Bare Aaloo ke Kuch bayaN Hujaye

Articles

بارے آلو کا کچھ بیاں ہوجائے

مشتاق احمدیوسفی

 

دوسروں کو کیا نا م رکھیں،ہم خود بیسیوں چیزوں سے چڑتے ہیں۔کرم کلا ،پنیر،کمبل اور کافکا،عورت کاگانا،مرد کا ناچ،گیندے کا پھول،اتوار کا ملاقاتی،مرغی کا گوشت،پاندان،غرارہ، خوبصورت کا شوہر۔۔۔۔ زیادہ حد ادب کہ مکمل فہرست ہماری فرد گناہ سے بھی زیادہ طویل اور ہری بھری نکلے گی ۔ گنہ گار سہی لیکن مرزا عبدالودود بیگ کی طرح یہ ہم سے آج تک نہ ہواکہ اپنے تعصبات پر معقولات کا نیم چڑھا کر دوسروں کو اپنی بے لطفی میں برابر کا شریک بنانے کی کوشش کی ہو۔مرزا تو بقول کسے ،غلط استدلا ل کے بادشاہ ہیں ،ان کی حمایت ووکالت سے معقول سے معقول ’’کاز‘‘نہایت لچر معلوم ہونے لگتا ہے۔اسی لیے ہم سب انھیں تبلیغ دین اور حکومت کی حمایت سے بڑی سختی سے باز رکھتے ہیں ۔ ان کی ایک چڑ ہوتو بتائیں۔فہرست رنگارنگ ہی نہیں ،اتنی غریب پرور بھی ہے کہ اس میں فقیر بے تقصیر کا نام بھی خاصی اونچی پوزیشن پر شامل رہ چکا ہے ۔بعد میں ہم سے یہ پوزیشن بینگن کے بھر ُتے نے چھین لی اور اس سے جیکی کینیڈی کے دولہا اونا سس نے ہتھیا لی ۔ مرزا کو آج جو چیز پسند ہے کل وہ دل سے اتر جائے گی اور پرسوں تک چڑ بن جائے گی۔ لوگ ہمیں مرزا کا ہمدم ہی نہیں ،ہمزاد بھی کہتے ہیںلیکن اس یگانگت وتقرب کے باوجود ہم و ثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ مرزا نے آلو اور ابو الکلا م آزادکو اول اول اپنی چڑ کیسے بنایا۔نیز دونوں کو تہائی صدی سے ایک ہی بریکٹ میں کیوں بند کر رکھا ہے؟
بوئے یاسمن با قیست :
مولانا کے باب میں مرزا کوجتنا کھرچا ،تعصب کے ملمع کے نیچے خالص منطق کی یہ موٹی موٹی تہیں نکلتی چلی گئیں۔ایک دن کئی وار خالی جانے کے بعد ارشاد فرمایا’’ایک صاحب طرز انشاء پر داز نے بانی ند وۃ العلما ء کے بارے میں لکھا ہے کہ شبلی پہلایونانی تھا جو مسلمانوں میں پیدا ہوا ۔اس پر مجھے یہ گرہ لگانے کی اجازت دیجیے کہ یونا نیوں کی اس اسلامی شاخ میں اابو الکلا م آخری اہل قلم تھا جس نے اردو رسم الخط میں عربی لکھی!‘‘ہم نے کہا’’ان کی شفاعت کے لئے یہی کافی ہے کہ انھوں نے مذہب میں فلسفے کا رس گھولا۔ اردو کو عربی کا سوز وآہنگ بخشا‘‘ فرمایا،’’ان کی نثر کا مطالعہ ایسا ہے جیسے دلدل میں تیرنا !اسی لیے مولوی عبدالحق اعلانیہ انھیں اردو کا دشمن کہتے تھے۔علم و دانش اپنی جگہ ،مگر ا س کو کیا کیجیے کہ وہ اپنی انا اور اردو پر آخری دم تک قابو نہ پاسکے ۔کبھی کبھار رمضا ن میں ان کا ترجمان القرآن پڑھتا ہوں تو (اپنے دونوں گالوں پر تھپڑ مارتے ہوئے )نعوذ باللہ محسوس ہوتا ہے گویا کلام اللہ کے پردے میں ابوالکلا م بول رہا ہے !‘‘ ہم نے کہا ’’ لاحول ولا قوۃ! اس بزرگ کی تمام کردہ ونا کر دہ خطائیں تمھیں صرف اس بنا پر معاف کر دینی چاہئیں کہ تمھاری طرح وہ بھی چائے کے رسیا تھے ۔ کیا نام تھا ان کی پسند یدہ چائے کا؟اچھا سا نام تھا۔ ہاں !یاد آیا۔وہائٹ جیسمین !یا سمن سفید !‘‘
شگفتہ ہوئے فرمایا ’’ مولانا کا مشروب بھی ان کے مشرب کی مانند تھا۔ٹوٹے ہوئے بتوں کو جوڑ جوڑ کر امام الہند نے ایسا معبود تر ا شنے کی کوشش کی جو اہل سومنات کو بھی قابل قبول ہو۔ یونانی فلسفے کی عینک سے جب انھیں دین میں دنیا اور خد امیں ناخداکا جلوہ نظر آنے لگا تو وہ مسلما ن ہوگئے اور سچے دل سے اپنے آپ ایمان لے آئے ۔اسی طرح یہ چینی چائے محض اس لیے ان کے دل کو بھا گئی کہ اس میں چائے کے بجائے چنبیلی کے گجرے کی لپٹ آتی ہے۔ حالانکہ کوئی شخص جو چائے پینے کا ذرا بھی سلیقہ رکھتا ہے،اس لیے چائے پیتا ہے کہ اس میں چائے کی۔۔۔۔۔۔۔۔فقط چائے کی۔۔۔۔۔۔۔مہک آتی ہے ،نہ کہ چنبیلی کے تیل کا بھبکا!‘‘
ہم نے کہا،’’تعجب ہے! تم اس بازاری زبان میں اس آبِ نشاط انگیز کا مضحکہ اڑارہے ہو، جو بقول مولانا’طبع شورش پسند کو سرمستیوں کی اور فکر ِعالم آشوب کو آسودگیوں کی دعوت دیا کرتی تھی۔‘ اس جملے سے ایسے بھڑکے کہ بھڑکتے چلے گئے۔ لال پیلے ہوکر بولے،’’تم نے لپٹن کمپنی کاقدیم اشتہار ’چائے سردیوں میں گرمی اور گرمیوں میں ٹھنڈک پہنچاتی ہے‘دیکھا ہوگا۔ مولانا نے یہاں اسی جملے کا ترجمہ اپنے مداحوں کی آسانی کے لیے اپنی زبان میں کیا ہے۔!‘‘ بحث اور دل شکنی کا یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہالیکن مزید نقلِ کفر کرکے ہم اپنی دنیا وعاقبت خراب کرنا نہیں چاہتے ۔ لہٰذا اس تشبیب کے بعد مرزا کی دوسری چڑ یعنی آلو کی طرف گریز کرتے ہیں۔
یہ دانت سلامت ہیں جب تک :
مرزا کا ’’باس‘‘ دس سال بعد پہلی مرتبہ تین دن کی رخصت پر جارہا تھااور مرزا نے اپنے مشیروںاوربہی خواہوںکو جشن نجات منانے کے لیے بیچ لکژری ہوٹل میں لنچ پر مدعو کیاتھا۔وہاںہم نے دیکھا کہ سمندری کچھوے کا شوربہ سُڑ سُڑپینے کے بعد مرزا مسلم کیکڑے (مسلّم کے معنی یہ ہیں کہ مرحوم کی سالم ٹانگیں،کھپرے، آنکھیں اور مونچھیں پلیٹ پر اپنی قدرتی حالت میں نظر آرہی تھیں) پر ٹوٹ پڑے۔ہم نے کہا،’’مرزا! ہم نے تمھیں چہکا مارتی خمیری نان کھاتے دیکھا ہے، کھروں کے چٹپٹے سریش میں ڈبو ڈبوکر ،جسے تم دلّی کے نہاری پائے کہتے ہو۔ مفت کی مل جائے تو سڑاندی سارڈین یوں نگلتے ہوگویا ناک نہیں رکھتے اور تواور رنگاماٹی میں چکماقبیلے کی ایک دوشیزہ کے ہاتھ سے نشیلاکسیلا جیک فروٹ لپ لپ کھاتے ہوئے فوٹو کھنچواچکے ہو۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔اس کے بعد پشاور میں چڑوں کے پکوڑے کھاتے ہوئے بھی پکڑے جاچکے ہو۔تمھارے مشربِ اکل وشرب میں ہر شے حلال ہے سوائے آلو کے!‘‘
کھِل گئے ،فرمایا،’’ہم نے آج تک کسی مولوی ۔۔۔۔۔کسی فرقے کے مولوی کی تندرستی خراب نہیں دیکھی۔ نہ کسی مولوی کا ہارٹ فیل ہوتے سنا۔ جانتے ہو کیا وجہ ہے؟ پہلی وجہ تو یہ کہ مولوی کبھی ورزش نہیں کرتے۔دوسری وجہ یہ کہ سادہ غذا اور سبزی سے پرہیز کرتے ہیں!‘‘
ہوٹل ہـٰذا اور آلو کی عمل داری :
سبزی نہ کھانے کے فوائد ذہن نشین کرانے کی غرض سے مرزا نے اپنی زیر تجربہ زندگی کے ان گوشوں کو بے نقاب کیا جو آلو سے کیمیائی طور پر متاثر ہوئے تھے۔ ذکر آلو کا ہے۔انہی کی زبان غیبت بیان سے اچھا معلوم ہوگا۔تمھیں تو کیا یاد ہوگا؟دسمبر ۱۹۵۱ء میں منٹگمری گیاتھا۔پہلی دفعہ کراچی سے باہر جانے کی مجبوری لاحق ہوئی تھی۔ منٹگمری کے پلیٹ فارم پراترتے ہی محسوس ہوا گویا سردی سے خون رگوں میں جم گیا ہے۔ادھر چائے کے اسٹال کے پاس ایک بڑے میاں گرم چائے کے بجائے مالٹے کا رس پیے چلے جارہے تھے۔ اس بندۂ خدا کو دیکھ دیکھ کر اور دانت بجنے لگے۔ کراچی کا دائمی حبس اور بغیر کھڑکیوں والا کمرہ بے طرح یاد آئے ۔قلی اور ٹانگے والے سے صلاح ومشورے کے بعد ایک ہوٹل میں بستر لگادیا۔جس کا اصلی نام آج تک معلوم نہ ہوسکا۔لیکن منیجر سے لے کر مہتر تک سبھی اسے ہوٹل ہٰذا کہتے تھے۔ کمرہ صرف ایک ہی تھا جس کے دروازے پر کوئلے سے بحروفِ انگریزی واردو’’کمرہ نمبرا‘‘ لکھاتھا۔ ہوٹل ہٰذا میں نہ صرف یہ کہ کوئی دوسرا کمرہ نہیں تھا ، بلکہ مستقبل قریب یا بعید میں اس کی تعمیر کاامکان بھی نظر نہیں آتا تھاکیونکہ ہوٹل کے تین طرف میونسپلٹی کی سڑک تھی اور چوتھی طرف اسی ادارے کی مرکزی نالی جو شہر کی گندگی کو شہر ہی میں رکھتی تھی، جنگل تک نہیں پھیلنے دیتی تھی۔جزیرہ نمائے کمرہ نمبر۱، میں ’’اٹیجڈ باتھ روم‘ تو نہیںتھا،البتہ ایک اٹیجڈتنور ضرور تھا۔ جس سے کمرہ اس کڑاکے کی سردی میں ایسا گرم رہتاتھاکہ بڑے بڑے سنٹرلی ہیٹیڈ(Centrally Heated) ہوٹلوں کو مات کرتا تھا۔ پہلی رات ہم بنیان پہنے سورہے تھے کہ تین بجے صبح جو تپش سے ایکا ایکی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ امام دین بیرا ہمارے سرہانے ہاتھ بھر لمبی خون آلود چھری لیے کھڑا ہے۔ ہم نے فوراً اپنی گردن پر ہاتھ پھیرکر دیکھا۔ پھر چپکے سے بنیان میں ہاتھ ڈال کر پیٹ پر چٹکی لی اور پھر کلمہ پڑھ کے اتنی زور سے چیخ ماری کہ امام دین اچھل پڑااورچھری چھوڑکربھاگ گیا۔تھوڑی دیر بعددوتین بیرے سمجھا بجھاکراسے واپس بلالائے۔ اس کے اوسان بجا ہوئے تو معلوم ہوا کہ چھری سے وہ ننھی منی بٹیریں ذبح کر رہاتھا۔ ہم نے ایک وقار کے ساتھ کہا،’’ عقلمندآدمی! یہ پہلے کیوں نہ بتایا؟‘‘اس لیے فوراً اپنی بھول کی معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ آئندہ وہ پہلے ہی بتا دیاکرے گا کہ چھری سے بٹیر ہی ذبح کرناچاہتا ہے نیز اس نے آسان پنجابی میں یہ بھی یقین دلایا کہ آئندہ وہ چیخ سن کر ڈرپوکوں کی طرح خوفزدہ نہیں ہوا کرے گا۔
ہم نے رسان سے پوچھا،’’تم انھیں کیوں ذبح کررہے تھے؟‘‘ بولا’’ جناب ! ضلع منٹگمری میں جانور کو حلال کرکے کھاتے ہیں۔ آپ بھی کھائیں گے ؟‘‘ ہم نے قدرے ترش روئی سے جواب دیا ’’ نہیں!‘‘ اور ریلوے ٹائم ٹیبل سے پنکھا جھلتے ہوئے سوچنے لگے کہ جولوگ دودھ پیتے بچوں کی طرح جلدی سوتے اور جلدی اٹھتے ہیں ،وہ اس رمز کو کیا جانیں کہ نیند کا اصل مزہ اور سونے کا صحیح لطف آتا ہی اس وقت ہے جب آدمی اٹھنے کے مقررہ وقت پر سوتا رہے کہ اسی ساعت ِ دزدیدہ میں نیند کی لذتوں کا نزول ہوتا ہے۔ اسی لیے کسی جانور کو صبح دیر تک سونے کی صلاحیت نہیں بخشی گئی۔ اپنے اشرف المخلوقات ہونے پر خودکو مبارکباد دیتے دیتے صبح ہوگئی اور ہم پوری اور آلو چھولے کا ناشتہ کرکے اپنے کام پر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد معدے میں گرانی محسوس ہوئی،لہٰذا دوپہر کوآلو پلائو اور رات کو آلو اور پنیرکاقورمہ کھاکر تنور کی گرمائی میں ایسے سوئے کہ صبح چار بجے بیرے نے اپنے مخصوص طریقے سے ہمیں جگایا۔جس کی تفصیل آگے آئے گی۔
ناشتے سے پہلے ہم سر جھکا ئے قمیص کا بٹن نوچ کر پتلون میں ٹانکنے کی کوشش کررہے تھے کہ سوئی کھچ سے انگلی میںبھک گئی۔بالکل اضطراری طور پر ہم نے انگلی اپنی قمیص کی جیب پر رکھ کر زور سے دبائی ،مگر جیسے ہی دوسری غلطی کا احساس ہوا تو خون کے گیلے دھبے پر سفید پائوڈر چھڑک کر چھپانے لگے اور دل میں سوچنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے بیوی بھی کیا چیز بنائی ہے لیکن انسان بڑ اہی نا شکرا ہے ۔اپنی بیوی کی قدر نہیں کرتا۔اتنے میں بیرا مقامی خالص گھی میں تلی ہوئی پوریاں لے آیا۔منٹگمری کا اصلی گھی پاکستان بھر میں سب سے اچھا ہوتا ہے۔اس میں چار فی صد گھی ہوتاہے۔بیرے نے حسب معمول اپنے ابروئے تساہل سے ہمیں کرسی پر بیٹھنے کا اشا رہ کیااور جب ہم اس پر ۴ کے ہندسے کی طرح تہرے ہوکر بیٹھ گئے تو ہمارے زانوپر گیلا تولیہ بچھایا اور اس پر ناشتے کی ٹرے جما کر ر کھ دی ۔ ۱؎
ہم نے نگاہ اٹھا کر دیکھاتو اسے جھاڑن منہ میں ٹھونسے بڑے ادب سے ہنستے ہوئے پایا ۔ہم نے پوچھا ’’کیوں ہنس رہے ہو؟‘‘ وہ تو منیجر صاحب ہنس رہے تھے۔بولتے تھے،’’ہم کو لگتا ہے کہ کراچی کاپسنجر بٹیر کو تلئیر سمجھ کے نہیں کھاتا!‘‘

ممکن ہے بعض شکی مزاج قارئین کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ اگر کمرے میں میز یا اسٹول نہیں تھا تو بان کی چار پائی پر ناشتہ کیوں نہ کر لیا۔ شکایتہ نہیں ،اطلاعاً عرض ہے کہ جیسے ہی منٹگمری کا پہلا مرغ پہلی بانگ دیتا ،بیرا ہماری پیٹھ اور چار پائی کے درمیان سے بستر ایک ہی جھٹکے میں گھسیٹ لیتا۔ اپنے زوربازو اور روز مرہ کی مشق سے ا س کام میں اتنی صفائی اور مہارت پیدا کرلی تھی کہ ایک دفعہ سرہا نے کھڑے ہوکر جو بستر گھسیٹا تو ہما را بنیان تک اتر کر بستر کے ساتھ لپٹ کر چلا گیا اور ہم کھری چارپائی پر کیلے کی طرح چھلے ہوئے پڑ ے رہ گئے ۔پھر چارپائی کو پائینتی سے اٹھا کر ہمیں سر کے بل پھسلاتے ہوئے کہنے لگا ،’’صاحب !فرنیچر خالی کرو !‘‘وجہ یہ ہے کہ اس فرنیچر پر سارے دن ’’پروپرائٹر اینڈ منیجر ہوٹل ہٰذا ‘‘ کادربار لگا رہتا تھا۔ایک د ن ہم نے اس بے آرامی پر پرُ زور احتجاج کیا تو ہوٹل کے قواعد وضوابط کا پنسل سے لکھا ہوا ایک نُسخہ ہمیں دکھایا گیا،جس کے سرورق پر’’ضابطہ فوجداری ہوٹل ہٰذا ‘‘ تحریرتھا۔اس دفعہ ۹کی رُو سے فجر کی اذان کے بعد ’’پسنجر ‘‘کو چارپائی پر سو نے کا حق نہیں تھا۔البتہ قریب المرگ مریض ۔زچہ اور یہود و نصارٰی ا س سے مستثنیٰ تھے لیکن آگے چل کر دفعہ ۲۸(ب)نے ان سے بھی یہ مراعات چھین لی تھیں۔اس کی رُو سے زچہ اورقریب المرگ مریض کو زچگی اور موت سے تین دن پہلے تک ہوٹل میں آنے کی اجازت نہیں تھی ۔ خلاف ورزی کرنے والوںکو بیروں کے حوالے کردیا جائے گا۔

ہر چیز کے دو پہلو ہوا کرتے ہیں ۔ایک تاریک،دوسرا زیادہ تاریک لیکن ایمان کی بات ہے اس پہلو پر ہماری نظر بھی نہیں گئی تھی اور اب اس غلط فہمی کا ازالہ ہم پر واجب ہوگیا تھا۔پھولی ہوئی پوری کا لقمہ پلیٹ میں واپس رکھتے ہوئے ہم رندھی ہوئی آواز میں اس جعل ساز پرند کی قیمت دریافت کی بولا’’زندہ یا مردہ؟‘‘ہم نے جواب دیا کہ ہم تو شہر میں اجنبی ہیں ۔فی الحال مردہ کو ہی ترجیح دیں گے۔کہنے لگا’’دس آنے پلیٹ ملتی ہیں ۔ایک پلیٹ میں تین بٹیریں ہوتی ہیںمگر جناب کے لئے تو ایک ہی راس کافی ہوگی!‘‘
قیمت سن کر ہمارے منہ میں بھی پانی بھر آیا ۔پھر یہ بھی تھاکہ کراچی میںمویشیوں کا گوشت کھاتے کھاتے طبیعت اکتا گئی تھی۔لہٰذا دل ہی دل میں عہد کرلیا کہ جب تک منٹگمری کا آب ودانہ ہے ،طیور کے سوا کسی چیز کے ہاتھ نہیں لگائیں گے۔لنچ پر بھنی ہوئی بٹیر،چائے کے ساتھ بٹیر کا تنوری چرغا،سونے سے پہلے بٹیرکا آب جوش۔اس رہائشی تنور میں فرد کش ہوئے ہمیں چوتھا دن تھا‘‘اور تین دن سے ہی یہی اللّے تللّے تھے۔
(طویل مضمون سے اقتباس)
٭٭٭
(مشمولہ سپ ماہی ’’نقیبِ تعلیم‘‘ ، بھیونڈی، دسمبر 2013)