Cobbler a Short Story by John Galsworthy

Articles

موچی

جان گالزوردی

میں اسے تب سے جانتا تھا،جب میں بہت چھوٹا تھا۔وہ میرے ابو کے جوتے بناتا تھا۔ چھوٹی سی ایک گلی میں دو دکانیں ملاکر انھیں ایک دکان میں کردیا گیا تھا۔مگر اب وہ دکان نہیں رہی،اس کی جگہ ایک بے حد جدید طرز کی دکان تیار ہوگئی ہے۔
اس کی کاریگری میں کچھ خاص بات تھی۔شاہی خاندان کے لیے تیار کیے گئے کسی بھی جوتے کی جوڑی پر کوئی نشان نہیں ہوتاتھاسوائے ان کے اپنے جرمن نام کے’’گیسلربردرس‘‘ اور کھڑکی پر جوتوں کی صرف چند جوڑیاں رکھی رہتیں۔مجھے یاد ہے کھڑکی پر ایک ہی طرح کی جوڑیوں کو باربار دیکھنا مجھے کھَلتا تھا،کیوں کہ وہ آرڈر کے مطابق ہی جوتے بناتاتھا۔نہ کم نہ زیادہ۔اس کے تیار کیے ہوئے جوتوں کے بارے میں یہ سوچنا غیر تصوراتی تھا کہ وہ پائوں میں ٹھیک سے نہیں آئیں گے؟ تو کیا کھڑکی پر رکھے جوتے اس نے خریدے تھے۔یہ سوچنا بھی تصور سے دور تھا۔وہ اپنے گھر میں ایسا کوئی چمڑا رکھنا برداشت نہیں کرتا تھا جس پر وہ بذاتِ خود کام نہ کرے۔اس کے علاوہ پمپ شو کا وہ جوڑا بے حد خوبصورت تھا،اتنا شاندار کہ بیان کرنا مشکل تھا۔وہ اصل چمڑے کا تھا جس کی اوپری تہہ کپڑے کی تھی۔انھیں دیکھ کر ہی جی للچانے لگتا تھا۔اونچے اونچے بھورے چمکدار جوتے،حالانکہ نئے تھے مگر ایسا لگتا تھا جیسے سیکڑوں برسوں سے پہنے جارہے ہوں۔واقعی جوتوں کا وہ جوڑا ایک مثالی نمونہ تھا۔جیسے تمام جوتوں کی روح اس میں منتقل ہوگئی ہو۔
دراصل یہ سارے خیالات میرے ذہن پر بعد میں ابھرے۔حالانکہ جب میں صرف چودہ برس کاتھا،تب سے اسے جانتا تھا اور اسی وقت سے میرے دل میں اس کے اور اس کے بھائی کے لیے احترام کا جذبہ پیدا ہوچکا تھا۔ایسے جوتے بنانا جیسے وہ بناتا تھا تب بھی اور اب بھی میرے لیے ایک عجوبہ یا حیرت انگیز بات تھی۔
مجھے بخوبی یاد ہے،ایک دن میں نے اپنا چھوٹا سا پیر آگے بڑھاکر شرماتے ہوئے اس سے پوچھا تھا،’’مسٹر !کیا یہ بہت مشکل کام نہیں ہے؟‘‘
جواب دیتے وقت سرخی مائل داڑھی سے ایک مسکان ابھر آئی تھی،’’ہاں، یہ مشکل کام ہے۔‘‘
چھوٹے قد کا وہ آدمی جیسے بذات خود چمڑے سے بنایا گیا ہو،اس کا زرد چہرہ جھریوں بھرا چہرہ اور سرخی مائل گھنگھرالے بال اور داڑھی،رخساروں سے اس کے منہ تک دائروی شکل میں ابھری چہرے کی لکیریں،گلے سے نکلی ہوئی بھاری بھرکم آواز۔چمڑہ ایک نافرمان چیز ہے۔سخت اور آہستہ آہستہ آکار لینے والی چیز۔اس کے چہرے کی بھی یہی خاصیت تھی۔اپنے آدرش کو اپنے اندر پوشیدہ رکھے ہوئے،محض اس کی آنکھیں اس سے عاری تھیں۔جو بھوری نیلی تھیں اور جن میں ایک سادگی بھری گہرائی تھی۔
اس کا بڑا بھائی بھی تقریباً اس جیسا ہی تھا،بلکہ اس کا رنگ کچھ زیادہ زردی مائل تھا۔ شروعات میں میرے لیے دونوں میں فرق کرپانا دشوار مرحلہ تھا۔پھرمیری سمجھ میں آگیا۔جب کبھی میں اپنے بھائی سے پوچھوں گا،ایسا نہیں کہا جاتا تو میں جان لیتا تھا کہ یہ وہی ہے اور یہ الفاظ دہرائے جاتے تو یقیناً وہ اس کا بڑا بھائی ہوتا۔
کئی بار برسوں بیت جاتے اور بل میں اضافہ ہوتا جاتا،مگر گیسلر بھائیوں کی رقم کوئی بقایا نہیں رکھتا تھا۔ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ اس نیلے فریم کے چشمے والے جوتاساز کا کسی پر دو جوڑیو ں سے زیادہ رقم باقی ہو۔اس کے پاس جانا ہی طمانیت کا احساس جگا دیتا تھا کہ ہم بھی اس کے گاہک ہیں۔
اس کے پاس باربار جانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی،کیوں کہ اس کے بنائے جوتے بہت مضبوط ہوتے تھے،ان کا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔وہ جوتے ایسے ہوتے جیسے جوتوں کی روح ان کے اندرسِل دی گئی ہو۔
وہاں جانا کسی عام دکان پر خریداری کرنے کے مترادف نہیں تھا۔ایسا قطعی نہیں تھا کہ آپ دکان میں داخل ہوئے اور بس کہنے لگیں کہ،’’ذرا مجھے یہ دکھائو‘‘ یا ’’ٹھیک ہے‘‘ کہہ کر اٹھے اور چل دیئے۔یہاں پورے اطمینان کے ساتھ جانا پڑتا تھا،بالکل اسی طرح جیسے کسی گرجا گھر میں داخل ہواجاتا ہے۔پھر اس کی اکلوتی لکڑی کی کرسی پر بیٹھ کر انتظار کریں،کیوں کہ اس وقت وہاں کوئی نہیں ہوتا۔جلدی ہی چمڑے کی بھینی بھینی بو اور تاریکی سے بھری اوپر کی کنوئیں نما کوٹھری سے اس کا یا اس کے بڑے بھائی کا چہرا نیچے جھانکتا ہوا نظر آتا۔ایک بھاری بھر کم آواز اور لکڑی کی تنگ سیڑھیوں سے قدموں کی چاپ سنائی دیتی۔پھر وہ آپ کے سامنے کھڑاہوتا،بنا کوٹ کے تھوڑا جھکا جھکا سا،چمڑے کا ایپرن پہنے ،آستین اوپر چڑھائے،آنکھیں اور پلکیں جھپکاتے ہوئے جیسے اسے جوتوں کے خوبصورت خواب سے جگایا گیا ہو یا جیسے وہ الّو کی طرح دن کی روشنی سے حیرت زدہ اور خواب میں خلل کی وجہ سے جھنجھلایا ہوا ہو۔
میں اس سے پوچھتا،ــ  کیسے ہو بھائی گیسلر؟کیا تم میرے لیے روسی چمڑے سے ایک جوڑی جوتے بنا دوگے؟‘‘
بنا کچھ کہے وہ دکان کے اندر چلا جاتا اور میں اسی لکڑی کی کرسی پر آرام سے بیٹھ کر اس کے پیشے کی بو اپنی سانسوں میں اتارتارہتا۔کچھ ہی دیر بعد وہ لوٹتا ۔اس کے کمزور اور اُبھری ہوئی نسوں والے ہاتھوں میں گہرے بھورے رنگ کے چمڑے کا ایک ٹکڑا ہوتا۔اس کی آنکھیں اس پر گڑی رہتیں اور وہ کہتا،’’کتنا خوبصورت ٹکڑا ہے!‘‘جب میں بھی اس کی تعریف کردیتا تو وہ سوال کرتا، آپ کو جوتے کب تک چاہیے؟‘‘اور میں کہتا،’’اوہ،بنا کسی دقت کے جتنی جلد ممکن ہوسکے بنا کردے دو۔‘‘ اور پھر وہ سوالیہ انداز میں کہتا،’’کل دوپہر؟‘‘یا اگر اس کا بڑا بھائی ہوتا تو وہ کہتا،’’میں اپنے بھائی سے پوچھوں گا۔‘‘
پھر میں آہستہ سے کہتا ،’’شکریہ مسٹر گیسلر،اب اجازت ،خدا حافظ۔‘‘
’’خدا حافظ!‘‘وہ کہتا۔مگر اس کی نگاہ ہاتھ تھامے ہوئے چمڑے پر ہی ٹکی رہتیں۔میں دروازے کی جانب مڑتا۔مجھے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی۔ جو اسے جوتوں کی اسی خوابوں بھری دنیا میں لے جاتی۔مگر ایسا کوئی نیا جوتا بنوانا ہو،جو اس نے ابھی تک میرے لیے نہ بنایا ہو تو وہ جیسے مخمصے میں پڑجاتا۔مجھے میرے جوتے سے آزاد کرکے دیر تک ہاتھ میں لے کر اس جوتے کو دیکھتا رہتا۔مسلسل شفقت بھری پارکھی نظروں سے نہارتا رہتا۔جیسے اس گھڑی کو یاد کرنے کی کوشش کررہا ہو جب بڑے جتن سے انھیں بنایا گیا تھا۔اس کے ہائو بھائو میں کرب جھلکتا تھا کہ آخر کس نے اس قدر عمدہ نمونے کو اس حال میں پہنچایا ہے۔پھر کاغذ کے ایک ٹکڑے پر میرا پیر رکھ کر وہ پینسل سے دوتین بار پیر کے گھیرے کانشان بناتا،اس کی حرکت کرنے والی انگلیاں میرے انگوٹھے اور پیروں کو چھوتی رہتیں،جیسے میں نے یوں ہی اس سے کہہ دیا،’’بھائی گیسلر،آپ کو پتہ ہے، آپ نے جو پچھلا جوتا بناکر دیا تھا،وہ چرمراتاہے۔‘‘
کچھ کہے بغیر اس نے پل بھر میری طرف دیکھا،جیسے امید کررہا ہو کہ یاتو میں اپنا جملہ واپس لے لوں یا اپنی بات کا ثبوت پیش کروں۔
’’ایسا تو نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘‘وہ بولا۔
’’ہاں مگر ایسا ہواہے۔‘‘
’’کیا تم نے انھیں بھگویا تھا؟‘‘
’’میرے خیال سے تو نہیں۔‘‘
یہ سن کر اس نے اپنی نظریں جھکالیں۔جیسے وہ ان جوتوں کو یاد کرنے کی کوشش کررہا ہو، مجھے بے حد افسوس ہواکہ میں نے یہ بات کیوں کہہ دی۔
’’جوتے واپس بھیج دو۔میں دیکھوں گا۔‘‘وہ بولا۔
اپنے چرمراتے ہوئے جوتوں کے بارے میں میرے اندر رحم دلی کے جذبات ابھر آئے۔ میں بخوبی تصور کرسکتا تھا کہ دکھ بھری طویل بے چینی کے ساتھ نہ جانے کتنی دیر تک وہ ان کی مرمت کرے گا؟
’’کچھ جوتے۔‘‘اس نے آہستگی سے کہا،’’پیدائشی خراب ہوتے ہیں،اگرانھیں درست نہ کرسکا تو آپ کے بل میں اس کے پیسے نہیں جوڑو ں گا۔‘‘
اک بار ،محض ایک ایک بار میں اس کی دکان میں بے خیالی سے ایسے جوتے پہن کر چلاگیا جو جلد بازی کی وجہ سے کسی مشہور دکان سے خرید لیے تھے۔اس نے بنا کوئی چمڑا دکھائے میرا آرڈر لے لیا۔میرے جوتوں کی گھٹیا بناوٹ پر اس کی آنکھیں ٹکی ہوئی تھیں۔میں اس بات کو محسوس کررہا تھا۔آخر اس سے رہا نہ گیا اور وہ بول اٹھا،’’یہ میرے بنائے ہوئے جوتے تو نہیں ہیں؟‘‘
اس کے لہجے میں نہ غصہ تھا نہ دکھ کا اظہار نہ نفرت کے جذبات۔مگر کچھ ایسا ضرور تھا، جو لہو کو سرد کردے۔اس نے ہاتھ اندر ڈال کر انگلی سے بائیں جوتے کو دبایا،جہاں جوتے کو فیشن ایبل بنانے کے لیے غیر ضروری کاریگری کی گئی تھی۔مگر وہاں وہ جوتا کاٹتا تھا۔
’’یہاں،یہ آپ کو کاٹتا ہے نا؟‘‘اس نے پوچھا،’’یہ جو بڑی کمپنیاں ہیں انھیں عزت کا پاس نہیں ہوتا۔‘‘پھر جیسے اس کے دماغ میں کچھ بیٹھ گیا ہو،وہ زورزور سے کڑواہٹ بھرے لہجے میں بولنے لگا۔یہ پہلی مرتبہ تھا،جب میں نے اسے اپنے پیشے سے پیدا ہونے والے نا گفتہ با حالات اور دقتوں کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے سنا۔’’انھیں سب کچھ حاصل ہوجاتا ہے۔‘‘اس نے کہا،’’ وہ کام کے بوتے پر نہیں،بلکہ اشتہار کے بوتے پر سب کچھ حاصل کرلیتے ہیں۔وہ ہمارے گاہک چھین لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج میرے پاس کام نہیں ہے۔‘‘اس کی جھریوں سے بھرے چہرے پر میں نے وہ سب دیکھا جو کبھی نہیں دیکھا تھا۔بے انتہا تکلیف،کڑواہٹ اور جدوجہد۔اچانک اس کی سرخ مائل داڑھی میں سفیدی لہرانے لگی تھی۔
اپنی جانب سے میں اتناکرسکتا تھا کہ اسے حالات روشناس کراتا۔جس کی بنا پر میں اس گھٹیا جوتوں کو خریدنے پر مجبور ہوگیاتھا۔مگر ان چند لمحات میں اس کے چہرے اور آواز نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ میں نے کئی جوڑی جوتوں کے بنانے کا آرڈر دے دیا اور اس کے بعد یہ تو ہونا ہی تھا۔ وہ جوتے گھسنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔تقریباً دو برس تک میں وہاں نہ جاسکا۔
آخر جب میں گیا تو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ اس کی دکان کی دو چھوٹی کھڑکیوں میں سے ایک کھڑکی کے باہر کسی دوسرے کے نام کا بورڈ آویزاں ہوگیا تھا۔وہ بھی جوتے بنانے والا ہی تھا۔ شاہی خاندان کے جوتے۔اب صرف ایک کھڑکی پر وہی جانے پہچانے جوتے رکھے ہوئے تھے۔ وہ الگ سے نہیں لگ رہے تھے۔اندر بھی،دکان کی وہ کنوئیں نما کوٹھری پہلے کی بہ نسبت زیادہ تاریک اور بو سے اٹی ہوئی لگ رہی تھی۔اس بار ہمیشہ سے کچھ زیادہ ہی وقت لگا۔کافی دیر بعد وہی چہرہ نیچے جھانکتا ہوا دکھائی دیا۔پھر چپلوں اور قدموں کی آواز گونجنے لگی۔آخر وہ میرے روبرو تھا، زنگ آلود ٹوٹے پرانے چشمے میں سے جھانکتا ہوا۔اس نے پوچھا،ــ’’آپ مسٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیں نا؟‘‘
’’ہاں مسٹر گیسلر۔‘‘میں نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا،’’کیا بتلائوں،آپ کے جوتے اتنے اچھے ہیں کہ گھستے ہی نہیں۔دیکھیے یہ جوتے بھی ابھی تک چل رہے ہیں۔‘‘اور میں نے اپنا پیر آگے بڑھادیا۔اس نے انھیں دیکھا۔
’’ہاں۔‘‘وہ بول اٹھا۔’’مگر لگتا ہے لوگوں کو اب مضبوط جوتوں کی ضرورت نہیں رہی۔‘‘
اس کی طنز بھری نظروں اور آواز سے نجات پانے کے لیے میں نے فوراً کہا،’’یہ تم نے اپنی دکان کو کیا کر ڈالا ہے؟‘‘۔اس نے اطمینان سے کہا،’’بہت مہنگا پڑرہا تھا۔کیا آپ کو جوتے چاہیے؟‘‘
میں نے تین جوڑی جوتوں کا آرڈر دیا۔حالانکہ مجھے ضرورت صرف دو جوڑی جوتوں کی ہی تھی اور جلدی سے میں وہاں سے باہر نکل آیا۔نہ جانے کیوں مجھے لگا کہ اس کے ذہن میں کہیں یہ بات ہے کہ اسے یا سچ کہیں تو اس کے جوتوں سے متعلق جو سازش رچی جارہی ہے اس میں میں بھی شامل ہوں۔یوں بھی کوئی ان چیزوں کی اتنی پروا نہیں کرتا۔مگر پھر ایسا ہوا کہ میں کئی مہینوں تک وہاں نہیں گیا۔جب میں وہاں گیا تو میرے ذہن میں بس یہی خیال تھا،اوہ!میں بھلااس بوڑھے کو کیسے چھوڑسکتا ہوں۔شاید اس بار اس کے بڑے بھائی سے سامنا ہوجائے۔
میں جانتا تھا کہ اس کا بڑا بھائی تیکھے لہجے میں یا نفرت آمیز لہجے میں بات نہیں کرسکتا۔
واقعی دکان میں جب مجھے بڑے بھائی کی شبیہہ دکھائی دی تو میں نے راحت محسوس کی۔ وہ چمڑے کے ایک ٹکڑے پر کام کررہا تھا۔
’’ہیلو مسٹر گیسلر کیسے ہیں آپ؟‘‘میں نے پوچھا۔وہ اٹھا اور غور سے مجھے دیکھنے لگا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘اس نے آہستگی سے کہا،’’مگر میرے بڑے بھائی کا انتقال ہوگیا۔‘‘
تب میں نے دیکھا کہ یہ تو وہ خود تھا۔کتنا بوڑھا اور کمزور ہوگیا تھا۔اس سے پہلے میں نے کبھی اسے اپنے بڑے بھائی کا ذکر کرتے ہوئے نہیں سنا تھا۔مجھے بڑا دکھ ہوا۔میں نے آہستہ سے کہا، ’’یہ تو بہت ہی برا ہوا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘وہ بولا،’’وہ نیک دل انسان تھا،اچھے جوتے بناتا تھا،مگر اب وہ نہیں رہا۔‘‘پھر اس نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا،جہاں سے اچانک اس کے بہت زیادہ بال جھڑگئے تھے۔اس کے بدقسمت بھائی کی طرح۔مجھے محسوس ہوا شاید وہ اس طرح اپنے بھائی کی موت کا سبب بتارہا تھا۔ ’’بھائی اس دوسری دکان کو کھودینے کا غم برداشت نہیں کرپایا۔خیر،کیا آپ کو جوتے چاہیے؟‘‘ اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا چمڑہ اٹھاکر دکھایا۔’’یہ بہت خوبصورت ٹکڑاہے!‘‘
میں نے کئی جوتوں کاآرڈر دیا۔بہت دنوں بعد مجھے وہ جوتے ملے جو بے حد شاندار تھے۔ انھیں بڑے سلیقے سے پہنا جاسکتا تھا۔اس کے بعد میں بیرون ملک چلا گیا۔
لوٹ کر لندن آنے میں ایک برس سے بھی زیادہ وقت گزرگیا۔لوٹنے کے بعد سب سے پہلے میں اپنے اسی بوڑھے دوست کی دکان پر گیا۔میں جب گیا تھا وہ ساٹھ برس کا تھا۔اب جسے میں دیکھ رہا تھا وہ پچھہتر سے بھی زیادہ کا دکھائی دے رہا تھا۔بھوک سے بے حال،تھکا ماندا،خوفزدہ اور اس بار واقعی اس نے مجھے نہیں پہچانا۔
’’اور مسٹر گیسلر۔‘‘میں نے کہا۔دل ہی دل میں دکھی تھا،’’تمھارے جوتے تو واقعی کمال کے ہیں!دیکھو ،میں بیرونِ ملک یہی جوتے پہنتا رہا اور اب بھی یہ اچھی حالت میں ہیں۔ ذرا بھی خراب نہیں ہوئے ہیں،ہیں نا؟‘‘
بڑی دیر تک وہ جوتوں کو دیکھتا رہا۔روسی چمڑے سے بنے ہوئے جوتے۔اس کے چہرے پر ایک چمک سی لوٹ آئی۔اپنا ہاتھ جوتے کے اوپری حصے میں ڈالتے ہوئے وہ بولا۔’’کیا یہاں سے کاٹتے ہیں؟مجھے یاد ہے ان جوتوں کو بنا نے میں مجھے کافی پریشانی ہوئی تھی۔‘‘
میں نے اسے یقین دلایا کہ وہ ہر طرح سے بہترین ہیں۔ذرا بھی تکلیف نہیں دیتے۔
’’کیا آپ کو جوتے بنوانے ہیں؟‘‘اس نے پوچھا،میں جلد ہی بناکر دوں گا،یوں بھی مندی کا دور چل رہا ہے۔‘‘
’’میں بالکل نئے ماڈل کے جوتے بنائوں گا۔آپ کے پیر تھوڑے بڑے ہوگئے۔‘‘ اور آہستگی سے اس نے میرے پائوں کو ٹٹولا اور انگوٹھے کو محسوس کیا۔اس دوران صرف ایک بار اوپر دیکھ کر وہ بولا،’’کیا میں نے آپ کو بتایا کہ میرے بھائی کا انتقال ہوگیا ہے؟‘‘
اسے دیکھنا بڑا تکلیف دہ تھا،وہ بہت کمزور ہوگیا تھا،باہر آکر میں نے راحت محسوس کی۔
میں ان جوتوں کی بات بھول ہی چکا تھا کہ ایک شام اچانک وہ آپہنچے۔جب میں نے پارسل کھولا تو ایک کے بعد ایک چار جوڑی جوتے نکلے۔بناوٹ،آکار،چمڑے کی کوالیٹی اور فٹنگ ہر لحاظ سے اب تک بنائے گئے جوتوں سے بہتر اور لاجواب۔عام موقع پر پہنے جانے والے جوتے میں مجھے اس کا بل ملا۔اس نے ہمیشہ کی طرح ہی دام لگایا تھا۔مگر مجھے تھوڑادھکالگا۔کیوں کہ وہ کبھی تین ماہ کی آخری تاریخ سے قبل بل نہیں بھیجتا تھا۔میں دوڑتے ہوئے نیچے گیا،چیک بنایا اور فوراً پوسٹ کردیا۔
ایک ہفتے بعد میں اس راستے سے گزر رہا تھا تو سوچا کہ اسے جاکر بتائوں کہ اس کے جوتے کتنے شاندار اور بہترین ناپ کے بنے ہیں۔مگر جب میں وہاں پہنچا جہاں اس کی دکان تھی تو اس کا نام غائب تھا۔کھڑکی پر اب بھی وہی سلیقہ دار پمپ شو رکھے ہوئے تھے۔اصل چمڑے کے اور کپڑے کی اوپری تہہ والے۔
بے چین ہوکر میں اندر گیا،دونوں دکانوں کو ملاکر دوبارہ ایک دکان کردی گئی تھی۔ایک انگریز نوجوان ملا۔’’مسٹر گیسلر اندر ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔اس نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا۔
’’نہیں سر۔‘‘وہ بولا،’’نہیں،مسٹر گیسلر نہیں ہیں۔مگر ہم ہر طرح سے آپ کی خدمت کرسکتے ہیں،یہ دکان ہم نے خریدلی ہے،آپ نے باہر ہمارا بورڈدیکھا ہوگا۔ہم نامی گرامی لوگوں کے لیے جوتے بناتے ہیں۔‘‘
’’ہاں،ہاں۔‘‘میں نے کہا،’’مگر مسٹرگیسلر؟‘‘
’’اوہ!‘‘وہ بولا،’’ان کا انتقال ہوگیا۔‘‘
’’کیا ،انتقال ہوگیا؟مگر انھوں نے مجھے پچھلے ہفتے ہی تو یہ جوتے بھیجے تھے۔‘‘
’’اوہ!بے چارہ بوڑھا،بھوک سے ہی مرگیا۔‘‘اس نے کہا۔’’بھوک سے آہستہ آہستہ موت،ڈاکٹر یہی کہتے ہیں!آپ جانتے ہیں وہ دن رات بھوکا رہتا تھا اور کام کرتا تھا۔اپنے علاوہ کسی کو بھی جوتوں پر ہاتھ لگانے نہیں دیتا تھا۔جب اسے آرڈر ملتا تو اسے پورا کرنے میں رات دن ایک کردیتا۔اب لوگ بھلا کیوں انتظار کرنے لگے۔اس کے سبھی گاہک چھوٹ گئے تھے۔وہ وہاں بیٹھا لگاتار کام کرتا رہتا۔وہ کہتا کہ پورے لندن میں اس سے بہتر جوتے کوئی نہیں بناتا۔ اس کے پاس بہترین چمڑا تھا مگر وہ اکیلا ہی سارا کام کرتا تھا۔خیر!چھوڑیئے اس طرح کے آدرش میں کیا رکھا ہے۔‘‘
’’مگر بھوک سے مرجانا؟‘‘
’’یہ بات عجیب سی لگتی ہے مگر میں جانتا ہوں دن رات اپنی آخری سانس تک وہ جوتوں پر لگا رہا۔انھیں دیکھتا رہتا۔اسے کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہتا تھا۔جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہیں تھی۔ سب کچھ گروی رکھ دیا تھا۔مگر اس نے چمڑا نہیں چھوڑا۔نہ جانے کس طرح وہ اتنے دن زندہ رہا۔وہ مسلسل فاقے کرتا رہا۔وہ ایک عجیب انسان تھا، مگر ہاں،وہ جوتے بہت عمد ہ بناتا تھا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘میں نے کہا،’’وہ عمدہ جوتے بناتا تھا۔‘‘

٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

جان گالزوردی ۱۹۶۷ء میں انگلینڈ کے شہر کِنگسٹن میں پیدا ہوئے اور ۱۹۳۳ء میں انتقال کرگئے۔انہیں’’دَفورسائٹ ساگا‘‘کے لیے نوبل سے نوازا گیا۔ان کے سترہ ناول،چھبیس ڈرامے اور افسانے بارہ جلدوں میں شائع ہوئے ہیں۔انہوں نے نظمیں بھی تخلیق کی ہیں۔لیکن وہ ناولوں کے لیے مشہور ہیں۔ان کی تصانیف میں دَ آئی لینڈ فیری سیز،دَ مین آف پراپرٹی،دَ ڈارک فلور،اِن چانسری، ٹولیٹ،لائلٹیز،دَ وہائٹ سنکی،دَ سلور باکس وغیرہ ہیں۔