Bengali Folk Tale

Articles

برہمن جو بھگوان کو نگل گیا

بنگلہ لوک کہانی

ایک بار بدھاتا نے جو ہر کسی کے ماتھے پر چاہے وہ بچہ ہو یا بچی ، پیدائش کے وقت اس کی قسمت لکھ دیتا ہے ، کسی غریب برہمن کی قسمت میں کچھ عجیب سی تباہی لکھ دی۔ کبھی جی بھر کے نہ کھانا اس کا مقدر بن گیا۔ جب بھی وہ اپنا آدھا بھات کھا چکتا تو ہمیشہ ایسی کوئی نہ کوئی رکاوٹ آجاتی کہ وہ اور نہ کھاپاتا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ اس کے پاس راجہ کے گھر سے بلاوا آیا۔ وہ بہت ہی خو ش ہوا اور اپنی بیوی سے بولا۔’’ میں تو بس اپنا آدھا بھات ہی کھا سکتا ہوں۔ اپنی ساری زندگی میں ایک بار بھی تو میں اپنی بھوک پوری طرح نہ مٹاپایا۔ آج نہ جانے کیسے قسمت جاگی ہے کہ راجہ کے گھر جانے کا بلاوا آیا ہے، لیکن میں جائوں تو کیسے جائوں؟ میرے کپڑے پھٹے ہوئے اور گندے ہیں اور اگر میں اس طرح چلاگیا تو اندیشہ ہے کہ چوکیدار مجھے واپس لوٹا دے گا۔‘‘ اس کی بیوی بولی۔ ’’ ارے میں تمہارے کپڑے سی کر دھو دوں گی۔ تب تو تم جاسکتے ہو۔‘‘ اور بیوی نے اسے اچھے ڈھنگ کے کپڑے مہیا کردیئے اور وہ راجہ کے گھر روانہ ہوگیا۔
اگرچہ شام ہوچکی تھی اور وہ دیر سے وہاں پہنچا تھا، لیکن اس کا شاہانہ خیر مقدم ہوا۔ جب وہ اپنے آگے رکھے گئے طرح طرح کے کھانوں کا جائزہ لے رہاتھا تو بوڑھا برہمن بے حد خوش ہوا۔ اس نے سوچا۔’’ چاہے جو بھی ہو آج تو میں جی بھر کے کھائوں گا۔‘‘ اب ایسا ہوا کہ مٹّی کی ایک چھوٹی سی ہانڈی جو چھت کی شہتیر سے لٹک رہی تھی ، جیسے ہی برہمن کا کھانا آدھا ختم ہوا ٹوٹ گئی اور اس کے ٹکڑے برہمن کے کھانے میں جاگرے۔ اس نے فوراً ہاتھ روک لیا۔ کھانا ختم کرتے ہوئے اس نے پانی کا ایک گھونٹ لیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ہاتھ منہ دھوکر راجہ کے پاس گیا۔ راجہ نے بڑی عزت سے اس کا سواگت کیا اور پوچھا۔ ’’ ٹھاکر! کیا آپ پوری طرح مطمئن ہیں؟‘‘ برہمن نے جواب دیا ۔ ’’ مہاراج آپ کے نوکروں نے میرے ساتھ بڑا اچھا برتائو کیا ، میں نے جو مانگا لاکر دیا۔ یہ میری اپنی قسمت کا پھیر ہے کہ میں پیٹ نہ بھر سکا‘‘۔ ’’کیوں؟‘‘ راجہ نے پوچھا۔ ’’کیا بات ہوگئی؟‘‘ ۔’’مہاراج جب میں کھانا کھا رہا تھا تو مٹّی کی چھوٹی سی ہانڈی نے چھت سے گر کر میرا بھات خراب کردیا۔ ‘‘ جب راجہ نے یہ سنا تو بڑا ناراض ہوا اور اس نے نوکروں خوب ڈانٹا۔پھر اس نے برہمن سے کہا۔’’ٹھاکر! آج رات آپ میرے یہاں ٹھہرجایئے ۔ کل میں تازہ کھانا بنوا کر اپنے ہاتھوں سے آپ کے آگے پیش کروں گا۔ تو برہمن اس رات راجہ کے گھر ٹھہر گیا۔
اگلے دن ، راجہ نے کھانا پکتے ہوئے نگرانی کی۔ بلکہ ایک دو چیزیں خود اپنے ہاتھوں سے بنائیں اور برہمن کو کھانا پیش کیا۔ راجہ کی خاطر داری سے برہمن بڑا خوش تھا۔ اس نے چاروں طرف دیکھا اور کھانے بیٹھ گیا۔ لیکن جب وہ آدھا کھانا کھاچکا تو بدھاتا نے دیکھا کہ اب اسے روکنا ہی پڑے گا، لیکن اسے اس کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا بس وہ خود ہی جلدی سے ایک سنہرے مینڈک میں تبدیل ہوگیا اور برہمن کے کیلے کے پتّے کے قریب پھدک کر آیا اور اس کے کھانے کے اندر لڑھک گیا۔
اس شام گھر لوٹتے ہوئے راستے میں جب وہ ایک جنگل سے گزر رہا تھا ۔اسے اچانک ایک آواز سنائی دی۔ ’’برہمن ، مجھے جانے دو! برہمن ، مجھے جانے دو!!‘‘ برہمن نے چاروں طرف نظر دوڑائی ، لیکن اسے کوئی نظر نہیں آیا۔ اس نے پھر آواز سنی۔’’ برہمن مجھے جانے دو!‘‘ تب اُس نے کہا ۔’’ تم کون ہو؟‘‘ جواب ملا۔’’ میں بدھاتا ہوں!‘‘برہمن نے پوچھا۔’’ تم آخر ہو کہاں؟‘‘ بدھاتا نے جواب دیا ۔ ’’تمہارے پیٹ میں تم نے مجھے گھونٹ لیا ہے۔‘‘ ،’’ناممکن!‘‘ برہمن بولا ’’ہاں‘‘۔ بدھاتا نے کہا۔’’ میں ایک مینڈک بن کر تمھارے کھانے میں لڑھک گیا تھا اور تم مجھے کھا گئے‘‘۔’’ ارے اس سے اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہے! یہ تو بڑا ہی اچھا ہوا۔‘‘ برہمن نے جواب دیا۔ ’’ساری زندگی تم نے مجھے پریشان کیا ہے۔ بہتر ہوگا میں اپنی حلق بند کرلوں۔‘‘ برہمن جلدی جلدی گھر کی طرف چلا اور جب وہ وہاں پہنچ گیا تو اس نے اپنی بیوی سے کہا۔ ’’بیوی مجھے حقہ سلگا دے اور تو ہاتھ میں ایک ڈنڈا لے کر تیار ہوجا۔ ‘‘ اس کی بیوی نے فوراً اس کے کہنے پر عمل کیا اور برہمن بیٹھ کر حقہ پینے لگا۔ وہ بڑے آرام سے دیر تک حقہ گڑگڑاتا رہا اور اس بات کا پورا دھیان رکھا کہ کہیں بدھاتا آزاد نہ ہوجائے۔ دھوئیں سے بھگوان کا دم اور بھی زیادہ گھٹا، لیکن برہمن نے مدد کے لیے ان کے چلّانے کی کوئی پرواہ نہیں کی۔
اِس دوران تینوں دنیائوں میں زبردست کھلبلی مچ گئی ۔ بغیربدھاتا کے ، معاملات کو نظام کے تحت نہ چلائے جانے سے دنیا تباہی کے دہانے پر تھی۔ چنانچہ سارے بھگوانوں کی کونسل بیٹھی اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ ان میں سے کسی ایک کو برہمن کے پاس بھیجنا ہوگا۔ لیکن کسے؟ سب نے اس بات سے اتفاق کیا کہ دیوی لکشمی کا انتخاب سب سے ٹھیک رہے گا۔ وہ بولیں۔ ’’اگر میں اس برہمن کے پاس جائوں گی تو کبھی واپس نہ آسکوں گی۔‘‘ لیکن سبھی نے بہت خوشامد کی تو پھر وہ راضی ہوگئیں اور برہمن کے گھر گئیں۔ جب برہمن کو پتہ چلا کہ اس کے دروازے پر دولت اور خوش قسمتی کی دیوی لکشمی آئی ہیں تو اس نے اوپر کا اپنا کپڑا ان کی تعظیم کے طور پر اپنی گردن کے گرد لپیٹ لیا۔ انھیں بیٹھنے کی جگہ دی اور پوچھا کہ’’ آخر کون سی بات انھیں ایک غریب آدمی کے دروازے پر لائی ہے‘‘؟’’ ٹھاکر! ‘‘ دیوی نے کہا۔’’ آپ نے بدھاتا کو بندی بنا رکھا ہے۔ اس سے جانے دیجئے ، ورنہ دنیا برباد ہوجائے گی‘‘۔ ’’ ذرا مجھے ڈنڈا تو دے دینا۔‘‘ برہمن نے اپنی بیوی سے کہا۔ ’’اور میں تمھیں دکھائوں گا کہ خوش قسمتی اور دولت کی اس دیوی کے بارے میں میں کیا سوچتا ہوں۔ جس دن سے میں پیدا ہوا ہوں یہ مجھ سے کتراتی رہی ہے۔ میرے پا س بدقسمتی کے سوا کچھ نہیں تھا اور اب وہ یہاں میرے گھر آئی ہے ۔ یہ لکشمی۔‘‘ جب دیوی نے یہ سنا تو خوف سے کانپنے لگی اور غائب ہوگئی۔ کسی نے اُس سے اس سے پہلے کسی زمانے میں بھی یوں بات نہ کی تھی۔ اس نے تمام بھگوانوں کو بتایا کہ کیا ہوا تھا اور دوسری بار سر جوڑ کر بیٹھنے کے بعد تمام بھگوانوں نے علم کی دیوی سرسوتی کو برہمن کے پاس بھیجا۔
جب دیوی سر سوتی اس کے گھر پہنچیں اور آواز لگائی کہ ’’ برہمن کیا تم اندر ہو؟‘‘ تو برہمن نے بڑی تعظیم کے ساتھ انھیں پرنام کیا اور بولا۔’’ ماتا، عظیم دیوی آپ ایک غریب آدمی کے گھر سے کیا چاہتی ہیں؟‘‘ ۔’’ ٹھاکر ! دنیا تیزی سے ٹکڑے ٹکڑے ہورہی ہے۔ بدھاتا کو جانے دیجئے‘‘۔ ’’ ارے ، بیوی ذرا ڈنڈا تو دینا ، میں اس علم کی دیوی کو ذرا سکھائوں ۔ اس نے مجھے حرفِ تہجی کے پہلے حرفوں تک کی بھی پہچان نہیں کرائی اور اب یہ میرے گھر آئی ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی دیوی جلدی سے اٹھیں اور ٹھوکریں کھاتی ہوئی بھاگیں۔
آخر کار بھگوان شیو نے کام اپنے ہاتھ میں لیا۔ یہ برہمن شیوجی کا زبردست بھگت۔ ایسا بھگت کہ شیو کی پوجا کے بغیر پانی تک نہیں چھوتا تھا۔ چنانچہ جوں ہی شیوجی وہاں پہنچے، برہمن اور اس کی بیوی نے انھیں پیر دھونے کے لیے پانی دیا اور بیل کی پتّیاں ، پوِتر گھاس ، پھول ، چاول اور صندل کی لکڑی پیش کی اور ان کی پوجا کی۔ تب شیوجی بیٹھ گئے اور انھوں نے برہمن سے کہا۔ ’’برہمن ! بدھاتا کو جانے دو۔‘‘ برہمن بولا۔’’ او، عظیم شیوجی چونکہ آپ خود آئے ہیں ، مجھے اسے جانے دینا چاہیے لیکن میں کروں تو کیا کروں؟ اس بدھاتا کی بدولت ہی تو میں جس دن سے پیدا ہوا مصیبتیں جھیل رہا ہوں۔ وہی اس کی جڑ ہے۔‘‘ تب بھوان شیونے کہا۔’’ تم پریشان مت ہو، میں تمھارے جسم اور روح دونوں کو سورگ میں لے جائوں گا۔‘‘ یہ سُن کر برہمن نے اپنی حلق کو ڈھیلا چھوڑ دیا اور منہ کھول دیا۔ بس بدھاتا نکل بھاگے۔ شیوجی برہمن اور اس کی بیوی کو ساتھ لے کر اپنی خاص جنت میں چلے گئے۔
٭٭٭