Articles
Total 257 Articles

ادب میں ادیب اور قاری کی اہمیت اور مقام و مرتبہ کا مسئلہ ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے۔ مگر آج کے اطلاعاتی، صنعتی اورجدید ٹکنالوجی کے دور میں خود ادب کی شناخت اور اس کا وجود ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے جس کو شمیم حنفی نے اپنے ایک مضمون ’’اردو ادب کی موجودہ صورت حال‘‘ میں اشوک باجپئی کے اداریے کے حوالے سے کچھ اس طرح بیان کیا ہے: ’’خبر ادھر عرصے سے یہ پھیلتی رہی ہے کہ اکیسویں صدی میں ادب اور زبانوں کا خاتمہ قریب ہے۔ جو نیا اطلاعاتی سماج بنے گا، جسے علم پر مبنی...

پورا پڑھیں

    اکتشافی طریق نقد ہر اچھے اور بڑے شاعر کی طرح غالبؔ پر بھی پوری امکان خیزی کے ساتھ صادق آتا ہے۔بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ کلام غالب پر اسکی تطبیق اور عمل آوری کے امکانات لامحدود ہیں۔ اول اس لیے کہ تنقید کے اس طریقِ کار کی نتیجہ خیزی کے لیے یہ (کلامِ غالبؔ)زرخیزیت سے مالا مال ہے۔ دوم خود غالبؔ نے کئی جگہوں پر نظم اور نثرمیں اس نوع کے تنقیدی نظر یے سے ملتے جلتے نکات کی نشان دہی کی ہے۔اس طریق نقد کی روسے بلاشبہ غالب فہمی کے لیے ایک نیا...

پورا پڑھیں

  دوسروں کو کیا نا م رکھیں،ہم خود بیسیوں چیزوں سے چڑتے ہیں۔کرم کلا ،پنیر،کمبل اور کافکا،عورت کاگانا،مرد کا ناچ،گیندے کا پھول،اتوار کا ملاقاتی،مرغی کا گوشت،پاندان،غرارہ، خوبصورت کا شوہر۔۔۔۔ زیادہ حد ادب کہ مکمل فہرست ہماری فرد گناہ سے بھی زیادہ طویل اور ہری بھری نکلے گی ۔ گنہ گار سہی لیکن مرزا عبدالودود بیگ کی طرح یہ ہم سے آج تک نہ ہواکہ اپنے تعصبات پر معقولات کا نیم چڑھا کر دوسروں کو اپنی بے لطفی میں برابر کا شریک بنانے کی کوشش کی ہو۔مرزا تو بقول کسے ،غلط استدلا ل کے بادشاہ ہیں ،ان کی حمایت ووکالت سے...

پورا پڑھیں

  نوآبادیات کوئی ’جدید مظہر‘ نہیں ہے۔ قدیم ادوار میں یونانی ، رومن مورز اور عثمانیہ میں نوآبادیات کو فروغ حاصل ہوا۔ بعد ازاں اس نوآبادیاتی نظام کو برطانیہ، فرانس، اسپین، جرمن، ہالینڈ، پرتگال اور بلیجیم نے توسیع دی۔ ’کالونی‘ کی اصطلاح ’کالونوس‘ (Colonus)سے اخذ کی گئی ہے۔ جس کے معنی ’کسان‘ کے ہیں۔ جدیدنوآبادیات پندرہویں صدی کے لگ بھگ شروع ہوا۔ جب ۱۴۸۸ء میں جنوبی افریقی ساحلوں پر مغربی قوموں نے نوآبادیات قائم کی۔ امریکا کو ۱۴۶۲ء میں نوآبادیات بنایا گیا۔ نوآبادیاتی نظام سے یہ معنی لیے جاتےہیں کہ لوگوں کو ایک علاقے سے نقل مکانی کرکے نئی نوآبادیاں...

پورا پڑھیں

  جدیدیت، مابعدجدیدیت اور پس نوآبادیات کا مخاطبہ وسیع، پیچیدہ، مخالق نامطابق میدانوں میں بٹا ہوا ہے۔ ان تینوں نظریاتی مباحث سے بھی روابط، انسلاک کے کثیر الجہت معنی پوشیدہ ہوتے ہوئے بھی ان کی محدودیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ یہ اپنے مزاج اور اس کے پس منظر میں مابعد پر ہی مکالمہ نہیں کرتی بلکہ اپنے قریبی اور اختتامی ’مابعد‘ تصورات کو بھی حدود المکان اپنے مباحث میں شامل کرتی ہے۔ بہرحال ان تینوں تصورات کے انسلاکی پہلوؤں میں متن کو مختلف اندازسے تجزیہ کیا جاتا ہے اور انھی متنی تجزیات کے مباحثی بطن...

پورا پڑھیں

’’انڈیا آفس میں محفوظ کلیات سوداؔ کے ایک قلمی نسخہ کا تعارف‘‘ (مع ترمیم و اضافہ) ارتقاے زبان ایک فطری اور ناگزیر عمل ہے۔ اس ارتقائی عمل میں الفاظ اور ان کے تلفظات مختلف مراحل سے گزرتے ہیں اور اپنی تغیر پذیر شکل کے ذریعے اپنے زمانے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ چنان چہ کسی بھی عہد کی لسانی تاریخ ان تغیرات کی صحیح آگہی کے بغیر ترتیب نہیں دی جا سکتی اور اگر کسی زبان کی لسانی تاریخ صحت کے ساتھ مرتب نہیں کی گئی تو اس زبان میں تحقیق و تنقید کی بنیاد میں متزلزل رہیں گی اور اس...

پورا پڑھیں

آزاد میں نقد کا مادہ مطلق نہ تھا۔نظر مشرقی حدود میں پابند تھی۔وہ لکیر کے فقیر تھے،باریک بینی اور آزادیِ خیال سے مبرا۔انگریزی لالٹینوں کی روشنی ان کے دماغ تک نہیں پہنچی تھی۔1 اس زمانے میں مغرب کی طرف نظریں اٹھ رہی تھیں۔سب سے پہلے آزاد نے اس طرف توجہ کی تھی اور لوگوں کی توجہ دلائی تھی۔2 دونوں اقتباسات کلیم الدین احمد کے ہیں۔دونوں میں جو تضاد ہے، وہ اظہرو من الشمس ہے۔آزاد مشرقی روایات کے امین تھے۔ان کے کمال علم میں کلام نہیں،لیکن شعر و ادب کی تفہیم،توضیح،تعبیر،تجزیے اور تقابل کے معائر ان کے ہاں مخصوص سیاق میں...

پورا پڑھیں

آزادی کے بعد ہندوستان میں اردو افسانے کے کئی رجحان سامنے آئے ہیں۔ ان میں سے جو رجحان بنیادی نوعیت کے ہیں وہ چار ہیں۔ پہلا رجحان تقسیم کے المیے کو پیش کرنے کا ہے۔ اس ذیل میں اس طرح کے افسانے آتے ہیں۔ ایک تو وہ جن کی نوعیت ہنگامی تھی اور جو فسادات کو براہ راست موضوع بنا کر لکھے گئے تھے۔ دوسرے وہ جو تہذیبی سطح پر تقسیم کے المیے کو پیش کرتے ہیں۔ اس رجحان کے بہترین علم بردارہندوستان میں قرۃ العین حیدر اور پاکستان میں انتظار حسین ہیں۔ دونوں کے نقطۂ نظرتکنیک اور کینوس میں...

پورا پڑھیں

[شعر خوب معنی ندارد…بیدلؔ] شعری دھند میں لپٹی ہوئی دوآوازیں ہیں…میرجی اورمیراجی۔دوسایے ہیں جو ہمارے تعاقب میں ہیں اور ہم ان کے تعاقب میں۔داستان رات اور سایے کی ہے۔رات انسان کی پہلی شناخت ہے۔سایہ آدمی کا پہلاہمزاد ہے۔سایے کی رات کتھادھند کے خمیر سے پھوٹی ہے۔یہ زمین بنجرہے!۔یہاں سوال اگتے ہیں: جانے کس پاتال سے آئے دھندلی رات کے دکھیا سائے پاتال،رات اور سایہ…تینوں علامتیں ہیں۔معنوی اعتبارسے نہایت دبیز۔ان کی وجودی تعبیرمعنی کو وہ سمت عطاکرتی ہے جہاں لفظ’گنجینۂ معنی کاطلسم‘بن جاتاہے۔اس شعر کے توسط سے جب ہم نے میراجی کو سمجھنا شروع کیاتومحسوس ہواکہ یہ شخص دیوانہ ہے۔سوالات بہت...

پورا پڑھیں

مجروحؔ سلطان پوری اس بات سے متفق نہ ہونگے ،لیکن واقعہ یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک سے منسلک ہونے کی وجہ سے انھیں جو شہرت اور عزت ملی اس کی قیمت سے بہت زیادہ قدر و قیمت کے حامل شعر کہہ کر انھوں نے خود ترقی پسند غزل کی توقیر بڑھائی۔بہ الفاظ دیگر مجروحؔ سلطان پوری کی عزت ترقی پسند تحریک کے باعث نہیں بلکہ ترقی پسند تحریک کا اعتبار مجروحؔ جیسے شعراء کے باعث تھا۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ ترقی پسند نظریے پر ان کے عقیدئہ راسخہ اور اس کے رہنمائوں سے ان کی عقیدتِ شدیدہ نے...

پورا پڑھیں
1 12 13 14 15 16 26