Cultured Poet Qabil Ajmeri by Ibadat Barelvi

Articles

مہذب اور باشعور ذہن کا شاعر قابل اجمیری

ڈاکٹر عبادت بریلوی

 

جناب قابل اجمیری اردو کے جانے پہچانے شاعر ہیں۔ نوجوان غزل گو شاعروں میں وہ خاصے مشہور ہیں جدید اردو شاعری سے دلچسپی رکھنے والے جو لف مشاعرے سنتے اور نمایاں رسائل پڑھتے ہیں ان کے لئے قابل صاحب کا نام اجنبی اور نامانوس نہیں ہے۔ انہوں نے بہت تھوڑے عرصہ میں نمایاں شہرت حاصل کی ہے اور ان کی یہ شہرت اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ ان کی شاعری میں پڑھنے اور سننے والوں کیلئے دلچسپی کا خاصا سامان موجود ہے۔ اسی لئے وہ ایک حلقے میں بہت مقبول ہیں۔ مقبولیت حاصل ہونا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لئے تو جوہر قابل ہونا ضروری ہے۔ قابل صاحب بھی صحیح معنوں میں ایک جوہر قابل ہیں۔ اُن کا کلام پکار پکار کر ان کے بارے میں یہی کہتا ہوا معلوم ہوتا ہے اور یہی سبب ہے کہ شعر و شاعری سے دلچسپی لنے والے انہیں اتنا پسند کرتے ہیں۔
یوں تو قابل صاحب نے غزلیں بھی کہی ہیں اور نظمیں بھی لیکن بنیادی طور پر وہ غزل کے شاعر ہیں۔ ان کے مزاج کو غزل کے ساتھ خاص مناسبت ہے اور اسمیں شک نہیں کہ اُن کے جوہر غزل ہی میں کھلتے ہیں۔ اس صنف میں انہوں نے اپنا ایک مخصوص انداز پیدا کیا ہے۔ وہ غزل کی روایت سے پوری واقفیت رکھتے ہیں اور اس روایت سے انہوں نے خاطر خواہ استفادہ کیا ہے۔ اس روایت کار چاو¿ جگہ جگہ ان کے کلام میں ملتا ہے۔ لیکن اس روایت کے علاوہ بھی ان کے یہاں بہت کچھ ملتا ہے۔ وہ لکیر کے فقیر نہیں ہیں ان کے یہاں تقلید کا شائبہ بھی نہیں ہوتا وہ نئی باتیں کہتے ہیں اور نئے انداز میں کہتے ہیں۔ وہ نئے رحجانات سے آشنا میں انھیں ان رجحانات کی اہمیت کا احساس ہے وہ غزل کی صنف کو وسیع کرنے کے قائل نظر آتے ہیں اسی لئے ان کے کلام میں وسعت اور پھیلاو¿ کا احساس ہوتا ہے۔ جدّت اور اُپچ نظر آتی ہے۔ بدلتی ہوئی زندگی کے بارے میں ان کا نقطئہ نظر رجائی ہے۔ اسی لئے ان کے یہاں خاصی جولانی کا پتہ چلتا ہے۔ وہ زندگی کو بسر کرنے اور برتنے کے قائل معلوم ہوتے ہیں۔ اسی لئے ان کے کلام میں عمل اور افادیت کے تصورات جگہ جگہ اُبھرتے ہیں لیکن اُن کی شاعری میں ہنگامہ پسندی نہیں ہے۔ بر خلاف اس کے خاصی مہذب اور سُتھری فضا کا احساس ہوتا ہے ان کا زاویہ نظر مفکرانہ نہیں ہے لیکن ایک عام انسان جسطرح زندگی اور اس کے معاملات و مسائل کو دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ قابل صاحب بھی اسی طرح دیکھتے اور سمجھتے ہیں اسی لئے ان کی شاعری میں تنّوع نظر آتا ہے جس سے خود انسانی عبادت ہے اور پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان سب کا اظہار قابل صاحب شاعرانہ انداز میں کر سکتے ہیں یہ خوبی ان کے کلام کی شاید سب سے بڑی خوبی ہے۔ قابل صاحب کی غزلوں میں عشق کا بڑامہذب تصور ملتا ہے۔ یوں وہ حُسن و عشق کی باتیں ذرا کھلکر کم ہی کرتے ہیں۔ اسی لئے ان کے یہاں وہ عام موضوعات نہ ہونے کے برابر ہیں جنکو عام طور پر دلی سے لیکر اسوقت تک غزل کا موضوع بنایا جاتا رہا ہے۔ بلکہ بادی النظر میں دیکھنے سے تو یہ شبہ ہوتا ہے کہ حسن و عشق کی عام فضا سے ان کی غزلیں خالی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ ان کے یہاں حسن و عشق کے مختلف پہلو ملتے ہیں لیکن ان میں عمومیت کا پتہ نہیں چلتا۔ ان میں سطحیت نظر آتی جن کیفیات و واردات کو انہوں نے اس سلسلہ میں پیش کیا ہے وہ ذہنی طور پر ایک مہذب اور با شعور انسان کی واردات و کیفیات ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ ان موضوعات میں جدت کا پہلو سب سے زیادہ نمایاں نظر آتا ہے اور وہ انہیں افراد کو زیادہ متاثر کر سکتی ہیں جو نئی زندگی کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں جنکو اس بات کا یقین ہے کہ نئے حالات میں احساسات کے زاویوں کو بھی بدلنا پڑتا ہے۔ قابل صاحب کی غزلوں میں جہاں تک حسن و عشق کا تعلق ہے کچھ اس قسم کے اشعار زیادہ ہیں۔

ہم نے دیئے ہیں عشق کے تیور نئے نئے
اُن سے بھی ہوگئے ہیں گریزاں کبھی کبھی

راحتوں سے گریز ، غم سے فرار
بعض لمحے عجیب ہوتے ہیں

تم جنہیں عمر بھر نہیں ملتے
وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں

خوشبوئے انتظار سے مہکی ہوئی رات
قابل نہ جانے کِسکو بلاتی ہے چاندنی

کچھ حُسن آ چلا شب انتظار میں
کاش اور تھوڑی دیر نہوتی سحرا بھی

یہی ہے دل کی ہلاکت یہی ہے عشق کی موت
نگاہِ دوست پہ اظہار بیکسی ہو جائے

مقامِ عاشقی دنیا نے سمجھا ہی نہیں ورنہ
جہاں تک تیرا غم ہوتا وہیں تک زندگی ہوتی

دلکی دھڑکن کا اعتبار نہیں
ورنہ آواز تو تمہاری ہے

ان کے حسن ستم کا کیا کہنا
لوگ سمجھے خطا ہماری ہے

وہ خیالوں میں کہیں شعلہ کہیں شبنم بسے
ایک اندازِ کرم مختلف عالم رہے

ہمیں شہر نگاراں میں لے چلو یارو
کسی کے عشق کا آزار ہم بھی رکھتے ہیں

یہ چاک چاک گریباں یہ داغ داغ جگر
متاعِ حسرتِ دیدار ہم بھی رکھتے ہیں

رکا رکا سا تبسّم جُھکی جُھکی سی نظَر
تمہیں سلیقہ بیگانگی کہاں ہے ابھی

کوئی وعدہ نہیں امید نہیں
پھر مجھے انتظار سا کیوں ہے

بیکسی سے بڑی امیدیں ہیں
تم کو کوئی آسرا نہ دے جانا

یہ ظالم زمانہ دکھائیگا کیا کیا
تری آنکھ بھی آج نم دیکھتے ہیں

بے نیازی کو اپنی خو نہ بنا
یہ ادا بھی کسی کو پیاری ہے

اپنے لب ہی نہیں سئے ہم نے
آپ کی زلف بھی سنوای ہے

ان کی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پر ہنسی
قصہ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آ گئے

رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبہ خاموش عشق
وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آ گئے

تم کو بھی شاید ہماری جستجو کرنی پڑے
ہم تمہاری جستجو میں اب یہاں تک آ گئے

دلِ دیوانہ عرضِ حال پر مائل تو کیا ہوگا
مگر وہ پوچھ بیٹھے خود ہی حالِ دل تو کیا ہوگا

یہ اشعار جیسا کہ ان کے موضوعات سے ظاہر ہے خاصے مہذب اور با شعور ذہن کی پیداوار ہیں ان میں سے کوئی ایک شعر بھی ایسا نہیں جو جذبات و احساسات کے نئے زاویوں کو پیش نہ کرتا ہو انمیں خارجی حسن کا بیان نہیں۔ ان میں معا ملہ بندی بھی نہیں۔ یہ لذت اوت تعیش سے بھی کوئی سروکار نہیں رکھتے یہ۰ تو سب کے سب نیازِ عشق کی مختلف منزلوں کے ترجمان ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان میں انفعالی آہنگ نہیں۔ حزن حزن و یاس قنوطیت اور بیزاری کا ان میں پتہ نہیں چلتا۔ ان میں تو عشق کرنے والے کی اہمیت کا احساس چھایا ہوا ہے اسکی جو ذہنی اور جذباتی کیفیت مخصوص حالات میں ہوسکتی ہے۔ اسکی ترجمانی زیادہ نظر آتی ہے۔ اسی لئے توازن کے نئے ہونے کا احساس ہوتا ہے کبھی کبھی کسی خاص ذہنی کیفیت کے زیر اثر محبوب سے گریزاں ہو جانا نظاہر تو عجیب بات معلوم ہوتی ہے لیکن جذب صادق کے ہاتھوں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے اور اسمیں شبہ نہیں کہ اس سے خود عشق کو نئے تیور ملتے ہیں۔ یہ عشق بھی عجیب ہوتا ہے اسمیں داخل ہو کر انسان کبھی بیک وقت راحتوں سے گریز اختیار کرتا ہے اور غم سے فرار بھی۔ بظاہر یہ بات بھی عجیب ہے لیکن جب عشق کی بنیاد جذب صادق ہو تو اس کیفیت کا پیدا ہونا عجیب نہیں ہوتا۔ اس عشق میں انتظار کا عالم بھی ایک لطف پیدا کرتا ہے۔ حالانکہ یوں عام طور پر انتظار سے تکلیف اور پرشانی کی کیفیت وابستہ ہے لیکن اگر عشق متوازی انداز رکھتا ہو تو پھر انتظار کے لمحے بھی حسین ہوجاتے ہیں۔ یہ اور بات اسی طرح کی کیفیات جوان اشعار کا موضوع ہیں اپنے اندر ایک جدّت اور نیا پن ضرور رکھتی ہیں۔ لیکن اسمیں اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ نامانوس نہیں معلوم ہوتیں کیونکہ ان کی تخلیق کرنے والے نے ان میں زندگی اور اسکی عام نفسیات کو الگ نہیں کیا ہے بلکہ بڑے متوازن انداز میں ان کی ترجمانی کی ہے۔ قابل صاحب نے ایسے اشعار میں غزل کی روایت کا پورا پورا چاو¿ پیرا کیا ہے۔ اسی لئے وہ جدید ہونے کے باوجود صحیح معنول میں غزل کے شعر معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں لطافت اور نفاست کا احساس بھی ہوتا ہے وہ ہنگامہ پیرا نہیں کرتے۔ ان کے ہاتھوں ہیجان انگیزی کا وجود نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ خود مہذب ہیں اور اسی لئے تہذیب کو پیدا کرنے اور مہذب بنانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ قابل صاحب کے عشقیہ اشعار میں خاصا تنوع ہے۔ لیکن اس تنوع کے ہاتھوں انکی انفرادیت کو ٹھیس نہیں لگتی اس تنوع میں بھی ان کے مخصوص زاویہ نظر ایک یک رنگی کو پیدا کرتا ہے۔ بہر حال قابل کی عشقیہ شاعری میں بڑی ہی صاف اور ستھری فضا ہے اور اسمیں کسی جگہ بھی ابتدا کا پتہ نہیں چلتا وہ اس دور کے انسان کے لئے اجنبی اور نامانوس نہیں کیونکہ وہ حقیقت سے بھر پور ہے اور اس زمانہ کی جذباتی زندگی کی روح اسمیں موجود ہے ظاہر ہے ایسی شاعری تمام تر جذباتی نہیں ہو سکتی۔ قابل صاحب کی شاعری میں بھی نری جذباتیت نہیں ہے اسمیں حقیقتوں کا احساس بہت نمایاں ہے وہ عشق اور معاملات و کیفیاتِ عشق کو اس سماجی پسِ منظر میں دیکھتے ہیں جوان کے آس پاس اور گردو پیش موجود ہے اسی لئے ان کے یہاں غمِ عشق اور غمِ روزگار کا تذکرہ ساتھ ساتھ ملتا ہے لیکن اس موضوع کو انہوں نے محض رسمی اور روائتی انداز میں پیش نہیں کیا ہے۔ ان کے اس قسم کے اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خود ان حالات میں ہو کر گزرے ہیں۔ اسی لئے اس موضوع کو پیش کرنے میں ان کے یہاں خاصی جدت نظر آتی ہئ۔ کیسے عجیب عجیب شعر انہوں نے اس موضوع پر نکالے ہیں۔

ان کا موضوع صرف گردش دوراں اور غمِ روزگار ہی نہیں ہے بلکہ اس موضوع کا سہارا لیکر ان میں زندگی کی بعض اہم حقیقتوں کے بے نقاب کرنے کی کوشش کی گئی ہے غمِ جاناں کو سینے سے لگالینے کے بعد گردش دوراں کو اماں بخشنے کا خیال عشق کے مارے ہوئے بے کسوں کی بزم میں گردش دوراں کے آبیٹھنے، کسی بات پر میخانے سے اُٹھ آنے۔ لذتِ گردشِ ایام کو صحیح طور پر محسوس کرنے، اور جنون کوچہ دلدار رکھتے ہوئے بھی غمِ جہاں کے تقاضوں کی شدت کو دیکھتے رہے اور ظالم زمانے کے ہاتھوں کسی کی آنکھ کے نم نظر آنے کا خیال اس حقیقت کو واضع کرتا ہے کہ قابل صاحب زندگی اور اس کے حالات کا گہرا شعوررکھتے ہیں اور جذباتی زندگی کو ان حقائق سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھتے اسی لئے ان کی شاعری میں ایک نئے ذہن نئے شعور کا احساس سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
قابل صاحب کی غزلوں کے موضوعات محدود نہیں ہیں۔ ان کے یہاں تو موضوعات کے تنوع کا احساس قدم قدم پر ہوتا ہے۔ عشق ان کی شاعری کا اہم موضوع ضرور ہے لیکن چونکہ وہ زندگی کے دوسرے پہلوو¿ں سے الگ نہیں ہے اسلئے عشقیہ موضوعات بھی ان کے یہاں خاصے پہلو دار متنوع کیفیت کے حامل نظر آتے ہیں لیکن ان کی غزلوں میں اسکے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ زندگی کے عام سیاسی اور سماجی حالات کی ترجمانی وہ بڑی خوبی سے کرتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ قابل صاحب پر اپنے زمانے کے حالات کا گہرا اثر ہے وہ خود ان حالات میں سے ہو کر گزرے ہیں جن سے اس زمانے کی زندگی دو چار ہے۔ خیر ان موضوعات کو غزلوں میں پیش کرنا ایسی کوئی اہم بات نہیں ہے۔ یہ کام تو ہر شاعر کرسکتا ہے لیکن ان حالات کو شدت کے ساتھ محسوس نہ کیا جائے اور جب تک انھیں مزاج کا جزوجہ بنا لیا جائے اسوقت تک ان میں جان پیدا نہیں ہوتی۔ قابل صاحب نے ان موضوعات کو اپنے مزاج میں داخل کر لیا ہے اسی لئے وہ ان کو غزل کی صنعت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں انہوں نے ان موضوعات کو غزل میں کچھ اس طرح سمویا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کیلئے اجنبی اور نا مونوس معلوم ہوئے یہ چند اشعار دیکھئے۔

  1. ٹھنڈے پڑے ہیں انجمن رنگ کے چراغ
  2. اک نغمہ بہار بہ طرزِ فغان سہی
  3. ذوقِ سفر جوان ہے قابل بڑھے چلو
  4. منزل بھی آج گردِ رہ کارواں سہی
  5. ہمیں تو رونق زنداں بنا دیا تم نے
  6. چمن میں صبحِ بہاراں کی بات کون کرے
  7. کسی کو رنگ سے مطلب کسی کو خشبو سے
  8. گلوں کے چاک گریباں کی بات کون کرے
  9. نہ گھبرا شبِ ہجر کی تیرگی سے
    سحر بھی نمودار ہوگی اسی سے
  10. کچھ اور بڑھ گئی ہے اندھیروں کی زندگی
  11. یوں بھی ہوا ہے جشن چراغا کبھی کبھی
    قابل صاحب کے کلام میں اس قسم کے اشعار کی تعداد خاصی ہے۔ ان میں دیکھنے کی صرف یہی بات نہیں ہے کہ یہ زندگی سے متعلق نئے موضوعات کے حامل ہیں دیکھنے کی بات تو ان میں یہ ہے کہ یہ شدید تاثر کا نتیجہ ہیں۔ شاعر نے ان کو پیش کرنے کی کاوش نہیں کی۔ بلکہ وہ تو اسکی شخصیت اور مزاج میں داخل ہیں۔ اسی لئے وہ غزل کے حدود سے باہر نہیں نکلتے۔ اس کی بندشوں کو توڑتے نہیں۔ اس کے احتسابات کا خون نہیں کرتے۔ قابل صاحب نے ان موضوعات کو غزل کا مزاج دیا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ جدید ہونے کے باوجود غزل کے اشعار معلوم ہوتے ہیں اور یہی اُن کا کمال ہے۔
    ایک بات قابل صاحب کے کلام میں اور بھی قابل ذکر ہے۔ وہ یہ کہ زندگی کی محرومیوں کو محسوس کرنے کے باوجود وہ زندگی سے بیزار اور مایوس نہیں ہیں۔ ان کے یہاں زندگی کی کسک کو محسوس کرنے کے باوجود خاصی جولانی کا احساس ہوتا ہے اور یہ جولانی انھیں عمل کی طرف راغب کرتی ہے۔ چنانچہ عمل کی راہ پر آگے بڑھنے کا احساس ان کی شاعری میں بہت نمایاں ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ زندگی کے غم کو محسوس نہیں کرتے اس غم کی توازن کی شاعری میں ایک لہر سی دوڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ لیکن اس غم کا احساس ان کے یہاں الفعالیت کو پیدا نہیں کرتا۔ وہ زندگی سے بیزار نہیں ہوتے۔ ان پر قنوطیت طاری نہیں ہوتی۔ اسی لئے وہ ایسے شعر کہہ سکتے ہیں۔
    ذوقِ سفر جوان ہے قابل بڑھے چلو
  12. منزل بھی آج گردِ رہِ کارواں سہی

ہر قدم پہ حادثہ ، ہر آرزو بھی حادثہ
حادثے پھر بھی ہمارے حوصلوں سے کم رہے

یہاں ایک اُمنگ اور ولولے کا احساس پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے آگے بڑھنے کی خواہش اور ایک والہانہ انداز میں آگے بڑھنے کی خواہش اس پر چھا جاتی ہے اور یہ خیال اس کے دل میں جا گزیں ہو جاتا ہے کہ زندگی میں اصل چیزحوصلہ اور ولولہ ہے کہ اس کے بغیر انسان کی زندگی موت بن جاتی ہے اور اس دنیا میں کسی کام کا نہیں رہتا۔ قابل صاحب کے یہاں انسانی زندگی میں محرومیوں اور ناکامیوں کی کسک کا احساس اس کیفیت کے ساتھ شامل ضرور ہے لیکن وہ اس کے باوجود آ گے اور کچھ کرتے رہنے کے قائل ہیں۔ کہ یہی ان کے نزدیک زندگی ہے۔
قابل صاحب پخة مشق شاعر ہیںوہ غزل کے مزاج کو سمجھتے ہیںاسکو برتنے کے ٓاداب سے خوب واقفیت رکھتے ہیںانہیں غزل کوغزل بنانے کاگُر خوب آتا ہے اسی لیے ان کے یہاں ہر موضوع غزل کا موضوع معلوم ہوتا ہے بات یہ ہے کے قابل صاحب غزل کے اصول سے واقفےت ہی نہیں رکھتے وہ اس میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کے ان کے یہاں کوئی بات بھی ہو وہ بڑی آسانی سے غزل کا روپ اختیار کرلیتی ہے ۔ حالانکے اس سلسلے میں انہیں کسی قسم کی کاوش نہیںکرنی پڑتی۔
دیدئہ بیداران کا پہلا مجموعہ کلام ہے۔ اسمیں جوغزلیں شامل ہیں وہ ان کے کلام کی انہیںخصوصیات کی حامل ہیں اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔

٭٭٭

مشمولہ ’’اردو چینل‘‘ شمارہ ۲۸ ۔اس شمارے کی پی ڈی ایف فائل ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔