسانی معاشرہ کو متاثر کرنے والے تقریباً ہر اس رویہ کا فنکارانہ تجزیہ کرنے کی کوشش کی جو سماجی و تہذیبی دھارے کو متاثر کرتے ہیں۔اس کے لیے انھوں نے جو طرز بیان اختیار کیا وہ بظاہر سادہ لیکن در حقیقت معنی خیزی کی کئی جہتوں سے معمور ہے ۔انھوں نے اپنے افسانوں میں خصوصی طور سے حقیقت اور مصنوعیت کے اس تضاد کو پیش کیا ہے جو معاشرتی اور تہذیبی قدروں میں پیچیدگی اور انتشار کی کیفیت پیدا کرتا ہے ۔وہ زندگی کی ان صداقتوں کو دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن پر انسانیت کا تصور قایم ہوتا ہے اور اس کے لیے وہ روایت پرستی کی راہ اختیار کرنے کے بجائے ان نئی راہوں پر سفر کرنے کا عزم کرتے ہیں جو ہر لحظہ تبدیل ہوتی دنیا میں نئی منزل کی بشارت دیتی ہیں۔یہ منزل وہ ہے جو دنیا کی تہذیب و تمدن کے ارتقائی سفر میں انسانی قدروں کی بقا کو یقینی بناتی ہے ۔ انور خاں کی فنکاری کا نمایاں وصف دراصل اسی منزل کی جانب ان کا وہ فکری سفر ہے جو مختلف افسانوں کی شکل میں ظاہر ہوا ہے ۔
