Contribution of Hali A Brief View

Articles

لاطاف حسین کی خدمات پر اجمالی نظر

سید داؤد اشرف

حالی نے خود اپنے بارے میں کیا خوب بات کہی ہے
مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اس سے بے خبر
شہر میں کھولی ہے حالی نے دکاں سب سے الگ
یہ شاعرانہ تعلی نہیں ہے صاف اور کھلی حقیقت ہے ۔ اس دور میں حالی کے نایاب مال سے گاہک بے خبر تھے اور اس کی قدر و قیمت سے پوری طرح واقف نہیں تھے ، لیکن آج ادب کے بازار میں ان ہی کا مال انمول ہے ۔ اس دور کے بہت سے کھرے سکے کھوٹے ثابت ہوچکے ہیں اور حالی کے سکے کو بہت جلد کھرا مان لیا گیا اور آج تک اسی سکے کا چلن ہے ۔
حالی کے اثرات اردو شعر و ادب پر اتنے گہرے اور دیرپا ہیں کہ اس کا تجزیہ مختصر مضمون میں ممکن نہیں ۔ انھوں نے اردو ادب کے چمن میں جو نئے اور صحت مند پودے لگائے تھے ، وہ آج بھی پھل دار تناور درخت بنے کھڑے ہیں ۔ حالی وہ واحد شخص ہیں جنھوں نے شاعری اور نثر کی کئی اصناف میں اپنی تخلیقات سے انقلاب پیدا کیا ۔ حالی سے پہلے یا ان کے بعد ہمیں بعض ایسی ادبی شخصیتیں نظر آتی ہیں جنھوں نے شاعری یا نثر کی کسی صنف کو نیا موڑ دیا اور اس کے دھارے بدل دئے ۔ چنانچہ انھیں اس صنف کی حد تک امام مانا گیا ، لیکن کسی کو حالی جیسا امتیاز حاصل نہیں ہوا، جنھیں کئی شعری اور نثری اصناف میں امام اور بانی کی حیثیت حاصل ہے۔

صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی نہیں ہے کہ سادگی اور دردمندی حالی کی سیرت کی نمایاں خصوصیات تھیں اور ان کی تخلیقات میں یہ خوبیاںکوٹ کوٹ کر بھری ہیں اور حالی کا ادب حالی کی شخصیت اور سیرت کا عکس ہے ۔ ہمیں تو یہ دیکھنا پڑے گا کہ کن باتوں اور کن شخصیتوں نے حالی کو حالی بنایا ۔ کس کے کہنے پر انھوں نے شاعری اور ادب کی خدمت کرنے پر توجہ دی ۔کن کن بزرگوں اور ہم عصر شخصیتوں نے ان کے ذوق شعری کو نکھارا اور کس کی تحریک نے حالی کو اپنی طرف کھینچا ۔
سب سے پہلے حالی کو غالب کی صحبت سے فیض اٹھانے کا موقع ملا ۔ جس وقت حالی غالب سے ملے اس وقت ان کی عمر 17 برس ہوگی ۔ حالی میں طبعی میلان اور شاعری کا جوہر دیکھ کر غالب نے خلاف معمول انھیں فکر شعر کی صلاح دی ۔ حالی کی نظر اور بصیرت کا کیا کہنا ۔ اپنی کم عمری اور غالب کی غیر مقبولیت کے باوجود انھوں نے غالب کی عظمت اور بڑائی کا صحیح اور بھرپور اندازہ کرلیا تھا ۔ حالی غالب کی شاعری کے دل سے معترف تھے ۔
حالی نے غالب سے زیادہ مصطفی خان شیفتہ کی صحبت سے فیض پایا ۔ شیفتہ کے خیالات اور مذاق نے حالی پر بڑے گہرے اثرات چھوڑے ۔
شیفتہ کے انتقال کے بعد حالی کو پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازمت مل گئی ۔ یہاں انگریزی کتابوں کے اردو ترجموں کی اصلاح کا کام ان کے ذمے تھا ۔ یہاں چار برس کے قیام نے ادب کے بارے میں حالی کے خیالات ، نظریات اور مذاق میں بڑی تبدیلی پیدا کی ۔ جب حالی لاہور سے نکلے تو انہیں سرسید کی تحریک نے اپنی طرف کھینچا اور انھوں نے اپنی تمام صلاحیتیں اس تحریک کی نذر کردیں ۔
حالی کا نظریہ یہ تھا کہ علم و ادب اور شعر و حکمت کے ذرائع کو اصلاح معاشرہ اور تہذیب اخلاق کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ استعمال کیا جانا چاہئے ۔ چنانچہ وہ جدید ادب کی تحریک کے علمبرداروں میں شامل ہوگئے کہ اردو شعر و ادب کے ان سانچوں کو بدلا جائے، جو نئے حالات و تصورات سے اب کوئی مطلب نہیں رکھتے جو فرسودہ اور ازکار رفتہ ہوچکے ہیں ۔ وہ ادیبوں ، شاعروں اور اردو کی علمی و ادبی سوسائٹی کو اس مصنوعی فضا سے نکالنا چاہتے تھے جہاں نئے افکار کا دم گھٹتا جارہا تھا۔

حالی کی خوبی صرف یہی نہیں تھی کہ وہ خواب ہی دیکھتے اور منصوبے بناتے تھے بلکہ حقیقی معنی میں عالم باعمل تھے اور اپنے خوابوں کی تعمیر اور اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لئے مسلسل سرگرم عمل رہنا جانتے تھے ۔ انھوں نے ادب اور زندگی کے تعلق سے جو نیا سائنٹفک نظریہ اختیار کیا اسے انھوں نے اپنے ادب اور زندگی میں ایک مستقل اور باقاعدہ رویے کی شکل دی ۔ اگر حالی کی تخلیقی قوتیں اعلی پایے کی نہ ہوتیں تو ان کی نظم و نثر سپاٹ اور موضوعاتی چیزیں بن کر رہ جاتیں اور اس پر شعوری کوشش کا گمان ہوتا ، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ حالی اپنی دیگر خصوصیات کے علاوہ ایک ایسے تخلیق کار بھی ہیں جن کی تخلیقی قوتوں کا سرچشمہ بہت دور تک اور بہت بڑے پیمانے پر علم و ادب کی پیاسی اور سنگلاخ زمین کو سیراب اور شاداب کرنا چاہتا ہے ۔ اس طرح خود یہ بات بھی اردو ادب کو حالی کی بڑی دین بن جاتی ہے ۔
شاعری کے بارے میں حالی کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں ان کا یہ قطعہ بڑی مدد دیتا ہے ۔
اے شعر دل فریب نہ ہوتو تو غم نہیں
پر تجھ پر حیف ہے جو نہ ہو دل گداز تو
صنعت پہ ہو فریفتہ عالم اگر تمام
ہاں سادگی سے آئیو اپنی نہ باز تو
جوہر ہے راستی کا اگر تیری ذات میں
تحسین روزگار سے ہے بے نیاز تو
حالی کے قیام لاہور کے دوران میں انجمن پنجاب کے زیر اہتمام مشاعرے منعقد ہوتے تھے ۔ ان میں مصرعہ طرح کی بجائے شاعروں سے کسی خاص عنوان پر طبع آزمائی کی درخواست کی جاتی تھی ۔
حالی اور آزاد نے بھی ان مشاعروں کے لئے نظمیں لکھیں ۔ ان کی نظمیں اردو میں ایک نئی چیز تھیں ۔

سرسید کی تحریک سے وابستہ ہونے کے بعد حالی نے سنہ 1879ء میں مسدس حالی یا مدو جزر اسلام لکھی ، جو حالی کی شاعری کا بڑا کارنامہ ہے ۔ خلوص ، تاثیر اور شاعرانہ دردمندی کی ایسی مثال اردو کی کسی اور نظم میں مشکل سے ملے گی ۔ اس نظم کو جو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ایسی شہرت اور مقبولیت بھی کسی اور نظم کو نصیب نہ ہوئی ۔ یہ نہ صرف اردو کی پہلی طویل نظم ہے بلکہ یہ پہلی مقصدی اور اصلاحی نظم ہے ۔ اس نظم سے اردو شاعری میں واقفیت ، افادیت اور اجتماعیت کے رجحانات آئے ۔ اس نظم نے پہلی مرتبہ یہ ثابت کیا کہ شاعری سے اصلاح و انقلاب کا کام لیا جاسکتا ہے ۔ قاری اس نظم کے کسی حصے کو غیر دلچسپ نہیں پاتا ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ساری نظم ایک ہی بحر میں ہونے کے باوجود حالی نے اس میں شروع سے آخر تک شعری آہنگ کو قائم رکھا ہے ۔ اس نظم کے بعد حالی نے کئی اور قومی نظمیں لکھیں ، جن میں مناجات بیوہ اور چُپ کی داد قابل ذکر ہیں ۔
حالی نے اپنی شاعری کا آغاز غزل گوئی سے کیا ۔ ابتدائی دور کی غزلوں میں روایتی رنگ پوری طرح موجود ہے ۔ زبان میں رنگینی اور دل کشی بھی ہے لیکن حالی غزل کے مخالفین میں سے تھے اور قدیم رنگ سخن سے سخت بیزار تھے ۔ چنانچہ لاہور سے دہلی آنے کے بعد 1875 ء سے انھوں نے نئے رنگ اور نئے انداز کی غزل گوئی کا آغاز کیا ۔ حالی کی جدید غزل اخلاقی اور اصلاحی خیالات کی ترجمان ہے ۔
عام طور پر حالی نے غزل میں علامتوں سے انحراف کیا ۔ غزل کی علامتیں نئے تجربوں اور تازگیٔ اظہار حائل ہورہی تھیں ۔ وہ اظہار کے لئے نئے امکانات کی جستجو میں تھے کیونکہ غزل کی علامتیں سیر پذیر نقطہ پر پہنچ چکی تھیں ۔ ہر انفرادی تجربہ مروجہ علامتوں کے استعمال کی وجہ سے فرسودہ معلوم ہوتا تھا ۔

ہر دانشور کی طرح وہ بھی چاہتے تھے کہ ان کے تجربوں میں پیرایۂ اظہار کی تازگی ہو اور انداز بیان دوسروں سے مختلف ہو ۔ ایک جیسے یا عام تجربے کو وہ انفرادی اظہار بیان کے ذریعے شاداب بنانا چاہتے تھے ۔ اس لئے انفرادیت کے اظہار کے لئے انھوں نے راست اظہار کا پیرایہ استعمال کیا ۔ حالی کی غزل سے روایتی علامتیں پوری طرح غائب نہیں ہیں ۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی غزل کا بنیادی instrument پرانی علامتیں نہیں ہیں ۔
حالی اردو میں جدید طرز کی سوانح نگاری کے بانی ہیں ۔ حالی نے جن اصولوں کو پیش نظر رکھ کر سوانحی تصانیف مرتب کیں اردو میں سوانح نگاری اسی راہ پر چل پڑی ۔ حیات سعدی ، یادگار غالب اور سرسید کی سوانح حیات ’’حیات جاوید‘‘ کے بعد اردو میں ان شخصیتوں کی اس سے بہتر سوانح نہیں لکھی گئیں ۔ اردو میں یادگار غالب کے مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج بھی اگر کوئی غالب کی حیات اور شاعری پر قلم اٹھانا چاہے تو یادگار غالب سے رجوع ہوئے بغیر کام نہیں چلتا ، حالانکہ اس وقت غالب پر مضامین اور کتابوں کا انبار لگ چکا ہے ۔

عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب سوانح نگار کسی ایسی بڑی شخصیت کی سوانح لکھتا ہے جو بقید حیات ہو یا جس سے مصنف کے تعلقات قریبی اور گہرے ہوں تو ایسی صورت میں سوانح نگار ایسے واقعات کے تذکروں کی بھرمار کردیتا ہے جن میں وہ بھی شریک ہے ۔ اس کی کتاب تصویروں کا ایسا البم بن جاتی ہے ، جس کی ہر تصویر میں مصنف خود موجود رہتا ہے ۔ حالی میں انکسار کچھ ضرورت سے زیادہ ہی ہے اور خود نمائی سے تو وہ کوسوں دور ہیں ۔ اس لئے وہ اپنی سوانحی تصانیف میں اہم اور ضروری واقعات میں بھی اپنے تذکرہ کو شامل کرنے سے احتراز کرتے ہیں ۔
حالی سے پہلے اردو تنقید کا وجود باقاعدہ فن کے طورپر نہ ہونے کے برابر تھا ۔ تذکروں یا دیگر تحریروں میں جو تنقیدی اشارے اور تنقیدی خیالات ملتے ہیں ان سے تنقید کے اصول وضع کرنا ممکن نہیں ۔ مقدمۂ شعر و شاعری تنقید کے میدان میں پہلی لیکن بہت اہم اور وقیع کوشش ہے ۔ حالی نے اپنے مقدمہ میں شعر کے بنیادی اصولوں اور شاعری کے مقصد پر بحث کی ہے ۔ شاعری کے بارے میں عام طور پر جو غیر صحت مند تصورات پائے جاتے تھے حالی نے انھیں دو رکرنے ، شاعری کے افادی پہلو کو واضح کرنے اور شاعروں کو حقیقت اور زندگی سے قریب کرنے کی کوشش کی ۔ انھوں نے مشرق و مغرب کے خیالات اور نظریات پر کافی غور و فکر کے بعد ان سے استفادہ کیا ۔ ان کی تنقید سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے اور آج تک اردو تنقید میں جو ارتقاء ہوا مقدمہ شعر و شاعری کا مرہون منت ہے ۔

سرسید نے پہلی بار رسالۂ تہذیب الاخلاق کے ذریعے اردو زبان کو توسیع دینے اور اسے ادبی اور علمی زبان بنانے کی شعوری کوشش کی تھی ۔ وہ اردو نثر کے ایک ایسے طرز کو مستقل طور پر رواج دینا چاہتے تھے جو رواں ، سلیس اور عام فہم ہو اور ساتھ ہی ساتھ علمی اور ادبی کاموں کے لئے موزوں بھی ہو ۔ سرسید کے رفقاء میں ان کی اس تحریک کو جس شخض نے سب سے زیادہ پروان چڑھایا وہ حالی ہیں ۔ حالی نے اس طرز تحریک کے ایسے کامیاب نمونے اپنی نثر کے ذریعے پیش کئے کہ سرسید کے مشن کی تکمیل ہوگئی ۔
حالی کے کئی ہم عصر صاحب طرز ادیب تھے لیکن حالی کے طرز اور اسلوب ہی کو مقبولیت اور بقائے دوام حاصل ہوا ۔

حالی نے شاعری کے لئے جو زبان استعمال کی ہے وہ بھی کئی اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ جہاں تک زبان کا تعلق ہے ان کے یہاں لکھنؤ کی شاعری کی طرح دل کشی ، حسن اور نفاست نہیں ملے گی لیکن یہی کمی ان کی شاعری کا حسن ہے ۔ حالی کی شاعری کو پڑھنے والا خواہ وہ دہلی کا ہو یا لکھنؤ کا ، پنجاب کا ہو یا حیدرآباد کا بڑی آسانی سے شاعری کی بات سمجھتا اور سردھنتا ہے ۔ حالی کی زبان پر کسی خاص علاقے کی چھاپ نہیں ہے ۔ یہ وہ زبان ہے جو ساری اردو دنیا میں پڑھی اور سمجھی جاتی ہے ۔
اردو زبان اور ادب کی زلفیں سنوارنے والوں میں بہت سے نام ملتے ہیں لیکن حالی کا چہرہ بار بار سامنے آتا ہے ۔ اردو زبان اور اس کی ہمہ گیری کے لئے جس ادبی شخصیت نے سب سے زیادہ حصہ ادا کیا وہ بلاشبہ الطاف حسین حالی ہیں ۔

———————————————-