Anwar Qamar ka Fanni Ikhtesaas by Dr. Jamal Rizvi

Articles

انور قمر کا فنی اختصاص

ڈاکٹر جمال رضوی

انور قمر ، بیسویں صدی کے سترویں اور اپنی عمر کے انتیسویں برس میں بطور افسانہ نگار ادبی دنیا سے متعارف ہوئے۔ان کا پہلا افسانہ بعنوان ’نروان‘۱۹۷۰ء میں رسالہ ’تحریک‘ میں شائع ہواتھا۔ اس کے آٹھ برس بعدان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’چاندنی کے سپرد‘ ۱۹۷۸ء میں شائع ہوا ۔ اس کے بعد ۲۰۰۸ء تک مزید تین افسانوی مجموعے شائع ہوئے، ’چوپال میں سنا ہوا قصہ‘ ۱۹۸۴ء میں ، ’کلر بلائنڈ‘ ۱۹۹۰ء میں اور ’جہاز پر کیا ہوا‘ ۲۰۰۸ء میں۔ان چار مجموعوں میں تقریباً ۶۰؍ افسانے شامل ہیں جن کا موضوعاتی تنوع افسانہ نگار کی قوت مشاہدہ کی پختگی اور ذہنی اپج کا ثبوت فراہم کرتاہے۔انور قمر کے افسانوں میں انسانی زندگی کے متنوع اور متعدد روپ عمر، جنس اور سماجی پس منظر کے اختلاف اور اس اختلاف سے وابستہ تقاضوں کو منعکس کرتے ہیں ۔ ان تقاضوں کے سبب ظاہر ہونے والے انسانی عمل اور رد عمل کی بوقلمونی ان کی افسانوی کائنات کی تزئین و آرائش کچھ اس طور سے کرتی ہے جس سے ان کی فنکارانہ مہارت و انفرادیت نمایاں ہوتی ہے۔ان کے فنی اختصاص کی دریافت کے لیے فکشن کی ان نزاکتوں اور باریکیوں سے کما حقہ واقفیت ضروری ہے جو کسی موضوع کی افسانوی تجسیم میں ناگزیر یت کی حامل ہوتی ہیں۔اس ضمن میں پہلا اور بنیادی مرحلہ موضوع کے انتخاب کا ہوتا ہے اور جیسا کہ افسانے کی تعریف میں بارہا یہ کہا گیا کہ افسانہ انسان کی حقیقی زندگی کا مظہر ہوتا ہے تو اس سیاق میں موضوع خواہ کسی بھی نوعیت کا ہو اس کا تعلق بہرحال زندگی کے حقائق سے ہوگا۔ ان حقائق میں بعض کا تعلق سماجی، سیاسی، معاشی و تہذیبی عوامل سے ہوگا اور بعض انسان کے نہاں خانہ ٔ ذات کے ان اسرار و رموز سے وابستہ ہوں گے جو اکثر موقعوں پر بڑی غیر متوقع صورت میں ظاہر ہوتے ہیںاور اظہار کی اس کیفیت سے انسانی رویہ کا وہ انوکھا پن ظاہر ہوتا ہے جس کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش افسانہ نگار اپنی استطاعت فہم و دانش کی بنا پر کرتا ہے۔ اس کوشش میں وہ اپنے عصر اور اپنے سماج کے رویہ کا مشاہدہ کرتا ہے اور چونکہ بحیثیت انسان وہ خود بھی اسی عصر اور سماج سے وابستہ ہوتا ہے لہٰذا زندگی کے متعدد ان امور سے وہ تجرباتی سطح پر دو چار ہوتا ہے جو افسانے کی تخلیق کے لیے اسے موضوع فراہم کرتے ہیں ۔انور قمر کے افسانوں کے موضوعات بھی ان کے عہد و سماج اور خود ان کی زندگی کے مختلف پہلووں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ انھوں نے ایک مضمون میں اپنے تخلیقی محرکات کو بیان کرتے ہوئے جن نکات کی نشاندہی کی ہے ان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے عہد اور سماج کا بغور مشاہدہ کیا ہے اور اس مشاہداتی عمل نے انسانی جبلت، نفسیات اور جذبات کے جن متنوع رنگوں کو آشکارکیا ،ان کو اپنے افسانوی کینوس پر اتارنے کی کوشش سے ہی ان کی تخلیقی شخصیت تشکیل پاتی ہے۔اپنے عہد اور سماج سے وابستگی کا یہ معاملہ تہذیب و معاشرت کے ان جملہ عناصر کا فنکارانہ جائزہ لینے سے عبارت ہے جو انسانی فکر وجذبہ کو ایک مخصوص زاویہ عطا کرتے ہیں۔انور قمر کے افسانوں میں انسانی فکر و جذبہ کا انعکاس تاریخ و تہذیب کے ان حوالوں پر بھی روشنی ڈالتا ہے جو تہذیبی ارتقا کے سفر میں اہمیت کے حامل رہے ہیں۔
انور قمر کے افسانوں میں نظر آنے والاانسان ان حالات کا پروردہ ہے جو نظام حیات میں ہونے والے تغیر کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنے میں اپنی توانائی صرف کرتا ہے اور اس امتزاجی عمل کو ایک مخصوص فکری سانچے میں ڈھالنے کی کوشش میں کبھی کامیاب ہوتا ہے اور کبھی ناکامی اس کے ہاتھ لگتی ہے۔کامیابی اور ناکامی کا یہ مسلسل عمل زندگی کے تئیں اس کے اعتقاد اور رویہ کا نہج طے کرتا ہے اور پھر جو تصویر سامنے آتی ہے اس میں حقائق حیات کے مظاہر دلچسپ،حیرت انگیز،ہیبت ناک ،راحت بخش اور اضطراب آمیز صورتوں میں رونما ہوتے ہیں۔ان صورتوں کے اظہار سے انسانی رویہ حقیقت کے اس تصور کے دائرے میں محصور نہیں رہ سکتا جو ہمیشہ یکساں طرز کا حامل ہو۔انور قمر کا فنکارانہ شعور حقیقت کے اس روپ کو دریافت کر لینے کی صلاحیت رکھتا ہے جو دریا کی روانی کا سا مزاج رکھتا ہے ۔ حقیقت کا یہ روپ جب افسانہ نگار کی تخلیقی گرفت میں آتا ہے تو اس کی تخلیق میں آباد دنیا کبھی بالکل جانی پہنچانی لگتی ہے اور کبھی اس قدر انجانی کہ جیسے اس کرہ ٔ ارض پر اس کا ہونا ممکن ہی نہ ہو۔فن کی سطح پر افسانے کی کامیابی کا دارو مدار بھی ان دوصورتوں کے امتزاج پر ہوتا ہے اور دراصل یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں افسانہ نگار کی فنکارانہ صلاحیت اجاگر ہوتی ہے کچھ اس طور سے کہ اگر اس کی تخلیق میں یہ امتزاج فنی سلیقہ مندی کا حامل نہ ہوتو تخلیق کی پیشانی پر ’افسانہ‘ کا لیبل تو چسپاں کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا بقیہ وجود اس لیبل کے ساتھ انصاف نہ کر سکے گا۔انور قمر کے افسانوں میں اس فنی سلیقہ مندی کو بیشتر دیکھا جا سکتا ہے ۔ان کے افسانے کسی ایک واقعہ یا کیفیت کی ترجمانی کے لیے جو افسانوی منظرنامہ تشکیل دیتے ہیں اس میں اس مخصوص واقعے یا کیفیت کے دوش بہ دوش کئی دیگر ایسے عناصر بھی نظر آتے ہیں جو بہ ظاہر اس واقعے یا کیفیت سے کوئی خاص ربط نہیں رکھتے لیکن مذکورہ واقعے یا کیفیت کی تاثر پذیری کا عمل ان عناصر کے بغیر اس حد تک ناقص رہ سکتا ہے جو کہ افسانے اور قاری کے ربط کو عارضی و تفریحی نوعیت کا بنا دے۔انور قمر نے اس فنی نکتے کو ملحوظ رکھتے ہوئے افسانے لکھے ہیں لہٰذا ان افسانوں میں مرکزی موضوع کے ارد گر د کئی ایسے ضمنی کوائف بھی نظر آتے ہیں جو مرکزی موضوع کی معنویت کو نمایاں کرتے ہیں۔اس حوالے سے ان کے افسانوں قیدی، شہر خطا کا زہر اور اس کی خانم ، کلر بلائنڈ،ذبیحہ،خزاں زدہ اورروٹی رساں کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ان افسانوں میں زندگی کی کسی ایک حقیقت کو پیش کرنے کے لیے ان دیگر حقیقتوں کو بھی اس کے متوازی بیان کیا گیا ہے جو افسانہ نگار کے مدعا کو انسانی جذبات و نفسیات اور معاشرتی حقائق کے تناظر میں واضح کرتے ہیں۔
انور قمر کا فنی اختصاص جن حوالوں سے ترتیب پاتا ہے ان میںایک نمایاں حوالہ سماج اور زندگی سے وابستہ حقائق کی ترجمانی کا وہ انداز ہے جو سماج اور زندگی کے ظاہری رنگ روپ میں پوشیدہ ان اسرار کو آشکار کرتا ہے جن سے عدم واقفیت سماج و زندگی دونوں کے لیے انتشار و اضطراب کا سبب ہوتی ہے۔اس موقع پر یہ بھی پیش نظر رہے کہ یہ اسرار سماج اور زندگی کے تشکیلی عمل میں کسی اضافی عنصر کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ سماج اور زندگی کی تشکیل کو ایک خاص انداز و مزاج عطا کرنے والے اسباب و محرکات سے ان کی وابستگی ناگزیر نوعیت کی ہوتی ہے لیکن اکثر و بیشتر ہوتا یہ ہے کہ ان تک رسائی حاصل کرنے کے لیے قلب و نظر کو جن مراحل سے گزرنا لازمی ہوتا ہے عام انسان ان مراحل سے گزرنے کی سکت اپنے اندر نہیں پاتا ۔ اس مرحلے کو عبور کرنے کی اولین شرط یہ ہوتی ہے کہ اپنے عہد سے وابستہ ان عوامل کا معروضی جائزہ لیا جائے جو تہذیب و تمدن کے تاریخی تسلسل کو برقرار رکھنے کا کام انجام دیتے ہیں۔فنکار (افسانہ نگار) ا ن عوامل کو جب تخلیقی آنچ کی حرارت عطا کرتا ہے تو ہی ان کا وہ روپ منجلی ہوتا ہے جو سماج اور زندگی سے وابستہ حقائق کی پراسراریت سے عبارت ہے۔انور قمر کے افسانوں میں سماج اور زندگی کا یہی روپ دیکھنے کو ملتا ہے ۔انسانی ذہن زندگی کی حقیقت کو دریافت کرنے کی سعی صدیوں سے کرتا رہا ہے اور اس کوشش میں جو مختلف تصورات و نظریات رائج ہوئے ان میں سے بعض تو کسی مخصوص مذہبی عقیدے کے بطن سے پیدا ہوئے اور بعض کومادی ترقی کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔زندگی کی حقیقت سے وابستہ ان تصورات میں ایک تصور یہ بھی ہے کہ انسان کی ارضی زندگی ایک سفر کی مانند ہے اور اس سفر کی راحتیں اور صعوبتیں اس کے نفس اور ظرف کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھالتی ہیں۔ زندگی کے سفر میں شامل انسانی کارواں بسا اوقات اس سفر کے مقصد ہی کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے اور ایسی صورت میں یہ سفر جاری تو رہتا ہے لیکن مسافر کو یہ پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ اسے جانا کہاں ہے۔ انور قمر نے ’چوراہے پر ٹنگا آدمی ‘ میں زندگی کے اس سفر کو ایک بڑے صنعتی و تجارتی شہر کے سیاق میں پیش کیا ہے۔ اس افسانے کا مندرجہ ذیل اقتباس اس کیفیت کو پوری شدت کے ساتھ ظاہر کرتا ہے:
’’ تم کہاں جانا چاہتے ہو؟۔ تم کہاں جانا چاہتے ہو؟‘‘ ان سبوں نے اس چوراہے پر لٹکے آدمی سے پوچھا۔
’’ تم ہی بتاؤ۔ تم سب کہاں جانا چاہتے ہو؟‘‘
اس نے وہی سوال ان سے کردیا
’’ ہم کہاں جانا چاہتے ہیں ؟۔۔۔۔۔ہم کہاں جانا چاہتے ہیں؟‘‘
وہ سب ایک دوسرے سے دریافت کرنے لگے
چوراہے پر ٹنگے آدمی نے قہقہہ لگایا۔۔۔۔۔۔ــ’’ ہا۔۔۔ہا۔۔۔۔ہا
جب تمہیں خود ہی نہیںمعلوم۔۔۔۔۔اور تم سبوں کو نہیں معلوم کہ تم کہاں جانا چاہتے ہو، تو یہ سوال تم نے مجھ سے کیوں کیا؟ اپنے آپ ہی سے پہلے پوچھ لیتے۔!
اس افسانے میں چوراہے پر ٹنگا آدمی زندگی کا وہ استعارہ ہے جس کے ذریعہ افسانہ نگار زندگی کے سفر کی لاحاصلی کو ظاہر کرتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جو انسان زندگی کے اس لاحاصل سفر میں شامل ہیں بہ ظاہر انھوں نے زندگی کے ان لوازمات کو حاصل کر لیا ہے جو سماجی سطح پر ان کے شخصی رتبہ کو فضیلت و امتیازکا حامل بناتے ہیں لیکن اس سفر کے کسی مرحلے پر جب خود زندگی ان سے اس سفر کا مقصد دریافت کرتی ہے تو ان کے پاس اس سوال کا کوئی اطمینان بخش جواب نہیں ہوتا اور وہ خود ایک مجسم سوال بن جاتے ہیں۔انسان ، خواہ وہ کسی بھی عہد یا سماج سے وابستہ ہو ،زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر اس سوال سے روبرو ضرور ہوتا ہے اور اس مرحلے پر اس کے افکار و خیال میں جو بیچینی پیدا ہوتی ہے وہ اسے ایک ڈھرے سے بندھی زندگی کے حصار کو توڑنے پر اکساتی ہے اور جب وہ اس کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے تو اس کی ذاتی ، خانگی اور معاشرتی مجبوریاں اور مصلحتیں اس کے ارادوں کو پھر اسی حصار کا پابند بنا دیتی ہیںاور افکار و خیال کا یہ لاوا اس کی ذات کے آتش فشاں میں ہی سرد پڑ جاتا ہے ۔اس کے بعد زندگی پھر اسی ڈھرے پر چلنے لگتی جس میں کسی نئی راہ کے پیدا ہونے اور زندگی کی حقیقت کو دریافت کرنے کے کسی تسلی بخش امکان کے نمو پانے کی امید معدوم ہو جاتی ہے۔انور قمر کے جس افسانے کا اقتباس ابھی پیش کیا گیا ، اسی افسانے کے درج ذیل دو اقتباسا ت اس کیفیت کو پورے تاثر کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ان اقتباسات میں جس کردار کے توسط سے اس کیفیت کو ظاہر کیا گیا ہے وہ چوراہے پر ٹنگا ہوا وہی آدمی ہے جسے زندگی کا استعارہ سمجھنا چاہیے:
(۱)’’ہا۔ ہا۔ ہا، اب میں کبھی صبح اخبار نہیں پڑھوں گا۔ کبھی چائے نہیں پیوں گا۔ کبھی بوٹ پالش نہیں کروں گا۔ کبھی داڑھی نہیں بناؤں گا۔ کبھی ریڈیو نہیں سنو ںگا۔ کبھی کام پر نہیں جاؤںگا۔کبھی راہ چلتے اشتہار نہیں پڑھوں گا۔ کبھی کسی کو تھینک یو نہیں کہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں کہ میں اپنی زندگی کے پہیے کو گھماتے گھماتے بور ہو گیا ہوں۔ بے زار ہو گیا ہوں۔ تھک گیا ہوں۔ وہ پہیّا جس محور پر گھوم رہا ہے وہ اپنی جگہ ہی پر قایم ہے۔ جب محور اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتا تو پہیّا کیوں کر حرکت کرے گا۔ میں وہیں ہوں جہاں تھا۔ اور اگر محور اب بھی نہ بدلوں تو سالہاسال تک وہیں رہوں گا۔ اس لیے اب محور ہی کوئی اور ہوگا۔ نیا۔ انوکھا۔ اچھوتا۔!
(۲) دوسرے روز حسب معمول اس نے اپنے چائے کے پہلے پیالے کے ساتھ اخبار دیکھا اور یہ خبر پڑھ کر ششدر رہ گیا کہ کل فلورا فاؤنٹن کے چوراہے پر ایک شخص نے اپنے گلے میں رسی کا پھندا ڈال کر خود کشی کر لی ۔ جس کی لاش دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگ جمع ہو گیے تھے ۔ اور وہ لوگ اس وقت تک جمع تھے جب تک چوراہے پر ٹنگے اس شخص کی لاش نیچے نہیں اتار ی گئی۔
درج بالا دوسرا اقتباس افسانے کا اختتامی اقتباس ہے جو بہ ظاہر ایک توضیحی بیان ہے جس سے افسانے کے مرکزی کردار کی خودکشی کے بارے میں پتہ چلتا ہے لیکن اس توضیح میں استفسار کے متعدد ایسے پہلو روپوش ہیں جو زندگی کی حقیقت سے وابستہ ہیں۔ افسانے کے مرکزی کردار کی یہ خود کشی زندگی کے اس سفر کا اختتام ہے جس کی بیزارگی سے اکتایا ہوا انسان نئے انوکھے اور اچھوتے محور کو تلاش کرنے کا ارادہ کرتا ہے لیکن دنیوی مسائل کے سبب اس کا یہ ارادہ تشنہ ٔ تکمیل رہ جاتا ہے اور انجام کار وہ پھر اسی ڈھرے پر لوٹ آتا ہے ۔ اس مراجعت کے بعد اگر چہ وہ ظاہری طور پر زندہ رہتا ہے لیکن زندگی کی حقیقت کو دریافت کرنے والے نئے محور کی تلاس کے ارادے کی عدم تکمیل اس کے باطنی وجود کو فنا کر دیتی ہے۔اس حادثہ کا نظارہ کرنے والا ہجوم بھی زندگی کے کسی نہ کسی لمحے میں ایسے ہی حادثے سے دوچار ہوگا اور بالآخر زندگی کی حقیقت کو جاننے کی یہ سعی ایک مستقل سوال کے طور پر باقی رہے گی ۔انور قمر کے افسانوں میں یہ سوال ان تمام امکانی صورتوں کے ساتھ رونما ہوتا ہے جو زندگی کی حقیقت کا سراغ پانے کی کد و کاوش سے عبارت ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں میں جن موضوعات کو برتا ہے وہ انسان کی زندگی کے تہذیبی و سماجی اور بعض دفعہ سیاسی حوالوں کے کسی نہ کسی زاویے سے اس سوال پر غور کرنے کی تحریک عطا کرتے ہیں۔موضوع کی افسانوی تجسیم کے دوران ان کا تخلیقی شعور مسلسل اس سوال سے الجھتا نظر آتا ہے اور اس کیفیت سے دو چار ہوتے رہنے کے دوران جب وہ اپنے گرد و اطراف پر نظر ڈالتے ہیں تو انھیں حیات و کائنات کی جو تصویر نظر آتی ہے اسے فنی مہارت کے ساتھ وہ الفاظ کا پیرہن عطا کر افسانے کی شکل میں ڈھال دیتے ہیں۔اس عمل کی تکمیل میں تخلیقیت کا وہ عنصر لازمی طور پر شامل ہوتا ہے جو افسانے کو حسیاتی و جذباتی سطح پر متنفس بنائے رکھتا ہے۔
انور قمر اپنے افسانوں میں مرکزی موضوع کی ترسیل کے لیے جو فضا بندی کرتے ہیں اس میں استفہامی رنگ گرچہ بہت کم پایا جاتا ہے لیکن اگر افسانے میں بیان کردہ مختلف واقعات اور ان واقعات سے پیدا ہونے والے تاثرات کو مرکزی موضوع کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہر تاثر ایک سوال کی صورت ان واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے اسباب و محرکات کی جانب ذہن کو منتقل کرتا ہے ۔ موضوع کی ترسیل کا یہ ہنر انسانی نفسیات و جذبات کی نیرنگیوں پر فنکارانہ مہارت کے بعد آتا ہے اور اس معاملے میں ان کے اکثر افسانوں کو معیاری تخلیق کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ان کا ایک بہت مشہور افسانہ ہے ’ جہاز پر کیا ہوا‘ جو فساد زدہ انسانوں کا وہ مرثیہ ہے جس میں ’رن پڑنے‘ کا بیان اگرچہ نہ ہوا ہو لیکن انسانی زندگی پر فساد کے ہیبت ناک اور خونیں اثرات کو ظاہر کرنے کے لیے جس صورتحال کو پیش منظر کے طور پر استعمال کیا گیا ہے وہ افسردگی، اضطراب،اضمحلال،رنج اور غم ناکی سے مملو ہے۔یہ افسانہ سیاست اور مذہب کے اس سفاکانہ ارتباط پر ایک بھرپور طنز ہے جو اپنے مفاد کی خاطر انسانوں کو بھی ان بے حیثیت کیڑے مکوڑوں کی مانند سمجھتا ہے جنھیں بڑی آسانی سے پیروں تلے کچلا جا سکتا ہے۔سیاست اور مذہب کا یہ ارتباط اس عصر کی ایسی کریہہ حقیقت بن چکا ہے جس کے سبب اقدار حیات کا تصور بڑی حد تک دھندلا پڑ چکا ہے۔افسانہ صرف ان انسانوں کی غم ناک روداد بیان نہیں کرتا جو تجرباتی سطح پر فساد کی زد میں آئے بلکہ ان انسانوں کی خلش آمیز کیفیت بھی ظاہر کرتا ہے جو بہ ظاہر فساد سے تو محفوظ رہے لیکن سسٹم کے تقاضوں کی تکمیل ان کے اور فساد زدہ انسانوں کے درمیان مذہبی یکسانیت کی بنا پر ایسا ربط پیدا کر دیتی ہے جو ان کی فرض شناسی اور ایمانداری کو مشکوک بنا دیتی ہے۔اس افسانے کا کردار سینئر کپتان عرش الرحمن انہی انسانوں کا نمائند ہ ہے جو اپنی ڈیوٹی جہاز رانی شعبہ کے قوانین و احکامات کے مطابق کرتا ہے لیکن جہاز پر موجود فساد زدگان سے اس کی مذہبی یکسانیت اس کے عمل کی شفافیت کو متاثر کرتی نظر آتی ہے ۔ حالانکہ افسانوی کرافٹ کے اس مرحلے پر افسانہ نگار نے جہاز کے مالک کے فیکس کو عر ش الرحمن کے حق بہ جانب ہونے کے جواز کے طور پر پیش کیا ہے تاہم اس کا اپنے ساتھی بمل دت سے یہ کہنا ’’ یہ دنیا والے کبھی کسی کو اپنے غیر جانب دار ہونے کا موقع نہیں دیتے ۔ گوکہ اس کنٹینر میں آئے ہوئے تمام لوگ میرے بہن بھائی ہیں ، مگر میں ان کے ساتھ کیوں کر امتیازی سلوک کر سکتا تھا؟ اچھا ہوا جو یہ حکم آگیا۔‘‘اس کیفیت کا اظہار ہے جو سسٹم کی پیچیدگیوں میں جکڑی ہوئی زندگی کے کرب سے عبارت ہے۔جس حکم کو وہ اپنی عافیت کا سامان سمجھتا ہے دراصل وہی اس کی شخصیت پر ایسا مستقل سوال ہے جو زندگی کے مختلف مراحل پر اس کے لیے مشکلات و مسائل پیدا کر سکتا ہے۔عرش الرحمن کا مندرجہ بالا بیان افسانے کی وہ کلید ہے جو موضوع کے وسیع تر آفاقی تناظر میں مذہب و سیاست کے سفاکانہ کھیل کو نمایاں کرتی ہے۔اقتدار پرست عناصر کا یہ کھیل عام انسانوں کے لیے کس درجہ اذیت ناک ہوتا ہے ، اسے ’کابلی والا کی واپسی‘میں درد مندانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔اس افسانے میں انور قمر نے ’کابلی والا‘ کے توسط سے برصغیر کے اس سیاسی بحران کو پیش کیا جسے نام نہاد امن پسند بین الاقوامی طاقتیں اپنے مفادکے لیے استعمال کرتی ہیں۔یہ سیاسی بحران ایک عام انسان کی آرزووں اور خواہشوں کو کچھ اس طور سے پامال کرتا ہے کہ اسے اپنا گھر، اپنے لوگ، اپنی زمین اور اپنا وطن سب کچھ پرایا لگنے لگتا ہے اور پھر ایک مسلسل دربدری اس کا مقدر بن جاتی ہے۔انور قمر نے انسانی جذبات پر حالات کے جبر کی اثر پذیری کو جس انداز میں بیان کیا ہے اس میں دردمندی، ہمدردی اور دائمی احساس محرومی کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
انور قمر نے اپنے افسانوں میں بیان کردہ واقعات کے سیاق میں انسانی جذبات کے زیر و بم کو بڑی خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے۔یہ واقعا ت جن انسانوں پر یا جن کے توسط سے رونما ہوتے ہیں ان کے جذبات کی عکاسی کے لیے واقعہ کی ترتیب میں ان عناصر کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے جو افسانوی کرداروں کے جذبات پر واقعے کی اثر پذیری کی نوعیت کو ظاہر کر سکیں۔افسانے میں بیان کی گئی صورتحال کے خارجی مظاہر سے ان عناصر کو اس طور سے منتخب کرنا جو کردار کی نفسیاتی و جذباتی کیفیت کو متشرح کرے ،افسانہ نگار کی تخلیقی صلاحیت کو واضح کرتا ہے۔اس حوالے سے ان کے افسانوں کا مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی واقعہ میں کارفرما خارجی مظاہر کو کردار کی داخلی کیفیت کے ساتھ ایسا معنوی ربط عطا کرتے ہیں جو واقعے کی تاثر پذیری کو پوری قوت کے ساتھ نمایاں کرتا ہے۔ان کے بعض افسانوں میں یہ خارجی مظاہر اگر چہ عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن کردار کی تشکیل کے نفسیاتی و جذباتی مراحل پر ان کے دیر پا اثرات کو بہ آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔افسانہ ’خزاں زدہ‘ میں ان خارجی مظاہر کے ذریعہ مسز ایمانویل کے ماضی اور حال کی جو روداد بیان کی گئی ہے اس میں آسودگی و خوشحالی اور تنہائی و بے چارگی کا تاثر شدت کے ساتھ نمایاں ہوا ہے۔یہ افسانہ فرقہ وارانہ فساد کے پس منظر میں لکھا گیا ہے لیکن افسانہ نگار نے فساد کی منظر کشی کے بجائے اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اس صورتحال کو پیش کیا ہے جو انسانی زندگی کو خو ف اور محرومی کے دائمی احساس میں مبتلا کر دیتی ہے اور پھر اس کا وجود خارجی اور باطنی سطح پر غیر مندمل ہونے والے زخم کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ انور قمر کا یہ افسانہ پہلی بار ۲۰۰۷ء میں کراچی سے شائع ہونے والے سہ ماہی رسالے روشنائی کے افسانہ صدی نمبر حصہ سوم میں شائع ہوا تھا۔ اس میں بیان کنندہ غائب متکلم کے طور پر مسز ایمانویل کا جو احوال بیان کرتا ہے وہ فساد کی زد میں آنے پر مسز ایمانویل کو ملنے والی جسمانی اذیت کی درد ناک روداد ہے ۔اس کے بعد انور قمر نے جب اس افسانے کو اپنے چوتھے افسانوی مجموعے ’جہاز پر کیا ہوا‘ میں شامل کیا تواس روداد میں اس حصہ کا اضافہ کیا جو مسز ایمانویل کی جسمانی اذیت کے سبب ان کی ازدواجی زندگی میں پیدا ہونے والے اس خلا سے عبارت ہے جو ان کی شخصیت کو روحانی طور پر دائمی کرب میں مبتلا کر دیتا ہے۔انور قمر کا یہ تخلیقی طریقہ ٔ کار ظاہر کرتا ہے کہ وہ انسانی زندگی میں رونما ہونے والے حادثات و واقعات کے ہمہ گیر اثرات کی ان تما م امکانی صورتوں تک رسائی حاصل کرنے کی فنکارانہ سعی کرتے ہیں جو کردار کی سماجی و ذاتی زندگی کو وسیع پیمانے پر متاثر کرتی ہیں۔اس کے ساتھ ہی یہ تخلیقی طریقہ کار ان کی فنی ریاضت کا مظہر بھی ہے۔
انور قمر کا افسانوی اسلوب ان کی منفرد فنی صلاحیت کو نمایاں کرتا ہے۔ انھوں نے جس زمانے میں افسانہ لکھنا شروع کیا اس دور میں افسانوی اسلوب کے متعلق نظری مباحث اردوافسانہ نگاری میں ایک فیشن کے طور پر رائج تھے۔ان مباحث میں ان اسلوبیاتی تجربات کی افادیت و معنویت پر گفت و شنید کا سلسلہ سا چل نکلا تھا جو طرز اظہار کو پیچیدہ یا مبہم اور سادہ یا عام فہم بناتے ہیں۔اس ضمن میں افسانے میں علامت و تمثیل نگار ی اور تجریدیت کے فنی سروکار مختلف حوالوں سے زیر بحث رہے۔اسی زمانے میں جدید اور جدید تر افسانے کی وہ بحث بھی چل نکلی تھی جسے سکہ بند قسم کی ترقی پسندی سے بیزاری کے طور پر دیکھا گیا اور ایک مخصوص نظریہ ٔحیات کی تائید و تشہیر کی غرض سے افسانہ لکھنے کو غیر ادبی تخلیقی عمل کے مترادف قرار دیا گیا۔ افسانے میں اسلوب کی سطح پر ہونے والے مختلف قسم کے تجربات کے باوصف یہ دعویٰ مشکل ہی س کیا جا سکتا ہے کہ کسی بھی دور کی افسانہ نگاری کا دامن انسانی زندگی اور اس کے لوازمات سے تہی رہا ہو۔یہ ضرور ہے کہ زندگی اور اس کے لوازم کی پیشکش کا انداز ہر دور میں یکساں نہیں رہا اورافسانہ نگاری کے فنی ارتقا میں ان مختلف النوع قسم کے تجربات کو یکسر غیر اہم بھی نہیں قرار دیا جا سکتا۔انور قمر کے افسانوی اسلوب پر معاصر تخلیقی رجحانات کے اثرات جابجا نظر آتے ہیں ۔ انھوں نے بعض افسانوں میں رمزیت اور اشاریت کو افسانوی فضا بندی کے لیے استعمال کیا ہے اور بعض موقعوں پر علامتی اسلوب سے بھی استفادہ کیا ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں میں لسانی قلابازیاں دکھانے سے اجتناب کیا ہے تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بہ ظاہر سیدھا و سپاٹ نظر آنے والا ان کا افسانوی اسلوب متن کی اس تہہ داری سے عاری ہے جس کی بنا پر افسانوی تخلیق کو فنی امتیاز حاصل ہوتا ہے۔اس ضمن میںان کے موقف کو ان ہی کے ایک افسانے ’کیلاش پربت‘ کے مرکزی کردار کیلاش چند کے اس بیان سے سمجھا جا سکتا ہے۔
’’میں اپنے کوٹ کی آستین میں سے خرگوش نکال کر دکھانے کا عادی نہیں ہوں اور نہ ہی مافوق الفطرت باتیں کرنے کا مجھے خبط ہے۔‘‘
انھوں نے اپنے افسانوی اسلوب میں سحر خیزی کی وہ کیفیت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جو متن کی ظاہری ساخت کے طلسم سے قاری کو مبہوت کر دینے کو ہی افسانے کا مقصود سمجھے اور نہ ہی انھوں نے لسانی سطح پر ایسے بے ہنگم تجربات کیے جو افسانوی موضوع کے ترسیلی عمل کو متاثر کرتے ہیں۔انھوں نے اپنے افسانوی اسلوب کی تزئین کاری میںبعض اوقات تاریخ و اسطور سے استفادہ بھی کیا ہے لیکن استفادے کے اس عمل میں بھی سماج اور زندگی کے عصری حقائق کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔ ان کے افسانوں میں زندگی اور انسان کی حقیقت کودریافت کرنے کا تخلیقی عمل شعوری فنی کاوش کے طور پر نظر آتا ہے اور یہ ان کے فنی اختصاص کاایک اہم حوالہ ہے جس کی بنا پر انھیں اردو کے افسانہ نگاروں میںنمایاں مقام حاصل ہوا۔