Articles
Total 257 Articles

[email protected] کہنے کی ضرورت نہیں بمبئی جسے اب ممبئی کہا جاتا ہے،محض جغرافیائی حد وں میں بندھے ہوئے زمین کے ایک ٹکڑے کا نام نہیں۔ ساڑھے تین ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا،بیس ملین سے زائد آبادی والا،سات جزیروں سے بنا ،پانی پر تیرتا یہ شہراردو فکشن کی ثروت مند روایت کا امین رہا ہے۔ ایک زمانے میں اردو افسانے کی گلیکسی ممبئی کے آسمان تلے موجود تھی۔راجندر سنگھ بیدی،کرشن چندر،سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی ،قرۃالعین حیدر، خواجہ احمد عباس ،مہندر ناتھ سے لے کر سریندرپرکاش ، محافظ حیدر ،واجدہ تبسم،جیتندر بلّو،ساگر سرحدی جیسے لکھنے والوں کے لیے ممبئی شہر...

پورا پڑھیں

    دنیا کی ہر قدیم و جدید زبان کا شعری و نثری ادب اور آرٹ کے سبھی اسکول تذکرۂ حسن وجمال سے بھرے پڑے ہیں ۔زبان خواہ ادب کی ہو یا رنگ ونور کی موسیقی کی ہو یا رقص وسرود کی ، بہر حال کسی نہ کسی شکل و صورت میں نمائش و اظہار حسن وجمال سے عاری نہیں ہے۔اس نمائش واظہار کے طریقے اور مظاہر گونا گوں ہیں۔شرط یہ ہے کہ دیکھنے والی آنکھیں ، سننے والے کان، محسوس کرنے والادل اور سمجھنے والا دماغ ہو۔ ’’جمالیات‘‘ نسبتاََ ایک قدرے جدید اصطلاح ِ ادب سمجھی جاتی ہے لیکن...

پورا پڑھیں

  رسم و رواج​ جو لوگ کہ حسنِ معاشرت اور تہذیبِ اخلاق و شائستگیِ عادات پر بحث کرتے ہیں ان کے لئے کسی ملک یا قوم کے کسی رسم و رواج کو اچھا اور کسی کو برا ٹھہرانا نہایت مشکل کام ہے۔ ہر ایک قوم اپنے ملک کے رسم و رواج کو پسند کرتی ہے اور اسی میں خوش رہتی ہے کیونکہ جن باتوں کی چُھٹپن سے عادت اور موانست ہو جاتی ہے وہی دل کو بھلی معلوم ہوتی ہیں لیکن اگر ہم اسی پر اکتفا کریں تو اسکے معنی یہ ہو جاویں گے کہ بھلائی اور برائی حقیقت میں...

پورا پڑھیں

ذاکر:نِدا صاحب کشمیر کے ساتھ آپ کے بڑے دیرینہ مراسم رہے ہیں، آپ شاید فاضلی سادات میں سے ہیں اور وہ بھی کشمیری فاضلی،آپ کو شاید علم ہوگا کہ برج ناراین چکبستؔ،اقبالؔ، منٹوؔ،کرشن چندر، مہندر ناتھ ، سہگل،ملکہ پکھراج، اُستاد بسم اﷲ خان، راما نند ساگر، جیون ، راج کمار بھی ایسے ہی کسی خاموش تعلق سے کشمیری رہے ہیں،بہرحال آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں؟ ندا فاضلی:کچھ سال قبل ایک سیرئیل آیا تھا جس کا نام سیلاب تھا اور اُس کے ڈائریکٹر روی رائے تھے۔اُس میں ایک ٹائٹل گیت بھی تھا جس کا ایک شعر یوں تھا کہ وقت...

پورا پڑھیں

  ہم عالمی بستی کے لوگ ہیں۔ گلوبل ولیج بن گئی ہے دنیا ہماری۔ بڑی بحث تھی اس موضوع پر ، بڑا شور تھا گلوبلائزیشن پر ، مگر اب نہیں ہے۔ اب ہم گلوبلائزیشن کے ساتھ جینا سیکھ رہے ہیں۔ پہلے ڈر رہے تھے ، اب تربیت لے رہے ہیں۔ گلوبلائزیشن والے کہتے ہیں کہ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کمال ہے کہ دنیا سب کے لیے ایک جیسی ہوگئی ہے۔ تبدیلی ٹیکنالوجی کے ساتھ آئی ہے، معاشی بھی اور اخلاقی بھی۔ کلوننگ، کمپیوٹر، سیٹیلائٹ اور بہت سی ٹیکنالوجی لے کے آئی ہے مابعد جدیدیت ۔ گلوبلائزیشن بھی اسی کا نتیجہ...

پورا پڑھیں

بمبئی بچپن سے میرے خوابوں میں بسا ہوا تھا۔ یہ خواب میرے ساتھ جوان ہوا اور میں نگینہ سے نکل کر اور دو سال دہلی کے دفتروں کی خاک چھان کر بالآخر اپنے بچپن کے خوابوں کے شہر بمبئی پہنچ گیا۔ اسٹیشن کی بھیڑ کو چیرتا ہوا جب میں باہر نکلا تو بوری بندر پر انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دیکھ کر آنکھیں کھلی رہ گئیں ۔میں نے جیب سے پتے کا پرچہ نکال کر وکٹوریہ والے سے کہا کہ کھڑک پر زینب چیمبرس چلو ۔ وکٹوریہ میں بیٹھتے ہی دہلی اور بمبئی کا فرق واضح ہوگیا۔ وکٹوریہ کرافورڈ...

پورا پڑھیں

  میں ضلع بستی کے ایک دور افتادہ گائوں میں ، جو میرا مولد و مسکن بھی ہے، گرمی کی چھٹیاں گزار رہا تھا۔۔۔۔۔چھٹیاں کیا گزار رہا تھا اپنے مستقبل کے عنوانات طے کر رہا تھا کہ یکایک پہلی اپریل کو محلے کا ایک طالب علم دوڑتا ہوا آیا اور اس نے ریڈیو کی وہ خبر دہرائی جو خواجہ صاحب کی شدید علالت سے متعلق تھی ۔ میں ابھی چند ماہ پہلے تک خواجہ صاحب کے ساتھ ممبئی میں رہ چکا تھا، جب خواجہ صاحب کے عزم اور ان کی قوت ارادی کا تصور کیا تو خبر کچھ مبالغہ آمیز...

پورا پڑھیں

    زبیر رضوی جیسی متنوع شخصیت ذرا کم ہی پیدا ہوتی ہے۔ یعنی جدید شعرا کی جھرمٹ کا روشن ترین ستارہ، ہندوستانی ڈراما کا ایک مستند نقاد اور محقق، اردو کی ادبی صحافت کا ایک رجحان ساز مدیر، فائن آرٹ کا مبصر اور اسپورٹس کامینٹیٹروغیرہ وغیرہ گویا ان کی شخصیت رنگوں کا ایک کولاژ تھی کہ جس کا ہر رنگ اپنی جگہ مجلا اور مکمل تھا۔ میر کے لفظوں میں کہیں تو :ــ’’پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ‘‘ زبیر صاحب کی طبیعت کا یہ تنوع جب ایک نکتے پر مرکوز ہوتا تو ’’ذہنِ جدید‘‘بن جاتا تھا۔ اس رسالے...

پورا پڑھیں

خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے اپنے یادگار’’مرثیۂ دہلی مرحوم‘‘ لکھتے وقت کہا تھا: چپّے چپّے پہ ہے یاں ، گوہریکتا تہ خاک دفن ہوگا نہ کہیں ، اتنا خزانہ ہرگز یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ شمس الرحمن فاروقی ایک نا بغۂ روزگار یا Geniusہیں۔یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ عبقری ، نابغے اور جینیئس بنا نہیں کرتے بلکہ پیدا ہوتے ہیں اور یہ کام دستِ مشیّت میں ہوتا ہے۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ قسمت ، حالات ، ماحول اور ذاتی کوشش کو بھی بڑی حد تک اس میں دخل ہے۔ موضع کوریا پار ، ضلع اعظم...

پورا پڑھیں

’’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘ شمس الرحمن فاروقی کا تخلیق کردہ ایک ایسا کوزہ ہے جس میں ناول نگار نے ہزاروں دریا سمو دیے ہیں ۔ اس شاہکار ادب پارے کو پڑھ کر اردو کے مشہور و معروف ادیب انتظار حسین نے فاروقی سے کہا تھا کہ’’ آپ آدمی ہیں کہ جن؟‘‘ یقینا مؤکل ، شمس الرحمن فاروقی کے تابع ہیں جن سے وہ جب چاہیں ، جیسا چاہیں کام لے لیتے ہیں۔ویسے تو اس ناول کی کہانی کو دراز تر کرنے میں درجنوں کردار ، مقامات ، واقعات اور حادثات سبھی شریک ہیں لیکن سب سے زیادہ نمایاں...

پورا پڑھیں
1 16 17 18 19 20 26