Bazgasht A Short Story by Ali Imam Naqvi

Articles

باز گشت

علی امام نقوی

آگ کے شعلوں سے بستی روشن ہوئی تو اس نے معنی خیز انداز میں اپنے جوان بیٹوں کے چہروں پر موجود پریشانیوں کے سائے کچھ بڑھتے ہوئے دیکھے۔ کنکھیوں سے بچوںکے باپ ہزار سنگھ کے چہرے پر نظر ڈالی جو کسی گہرے تفکر میں ڈوبا ہوا تھا، دوسرے ہی پل میں اس کی نگاہوں کا زاویہ تبدیل ہو کر سولہ برس کی بیٹی کے چہرے کو اپنے حصار میں لے آیا۔وہ مکان کے سب سے پو تر حصے میں گروجی کی بیڑ کے سامنے ہاتھ جوڑے من ہی من میں سب کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھی ۔ سب کو ہراساں دیکھ دل ہی دل میں وہ مسکرائی، پھر کچھ سوچ کر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا تے ہوئے زینوں کی طرف بڑھ گئی۔ہزار سنگھ نے تفکر کے کنویں سے سر ابھار کر اسے دیکھا اور اپنے اور اپنے بڑے بیٹے سے بولا۔ آگ کے شعلوں سے بستی روشن ہوئی تو اس نے معنی خیز انداز میں اپنے جوان بیٹوں کے چہروں پر موجود پریشانیوں کے سائے کچھ بڑھتے ہوئے دیکھے۔ کنکھیوں سے بچوںکے باپ ہزار سنگھ کے چہرے پر نظر ڈالی جو کسی گہرے تفکر میں ڈوبا ہوا تھا، دوسرے ہی پل میں اس کی نگاہوں کا زاویہ تبدیل ہو کر سولہ برس کی بیٹی کے چہرے کو اپنے حصار میں لے آیا۔وہ مکان کے سب سے پو تر حصے میں گروجی کی بیڑ کے سامنے ہاتھ جوڑے من ہی من میں سب کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھی ۔ سب کو ہراساں دیکھ دل ہی دل میں وہ مسکرائی، پھر کچھ سوچ کر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا تے ہوئے زینوں کی طرف بڑھ گئی۔ہزار سنگھ نے تفکر کے کنویں سے سر ابھار کر اسے دیکھا اور اپنے اور اپنے بڑے بیٹے سے بولا۔ ’’ہُن کدا ای انصاف دی گل نئی اے ۔ اک بندے دی سزا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’تسی بھول رئے ہو بائو جی۔‘‘ بیٹے نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے معنی خیز انداز میں جواب دیا تو ہزار ہ اپنے بیٹے کیہر کو گھور کر رہ گیا۔باپ اور بیٹے کے درمیان دو جملوں کی گفتگو اس نے بھی سنی ۔ ان کے اضطراب نے اس کے اپنے دل کادریچہ کھول دیاتھا۔دل میں قید مسکراہٹ چھلانگ لگا کر اس کے ہونٹوں پر براج گئی۔وہ مکان کی چھت پرپہنچ چکی تھی اوراطمینان سے اِدھر ُادھر سے اٹھتے ہوئے آگ کے شعلوں کا رقص دیکھ رہی تھی ۔ قرب وجوار سے ابھرنے والی امدادی صدائیں جوں ہی اس کی سماعت سے ٹکرائیں تو اس کے ہونٹوں پہ براجی مسکراہٹ کچھ پھیل گئی۔ٹھیک اسی وقت ہوا کا جھوکا اپنے دامن میں چلتے جسموں کی چراند کا بھبکا لیے اس کے نتھنوں سے ٹکرایااور اس کی مسکراہٹ ہنسی میں تبدیل ہوگئی۔ ’’بی جی۔تسی کتھے ہو۔‘‘ سولہ برس کے ہر جیت کو رکو مخاطب کرنے پر اس نے پلٹ کر اس کے سراپے کو دیکھا۔ہر جیت کے پورے وجود پہ کپکپی طاری تھی اور اس کی آنکھوں میں خون کنڈلی رمالے بیٹھا تھا۔ٍٍ ’’بی جی۔۔۔۔۔۔۔تسی کتھے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سارے پا سے آگ لگی ہے۔‘‘ ’’ہوں‘‘ ’’ہوںکی بی جی؟‘‘ ’’تھکی تھکی۔ نڈھال سی سنیتیں برسوں کے بن باس لوٹتے ہوئے ہی تو دیکھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو نیچے جا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھائیوں کے پاس۔ ’’تو جا ہر جیت۔‘‘ اس کے تحکمانہ لہجے کی کرختگی محسوس کرتے ہی ہر جیت زینوں کی طرف بڑھ گئی۔اس نے اپنے جسم کے بالائی حصے کو اک ذرا سا جھکانے کے بعد نیچے صحن میں سر جوڑے بیٹوں اور ہزار سنگھ کو دیکھا پھر زینے اترتی ہر جیت کو جو مسرت اور بے چارگی سے اسے دیکھتے ہوئے بے دلی سے زینے طئے کر رہی تھی۔اس نے اپنے خمیدہ وجود کو سیدھا کیا اور پھر ایک مرتبہ جلتے ہوئے مکانوں کو دیکھنے لگی۔فضا، آہوںکراہوں اور چیخوں سے اٹی پڑی تھی۔ رینگتی ہوئی ٹرین ایک جھٹکے سے رُکی تو کمپارٹمنٹ میں بیٹھے ہوئے مردوں کے ذہنوں میں موجود تشویش نے جھنجلاہٹ اختیار کرلی تھی۔جو ا ن گاڑی کے رکتے ہی مستعد ہوگئے ان میں سے بیشتر نے پل بھر کی خاطر کمپارٹمنٹ کے بند دروازوں کو دیکھا اور دوسرے ہی پل اپنے عزیزوں کو ۔ یکایک وہ سب ہی چونک پڑے تھے۔ایک دم سے بہت سی آوازوں نے کمپارٹمنٹ کے دروازوں اور کھڑکیوں پر حملہ کردیا تھا۔کمپارٹمنٹ میں ٹھسا ٹھس بھرے مسافروں نے اپنی اپنی خوف زدہ نظروں سے کھڑکیوں کے اس پار چمکتی ہوئی کر پانوں کو دیکھا۔بوڑھی اورادھیڑ عورتوں نے کم سن اور جوان ہوتی ہوئی بچیوں کو اپنی چھاتیوں سے لپٹالیا۔اس اضطراری فعل سے وہ اپنے دلوں کے خوف پر قابو پانے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں یا بچیوں کی ڈھارس بند ھا رہی تھیں۔ادھر دروازہ پیٹا جا رہا تھا پر تھپ تھپاہٹ کی ضرب وہ اپنے دلوں پر محسوس کر رہی تھیں۔ دفعتاََ ایک فائر ہوا ۔ سب نے چونک کر دیکھا ۔ ایک جوان نے اپنی خوبصورت بہن کی چھاتی میں گولی داغ دی تھی اور وہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دے رہا تھا کہ ایک اور دھماکہ ہوا۔کمپارٹمنٹ کا دروازہ کھلا۔گولیاں چلیں اور وہ جوان تیورا کر گرا جس کے ہاتھ میں ریوالور موجود تھا۔عورتوں کی چیخیںبلند ہونے لگیں۔ گرتے گرتے بھی اس جوان نے اپنا ریوالور حملہ آوروں پرخالی کر دیاتھاادھر بھی تین چار گرے تھے اور دوسرے ہی پل نیزوں کی انیاں جوانوں کے سینوں کو بر مانے لگیں۔کر پانوں نے مردوں کے گلے کاٹے۔ ان کے پیٹ چاک کئے۔ایک کے بعد ایک دل خراش چیخ ابھرتی ، اور کسی نئی چیخ میں معدوم ہو جاتی۔عورتیں جبراََ اتاری جانے لگیں ، جن عورتوں نے اپنی بچیوں کے تحفظ کے خاطر کمر کسی انھیں نہر کر دیا گیا۔ان کے بعد ایسی عورتوں اور لڑکیوں کو، جنھوں نے اپنی چھوٹی بہنوں کی مدافعت کی رتی بھر بھی کوشش کی خود اس کی اپنی بہن بھی اس کے سامنے دیوار بنے کھڑی تھی اور اس کے سامنے ایک جوان ہاتھوں سنگین لگی بندوق تھا مے کھڑا تھا۔ موت۔ دونوں بہنوں کے سامنے تھی اور جوان کے رو برو تھر تھر کانپتی دو بے یار مددگار لڑکیاں۔ ’’باجی‘‘۔ اس کی لرزتی ہوئی آواز بھری ۔ بہن نے جرأت کا ذرا سا مظاہرہ کیا اور جواب میں اس کی باجی کی دل خراش چیخ ابھر کر رہ گئی۔اس کے اور حملہ آور جوان کے درمیان موجود دیوار گر چکی تھی۔ ’’کی سوچ میں گم اے ہزار۔‘‘ ’’دیکھ ۔کی چیزہے۔ماں دے خصم اے نوں اُتھے لے جا رئے ہوندے۔‘‘ ’’توڈا کی وچار ائے۔‘‘ ’’اے نوں میں گھر لے جاویں گا۔‘‘ ’’مسلی نوں۔‘‘ ’’آہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھ تسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کڑی نئیں مٹھے دا گلاس اے۔‘‘ ’’پھینٹ پھانٹ اور ختم کراے نوں۔‘‘ ’’اوے۔کی گل کرداائے۔‘‘ ہزار ہ واقعی اسے اٹھا کر لے گیا تھا۔ ساتھیوں کے منع کرنے کے با وجود بھی۔گھر پہنچ کر اس نے بار بار اس کی عزت لوٹی ۔پھر تو اس کی آبرو ہزارہ کی خواہش کی پابند ہوتی چلی گئی۔سارا ہنگامہ ختم ہو چکا تھا۔جنون کا دریا اتر جانے کے بعد ہزارہ نے اس کا دل جیتنے کی بھی کوششیں کی تھیں لیکن اس نے تو اپنے ہونٹ سی لئے تھے۔ اکثر ہزارہ اس سے پوچھتا۔ ’’تواناںنو کدوں بھلا دینگی؟‘‘ مگراس کے پاس ہزارہ کے سوال کا ایک ہی جواب تھا۔ خاموشی ۔ بس ۔گہری خاموشی ۔ شروع شروع ناشتہ پانی کا انتظام ہزارہ نے ہی کیا تھا۔پھر چولہا چوکا خود اس نے سنبھال لیا۔اپنے پر گزر جانے والی قیامت کے اعصاب شکن احساسات کے اثر ات زائل کرنے کی خاطر ہی اس نے مصروفیت کا سہارا لیاتھا۔اسی قیامت کے عذاب کو بھلانے کی خاطر اس کی کوکھ نے بھی تین جانیں اگل دی تھیں۔بڑا کیہر سنگھ،چھوٹا کرم جیت سنگھ اور ایک بیٹی ہرجیت کور۔ وقت پر لگا کر اڑتا رہا۔ہزارہ کے بچے بڑے ہونے لگے۔تب اسے خیال آیا کہ گائوں کی زندگی اس کے بچوں کو بہتر مستقبل فراہم نہ کر سکے گی۔اپنی زمین فروخت کرنے کے بعد وہ دہلی منتقل ہو گیا۔راجدھانی پہنچ کر اس نے پر چون کی دکان کھولی۔کاروبار کے ترقی پاتے ہی دکان بڑے بیٹے اور ملازم کے سپرد کرکے اس نے موٹر سائیکل کے پرزوں کی ایجنسی لے لی۔ترقی نے یہاں بھی اس کے قدم چومے اور۔۔۔۔۔۔آج ہزارہ کی بچی ہرجیت اسی دہلیز پہ کھڑی تھی جہاں سے خود اس کی اپنی زندگی میں انقلاب آیا تھا۔ جلتے ہوئے مکانوں کی آگ کی روشنی اس کے چہرے پہ پڑ رہی تھی اور نیچے صحن میں کھڑا ہزارہ اس سے مخاطب تھا۔ اوئے تسی تھلے آجا۔۔۔۔۔۔۔ائے کی کرائی اے۔ چھت کی کگاریر ہتھیلیاں ٹیک کر اس نے سر جھکا کر نیچے دیکھا۔پھر بچوں کو۔اس سے پہلے کہ وہ ہزارہ کی بات کا جواب دیتی۔بلوائیوںنے مکان پر دھاوا بول دیا۔ہرجیت ڈر کے مارے کمرے میں بھاگی۔پل بھر میں ہزارہ ، کیہر اور کرم جیت نے ایک دوسرے کو دیکھا۔پھر کھونٹیوں پہ ٹنگی ہوئی کرپانوں کو۔آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ فیصلے ہوئے اور اس سے پہلے کہ وہ کرپانوں کی طرف بڑھتے دروازہ ٹوٹ کر صحن میں آن گرا۔ ایک دم سے کئی جوان ہاتھوں میں جلتی ہوئی مشعلیں، لاٹھیاں اور بندوقیں لیے صحن میں گھس آئے۔ ایک نے آگے بڑھ کر چھوٹے کے کھیس پکڑے دوسرا ہزارہ کی طرف بڑھا۔ کیہر کرم جیت کی طرف بڑھا تو ایک بلوائی نے اپنا ریوالور اس کے سینے پر رکھ دیااور ٹریگر پر انگلی کا دبائو بڑھاتے ہوئے گالی دینے لگا۔ کرم جیت دہشت زدہ اب بھی ان کی گرفت میں تھا ایک نے اس کا کام بھی تمام کردیا  تب کسی نے چیخ کر سب کو مخاطب کیا۔ ’’ایک عورت اور ایک لونڈیاں اور ہے گی اس مکان میں۔‘‘ وہ سنبھل گئی۔ اس نے اپنے سارے وجود سے ہمتیں بٹوریں اور چھت پر سے صحن میں کود گئی۔چند ثانیوں کے لیے تمام حملہ آوروں پر سکتہ طاری ہو گیا۔ اٹھ کر اس نے کولہے جھاڑے ایک نگاہ بلوائیوں پہ ڈالی۔ پھر کیہر کرم جیت اور ہزارہ کی لاشوں کو دیکھتے ہوئے الٹے قدموں کمرے کی طرف بڑھی۔ ’’ سوچو کیا ہو۔ ختم کرو۔‘‘ ’’اور لونڈیاں کو اٹھالو۔‘‘  ’’بی جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ہر جیت کی کانپتی ہوئی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ ’’باجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت دور سے خود اپنی آواز بھی اس نے سنی۔ ’’بی۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر جیت نے اسے پھر پکارا۔ ’’باجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خود اپنی ہی آواز۔ اب اس نے بہت قریب سی سنی۔‘‘ ’’بی ۔۔۔۔۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہرجیت ہڑبڑا کر کمرے سے نکل آنے کی حماقت کر بیٹھی۔ ’’سوچوکیا ہو۔ ٹھکانے لگا اسے۔ اور اٹھالو۔ لونڈیا کو۔‘‘ اس نے دیکھا ایک بندوق بردار اس کا نشانہ لے رہا تھا ۔ پل بھر میںا س نے ایک فیصلہ کیا۔ سرعت سے مڑ کر اس نے ہر جیت کو اپنے سے الگ کیا۔ لپک کر کرپان نکالی اور آن واحد میں وہ کرپان ہرجیت کے پیٹ میں اتار دی۔ وہ نشانہ لے رہا تھا۔ بندوق اس کے ہاتھوں میں لرز کر رہ گئی۔ اٹھی ہوئی لاٹھیاں جھک گئیں۔مشعلوں میں روشن آگ کچھ اور تیز ہو چلی تھی۔فرش پر ہر جیت آخری سانسیں لیتے ہوئے تڑپ رہی تھی اور مشعلوں کی روشنی میں ماں اور بیٹی دونوں کا چہرہ تمتمارہا تھا۔