Articles
Total 257 Articles

کاویری بام زئی انگریزی سے ترجمہ: شمس الرب انیسویںصدی کی ایک بے باک خاتون کی کہانی یہ عظیم شاہکار ناول معلومات و تفریح کا ایک حسین و کامل امتزاج ہے۔ یہ کہانی ہے وزیر خانم نامی اس بے باک خاتون کی جو انیسویں صدی کے ہندوستان میں نوابوں اور صاحبوں کی ہم نشیں و ہم راز رہی۔ وزیر خانم ان نڈر خواتین کی نمائندہ ہےں جو ہر ملک و تہذیب میں مردوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑی رہتی ہیں۔ وزیر خانم ایک تاریخی کردار ہے۔ یہ ایک ایسی عورت کا نام ہے جو تنگ دستی میں پرورش کے باوجود آزادانہ...

پورا پڑھیں

این۔ کملا انگریزی سے ترجمہ: شمس الرب ماضی اجنبی ملک نہیں ہے جب اورہان پاموک اور محمد حنیف جیسی شخصیات کسی کتاب کے بارے میں لکھتے ہوئے اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوں تو توقعات کا بڑھ جانا فطری امر ہے۔ ساتھ ہی قارئین کو یہ خدشہ بھی لاحق ہوجاتا ہے کہ وہ اسے پڑھ کر مایوس نہ ہوں۔ یہ عظیم الشان اور پرشکوہ ناول ہر اس تعریف کی مستحق ہے جو اس پر نچھاور کی گئی ہے۔ یہ ناول چھ ابواب اور اڑسٹھ فصول پر مشتمل ہے۔ ہر فصل کا عنوان جداگانہ ہے۔ مثال کے طورپرفصل ’حبیب النساءبیگم‘...

پورا پڑھیں

محمد اسد الدین انگریزی سے ترجمہ: شمس الرب ملکہ حسن شمس الرحمن فاروقی نے The Mirror of Beautyکا آغاز دو انوکھے کرداروں سے کیا ہے۔ ایک ماہرانساب ہے جبکہ دوسرا پرانی کتابوں اور مخطوطات کا دیوانہ، یہی وہ کردار ہے جو ہمیں ناول کی جادوئی دنیا کی سیر کراتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ ایک ایسی ناول ہے جو صرف تعلیم یافتہ اور باعلم لوگوں کے لیے ہے۔ The Mirror of Beautyکے ساتھ میرا ذاتی تجربہ بھی ہے۔ حسنِ اتفاق سے جولائی کے مہینے میں مجھے اسی جگہ ٹھہرنے کا موقع ملا جہاں ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی اور...

پورا پڑھیں

معید رشیدی ایک تہذیبی مرقع: کئی چاند تھے سرِ آسماں کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں بعض اوقات اپنی مرضی کے بغیر بھی ہم تسلیم کرلیتے ہیں ۔ ادب کا جس طرح ایک اجتماعی منظرنامہ ہوتا ہے ، اسی طرح اس منظرنامے یا اس کے کسی مخصوص پہلو سے متعلق ہماری اجتماعی رائے بھی ہوتی ہے جس کا اعتراف بعض حضرات کھل کر ، بعض دبی زبان میں اور بعض خاموش رہ کر کرتے ہیں ۔ علمی بنیادوں پر شمس الرحمن فاروقی قاموسی شخصیت کے مالک ہیں ۔ اس سے ان کا سخت سے سخت مخالف بھی انکار نہیں کرتا۔ان...

پورا پڑھیں

پروفیسرصغیر افراہیم ”کئی چاند تھے سرِ آسماں“ ایک مطالعہ ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے کہ ایک محقق اور بلند پایہ ناقد ناول لکھے اور واقعہ نگاری پر اپنی غیر معمولی قدرت، تخیل کی پرواز اور دلفریب اسلوب سے ناول کے قاری کو حیرت میں ڈال دے۔ شمس الرحمن فاروقی، اس وقت اردو کے بے مثال نقاد ہیں جن کے تنقیدی مضامین نے ادب کی سمت و رفتار پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، لیکن جب ان کا ناول ” کئی چاند تھے سرِ آسماں“ شائع ہوا تو ناول نگاری کے فنّی ضابطوں کے ساتھ اتنا ضخیم ناول لکھنے کی ان...

پورا پڑھیں

سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس ڈاکٹر ذاکر خان تغیّرِ حیات جب لمحوں سے تیز تر ہوجائے تب انسانی زندگی پر اِس کے بے شمار اثرات ظاہرہونے لگتے ہیں۔ یہ اثرات سماجی بھی ہوسکتے ہیں، سیاسی ،معاشی اور معاشرتی بھی۔ یوں بھی اکیسویں صدی کو تبدیلیوں کی صدی کہا جاتا ہے جس نے ہمارے ہاتھوں سے ماضی کی میراث چھین کر ہمارے گلے میں نیٹ ورک کا طوق ڈال دیا ہے۔ہوا یوںکہ ٹیکنالوجی اور نیٹ ورک کے اختلاط سے ایک نئی چیز وجود میں آئی جسے انٹر نیٹ کہا جاتا ہے۔عدم سے وجود میں آتے ہی انٹرنیٹ نے اپنے ہاتھ پیر پسارنے...

پورا پڑھیں

غزل :ترجمان العصر ڈاکٹر ذاکر خان غزل کی پشت برسہا برس کی تاریخ اور عظیم روایتوں کے بوجھ کو سنبھالے ہوئے ہے۔دنیا کی تمام اصنافِ سخن میں غزل کی طرح مقبولیت کسی اور صنفِ سخن کو حاصل نہیں ہوئی۔وہ تمام شعراء جنھوں نے غزل کو عروج بخشا، سماج اور معاشرے نے انھیں بھی اوجِ ثریّا پر پہنچا دیا۔غزل عہدِ حاضر کے تقاضوں کو حتیٰ المقدور پورا بھی کرتی ہے اور انتہائی شاندار روایتوںکو نا صرف برقرار رکھتی ہے بلکہ اپنی شناخت بھی قائم کیے ہوئے ہے۔ یہ اردو غزل ہی ہے جو کبھی محبوب و معشوق کے دلوں کی آواز...

پورا پڑھیں

سنتھالی زبان کا لسانی و تہذیبی جائزہ ڈاکٹر قمر صدیقی سنتھالی زبان کا تعلق Austro Asiaticلسانی خانوادے کی شاخ Mundaکی ذیلی شاخ Hoاور Mundariسے ہے۔ یہ ہندوستان کے علاوہ بنگلہ دیش، بھوٹان اور نیپال کے کچھ علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ ہندوستان میں یہ جھارکھنڈ، آسام، بہار، اڑیسہ ، تری پورہ، میزورم اور مغربی بنگال کے مخصوص علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ہندوستان میں اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد 2011کی مردم شماری کے مطابق 63لاکھ ہے۔ اس کا رسم الخط Ol Chikiکہلاتا ہے اور اس کی ایک ذیلی اسلوب یا بولی Mahaliبھی ہے جو خاصی تعداد...

پورا پڑھیں

سینما کا عشق “سینما کا عشق” عنوان تو عجب ہوس خیز ہے۔ لیکن افسوس کہ اس مضمون سے آپ کی تمام توقعات مجروح ہوں گی۔ کیونکہ مجھے تو اس مضمون میں کچھ دل کے داغ دکھانے مقصود ہیں۔ اس سے آپ یہ نہ سمجھئے کہ مجھے فلموں سے دلچسپی نہیں یا سینما کی موسیقی اور تاریکی میں جو ارمان انگیزی ہے میں اس کا قائل نہیں۔ میں تو سینما کے معاملے میں اوائل عمر ہی سے بزرگوں کا مورد عتاب رہ چکا ہوں لیکن آج کل ہمارے دوست مرزا صاحب کی مہربانیوں کے طفیل سینما گویا میری دکھتی رگ بن...

پورا پڑھیں

مرحوم کی یاد میں ایک دن مرزا صاحب اور میں برآمدے میں ساتھ ساتھ کرسیاں ڈالے چپ چاپ بیٹھے تھے۔ جب دوستی بہت پرانی ہو جائے تو گفتگو کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اور دوست ایک دوسرے کی خاموشی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ یہی حالت ہماری تھی۔ ہم دونوں اپنے اپنے خیالات میں غرق تھے۔ مرزا صاحب تو خدا جانے کیا سوچ رہے تھے۔ لیکن میں زمانے کی ناسازگاری پر غور کر رہا تھا۔ دور سڑک پر تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ایک موٹرکار گزر جاتی تھی۔ میری طبیعت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ میں جب...

پورا پڑھیں
1 20 21 22 23 24 26