It’s a Chick, Not a Dog by Jar al-Nabi al-Hilw

Articles

یہ چوزہ ہے ، پلّہ نہیں

جرالنّبی الحلو

کہانی ’یہ چوزہ نہیں پلّہ ہے‘ مصری نژاد کہانی کار جرالنّبی الحلوکی تحریر کردہ ہے۔ کہانی میں ایک مصری لڑکا انسانوں اور حیوانوں کے درمیان دوستی کے بارے میں سیکھتا ہے۔

—————————————-

ہم تمام مرد، عورت، لڑکے، لڑکیاں اور ہماری ماںایک بہت بڑے گھر میں رہتے تھے۔ماں میری توجہ کا مرکز ہوا کرتی تھی ۔ وہ جہاں کہیں بھی ہوتی تھی میں اسے دیکھا کرتا تھا۔ماں اکثر میرے والد کی تصویر دیوار پر لٹکانے کے لیے ہتھوڑا اور کیل لے آیا کرتی تھی۔ پھر مجھے سیمنٹ خریدنے کے لیے باہر بھیجتی تھی تاکہ دیواروں پر موجود دراڑوں کی مرمّت کی جا سکے۔گھر جتنا صاف ستھرا ہونا چاہیے وہ اسے اتنا صاف رکھنے کی کوشش کرتی۔وہ کھانا تیار کرنے کے بعد مرغے، مرغیوں، بطخوں اور خرگوشوں کے درمیان بیٹھ جاتی۔
ہماری پوری زندگی ان ہی مرغے، مرغیوں، بطخوں اور خرگوشوں کے درمیان گزر رہی تھی۔ان سبھوں کے درمیان ایک چھوٹا سا پیلا چوزہ مجھے ہمیشہ حیرت میں ڈال دیتا تھا۔اس کا جسم ریشم کی طرح نرم و ملائم تھا۔اس کے دائیں اور بائیں دونوں بازئوں میں تین تین چھوٹے چھوٹے پر نکل آئے تھے۔یہ پر بہت کمزور تھے اس کہ باوجود بھی وہ چوزہ اپنے پروں کو حرکت دے کر خود کو زمین سے اوپر اٹھانے کی کوشش کرتا۔یہ بالکل تنہا اور حیرت انگیز چوزہ تھا۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ گھر میں میری ماں کے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔اس کے چلنے کا انداز بالکل ایسا تھا جیسے کوئی چھوٹا بچہ پیچھے چل رہا ہو۔وہ چلتے چلتے کبھی گرتا کبھی سنبھلتا ،لیکن میری ماں کی پیروی کرتا رہتا۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیںکہ وہ کیوں بخوشی چوں چوں کرتا ہوا میری ماں کے پیچھے چلتا تھا۔
ماں جانتی تھی کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔یقینا وہ ہمیشہ سے اس بات کو جانتی تھی۔شاید آپ چاہتے ہوں کہ میں یہ بتائوں ایسا کیوں ہوتا تھا۔اس کی پہلی وجہ تو یہ تھی کہ میری ماں کا پیر چلتے وقت کبھی پیچھے نہیں آیا اور نہ ہی اس چوزے پر پڑا تھا۔دوسری وجہ یہ کہ میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور میں یہ بھی دیکھ سکتا تھا کہ ماں چلتے وقت دیکھ لیا کرتی تھی کہ وہ اس کے پیچھے چل رہا ہے یا نہیں۔
تیسری وجہ یہ تھی کہ جب وہ گھر کے کسی کونے میں بیٹھ جاتی اور چوزے کی طرف دیکھ کر مسکراتی تب وہ فوراً اپنے پروں کو جنبش دیتا اور دوڑنا شروع کردیتا۔وہ کئی مرتبہ لڑکھڑاتا پھر کھڑا ہوجاتا،آخر کار وہ کھڑا ہوتا ہے اور ماں کی گود میں جا کر بیٹھ جاتا ہے۔
ماں اس طرح بیٹھی ہوئی ہے کہ سورج کی شعاعیں سیدھے اسی پر پڑرہی ہیں۔اب وہ اس طرح سے بیٹھتی ہے کہ سورج کی شعاعیں اس کی گود میں پڑنے لگتی ہیں۔وہ جدھر حرکت کرتی ہے چوزہ بھی اس سمت اپنا رخ کرتا ہے۔
ایک مرتبہ وہ ماں کی پشت پر بیٹھا تھا تب ماں نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ وہ ماں کی گود میں اس جگہ سوگیا جہاں سورج کی شعاعیں پڑ رہی تھیں۔وہیں بیٹھے بیٹھے ماں نے بھی اپنی آنکھیں بند کرلیں۔اپنے سر کو دیوار پر ٹیک دیااور اونگھنے لگی۔میں اس کے چہرے کے خدوخال دیکھنے لگا، اس کی پلکیں تقریباً بند ہوچکی تھیں۔ اس کی چوڑی پیشانی بالکل روشن تھی۔مجھے اس کے چہرے پر نا سمجھ میں آنے والی مسکراہٹ نظر آرہی تھی۔اس کی سیدھی آنکھ پر پَرکا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نظر آرہا تھا۔وہ بہت گہری نیند سوئی ہوئی تھی۔ میں بمشکل اس کی سانسوں کی آوازیں سن سکتا تھا۔چوزہ سورج کی شعاعوں میں لپٹا اس کی آغوش میں سو رہا تھا۔
چوزہ ماں کے جسم پر چونچ مار رہا تھا۔اس کی چونچ ماچس کی تیلی کے کنارے سے بھی زیادہ چھوٹی تھی۔وہ ماں کی انگلیوں پر چونچ مار رہا تھا۔ ماں کی انگلیوں میں ایک انگوٹھی تھی جس پر نقش و نگار کنندہ تھے۔ میں ان نقش و نگار کو کبھی سمجھ نہیں پایا۔میں نے یہ فرض کرلیا کہ اس انگوٹھی پر ماں کا نام کنندہ تھا۔میں نے ایسا اس لیے فرض کیا تھا کیوں کہ ماں کے نام کے حروف بھی اس پر موجود تھے۔ میں نے اس چوزے سے دوستی کرنے کی کبھی خواہش نہیں کی اور نہ کبھی اسے اپنے پیچھے آنے دیااور سچائی یہی ہے کہ اس نے بھی کبھی میرے پیچھے چلنے کی کوشش نہیں کی۔خیر میرا دوست تو میرا اپنا پیارا سا کتّا تھا۔
میرا خوبصورت کتّا ہمارے گھر کے اطراف میں موجود چھوٹے سے باغ کے دروازے پر میراانتظار کرتا تھا۔لہٰذا میرے پاس ایک ایسا کتّا تھا جو میرے پیچھے پیچھے چلتا تھا۔
آپ بخوبی جانتے ہیں کہ کتّا کسی بھی طرح چوزے سے بڑا ہوتا ہے اور میرا کتّا میرا دوست تھا اس لیے وہ میرے برابر چلا کرتا تھا۔رات کی تاریکیوں میں تنگ گلیوں سے گزرتے وقت وہی میرے ڈر اور خوف کو دور کیا کرتا تھا۔ وہ بھونکتے ہوئے دوسرے کتّوں کی جانب دوڑتا تھا۔وہ ان بچوں کے پیچھے بھی دوڑتا تھا جو اسے ستانے کی کوشش کرتے تھے اور اس کے بعد ہانپتے کانپتے ہوئے میری طرف واپس آجاتا تھا۔
ایک مرتبہ رات کی رنگینیوں میں جب میں ایک موسیقی کی آواز پر رقص کر رہا تھا، میں نے دیکھا کہ وہ بھی خوشی کے ساتھ اپنی دُم کو ہلا رہا تھا اور اس کی کالی آنکھیں مجھ پر مرکوز تھیں۔وہ نہ کبھی مجھے پریشان کرتا تھا اور نہ ہی ناراض کیا کرتا تھا۔لیکن اسے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ میں اپنے کسی اسکولی دوست سے بات رہاہوں، وہ اکثر ہماری گفتگو میں مداخلت کیا کرتا تھا۔اس وقت تک بھونکتا رہتا جب تک میں اسے ڈانٹ کر خاموش نہ کرادوں۔تب وہ اپنی دُم کو اپنے دونوں پیروں میں دبا لیتااور زمین پر اس طرح دیکھنے لگتا جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو۔
چوزے نے کبھی ماں کے معاملات یا کسی بھی کام میں مداخلت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ میں نہیں جانتا کہ یہ اچھی بات ہے یا نہیں۔لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ میرے کتّے کی طرح ناراض یا خوش نہیں ہوا کرتا تھا۔میں نے بہت کوشش کی کہ میرا کتّا بھی میری گود میں آکر سو سکے لیکن وہ اس بات سے بے چین ہوجاتا تھا۔وہ بیٹھتا بھی نہیں تھا۔میں نے ایک مدّت سے اچھلتے کودتے وقت بھی اس کے ناخن محسوس نہیں کیے۔وہ درخت سے گرتی ہوئی پتیوں کے پیچھے دوڑتا، جب اسے پتہ چل جاتا کہ یہ پتیاں ہی ہیں تب وہ واپس آجاتا اور اپنے پچھلے پیروں پر بیٹھ جاتا۔اکثر وہ میری گود سے فرار ہونے کے لیے اس طرح سے چالیں چلا کرتا تھا۔
باغ کے ایک کنارے پر میں نے لکڑیوں سے اس کے لیے ایک گھر بھی بنایا تھاتاکہ وہ اس میں آرام کر سکے۔میںنے اس طرح کے کئی گھرکہانیوں کی کتابوں میں تصویری شکل میں بنے ہوئے دیکھے تھے۔لیکن اسے اس گھر سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔کبھی کبھی وہ لکڑی کے بنے ہوئے چھوٹے گھر کے بازو میں سو جاتا۔لیکن آرام کرنے کے لیے گھر اور باغ کا دروازہ اس کی پسندیدہ جگہ تھی۔ ان جگہوں سے وہ اندر اور باہر کی بہتر طور پر نگرانی کر سکتا تھا۔کبھی کبھی وہ کسی پر حملہ کرنے کے انداز میں بھونکتا تھا۔
میری دانست میں چوزے کی سب سے بڑی چھلانگ وہ تھی جب وہ اچھل کر ماں کے کاندھے پر بیٹھ گیا تھا۔پھر اس کے بعد اس نے اپنے پروں کو موڑ دیا اور فوراً سو گیا۔ ماں نے اسے بیدار کیا، اس کی چونچ پکڑ کر اسے پانی پلایااور چاول کے دانے کھلائے۔میرا وقت گھر اور اسکول میں پڑھائی کرتے ہوئے گزرتارہا۔ اسی دوران یہ چوزا ایک مرغے کے روپ میں بڑا ہوگیا۔
ماں اس مرغے سے بہت خوش تھی۔میرے والد نے کہا کہ وہ اسے بھون کر کھانا چاہتے ہیں۔میرے بھائی چاہتے تھے کہ اسے چاول کے ساتھ پکایا جائے۔ ماں نے کسی اور ہی نیّت سے اسے دوسرے پرندوں کے ساتھ چھت پر رکھ دیا۔اب یہ مرغا بھی ان پرندوں میں سے ایک تھا۔وہ دیوار پر کھڑا ہوتااور جیسے ہی ماں کھانا اوپر کرتی وہ چیختے ہوئے اس پر جھپٹ پڑتا۔
اس مرغے کو ماںکی شفقت اور حسنِ سلوک یاد نہیں رہا۔اکثر جب وہ اس پر چھلانگ لگاتا تب اپنے پروں کو تیزی سے حرکت دیتا اورناخنوں سے ماں کی جلد کھرچنے لگتا۔ درحقیقت اب ماں بھی اس سے خوف زدہ رہنے لگی تھی۔اسی وجہ سے اب وہ اسے زیادہ سے زیادہ خود سے دور رکھنے کی کوشش کرتی۔
میں نے اکثر خرگوشوں اور دیگر پرندوں کو ماں پر اسی طرح جھپٹتے دیکھاتھا، جس طرح وہ کھانے پر ٹوٹ پڑتے تھے۔اس کے برعکس میرے کتّے میں اب نرم مزاجی آچکی تھی۔جب چھوٹے بچے اس پر چڑھ کر بیٹھ جاتے تب بھی وہ ناراض نہیں ہوتا۔صرف اپنی دُم کو ہلا دیتا۔اس کی عادت تھی کہ وہ اپنے سامنے والے پیروں کو پھیلا دیتا ، اپنی ٹھوڑی ان پیروں پر رکھتااور سوجایا کرتا تھا۔
ایک شام بہت زیادہ گرمی کے سبب میں ایک چٹائی پر لیٹا ہوا تھامیرا سر ماں کی گود میں تھااور اس کی انگلیاں آہستہ آہستہ نرمی کے ساتھ میرے بالوں میں گردش کررہی تھیں۔میں نے اس سے چوزے کے بارے میں پوچھاکہ وہ اتنے خونخوار مرغ میں کیسے بدل گیا۔
ماں مسکرائی’’اسی طرح زندگی چلتی ہے‘‘اس نے کہا۔’’وہ ان لوگوں سے خوفزدہ ہونا جانتا ہے جو اسے کھا جانا چاہتے ہیں۔‘‘
میں اپنے پنجوں پر چلتا ہوا گھر سے باہر آگیا۔ اکیلے ٹہلنے کے لیے باہر جانا چاہتا تھا۔لیکن میرا کتّا آگیا اور میرے پیچھے چلنے لگا۔اس کی د’م لہرارہی تھی اور مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھاجیسے وہ کسی خوش کن گیت پر سیٹیاں بجا رہا ہو۔
——————————————————

انگریزی سے ترجمہ : ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر

مترجم نور الاسلام جونیئر کالج ، گوونڈی ممبئی میں انگریزی کے استاد ہیں

مضمون نگار سے رابطہ:

[email protected]

09987173997