DAGH KI SHERI HIKMAT E AMLI BY AHMED MAHFOOZ

Articles

داغ کی شعری حکمت عملی کے چند پہلو

پروفیسر احمد محفوظ

پروفیسر احمد محفوظ

داغ کی شعری حکمت عملی کے چند پہلو

نواب مرزا داغ اردو کی کلاسیکی شعری رواےت کے آخری اہم ترین شعرا میں ہیں۔ خیال رہے کہ یہاں ”اہم ترین“ کا لفظ میں نے دانستہ طور پر استعمال کیا ہے، اور جان بوجھ کر داغ کو بڑا یا عظیم شاعر کہنے سے گریز کیا ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ معمولی اور کمتر درجے کے شاعر ہیں۔بات دراصل یہ ہے کہ جدید زمانے میں داغ کو عام طور پر جس حیثےت سے دیکھا گےا،اور ان کے بارے میںجو خیالات مشہور کےے گئے، اس کی روشنی میں داغ ایک ایسے شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں، جس کی تقریباً تمام شاعری محض تفریحی قسم کی اور سطحی جذبات و احساسات کی حامل ٹھہرائی گئی ہے۔اس سے ہٹ کر اگر داغ کو کسی حد تک قابل ذکر سمجھا بھی گےا، تو اس کا سہرا ان کی زبان دانی اور محاوروں کے برجستہ استعمال وغیرہ کے سر رکھا گےا۔اس کا ایک بین ثبوت یہ بھی ہے کہ داغ کے جو اشعار عام طور سے زبان زد رہے ہیں، وہ وہی ہیں جن میں داغ نے اردو زبان کی غیرمعمولی حیثےت کے اعلان کے ساتھ ساتھ اپنی زبان دانی کا برملا اظہار کیا ہے۔مثلاً اس شعر سے بھلا کون واقف نہ ہوگا
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
اوریہ شعر بھی

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
ہم کہہ سکتے ہیں کہ جدید عہد میں داغ کی شہرت کی عمارت زےادہ تر ایسے اشعار پر قائم کی گئی، جن سے ان کی مہارت زبان وغیرہ کا اظہار ہوتا تھا۔اسی کے ساتھ ایک بات یہ بھی ہے کہ داغ کی استادی کا چرچا بڑی شدومد کے ساتھ کیا جاتا رہاہے، اور یہ کچھ بے جا بھی نہیں۔لیکن مشکل یہ آپڑی کہ کلاسیکی دور میں استادی کا جو تصور تھا، وہ جدید زمانے میں بوجوہ تبدیل ہو گےا۔کلاسیکی عہد میں استاد ہونے کے صرف یہ معنی نہیں تھے کہ جس شاعر سے لوگ شعر کا فن سیکھیں اور شعرگوئی کی تربےت حاصل کریں، وہی استاد کہلانے کا مستحق ہے، بلکہ استاد ہونے کے لازمی طور پر یہ معنی سمجھے جاتے تھے کہ استاد وہ شاعر ہے جو فن شعر کے تمام اصول و قواعد سے نہ صرف پوری طرح آگاہ ہے ، بلکہ ان اصولوں کو پوری مہارت کے ساتھ برتنے پر بھی قادر ہے۔اس طرح ہماری کلاسیکی تہذیب اچھے اور بڑے شاعر میں اور استاد شاعر میں فرق نہیں کرتی تھی۔کسی شاعر کے استاد ہونے کے معنی ہی یہ تھے کہ وہ چاہے بڑاشاعر نہ ہو،لیکن اچھا اور قابل ذکر شاعر ضرور ہے۔ اسی کے ساتھ اس تہذیب میں یہ بھی تھا کہ اچھے یا استاد شاعر ہونے کی بنےاد شاعری کے فنی معےاروں پر قائم تھی۔”مقدمہ¿ شعروشاعری“ میں جہاں حالی نے اعلیٰ درجے کے شعرا کے کلام کی عمومی کیفےت کا ذکرکیاہے، وہاں انھوں نے ان شعرا کے لےے بڑے یا عظیم کا لفظ نہیں استعمال کیا،بلکہ انھیں استاد ہی کہا ہے۔حالی کہتے ہیں:
یہ بات یاد رکھنی چاہےے کہ دنیا میں جتنے شاعر استاد مانے گئے ہیں،یا جن کو استاد ماننا چاہےے، ان میں ایک بھی ایسا نہ نکلے گا جس کا تمام کلام اول سے آخر تک حسن ولطافت کے اعلیٰ درجے پر واقع ہوا ہو۔کیونکہ یہ خاصےت صرف خدا ہی کے کلام میں ہو سکتی ہے۔
اس اقتباس سے بات بالکل صاف ہو جاتی ہے۔لیکن جب ہم کلاسیکی عہد کے بعد یعنی جدید زمانے میں استاد کے معروف تصور پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کی صورت بہت بدلی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔اب استاد ہونے کے یہ معنی سمجھے اور سمجھائے گئے کہ جو شاعر فن شعر کے اصولوں سے واقف ہو اور زبان وغیرہ پوری صحت و درستی کے ساتھ استعمال کرے، وہ استاد کہلائے گا،اور یہ بھی کہ اس کے شاگردوں کا ایک حلقہ بھی ہو۔ یہاں تک تو بات پھر بھی ٹھیک تھی۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ تصور بھی وابستہ ہو گےا کہ چونکہ استاد شعرا زےادہ تر صحت زبان وبےان ہی پر قناعت کرتے ہیں،اس لےے ان کے یہاں اچھی شاعری یا اعلیٰ درجے کی شاعری کی تلاش بے سود ہے۔اس تصور کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اچھااورقابل ذکریا بڑا شاعر ہونے کے لےے استاد ہوناضروری نہیں۔ذرا آپ غور کریں کہ اگر کوئی شاعر اپنے کلام میں زبان وبےان کی صحت کا خیال نہیں رکھتا، اور فنی اصولوں کو درستی کے ساتھ برتنے پر قادر نہیں ہے تو اس کا اچھا اور بڑا شاعر ہونا تو دور رہا، اس کا شاعر ہونا ہی معرض سوال میں آ جائے گا۔ ظاہر ہے،استادی کے اس جدید تصور کے زیر اثر ہمارے بہت سے قابل ذکر اور بلند پایہ شعرا وہ حیثےت حاصل نہ کر سکے، جس کے وہ حقیقی طور پر مستحق تھے۔افسوس کہ ان میں داغ جیسا بے مثال اور بلند مرتبہ شاعر بھی شامل ہے۔چنانچہ داغ کی شاعرانہ حیثےت کے بارے میں جن باتوں کو بے انتہا شہرت حاصل ہے،ان کا ماحصل صرف یہی نکلتا ہے کہ داغ کی استادی میں تو کوئی شبہ نہیں، لیکن وہ شاعر معمولی درجے کے تھے۔
یہاں میرا مقصد داغ کے شاعرانہ مرتبے کو زیر بحث لانا نہیں،بلکہ ان کی شعری حکمت عملی کے کچھ پہلوو¿ں کی نشان دہی کرنا ہے،جس کا ذکر آگے آتا ہے۔لیکن چونکہ داغ کے شاعرانہ مرتبے کی تخفیف کا کام کچھ زےادہ ہی زور شور کے ساتھ کیا گےا ہے،اس لےے اس ضمن میں اتنا کہے بغیرمیںنہیں رہ سکتاکہ شاعرانہ مرتبے کے لحاظ سے داغ کی حیثےت اگر کمتر ہے تو یہ کمتری بڑے کلاسیکی شعرا کے مقابلے میں ہے۔بالکل اسی طرح جیسے ناسخ، مصحفی،ذوق اور مومن وغیرہ کی حیثےت میر اور غالب کے سامنے ہے۔لہٰذا جب داغ کو کمتر کہا جائے گا تو اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہوں گے کہ وہ ہما شما کے مقابلے میں کمتر ہیں۔
چونکہ شعری حکمت عملی کے بنےادی عناصر کا تعلق فن شعر کے اصولوں سے ہے، اس لےے داغ کی شعری حکمت عملی کو بھی اسی روشنی میں دیکھنا مناسب اور بامعنی ہوگا۔داغ نے اپنے شاگردوں کی ہداےت کے لےے جو ”پندنامہ“ لکھا ہے، اس میں فن شعر کے تقریباً تمام اصول بےان کر دےے ہیں۔ان میں زےادہ تر باتیں تو مطلق اصول کی حیثےت رکھتی ہیں،یعنی ان کی پابندی ہر شاعر کے لےے اور ہمیشہ ناگزیر ہے، لیکن کچھ باتیں ایسی بھی بےان ہوئی ہیںجنھیں مختلف فیہ کہا جاسکتا ہے۔یعنی داغ ان کی پابندی کو ضروری سمجھتے ہیں، لیکن دیگر شعرا کا عمل اس سے مختلف ہے یا ہو سکتا ہے۔یہاں ان کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں، البتہ چند کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔
اس پند نامے میں داغ نے سب سے پہلے جس چیز کا ذکر کیا ہے، وہ بندش کی چستی ہے۔ہماری شعری تہذیب میں بندش کی چستی سے یہ مراد لیا گےا ہے کہ شعر میں جتنے الفاظ لائے جائیں، ان کی نشست ایسی ہو کہ کوئی لفظ اپنی جگہ سے ہٹاےا نہ جا سکے۔اس کے علاوہ یہ بھی لازم ہے کہ شعر میں مستعمل ہر لفظ معنی و مضمون کے لحاظ سے کارگر ہو۔اگر ایسا نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لفظ بھرتی کا ہے۔ ظاہر ہے، اس سے بھی شعر کی بندش متاثر ہوتی ہے۔اس پہلو کو خواجہ حیدر علی آتش نے بڑی خوبی سے ایک شعر میں بےان کیا ہے
بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا
شعر میں ایک لفظ بھی اگر پوری طرح کام نہیں کرتا تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس لفظ کی جگہ شعر میں خالی رہ گئی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ شعر جو مثل نگینے کے ہے،اس میں ایک نگ نہیں ہے۔آپ خود غور کریں کہ ایسی صورت میں شعر کو فنی اعتبار سے مکمل کیونکر کہا جا سکتا ہے۔لہٰذا ثابت ہوا کہ شعر میں بندش الفاظ کی اہمےت بنےادی اور غیرمعمولی ہے۔مضمون خواہ کیسا بھی ہو، بندش کا چست ہونا کامےاب شعر کی اولین شرائط میںہے۔اب بطور مثال داغ کے چند اشعار بھی دیکھتے چلیں،تاکہ اس صفت کا اندازہ ہو سکے:
آج گھبرا کر وہ بولے جب سنے نالے مرے
جان کے پیچھے پڑے ہیں چاہنے والے مرے
۔۔۔
بیٹھیں گے نہ خاموش ہم اے چرخ ستمگار
تھک جائیں گے نالوں سے تو فرےاد کریں گے
۔۔۔
کچھ نہ ہو تیری محبت میں پر اتنا ہو جائے
کہ تری بدمزگی مجھ کو گوارا ہو جائے
۔۔۔
ان اشعار پر الگ الگ گفتگو طوالت کا سبب ہوگی،اس لےے صرف آخری شعر میں ایک لفظ کی طرف توجہ دلانے پر اکتفا کرتا ہوں۔لفظ ”گوارا“ کو عام طور پر قابل برداشت کے مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کے معنی میٹھے اور لذیذ کے ہیں۔اسی لےے ”آب گوارا“ کی ترکیب میٹھے اور لذیذ پانی کے لےے استعمال ہوتی ہے۔اب دوسرے مصرعے میں بدمزگی کے ساتھ ”گوارا“ کے استعمال کو دیکھےے اور داد دیجےے۔علاوہ ازیں لفظ ”گوارا“ میں داغ نے ایہام کا پہلو بھی رکھ دیا ہے۔
کلاسیکی شعری تہذیب میں ایہام کو ہمیشہ تحسین کی نظر سے دیکھا گےاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معنی آفرینی کے وسائل میں اسے ایک نہاےت کارگر وسیلے کی حیثےت بھی حاصل رہی۔لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جدید زمانے میں اسے نہاےت مکروہ اور مضرت رساں کہہ کر مطعون کیا گےا۔ایہام کے بارے میں داغ کیا رائے رکھتے ہیں،اسے انھیں کی زبان سے سن لیتے ہیں۔”پندنامہ“ کا یہ شعر ملاحظہ ہو
شعر میں آئے جو ایہام کسی موقع پر
کیفےت اس میں بھی ہے وہ بھی نہاےت اچھا
اس شعر کی روشنی میں ایہام کے تئیں داغ کا موقف اس کے سوا اور کیا ظاہر کرتا ہے کہ ایہام ان کی نظر میں مستحسن ہے ۔بہرحال یہ تو ان کی رائے تھی۔اب ان کا عمل بھی دیکھ لیا جائے۔ان کا مشہور مطلع ہے
غضب کیا ترے وعدے پر اعتبار کیا
تمام رات قےامت کا انتطار کیا
یہاں لفظ ”قےامت“ کا ایہام داد سے مستغنی ہے۔پھر مزید لطف یہ کہ ”قےامت کا انتظار“ کا پورا فقرہ ایہام کی کیفےت رکھتا ہے۔اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ یہ انتظار نہاےت تکلیف دہ ہے، دوسرے یہ معنی کہ معشوق خود قےامت ہے۔ لہٰذا اس کا انتظار گویا قےامت کے انتظار کی طرح تھا۔ایہام کی کارفرمائی کی ایک مثال اور دیکھےے
لگی ہے پنجہ¿ مژگاں میں خون دل سے حنا
ہماری آنکھ ملی سب سے سرخ رو ہو کر
یہ شعر مضمون آفرینی کی نہاےت عمدہ مثال تو ہے ہی، ساتھ ہی اس میں ایہام رکھ کر داغ نے معنی آفرینی کے بھی مزید ابعاد روشن کر دےے ہیں۔یہاں بیک وقت دو لفظوں کو ایہام کا حامل بناےا گےا ہے۔یہ الفاظ ”سرخ رو“ اور ”ملی“ ہیں۔”سرخ رو“ کے معنی کامےاب و کامران کے ہیں، لیکن لغوی معنی کے لحاظ سے سرخ رو وہ ہے، جس کے چہرے کا رنگ سرخ ہو۔اسی طرح ”آنکھ ملی“ کے ایک معنی ہیں ،”آنکھیں چار ہوئیں“ اور دوسرے معنی ہیں”آنکھ نے ملاقات کی“ جیسے ہم کہتے ہیں، ہم ان سے مودب ہو کر ملے۔آپ یہ بھی غور کریں کہ مژگاں کو آنکھ کا چہرہ کہنا کس قدر مناسب ، با معنی اور بدیع ہے۔پورا شعر نہاےت اعلیٰ درجے کی فنکاری کا نمونہ ہے۔
کلاسیکی شعرا کو پڑھنے کے کچھ مخصوص تقاضے ہیں۔اگر انھیں پیش نظر نہ رکھا جائے تو ان شعرا کو پڑھنا ہمیں درست نتائج تک نہیں پہنچا سکتا۔داغ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اس پہلو کی طرف شمس الرحمن فاروقی نے خاص طور سے توجہ دلائی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے:
ہمارے یہاں سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ ہم کلاسیکی شاعروں کو پڑھتے وقت یہ بات نظر انداز کر دےتے ہیں کہ کلاسیکی شاعر کے پہلے کسی نے کیا کہا،اور اس کلاسیکی شاعر کے بعد کسی نے کیا کہا؟اس کو دھےان میں رکھے بغیر آپ اس شاعر کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے،کیونکہ یہ سب لوگ Intertextual ہیں۔ایک کا سرا ایک سے جڑا ہوا ہے۔ہو سکتا ہے مثلاً منیر نےازی کے بارے میں میں کہوں کہ ان کو پڑھنے کے لےے ضروری ہے کہ آپ داغ کو پڑھیںیا امیر کو پڑھیں۔ہو سکتا ہے آپ کہیں کہ نہیں،ضروری نہیں ہے۔لیکن داغ کو ،جلال کویا امیر کو پڑھنے کے لےے یہ قطعی ضروری ہے کہ آپ فارسی اردو کے شعرا ،جو ان کے پہلے ہو چکے ہیںاور جن سے یہ متاثر ہوئے، جن کے ساتھ ساتھ اور جن کی روشنی میں انھوں نے اپنے کو شاعر سمجھا، ان کو دیکھیں کہ انھوں نے کیسے شعر کہے۔اور یہ دیکھیں کہ ان پیش روو¿ں اور معاصروں کی بنائی ہوئی دنیا میں داغ یا امیر یا جلال کہاں کھڑے ہیں۔
اس اقتباس میں جس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے،اس میں بیک وقت کئی باتیں شامل ہیں۔لیکن اس میں سب سے بنےادی بات فارسی اور اردو غزل کی پوری شاعری میں مضامین کی وحدت کا معاملہ ہے۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ کلاسیکی غزل کا کوئی شعر مضمون کے لحاظ سے اپنا بالکل جداگانہ وجود نہیں رکھتا، تو اس کے یہی معنی ہیں کہ وہ سارے مضامین کہیں نہ کہیں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔اس پہلو سے جب ہم داغ کے اشعار پر غور کرتے ہیں تو نہاےت دلچسپ صورتیں نظرآتی ہیں، اور اس سے داغ کی غیر معمولی تخلیقی کارکردگی کااندازہ ہوتا ہے۔چند مثالیں ملاحظہ کیجےے۔
والہ داغستانی کا شعر ہے
آہستہ خرام بلکہ مخرام
زیر قدمت ہزار جانست
اب دیکھےے اس مضمون کو میر کہاں لے جاتے ہیں
جانیں ہیں فرش رہ تری مت حال حال چل
اے رشک حور آدمیوں کی سی چال چل
آپ دیکھیں کہ اس مضمون پر مبنی ایسے زبردست دو شعروں کے سامنے داغ اپنا چراغ جلاتے ہیں، اور حق یہ ہے کہ داغ کا شعر بھی اپنی جگہ پوری آب وتاب کے ساتھ قائم ہے
بہت آنکھیں ہیں فرش راہ چلنا دیکھ کر ظالم
کف نازک میں کانٹا چبھ نہ جائے کوئی مژگاں کا
داغ کی قابل ذکر شاعرانہ حیثےت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ غالب جیسا عظیم شاعر ان کے کلام کو تحسین کی نظر سے دیکھتا ہے، اور یہی نہیں بلکہ فرمائش کرکے اپنی غزلوں پر غزلیں کہلاتا ہے۔چنانچہ داغ کی بہت سی غزلیں غالب کی زمین میں ہیں۔غالب کی مشہور غزل کا مطلع ہے

شوق ہر رنگ رقیب سروساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عرےاں نکلا
داغ نے اس زمین میں غزل کہی اور مطلعے میں مضمون بھی تقریباً یہی باندھا۔ملاحظہ ہو
نہ کبھی جیب خجالت سے یہاں سر نکلا
قیس دیوانہ تھا جامے سے جو باہر نکلا
غالب کے زبردست مصرع ثانی کے سامنے ”قیس دیوانہ تھا جامے سے جو باہر نکلا“ جیسا مصرع کہہ کر مطلع بنانا معمولی بات نہیں۔پھر یہ بھی دیکھےے کہ غالب نے تصویر کے پردے میں قیس کے عرےاں نکلنے کی بات کہی،جس میں قول محال کی صورت ہے۔داغ نے شاےد محسوس کر لیا تھا کہ اس سے آگے خیال کو لے جانا نہاےت مشکل ہے، اس لےے انھوں نے جامے سے باہر نکلنے کا محاورہ اس طرح استعمال کیا کہ اس میں ایہام کی کیفےت بھی پیدا ہوگئی۔مزید یہ کہ انھوں نے ”قیس دیوانہ تھا“ کا ایسا بامعنی اور برجستہ فقرہ رکھ دیا جس کی جتنی داد دی جائے کم ہے۔
ذوق کا مشہور زمانہ مطلع کس کو یاد نہ ہوگاجس کے بارے میں کہا گےا ہے کہ غالب بھی اس پر سر دھنتے تھے
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
حق تو یہ ہے کہ ایسے مضمون کو ہاتھ لگانا ہی بڑے دل گردے کی بات ہے۔لیکن داغ کی قدرت بےان دیکھےے کہ اسی مضمون کو کہا اور خوب کہا۔یہ الگ بات ہے کہ ذوق کے شعر کی سی کیفےت اور برجستگی تو داغ کے یہاں پیدا نہیں ہوئی، لیکن ان کا شعر پھر بھی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب کہا جا سکتا ہے۔ملاحظہ ہو

آرام کے لےے ہے تمھیں آرزوے مرگ
اے داغ اور جو چین نہ آیا فنا کے بعد
داغ کی شعری حکمت عملی کا ایک نہاےت اہم پہلو زور بےان ہے۔ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ بےان کا زور وہیں زےادہ کارفرما ہوتا ہے، جہاں کلام میں برجستگی کی صفت زےادہ ہوتی ہے۔اور برجستگی کے لےے عام طور سے کلام کی صفائی ضروری خیال کی جاتی ہے۔اس صفت کو کلاسیکی ادبی تہذیب میں صفائی بےان،صفائی کلام اور صفاے گفتگو وغیرہ الفاظ سے ظاہر کیا گےا ہے۔واضح رہے کہ اس سے زبان کی صفائی مراد نہیں ہے،بلکہ اس سے مضمون کو ایسے پیرائے میں ادا کرنا مراد ہے، جس میں کوئی الجھاو¿ کی کیفےت نہ پائی جائے۔اس طرح دیکھا جائے تو صفائی بےان، برجستگی اور زور بےان سب ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔اس صفت کی عملی صورت کے لےے داغ کے یہاں سے متعدد مثالیں لائی جا سکتی ہیں، لیکن یہاں ذوق اور داغ کے صرف ایک ایک شعر کی مثال پر اکتفا کرتا ہوں۔پہلے ذوق کو سنےے
حالت پہ مری کون تاسف نہیں کرتا
پر میرا جگر دیکھو کہ میں اف نہیں کرتا
اور داغ کا یہ مطلع دیکھےے
کبھی فلک کو پڑا دل جلوں سے کام نہیں
اگر نہ آگ لگا دوں تو داغ نام نہیں
صاف محسوس کیا جا سکتا ہے کہ دونوں شعر زور بےان کے لحاظ سے غیرمعمولی حیثےت کے حامل ہیں، اور جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا، بےان کی صفائی اور برجستگی کی کیفےت بھی دونوں شعر میں برابر کی ہے۔البتہ ان صفات کے علاوہ داغ کے یہاں شعر کی خوبی کے جو مزید پہلو ہیں،اس سے ذوق کا شعر خالی ہے۔مثلاً داغ کے یہاں دل جلوں اور آگ لگانے میں تو مناسبت تھی ہی، لفظ ”داغ“ نے اس مناسبت کو آسمان پر پہنچا دےا۔یہاں داغ کا لفظ محض اس لےے کارآمد نہیں ہے کہ یہ شاعر کا تخلص ہے، کیونکہ اگر تخلص سے وہ بات پیدا ہوتی تو داغ کی جگہ ذوق رکھ دینے سے بھی وہی کیفےت شعر میں قائم رہنی چاہےے۔یعنی اس مصرع یوں کرکے دیکھیں
اگر نہ آگ لگا دوں تو ذوق نام نہیں
معلوم ہوا کہ وہ کیفےت اب بڑی حد تک معدوم ہوگئی۔اس سے ظاہر ہوا کہ اس میں محض تخلص کا عمل دخل نہیں ہے، بلکہ کچھ اور معاملہ بھی ہے۔دراصل ”داغ“ کے کئی معنی ہیں، اور ان میں ایک مجازی معنی چراغ کے ہیں۔داغ ہی کا ایک مشہور مطلع ہے
آج راہی جہاں سے داغ ہوا
خانہ¿ عشق بے چراغ ہوا
اس طرح ثابت ہوا کہ ذوق کے مقابلے میں داغ کے شعر میں زور بےان کے علاوہ جو مزید کیفےت پیدا ہوئی ہے، اس کا بنےادی سبب یہ ہے کہ لفظ داغ تخلص ہونے کے ساتھ معنی کے لحاظ سے ”دل جلوں“ اور” آگ لگا دوں“ کے فقروں سے گہری مناسبت رکھتا ہے۔
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مضمون کے آخر میں داغ کے چند ایسے اشعار نقل کیے جائیںجو معروف نہیں ہیں،لیکن جن کو سن کر داغ کی شعری حکمت عملی کے مزید پہلوو¿ں کا احساس و ایقان ضرور ہوگا۔
کی ترک مے تو مائل پندار ہو گےا
میں توبہ کرکے اور گنہگار ہو گےا
۔۔۔
انکار وصل منھ سے نہ نکلا کسی طرح
اپنے دہن سے تنگ وہ غنچہ دہن ہوا

کیا کیا ملائے خاک میں انسان چاند سے
سچ پوچھےے اگر تو زمیں آسماں ہے اب
۔۔۔
وہی تو ہے شعلہ¿ تجلی کہ دشت ایمن سے تنگ ہوکر
جب اس نے اپنی نمود چاہی کھلا حسینوں پہ رنگ ہوکر
۔۔۔
ملے تھے لب ہی اس لب سے کہ مارا تیغ ابرو نے
یہ ناکامی کہ مجھ کو موت آئی آب حیواں پر
۔۔۔
مرتبہ دیکھنے والے کا ترے ایسا ہے
کہ بٹھاتے ہیں جسے اہل نظر آنکھوں پر
۔۔۔
بےکس رہیں گے حشر میں کب مجرمان عشق
رحمت کہے گی ہم ہیں گنہگار کی طرف
چاہی تھی داد ہم نے دل صاف کی مگر
آئینہ ہو گےا ترے رخسار کی طرف
۔۔۔
دیکھیں تو پہلے کون مٹے اس کی راہ میں
بیٹھے ہیں شرط باندھ کے ہر نقش پا سے ہم
ایسے شعروں کے ہوتے ہوئے داغ کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے سنجیدگی سے غور کرنا نہاےت ضروری ہے۔
۔۔۔۔

مشمولہ سہ ماہی ”اردو چینل“ جلد :19۔شمارہ :2 مدیر :ڈاکٹر قمر صدیق